لوریوں کا پیکٹ – فرزانہ ریاض

”سنو! مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو؟”
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں میں ملبوس اداس آنکھوں میںبہت سے سوال لیے مجھ سے ہی مخاطب تھا۔
اس علاقے میں مجھے آئے دوسرا دن تھا۔ میرا تعلق صحافت کے شعبے سے تھا اور مجھے زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد مجھے اس کی رپورٹنگ کرنی تھی۔
”تم نے مجھ سے کچھ کہا؟” میں نے اس سے پوچھا ۔
”سنو! کیا تمہارے پاس لوریوں کا پیکٹ ہے؟” وہ پھر مجھ سے مخاطب تھا۔۔۔
”جی ام (ہم) نے تم سے پو چھا ہے کہ تم ام کو لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو یا نہیں؟”
”وہ وہ۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے ایک دم رک گیا ۔۔
”کہو! کیا کہنا چاہتے ہو۔۔” اس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو مجھے اس کے قریب کر رہا تھا۔
”ام کو رات کو ڈر لگتا ہے۔۔ نیند بھی نہیں آتی۔۔۔۔” وہ بہت افسردگی سے بولا تھا۔
”ادھر بہت لوگ آتا ہے، بہت سامان بھی لاتا ہے کھانے کا بھی دوسرا بھی، لیکن ام کو کوئی لوریوں کا پیکٹ نہیں لا کر دیتا۔ ادھر تمہارے شہر میں بھی نہیں ملتا کیا؟”
میں ابھی تک اس بچے کوحیرت سے دیکھ رہی تھی اس بچے کی عمر اتنی چھوٹی ہے لیکن سوچ اور مشاہدے میں وہ بچہ بڑوں کو بھی مات دے رہا تھا۔
”سنو بہن جی! پریشان نہ ہو۔ ام کو پتا ہے تم بھی نہیں لا کر دے سکتی ۔ہاں اگر پلوشے ادھر ہوتا نہ خدا کی قسم ہمیں تو کوئی مشکل ہی نہیں تھی وہ ام کو خود ہی دے دیتا۔”
میں ابھی تک اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ یہ کس چیز کا نام ہے؟ ٹافیوں کا چاکلیٹ کا؟ یا یہ بچہ اصل میں اس لوری کی بات کر رہاہے جو ایک چھوٹے بچے کو سلانے کے لیے دی جاتی ہے، لیکن اس کا پیکٹ؟ وہ کہاں سے آئے گا؟





”اچھا ام چلتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے گرد جھلملاتے تارے اس کے دکھ کی عکاسی کر رہے تھے۔
”رکو !اس کے قدم وہیں رک گئے۔”
”تم کہاں رہتے ہو ؟”
اس نے سامنے ٹوٹے پھوٹے سے مکان کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
”ام ادھر رہتا ہے۔”
”اور کون کون ہوتا ہے تمہارے ساتھ؟”
”امارہ (ہمارا) ہوتا ہے اور کوئی بھی نہیں ہے۔ ساتھ والی بے بے امارے کو کھانا دیتا ہے۔”
”ام سارا دن پھرتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کا کام بھی کر دیتاہے ۔تم کو پتا ہے ام کس کو ڈھونڈتا ہے؟ پہلے ام پلوشے کو ڈھونڈتا تھا۔ پر سب کہتا ہے وہ بہت دور چلی گئی ہے۔ اوپر اللہ کے پاس ۔اور وہاںسے واپسی کا راستہ بھی نہیں پتا تو وہ کیسے آئے گی ام کو لے کر نہیں گئی۔ اس کو بھی اکیلے ڈر لگتا ہے۔ پتا نہیں میرے کو وہ یاد بھی کرتی ہے یا نہیں؟”
اس کی ٹوٹی پھوٹی اردو سمجھ میں آرہی تھی۔
”میرے پاس آؤ۔ تمہارا اپنا نام کیا ہے؟”
”امارہ (ہمارا) نام لعل خان ہے۔ کوئی ہمیں خانو کہتا ہے تو کوئی ہمیں لالے بلاتا ہے۔ پر اماری بہن ہمیشہ لعل خان بلاتی تھی۔” اپنی بہن کے ذکر پر اس کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی۔
”کیا پلوشے تمہاری بہن تھی؟” میں نے اس سے پوچھا اور اس نے صرف گردن ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
اس کی عمر بہ مشکل سات آٹھ سال ہو گی۔
”کیا میں تمہارے ساتھ اس جھونپڑی میں جا سکتی ہوں جو تمہارا گھر ہے؟”
”لیکن تم کیا کرے گا ادھر جاکے؟”
”ویسے ہی تمہارے بابا سے مل لوں گی۔” میںنے اسے کہا۔
”اچھا؟” اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”وہ۔۔” راستے میں اس نے بولنا شروع کیا۔
”بولو تم کچھ کہنا چاہتے ہو۔”
”وہ۔۔” وہ کچھ ہکلا سا گیا۔
پریشانی کے سائے اس کے چہرے سے عیاں تھے۔
”بتاؤ لعل خان کیا ہوا ہے تمہیں؟”




Loading

Read Previous

پراڈکٹ – نظیر فاطمہ

Read Next

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!