نجویٰ یونیورسٹی جاتی رہی ایک دن کسی نے اسے بتایا کہ ماسڑز کی کلاس کا ٹرپ ہے ون ڈے ود آرمی۔ نجویٰ کو اتنی اکسائٹمنٹ نہیں تھی کیوں کہ وہ جس باپ کی بیٹی تھی آرمی کے عہدیداروں میں سے تھے اور پھر نجویٰ اکثر ہونے والی تقاریب میں بچپن سے جاتی رہی تھی۔ دوستوں کے اسرار پے نجویٰ راضی ہوگئی۔ صبح وہ وقت پے یونیورسٹی پہنچ گئی اور تھوڑی دیر بعد ہی پاک فوج کی دو جیپیں ڈیپارٹمنٹ میں آکر کھڑی ہو گئی تھیں اور تمام طلباوطالبات یونیورسٹی بس میں بیٹھ گئے تھے۔ نجویٰ کھڑکی کی جانب بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔ کسی نے اسے کہا کہ میوزیم آگیا ہے۔ باقی لڑکیوں کے ساتھ وہ بھی بس سے اتر کے آرمی میوزیم کی جانب چل پڑی۔ شہدا کو سلامی پیش کرنے کے بعد میوزیم میںبیس منٹ سب منظر دیکھنے کے بعدایک کیپٹن نے کہا کہ فائر شو کا ٹائم ہو گیا ہے۔ تمام اسٹوڈنٹ اپنی بس میں جا کے بیٹھ جائیں اور پھر بس سنسان راستوں پے رواںہو گئی تھی اور نجویٰ نے چپ کا روزہ نہیں توڑا تھا جیسے ہی بس آرمی بیس کیمپ پے جا کے رکی۔ ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا جس نے نجویٰ کے وجود میں ٹھنڈک بھر دی تھی۔ جیسے ہی وہ اور باقی اسٹوڈنٹ گراؤنڈ میں آکے بیٹھے ایک خوبرو نوجوان سٹیج پے آیا جس کی خاکی وردی پے لکھا تھا لیفٹیننٹ مجتبیٰ۔ اس نے اسپیچ کرنی شروع کی۔ لہجہ مد ھم اور پر اثر تھا الفاظ سادہ تھے لیکن اس کے لبوں سے نکلنے والا ایک ایک لفظ خاص لگ رہا تھا۔ نجویٰ محبوت سی سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہی تھی۔ ایک پل کے لیے اُسے لگا کہ یہ وہی مجتبیٰ ہے جس کے سحر سے وہ ابھی تک باہر نہیں آسکی، لیکن پھر کسی خیال کے آتے ہی اس نے اپنے ذہن میں آئے ہوئے خیال کو جھٹک دیا اور سب کے ساتھ فائر نگ شو دیکھنے چلی گئی۔ اُس کا بھی دل چاہا کے بندوق پکڑ کے فائر کرے۔ مجتبیٰ وہیں کھڑا تھا نجویٰ کو احساس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ جب اس نے نظریں اُٹھا کے دیکھا، تو مجتبیٰ اُسی سے مخاطب تھا ۔
”آپ اگر فائر کرنا چاہتی ہیں، تو گن کو ایک ہاتھ سے پکڑ کے اپنے کندھے پے رکھیں اور دوسرا ہاتھ ٹریگر پے رکھیں اور فائر کریں۔ نجویٰ محبوت کھڑی اُسے بولتے دیکھ رہی تھی اور جو نظریں نجویٰ کو دیکھ رہی تھیں اُن میں ایک شوخی تھی۔ وہ سچ میں نجویٰ کا مجتبیٰ ہی تو تھا جس نے زیرِلب کچھ کہا تھا جسے نجویٰ سن نہیں سکی تھی۔ سنتی بھی کیسے وہ تو جیسے تین سال پیچھے چلی گئی تھی اور کوئی آواز یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے اگر کچھ یاد تھا، تو بس مجتبیٰ کا لہجہ جو ساتھ کھڑے شخص سے مماثلت رکھتا تھا، لیکن وہ جھجک کے مارے کچھ پوچھ بھی نہیں رہی تھی۔ اسی شش و پنج میں نجویٰ نے فائر کیا اور ایک قدم پیچھے ہوئی تھی اور خوف سے پل بھر کے لیے اُس کی آنکھیں بند ہوئی تھیں۔ اُس پل مجتبیٰ نے غور سے نجویٰ کو دیکھا اور اسے تین سال پہلے والی نجویٰ یاد آگئی تھی۔ تبھی مجتبیٰ نے منہ میں پھر سے کچھ بُڑبُڑایا تھا۔
ایک لمحے میں سمٹ آیا صدیوں کا سفر
زندگی بہت تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
نجویٰ نے آنکھیں کھول دی تھیں اور بالکل نارمل لگ رہی تھی اور خوش بھی تھی کہ آج اس نے پہلی بار فائر کیا تھا۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں اور دونوں مسکراہٹوں کے تبادلے کے سوا ایک لفظ تک ادا نا کرسکے۔ پھر نجویٰ وہاں رُکی نہیں اور دوستوںکے ساتھ مگن ہو گئی۔ بظاہر وہ وہیں تھی لیکن اُس کا دل کسی بات کی گواہی دے رہا تھا اس کی دھڑکنوں پے جو ساز بج رہا تھا وہ مجتبیٰ کی موجودگی کی دھن بجا رہا تھا۔ آج نجویٰ سمجھی تھی کے بے بسی صحیح معنوں میں کہتے کسے ہیں؟
کتنے ہی دن نجویٰ اُسی پل کو یاد کرتی رہی۔ اُس کے لیے وہ پل اتنا انمول تھا کہ وہ کچھ اور سوچ کے اس کی یاد سے غفلت نہیں برتنا چاہتی تھی، لیکن معمول کے مطابق زندگی تو گزارنی ہی تھی۔ سو وہ بھی پھر سے یونیورسٹی جانا شروع ہو گئی تھی۔ مجتبیٰ مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ اُسے اس بات کا غم نہیں تھا کہ وہ نجویٰ سے کچھ کہہ نہیں پایا۔ وہ تو محبوب کے دیدار کی خوشی منا رہا تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہہ بہت مضبوط بنتے ہو اور ایک لڑکی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور دماغ بار بار مجتبیٰ کو اسے خود سے کیا وعدہ یاد دلا رہا تھا کہ جب تک کیپٹن نہیں بن جاتے اُس دلربا کو کچھ نہیں بتاؤ گے۔ جب اتنے سال رابطہ کیے بغیر رہ لیے تو پھر کچھ سال اور سہی۔ دل اور دماغ کی اس جنگ میں جیت دماغ کی ہوئی تھی کیوں کہ دماغ دلیل دیتا ہے اور دل تو بالکل بچہ ہوتا ہے۔ ناسمجھ،کسی کی نہیں سنتا بس جذبات کی رو میں بہ جاتا ہے، لیکن مجتبیٰ تو ہمیشہ سے ہی سوچ سمجھ کے سب کرتا تھا پھر اب کی بار کیسے ممکن تھا کہ وہ نجویٰ سے رابطہ کرتا۔
نجویٰ کے فائنل پیپرزتھے اور وہ دن رات محنت سے پڑھ رہی تھی۔ پڑھتے ہوئے اُس کی نظر ایک شعر پے ٹک گئی۔ اس نے بار بار اُس سطر کو پڑھا۔
کھلتا کسی پے کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مُجھے
نجویٰ اداس ہوگئی۔ اسے آج پھر مجتبیٰ یاد آیا تھا اور اس کا سنایا ہوا شعر بھی۔
اگر وہ پوچھ لیں ہم سے تمہیں کس بات کا غم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے اگر وہ پوچھ لیں ہم سے
نجویٰ کے چہرے پے مسکراہٹ آئی۔ غم اور خوشی کی ملی جلی کیفیت تھی جسے نجویٰ کوئی نام نا دے سکی۔ اس کے بعد وہ پڑھ نہ سکی لیکن پیپر اُس کا اچھا ہو گیا تھا اور رزلٹ بھی بہت اچھا آیا تھا۔ اس کی کامیابی پر میجر مدثر اور ناجیہ بیگم بھی بہت خوش ہوئے تھے لیکن لاشعوری طور پے ناجیہ بیگم نے نجویٰ سے کہا تھا۔
”مجھے خوشی ہے کہ تم نے جو چاہا کر لیا، لیکن مجھے زیادہ خوشی ہوتی جب تم لیب کوٹ پہنے اسٹیتھوسکوپ لگائے میرے پاس آکے کہتی ماما میں ڈاکٹر بن گئی ہوں۔” یہ بات کہہ کہ ناجیہ بیگم نے نجویٰ کے تاثرات دیکھے اور چپ ہو گئیں۔ میجر مدثر نے نجویٰ کو تحفہ دیا وہ ایک اسمارٹ فون تھا۔ نجویٰ کے چہرے پے مسکراہٹ آئی لیکن اتنے سال بغیر فون کے رہتے ہوئے اُسے عادت ہو گئی تھی۔ وہ کافی دیر تک ماں باپ سے باتیں کرتی رہی تھی ۔
٭…٭…٭
نجویٰ نے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز ایک سرکاری ادارے میں بطور موٹیویشنل اسپیکر کیا تھا۔ اُسے ایک سال ہوگیا تھا۔ وہ اسٹیج پے کھڑی لیکچر دینے کے لیے تیار تھی۔ لڑکیوں کا ایک ہجوم تھا جو ہال میں موجود تھا۔ نجویٰ کو ایمان یاد آئی اور کوئی بھی تھا جو اس پل اُسے بہت یاد آیا۔ ہر موقع پر اِن دونوں کو یاد کرنا، تو جیسے نجویٰ کے لیے لازم و ملزوم تھا۔ وہ اس کی یادوں کا محور تھے۔ پھر سامنے بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو دیکھتے ہوئے نجویٰ حال میں واپس آگئی تھی اور اُس نے بولنا شروع کیا تھا۔
” ہم سمجھتے ہیں کہ کسی ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے دن رات محنت کی ہو اور ہم پھر بھی اُسے حاصل نہ کر سکیں، تو ہماری زندگی کا مقصد ختم ہو جائے گا یا وقت رُک جائے گا، کبھی نہ چھٹنے والا اندھیرا چھا جائے گا، لیکن… ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ نہ تو کوئی غم دائمی ہوتا ہے نہ ہی خوشی۔ جیسے ہر اندھیرے کا بعد اُجالا، زوال کے بعد عروج ہوتا ہے۔ ویسے ہی ہماری زندگیوں میں اُمید کی کرن، ٹمٹماتی ہوئی روشنی ضرور ہوتی ہے جسے ہم اپنے ایمان سے چاہیں، تو اُجالوں میں بدل سکتے ہیں اور وہ ایمان ہمارا اپنے ربّ پر کامل یقین ہے۔ اُس کی ذات سے مضبوط بندھن ہے جو ہمیں بے بس نہیں ہونے دیتا، گمراہی سے نجات دلاتا ہے۔”
نجویٰ نے مسکراہٹ سے ہال میں بیٹھی لڑکیوںکی طرف دیکھا،ہال تالیوں سے گونج اُٹھاتھا۔
٭…٭…٭