لوریوں کا پیکٹ – فرزانہ ریاض

”تم امارے بابا کو ہم سے دور تو نہیں لے جاؤ گے، کچھ نہیں کہو گے؟ ناانہیں مجھ سے جدا تو نہیں کرو گے ناں۔ نہیں کرو گے؟ نہیں۔۔”
اس پر ہیجان کی سی کیفیت طاری تھی۔ میرے پیار کرنے پر اور پانی پلانے پر وہ کتنی دیر مجھ سے چمٹا رہا۔ ایک انجانا سا خوف اس کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔
”سنو! تم کہیں پلوشے تو نہیں ہو؟ مجھے لینے آئی ہو؟” اب وہ مجھے جھنجھوڑ ر ہا تھا۔
اور میں مارے حیرت صرف منظر بدلتے دیکھ رہی تھی، کہ یہ بچہ پل میں کچھ اور پل میں کچھ ہے۔اب میں اس جگہ موجود تھی جہاں اس نے اپنے گھر کا اشارہ کیا تھا اور اس کی بے بے سے مل رہی تھی۔
”بے بے دیکھو! ام نہ کہتا تھا کہ ایک دن پلوشے ضرور آئے گی۔ وہ بھی امارے بغیر نہیں رہ سکتی۔” وہ خوشی سے اچھل رہا تھا۔
”اوئے لالے! تم صبح سے کدھر تھا؟ تم کو آج بھوک بھی نہیں ہے؟ ناشتہ بھی نہیںکیا تھا تم نے۔ تم کچھ کھاؤ پیو۔ اتنے ام تمہاری پلوشے سے بات کرتا ہے۔ (اے تم اس کو جانے مت دینا)” لعل خاںنے پھر آواز لگائی۔”
”کیا میں آپ کو بے بے بلا سکتی ہوں؟”
”بلا لو بلا لو۔ یہاں سب ہمیں بے بے ہی بلا تا ہے۔” اس درمیانی عمر کی عورت نے جواب دیا۔
”آپ لعل خا ن کے بارے میں کیا جانتی ہیں؟”میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”اوئے تم کیا پوچھتا ہے اس بے چارے کے بارے میں؟ اس نے اتنا کچھ دیکھاہے کہ اس کا دماغی حالت خراب ہو گیا ہے۔ کسی کسی ٹائم یہ نارمل بات کرتا ہے ۔جب یہ پیدا ہوا تو اس کی ماں چل بسی۔ اس کی بہن اور باپ نے مل کر اس کی پرورش کی۔ گاؤں کی عورتیں بھی اس کی دیکھ بھال کر لیتی تھیں۔ کیوں کہ اس کا باپ کام پر جاتا تھا۔ اس کی بہن بھی زیادہ بڑی نہیں تھی، یہی دس سال کی ہو گی لیکن اس نے اپنے باپ اور بھائی کی بڑی خدمت کی۔ لا لے کو تو وہ اپنے سے بالکل الگ نہیںکرتی تھی۔ لوری گا گا کر تو وہ اسے سلاتی تھی اور لالا بھی اس کے ساتھ خوش رہتا تھا۔ گاؤں والوں نے بڑا زور لگایا کہ پلوشہ کا باپ دوسری شادی کر لے لیکن اس کو اپنی بیوی سے بڑا پیار تھا جی۔” ”دوسرا وہ کہتا تھا کہ میں اپنے بچوں پر سوتیلی ماں کا سا یہ نہیںپڑنے دوں گا۔ کیا پتا آنے والی ان کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟” اس نے بات جاری رکھی۔
”یہ میری جنتے (جنت) کی نشانی ہے۔ لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظورتھا۔ اس روز قیامت تھی قیامت۔ ہر چیز تہس نہس ہو گئی تھی۔ میں نے بھی اپنے پیاروں کو کھویا ہے جی۔ سوچوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔” وہ اندھی ہوئی آواز میں بات کررہی تھی۔
”کہنے کو تو وہ زلزلے کی آفت تھی، پر جس کا سب کچھ ختم ہو گیا ہو اس کے لیے تو قیامت تھی قیامت۔”
چار دن بعد ملبے سے لالے اور اس کی بہن کو نکالا تھا ۔یہ معصوم کس طرح اپنی بہن سے چمٹا ہوا تھا۔ بہت مشکل سے الگ کیا۔ بہن تو اللہ کو پیاری ہو گئی تھی پر اس کی زندگی تھی، یہ بچ گیا۔ اس کا باپ بھی شدید زخمی تھا۔ پھر وہ ہسپتال میں کتنا عرصہ پڑا رہا چل نہیں سکتا تھا پھر وہ بھی گذر گیا۔”





”لیکن یہ تو کہہ رہا تھا کہ اس کا بابا ادھر جھونپڑی میں رہتا ہے۔” میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ارے کدھر؟ جھونپڑی میں اس کا باپ کا فوٹو ہے بڑا والا۔ ادھر کوئی صاحب آیا تھا کہ ام (ہم) اس کا علاج کروائے گا۔ اس نے فوٹو بھی بنوائے تھے۔ کچھ سامان ادھر بستی میں سب کو دیا تھا۔ سب کے فوٹو بنے تھے مگر وہ ادھر دوبارہ نہیں آیا۔ لالا بے چارہ اپنے بابا کی فوٹو سے باتیں کر تا رہتا ہے یا سارا دن ادھر ہی پھرتا رہتا ہے۔ اس کی ماں ہمیں بہن بلاتی تھی۔ اس لیے بس ام (ہم) اس کو اپنے سے دور نہیں کر سکا۔ ویسے بھی خدا ترسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جی۔۔” وہ دکھ بھرے انداز میں بولتی جارہی تھی۔
”اگر اس کی ماں کو ام (ہم) نہیں بھی جانتا تب بھی یہ ہمیں ملتا تو ام (ہم) اس کو اپنے پاس رکھ لیتا۔ جو روکھی سوکھی، کھاتا ام (ہم) اس کو بھی کھلا دیتا۔ جہاں امارہ (ہمارا) پانچ بچہ کھاتا ہے یہ بھی کھا لیتا۔ لیکن یہ ہے کہ ام (ہم) اس کی بہن اور باپ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس کی بہن کی طرح اس کا خیال نہیں رکھ سکتا۔ اس کو لوری نہیں دے سکتا۔
اس کی آواز میں کچھ الگ ہی بات تھی۔ ایک سحر سا تھا جب وہ گاتی تھی تو خود بہ خود آدمی نیند کی وادی میں چلا جاتا تھا پھر یہ تو بچے تھے جی۔” بے بے کی آنکھوں سے آنسو ایک تواتر سے بہ رہے تھے۔ وہ خود تو گڑیا سی تھی اور چھوٹی بھی لیکن بستی والے اپنے بچے اس کے چھوڑ کر کام پر چلے جاتے تھے پرُ سکون ہوکر۔ لیکن افسوس ہوتا ہے اس کے بھائی کو سنبھالنے کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی۔”
”دکھ تو ہوتا ہے ۔۔۔۔مگر اس دکھ کا مداوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں ہے جو اسے لوری دے سکے۔”
ابھی بے بے کی بات جاری تھی کہ لالا آگیا” اوئے شکر ہے تم بیٹھا ہے۔ بے بے یہ پتا ہے کون ہے؟ ارے اپنی پلوشے ہے۔ اب یہ ام کو لوریاں بھی دے گی۔ اس بچے کی خوشی دیدکے قابل تھی اور میرا دل اچانک کٹ کہ رہ گیا۔ اس بچے نے مجھ سے اتنی سی دیر میں کتنی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ اگر پھر اس کی امید ٹوٹ گئی تو؟ یہ تو پہلے ہی دماغی طور پر صحیح نہیں۔۔۔ میں خود سے الجھ گئی۔ یہ کون سا تانا بانا تھا جو مجھ سے بن ہی نہیں پا رہا تھا۔
”عاشی عاشی۔۔” نمرہ نے پاس آکر مجھے جھنجھوڑ دیا۔
”میڈم آپ کو کچھ پتا ہے۔ کہ آپ صبح سے غائب ہیں؟ ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ وقت آگیا ہے۔ فون کی پاور آف ہے۔ کم از کم اسے تو آن کر لو۔ ایڈیٹر صاحب الگ پریشان ہو گئے ہیں کہ ان کی ذہین فطین رپوٹر، کالم نگار لکھاری ان کی دستِ راست کہاں غائب ہو گئی؟”
”نمرہ تم اپنی بولتی بند کرو تو میں بھی کچھ عرض کروں؟”



”بے بے یہ میرے ساتھ کام کرتی ہے۔ ہم پانچ لوگ یہاں رپورٹنگ کے لیے آئے ہیں اور نمرہ یہ بے بے ہیں بستی والے انہیں بے بے بلاتے ہیں۔” اور اس سے ملوا کر میں نے لعل خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ میرابھائی ہے نمرہ! آج خدا نے مجھے ایک بھائی بھی دے دیا۔”

وہ رشتہ ملا ہے جس سے پہلے میں محروم تھی۔
”یہاں آؤ لعل خان۔ میرے ساتھ شہر چلو گے یہاں سے بہت دور؟ اس نے صرف گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔ وہ ادھر تو پہاڑ امارے اوپر گرتا ہے بہت شور کی آواز آتی ہے۔ بہت ساری چوٹ بھی آتی ہے۔ اگر شہر میں ام کو ڈر لگے گا تو تم ام (ہم) کو چھپا لینا ٹھیک ہے؟”
میں نے کہا: ”ہاںٹھیک ہے!”
”لیکن۔۔ لیکن تم بتاؤ یہ جو تمہارے ساتھ ہے یہ توتمہیں پلوشے نہیں بلاتی۔ کیا تم پلوشے نہیں ہو۔”
”ارے تم میرے بھائی ہو نہ تم مجھے جو مرضی بلاؤ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرا نام عائشہ رحمن ہے اور یہ سب مجھے عاشی بلاتے ہیں۔ جیسے تمہیں کوئی خان کہتا ہے کوئی لالا کہتا ہے۔ چلو اب چلیں؟ کیوں کہ ہم لوگوں نے اور آگے جانا ہے، باقی لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔”
باہر نکلتے ہی نمرہ نے سر گوشی سے کہا: ”یہ سب کیا ہے عاشی اسے کہا لے کر پھرو گی؟ اور کیا انکل مان جائیں گے ڈئیر!” ”یہ سب میرے مسئلے ہیں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی ہم میں اتنا احساس باقی ہے کہ انسانیت کے ناطے کچھ کر سکیں۔ گویا مادی اشیاء اور ضروریات زندگی ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں رشتوں کا نعم البدل، ان کا لمس ان کا پیار ان کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔لیکن پورا کرنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ لعل خان انہی کوششوں میں سے ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ہم ان بستیوں میں گئے جہاں 8 اکتوبر 2005ء میں زلزلہ آیا۔ ابھی اس کی رپورٹنگ پوری نہیں ہوئی کہ زیارت میں آنے والے زلزے نے تباہیاں مچا دیں۔ اب تو میرے ملک کے حالات شدید خراب ہوتے جارہے تھے۔۔۔۔ نجانے کتنے معصوم ایسے ہوں گے جنہیں ابھی لوریوں کی ضرورت ہوگی۔ گاڑی زیارت کی طرف رواں دواں تھی مگر میں عائشہ رحمن لوریوں کے پیکٹ کے سوچ میں گم۔ کیا ہم یہ چیزیں ان کو دے سکیں گے؟ ابھی تو ایک لعل خان اس کے سامنے ہے۔ نجانے اس جیسے کتنے اس بستی میں اور زیارت اور کوئٹہ میں منتظر ہونگے۔ جنہیںکھانے پینے کی اشیاء اور لباس کے ساتھ ساتھ ان رشتوں کا پیار بھی چاہیے ہوگا۔ کیا ہم انہیں وہ پیار وہ لوریاں دے سکیں گے اسے لگا جیسے فضا بھی کچھ کہہ رہی ہے:
کوئی لوری سناؤ ۔۔۔۔!!!
ابد کے دیس سے آتی ہواؤں
تم اپنے نر مگیں ہاتھوں سے ان کو تھپتھپاؤ
کوئی لوری سناؤ۔۔۔۔۔!!!!
یہ بچے راتوں کو سوتے نہیں ہیں !!
کھلونوں سے بہت بہلایا ان کو
زمیں کا زخم بھی دکھلایا ان کو
سمجھ لو ہر طرح سمجھایا ان کو
مگر یہ سب سمجھتے نہیں ہیں
ذرا سا مسکراتے بھی نہیں ہیں
مسلسل بین کرتے ہیں
بہت بے چین کرتے ہیں
ابد کے دیس سے آتی ہواؤں
تم اپنے نر مگیں ہاتھوں سے ان کو تھپتھپاؤ
کوئی لوری سناؤ ۔۔۔۔۔!!!!
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پراڈکٹ – نظیر فاطمہ

Read Next

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!