لبِ بام — باذلہ سردار

ایمان کے ایم بی بی ایس کے پانچ سال پورے ہو گئے تھے۔ وہ بہت خوش تھی کونوکیشن میں ابھی دیر تھی اِس لیے اُس کی کلاس فیلوز نے آج ہی اوتھ سیرمنی کا فیصلہ کیا تھا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ بلیک گاؤن کی جگہ سب نے سفید اوورآل پہنے ہوئے تھے اور کالج کے گراؤنڈ میں ہی کھڑی بیک وقت اپنا اپنا نام لے کے کہہ رہی تھیں اور ایمان بھی اُن کی تقلید میں وہ الفاظ دہرا رہی تھی۔
”میں ایمان علی حلف اُٹھاتی ہوں کہ انسانیت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دوں گی۔ میں اپنے پیشے کو انتہائی ذمے د اری اورخلوص نیت سے بروئے کار لاؤں گی۔ میں انسانی زندگی کی ہر طرح کے حالات میں حفاظت کروں گی۔ میں زندگی کو موت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ میں اللہ کی رحمت کا ذریعہ بنی رہوں گی۔ میں ہر انسان کو،دور یا نزدیک ،نیک یا گناہ گار، دوست یا دشمن سبھی کو طبی امداد مہیا کروں گی۔ میں یہ حلف بغیر کسی دباؤ کے اپنی پوری ایمان داری کے ساتھ اُٹھاتی ہوں ۔”
ایمان نے ہاتھ نیچے کیا، گہرا سانس لیا جیسے پانچ برس کا حق ادا کر دیا ہو۔ وہ بہت پرسکون لگ رہی تھی، کسی نے پیچھے سے اُسے آواز دی۔ ایمان پہچان گئی تھی کہ آواز دینے والا کون ہے۔ وہ مجتبیٰ تھا۔ ایمان اُسے دیکھ کے حیران رہ گئی۔ اُس کے سامنے پہلے والا بچہ نہیں ایک مرد کھڑا تھا جس کی پُروقار شخصیت آرمی یونیفارم میں اور بھی دلکش لگ رہی تھی۔ مجتبیٰ نے اپنی کیپ اُتاری اور سٹائل سے ایمان سے کہا ۔
”گڈ ایوننگ ڈاکٹر۔”
ایمان نے اپنے شفاف اور پرسکون چہرے پے مسکراہٹ سجائے مجتبیٰ کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہا۔
”گڈ ایوننگ کیپٹن۔”
”لیکن ابھی پوری شام نہیں ہوئی۔ ”دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑے۔
ایمان اُسے لے کے کالج کے کیفے ٹیریا میں چلی گئی۔ مجتبیٰ نے ایمان کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
”کوئی دل کی بات سننے والا ملا کہ پانچ سال دوسروں کے دل کی آواز سننے میں ہی گزار دیے ہیں۔ ”
ایمان نے جواب دینے کی بجائے اُسی سے سوال کر لیا۔
”تم تو بتاؤاُسے پرپوز کیا یا نہیں ابھی۔”
”اسی کے لیے تو آیا ہوں۔”
”ملے کیا؟”
”ملا تو بہت بار ہوں۔ ”
”کہاں ملے؟”
”خیالوں میں۔”





ایمان نے گھور کے مجتبیٰ کو دیکھا۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا” اچھا سوری۔ ”
”ایک شرط پر معافی ملے گی نام بتاؤ اُس کا۔”
مجتبیٰ نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”ہنٹ دیتا ہوں۔ آپ کی دوستوں میں محبت کی چاہ رکھنے والی ہے کوئی؟”
”اوہ مائی گاڈ نجویٰ۔”
مجتبیٰ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اگر اُس کی شادی ہوجاتی پھر۔”
”نہیں ہوتی مجھے یقین تھا کہ اُس کا من کہیں اور پھر ہی نہیں سکتا۔”
”ملنا چاہو گے؟”
”نیکی اور پوچھ پوچھ۔”
دونوں کھلکھلا کے ہنسنے لگے لیکن مجتبیٰ کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اور چہرے پے شرارت جیسے اُس کا ارادہ کچھ اور ہواور اُسے تکمیل دینے کی پلاننگ اُس کے ذہن میں ہو۔ مجتبیٰ وہاں بیٹھا کچھ سوچ کے اُٹھا تھا اور اُس کا ارادہ اس وقت بھی اُتنا ہی پختہ تھا جتنا پانچ سال پہلے تھا۔
اگلے دن ایمان نے نجویٰ کو اسپتال ملنے کے لیے بلایا اور وہ ہمیشہ کی طرح بہت اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔ رائل بلیو کلر فراک کے ساتھ میچنگ شیفون کا دُوپٹا سر پے اوڑھا۔ میچنگ چوڑیاں اور رِنگ بھی پہنی تھی، لیکن چین ،ریسٹ واچ اور بالیاں پرانی تھیں۔ آج اُس نے جب ترتیب سے رکھے ہوئے عطر دیکھے، تو ہیوک اُٹھا کے لگا لیا۔ اُسے ایمان کی بات یاد آئی ۔
”ہیوک کا تو مطلب ہی تباہی ہے۔”تباہی تو مچی ہوئی تھی، لیکن نجویٰ کے اندر جسے اپنی خاموشی اور ہنسی سے بہت خوب صورت انداز میں اُس نے چھپا لیا تھا۔ اُس نے کورٹ شوز پہنے اور گاڑی ڈرائیو کرکے ایمان کے کالج اُسے ملنے پہنچ گئی۔ وہ ایمان سے کافی دیر باتیں کرتی رہی اور جب علیحدہ ہوئی تو ایمان نے دیکھا نجویٰ کی آنکھیں اور ناک سُرخ ہو رہے تھے۔ ایمان اُس کے رونے سے پریشان ہوگئی۔ نجویٰ نے سنبھلتے ہوئے بتایا کہ اُس کے والدین اُس کی شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی اُن کے کسی فرینڈ کے بیٹے سے جس سے وہ آج تک نہیں ملی۔ ایمان نجویٰ کی بات سن کے دُکھی ہوئی تھی۔ وہ اُسے بہلانے میں لگی تھی کہ ایک آواز نے اُنہیں اپنی طرف مخاطب کر لیا تھا۔
”گڈ ایوننگ بیوٹیفل۔”نجویٰ نے سر اُٹھا کہ دیکھا ایک ہینڈسم نوجوان سیولین لباس میں اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ نجویٰ اُسے ایک لمحے میں پہچان گئی اور اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی مجتبیٰ نے اُسے سفید پھول پیش کرتے ہوئے کہا۔
”فار یو۔”
نجویٰ نے جھجکتے ہوئے پھول لے لیے، لیکن ساتھ ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ ملاقات شکایتی اور جذباتی جملوں سے عاری تھی۔ دونوں عرصے بعد مل رہے تھے، لیکن آس پاس والے انہیں دیکھ کہ یہ گمان کر سکتے تھے کہ شاید روز ملتے ہوں۔
سالوں سے شناسا ہوں، شناسائی تو پرانی تھی، لیکن کسی کے لئے سماعتوں کی اور کسی کے لیے سماعتوں اور چہرے کی بھی۔
مجتبیٰ نے اُسے چپ کرانے کے بجائے ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے پوچھا۔
”یہ خوشی کہ آنسو ہیں یا…”اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
نجویٰ نے دبی دبی آواز سے کہا۔
”میری شادی ہو رہی ہے۔”
مجتبیٰ نے حیران ہونے کے بجائے خوش دلی سے پوچھا۔
”کس سے؟”
نجویٰ کو اس کی بات پے بہت غصہ آیا۔ وہ پھول پھینکنے ہی والی تھی کہ مجتبیٰ نے جھکتے ہوئے اُسے کہا۔
”مجھ سے شادی کرو گی۔” نجویٰ کا سر اثبات میں ہل گیا تھا، لیکن اُس نے مجتبیٰ سے کہا کہ اُس کے پاپا کے دوست کے بیٹے نے آج اُسے ملنے آنا ہے۔ مجتبیٰ ابھی بھی پُرسکون تھا اور مسلسل مسکرا رہا تھا۔ ایمان جو کافی دیر سے خاموش تھی وہ بھی اب مسکرا رہی تھی اور نجویٰ کو دونوں پے بے حد غصہ آرہا تھا۔ مجتبیٰ نے اُس سے پوچھا کہ کہیں وہ دیکھنے آنے والا کیپٹن تو نہیں؟ نجویٰ اُس کی بات پے حیران ہو گئی اور سوال طلب نظروں سے اُس کی طرف دیکھا مجتبیٰ نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
”مادام آپ کا انتظار ختم ہوا۔ آج آپ سے ملنے والا کیپٹن میں ہی ہوں۔”
نجویٰ کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اُس کی تمام دعائیں قبول ہو گئی تھیں۔ اسے لگا کہ اللہ نے جس مقصد کے لیے اُسے پیدا کیا وہ آج پورا ہو گیا تھا۔ محبت کی چاہ کرنے والی کو اُس کی محبت مل گئی تھی اور جس کا انتخاب اُس کے ماں باپ نے کیا تھا۔ وہ توبہت پہلے اللہ نے اُس کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ اُس کی محبت میں پاکیزگی تو تھی ہی، لیکن اُس نے عقیدت بھی بہت کی تھی اور جب کبھی کمزور پڑنے لگی، تو خود کو سنبھال لیا تھا۔ پھر اللہ کیسے اُسے اکیلا چھوڑ دیتا۔ وہ آزمائی گئی تھی اور آزمائش پے پوری اُتری تھی۔ تبھی بے اختیار اُس کے منہ سے الفاظ ادا ہوئے تھے:
”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کوجھٹلاؤ گے۔”

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Read Next

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!