لبِ بام — باذلہ سردار

ایمان نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا:
”ہاں! کر سکتے ہیں کوئی مضائقہ تو نہیں ہمارے پیارے نبیۖ نے بھی تو کی تھی، لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ ابھی تمہاری عمر نہیں یہ سب باتیں کرنے کی ایک طرف تم کہتے ہو تُم چُنے ہوئے ہو آرمی جوائن کرنا چاہتے ہو دوسری طرف یہ بات پوچھ رہے ہو؟”
”اوہو میں کون سا ابھی کرنے لگا ہوں شادی۔ ویسے ہی پوچھ رہا ہوں اور اگر میں خود کو چنا ہوا کہتا ہوں، تو وہ بھی اس لیے کہتا ہوں کیوں کے ایک تو مجھے آرمی میں جانے کا شوق ہے اور دوسرا میرے نام کا مطلب ہی Selected ہے اور میرے پاپا کہتے ہیں کہ ملک کی حفاظت کرنے والے خاص چُنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے اور پھر شہید اور غازی بھی کوئی کوئی ہی تو کہلاتا ہے۔” یہ سب مجتبیٰ بہت سکون سے کہتا گیا اور ایمان اُسے سنتی رہی پھر مُسکرانے لگی اور رازسے مجتبیٰ سے پُوچھا۔
”ہے کون وہ؟جسے سوچتے سوچتے تُم کھو جاتے ہو اور ایسی باتیں کرنے لگتے ہو؟”
مجتبیٰ نے مُسکراتے ہوئے کہا ”وقت آنے پے بتاؤں گا۔”
ایمان اُس کی بات پے مسکرائی اور اُٹھ کے نجویٰ کے پاس کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭





سیکنڈائیر کے فائنل امتحان تھے۔ نجویٰ اور ایمان دن رات محنت کرتی تھیں۔ صبح آخری پرچہ تھا۔ نجویٰ اپنے سٹڈی ٹیبل پے بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ اُس کے موبائل پے میسج ٹون بجنے لگی۔ یہ رنگ ٹون نجویٰ نے خاص مجتبیٰ کے میسجز کے لیے سیٹ کی تھی مجتبیٰ کا میسج آیا:
”best wishes for your paper”
نجویٰ پیغام پڑھ کے مُسکرائی اُسے مجتبیٰ کے چھوٹے چھوٹے پیغامات بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ ہمیشہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں ساری بات کہہ دیتا تھا۔نجویٰ کے دل میں مجتبیٰ کو دیکھنے کی حسرت تھی، لیکن اُس کے پاس اسمارٹ فون نہیں تھا۔ میجر صاحب نے اُسے پُرانا موبائل سیٹ لے کے دیا تھا۔ وہ بھی اِس لیے کے کالج میں کبھی وقت آگے پیچھے ہو تو وہ نجویٰ سے رابطہ کر سکیں۔ نجویٰ نے بہت ضد کی تھی کہ اُسے اسمارٹ فون لے کے دیا جائے لیکن میجر صاحب اور ناجیہ نے صاف انکار کر دیا تھااور پیار سے نجویٰ کو کنوینس کر لیا اور پھر وہ مان بھی گئی تھی، لیکن اب پھر سے اُس نے مجتبیٰ کا میسج پڑھ کے سوچا تھا کہ کاش اُس کے پاس اسمارٹ فون ہوتا۔ پھر کسی خیال کے تحت نجویٰ نے مجتبیٰ کو میسج کیااورسیڈ سمائیلی بھیجی۔
”میں کیمسٹری پڑھ کے بور ہو گئی ہوں اتنا ڈرائی سبجیکٹ ہے مجھے ایک شعر ہی بھیج دو۔”
اگر وہ پوچھ لیں ہم سے تمہیں کس بات کا غم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے اگر وہ پوچھ لیں ہم سے
مجتبیٰ نے ناٹی سمائیلی شعر کے ساتھ ٹائپ کر کے بھیجی۔
نجویٰ شعر پڑھ کے کھلکھلا کے ہنسی ا ور میسج ٹائپ کیا۔
”کس بات کا غم ہے؟”
مجتبیٰ نے میسج ٹائپ کیا۔” پیپرز کی باتیں کرنا، مطلب غموں کی بات کرنا۔ تم تیاری کرو تمہارا پیپر ہو جائے گا میرا غم بھی ختم ہو جائے گا۔ ”ساتھ ناٹی سمائیلی بھی بنائی۔
”اوکے اللہ حافظ۔” نجویٰ نے تیاری کی غرض سے اُسی وقت میسج ٹائپ کیا اور پھر سے پڑھنے لگ گئی۔
نجویٰ اور ایمان کا آخری پیپر تھا اور دونوں ہی پیپر کے بعد مطمئن تھیں۔ اُن کے چہروں سے خوشی جھلک رہی تھی ۔ دونوںاپنے مستقبل کی باتیں کر رہی تھیں کہ آنے والے وقت میں اُنہیں کیا کرنا ہے۔ ایمان نے کہا۔
”میںتو ڈاکٹر بنوں گی مجھے یقین ہے کہ میرا ایڈمیشن ضرور ہو جائے گا کیوں کہ اللہ اپنے بندوں سے کہتا ہے مجھ سے جیسا گمان رکھو گے میں ویسا ہی دوں گا۔”
”ہاں یہ تو ٹھیک کہا تم نے ایمان جیسا گمان رکھو ویسا ہی ملتا ہے۔ پھر چاہے دولت ہو،عزت ہو یا محبت۔” یہ کہہ کہ نجویٰ دل ہی دل میں مسکرائی تھی۔ محبت کتنا انمول احساس ہے۔ ایمان نے اُسے نوٹ کیا تھا اور شوخی سے کہا۔
”اب تو بتا دو کون ہے وہ؟ ہے بھی کہ نہیں اگر ہے، تو کچھ بتاؤ بھی اُس کے بارے میں جس کے تصور سے ہی تُم کِھل اُٹھتی ہو۔”
”دراصل بات یہ ہے کہ میں نے کبھی اُس سے یہ سب پوچھا ہی نہیں ہماری لمبی لمبی باتیں ہی نہیں ہوئیں کبھی۔” نجویٰ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ایمان نے نجویٰ کوگھورا تھا اور وہ ڈھٹائی سے مُسکرا دی تھی۔
”نام تو بتا دو اُس کا۔”
”نہیں ابھی نہیں بتاؤں گی بس اتنا سمجھو کے بہت خاص ہے وہ۔ اللہ نے خاص میرے لیے چُنا ہے اُسے۔”
”زہر لگتی ہو جب ایسی پہیلیاں بُجھواتی ہو۔”
نجویٰ ایمان کی بات پے ہنسنے لگ گئی۔ دونوںنے دیر تک باتیں کیں، لیکن نجویٰ نے ایمان کو نام نہیں بتایا۔
٭…٭…٭
ایمان حسب معمول بچوں کو پڑ ھا رہی تھی مجتبیٰ ایمان سے مخاطب ہوا۔
”میم اگر کسی کی بہت چاہت ہو، دل اُس کی آرزو کر رہا ہو، تو کیا وہ مِل جاتا ہے ؟”
ایمان اُس کی بات حیرانی سے سنتی رہی اور پھر ہمیشہ کی طرح سوچ کے جواب دیا۔
”ہاں کیوں نہیں بشرطیکہ وہ کو ئی آپ کے حق میں نقصان دہ نہ ہو، لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنامجتبیٰ کبھی بھی اللہ سے کسی انسان کو مت مانگنا، مانگنا ہی ہے، تو یہ مانگو کہ جو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ وہی تمہارے نصیب میں ہو۔”
مجتبیٰ نے ایمان کی بات پے سر ہلا دیا اور دل میں سوچا کہ وہ میرے نصیب میں ہی ہے۔ تبھی تو میرا دل اُس کی طرف مائل ہے۔
٭…٭…٭
ایف ایس سی کا رزلٹ آگیااور ایمان ممتاز نمبروں سے پاس ہو گئی لیکن نجویٰ کے نمبرکم آئے تھے۔ میجر مدثر اور ناجیہ نجویٰ سے بہت ناراض ہوئے۔
”نجویٰ یہ فون مجھے دے دو۔ میری غلطی ہے جو میں نے تمہیں یہ فون دیا۔ اسی وجہ سے تم پڑھ نہیں سکی۔” میجر صاحب نے غصے کا اظہار کیا۔ نجویٰ بے آواز آنسو بہاتی رہی۔ پھر چپ چاپ اپنا فون میجر صاحب کے حوالے کر دیا اور سوچاکہ اب اُسے کیا کرنا چاہیے۔ نجویٰ اُداس ہوگئی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ اُسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ وضو کر کے دو نفل نماز ادا کرنے لگی اور عاجزی سے دعا کی۔
”میرے پاک پروردگار! دلوں کا حال جاننے والے ،بیماروں کو شفا دینے والے، کمزور اور بے بس لوگوں کا سہارا بننے والے، تو میری حالت سے بخوبی واقف ہے۔ میں بے بس ہوں، میرا ذہن ماؤف ہو چُکا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میری راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کر دے۔ میرے دل کو اپنے نور سے منور کر دے۔ مجھے میرے جینے کا مقصد بتا دے تا کہ میرا اُٹھنے والا ایک ایک قدم اور گزرتا ہوا ایک ایک پل میرے جینے کے مقصد کو پورا کر دے، آمین ثم آمین۔”
نجویٰ جب دعا سے فارغ ہوئی تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا، لیکن وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔




Loading

Read Previous

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Read Next

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!