لبِ بام — باذلہ سردار

میجر صاحب نے گاڑی اسٹارٹ کی اور کالج کی طرف جانے والی سڑک پے لے گئے۔ راستے میں روزمرہ کی باتیں کرتے رہے اور چند منٹ کی مسافت پے کالج کے گیٹ کے سامنے گاڑی روک دی۔ چوکیدار نے اُنہیں دیکھ کے سلیوٹ کیا اُن کی پرسنالٹی بہت اُمپریسیو تھی پھر وہ آرمی سے بھی منسلک تھے۔ اس لیے سب اُن کی بہت عزت کرتے تھے۔ نجویٰ نے باپ کو اللہ حافظ کہا اور گاڑی سے اُتر کے کالج میں چلی گئی۔
روز کی طرح نجویٰ کی سب سے اُس کا پیاری سہیلی ایمان کالج کے گراؤنڈ میں اُس کا انتظار کررہی تھی۔ ایمان دھیمے میزاج کی سادہ سی لڑکی تھی۔ اُس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ ایمان پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پے تھی۔ اُس سے بڑی ایک بہن تھی، ایک بہن اور دو بھائی چھوٹے تھے۔ایمان کی خواہش تھی کہ وہ محنت سے پڑھ کے ڈاکٹر بن جائے۔اُس کے خاندان میں لڑکیاں اتنی پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ اس لیے وہ چاہتی تھی کہ ڈاکٹر بن کے انسانیت کی خدمت کرے اور اپنے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کر سکے۔اُس میں اور نجویٰ میں جو بات قدرے مُشترک تھی وہ ادبی ذوق تھا اور یہ ہی دونوں کی دوستی کی وجہ تھی۔
نجویٰ نے ایمان کو دُور سے دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ پہلے ایمان نے مصنوعی خفگی ظاہر کی پھر اُٹھ کے نجویٰ کے گلے لگ گئی۔ دونوں سہیلیاں ایسے ہی ملتی تھیں چاہے روز ملیں یا پھر دنوں بعد۔
”آگئیں آپ پریستان کی باسی۔” ایمان نے شوخی سے نجویٰ کو مخاطب کیا۔
نجویٰ نے بھی شوخی بھرے لہجے میں کہا۔
”جی محترمہ آپ کے سامنے ہی ہوں دراصل میں تیار ہونے میں اتنی مگن ہوتی ہوں کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلتا۔”
ایمان نے مصنوعی خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہا”جی جی آپ کالج تھوڑی آتی ہیں نا فیشن شو سمجھا ہوا ہے۔”
نجویٰ نے مسکراتے ہوئے کہا”بھئی مجھے تو یہ پھیکی سی زندگی اچھی نہیں لگتی۔ زندگی میں رنگ ہوں، خوشبو ہو تو ہی جینے کا مزہ آتا ہے۔”
ایمان نے مُسکراتے ہوئے نجویٰ کو کلاس میں جانے کے لیے کہا۔ دونوں کلامِ اقبال پڑھتی ہوئی کلاس میں چلی گئیں۔
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خِرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
دونوں ناولز ،افسانے پڑھنے کے ساتھ اقبال کی شاعری بھی بہت شوق سے پڑھتی تھیں اور یہ کلام اکثر پڑھتی رہتی تھیں۔





بریک ٹائم میں دونوں گراؤنڈ میں جا کے بیٹھ گئیں۔ نجویٰ بار بار اپنی کلائی پے لگی خوشبو سونگھنے لگی اور ایمان سے بھی کہا کہ اُس کی کلائی پے لگی خوشبو سونگھے ایمان نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
”ارے یہ خوشبو تمہیں تمہارے خیالوں کے کردار نے تو نہیں بھیجی کہیں۔”
نجویٰ نے چہرے پے مُسکان لاتے ہوئے ایمان کو جواب دیا۔
”پہلی بات تو یہ کہ تم اِس بات پے یقین کرو کہ وہ خیالوں میں نہیں حقیقت میں ہے اور دوسری بات یہ کہ جو خوشبو میں نے لگائی ہے اِس کا نام Havocہے میر ی فیورٹ ہے۔”
”اِس کا تو مطلب ہی تباہی ہے۔ اُس دن میم خوشبوؤں پے بات کر رہی تھیں۔ اُنہوں نے بتایا تھا۔”ایمان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
نجویٰ نے گھور کے ایمان کو دیکھا، تو وہ ہنسی روکتے ہوئے کہنے لگی۔
”اچھا غصہ مت کرو بہن مجھے اُس کی کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے مجھے یقین آجائے کہ وہ سچ میں ہے۔ اُس کا کوئی وجود ہے جس کی اچانک تم پچھلے تین مہینوں سے باتیں کر رہی ہو۔ حیرت ہے ویسے نام بھی نہیں بتاتی ہو، کوئی تصویر تک تو ہے نہیں تمہارے پاس اور سب سے بڑھ کہ تمہیں یہ تک نہیں پتا کہ وہ تمہیں چاہتا بھی ہے کہ نہیں۔ ایک رانگ نمبر کی شاعری سے ہی اتنی متاثر ہو گئی ہو تم وہ بھی جو اُس کی اپنی نہیں ہوتی۔ غالب اور فیض کے اشعار ہی سناتی ہو مجھے تم۔”
”نجویٰ نے کہا شکر ہے تم مانی تو کہ اُس کا کوئی وجود ہے اور محترمہ بات شاعری کی نہیں لہجے کی ہے۔ الفاظ کی نسبت لہجے تاثیر رکھتے ہیں۔ اُس کا لہجہ اتنا متاثر کن ہے کہ تمہارے جیسی بوڑھی رُوح بھی داد دیے بغیر نہ رہے۔”
ایمان اس کی بات سن کے مسکرائی۔ گھنٹی کی آواز پے دونوں اُٹھ کے بریک ختم ہونے کے بعد لیکچر لینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہُوئیں۔
٭…٭…٭
ایمان کے پاس کچھ بچے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ وہ بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی کہ تھوڑی دیر بعد سفید ٹی شرٹ، بلیو جینز پہنے سولہ برس کا خوبرو لڑکا آیا۔ اُس نے ایمان کو سلا م کیا اُس کے چہرے پے شرارت تھی یا شوخی ایمان یہ کبھی نہیں جان پائی۔ وہ ہمیشہ اِسی انداز میںجب بھی دیر سے ٹیوشن پڑھنے آتا ، ایمان کو سلام کرتا اور مسکراتا رہتا۔ شر مندگی کہیں دُور تک بھی اُس کے چہرے سے عیاں نہیں ہوتی تھی۔ایمان نے جواب میں سر ہلا دیا اور طنز سے کہا۔
”آگئے مجتبیٰ ! چُنے ہوئے محترم۔”
مجتبیٰ نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”جی آگیا چنا ہوا ہوں نا اِسی لیے ذرا سپیشل انٹری ہوتی ہے میری۔”
ایمان نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
”مجتبیٰ یہ فلمی ہیروز والے Dialogues ذرا کم بولا کرو اور پڑھائی پے توجہ دو۔”
”اوکے میم۔ ”مجتبیٰ نے فرمانبرداری سے سر ہلاتے ہوئے کہا، تو ایمان کی ساری ناراضی ختم ہو گئی اور وہ مسکرا دی۔
”آج مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔”مجتبیٰ نے سر کھجاتے ہوئے ایمان سے کہا۔ اُس کے انداز سے صاف لگ رہا تھا کہ کسی کشمکش میں مبتلا ہے اور ایمان ہی اُسے کوئی حل بتا سکتی ہے۔ ایمان اُسکا جواب دینے ہی والی تھی کہ ڈور بیل بجنے لگی۔ ایمان نے دروازہ کھولا سامنے نجویٰ تھی۔ اُس نے اندر آکے سب کو سلام کیا۔ ایک شوخ آوازمجتبیٰ کے کانوں نے سُنی وہ اِس آواز کو بھیڑ میں بھی پہچان سکتا تھا۔ اُس کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ وہی ہے وہی پیاری لڑکی ہے جس کی آواز کانوں میں شیرنی گھولتی ہے۔ کوئی عام بات بھی کرے تو ایسے لگتا ہے گویا لوریاں سُنا رہی ہو اور ایک سکون بھرا لمحہ جس کی چاہ میں انسان اپنا خاکی وجود خاک میں ملانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے کوئی شہزادہ محسوس کرنے کے لیے اپنا تخت وتاج چھوڑ کے جنگلات میں سالوں گزارنے پے آمادہ ہو جاتا ہے ۔مجتبیٰ مُسکراتے ہوئے نجویٰ کو اندر آتے دیکھتا رہا۔ وہ نجویٰ ہی تھی جو کبھی کبھی ایمان کے گھر آیا کرتی تھی آج وہ خاص ایمان کے ساتھ پڑھنے کے لیے آئی تھی اور خوب تیار ہو کے آئی تھی۔ سر پے سلیقے سے دُوپٹا لیے، کلائیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں پہنے لائٹ بلیوکلر میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ مجتبیٰ ابھی تک اُس کی آواز کے سحر میں کھویا ہوا تھا۔ ایمان نجویٰ کو لے کے اپنے کمرے میں چلی گئی اور اُسے وہاں بٹھا کے باہرمجتبیٰ کے پاس آکے بولی:
”ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے مجتبیٰ۔”
مجتبیٰ نے سوچتے ہوئے پوچھا۔” میم کیا خود سے بڑی لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں ؟”




Loading

Read Previous

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Read Next

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!