لاپتا — سندس جبین

جب سے ہادیہ سات سال کی ہوئی وہ اُس کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہو گئی تھی۔ ہر وقت دھیان رکھتی کہ وہ کہاں آجا رہی ہے۔ وہ کوئی چیز یا سودا سلف وغیرہ لینے قریبی دُکان پر بھی چلی جاتی تو صبیحہ کی تو جان حلق میں اٹک جاتی وہ دروازے کے ساتھ لگی رہتی جب تک کہ وہ واپس نہ آتی۔ ساس نے ٹوکا: ’’اتنا پریشان مت ہوا کرو اور بھی تو بچے باہر نکلتے ہیں۔ ابھی سے اپنا یہ حال کر لوگی تو آگے کیا ہو گا؟بچی ہے کل کلاں کو سکول کالج بھی تو جائے گی۔‘‘ وہ ساس کی بات سُن کر دل میں کہتی۔
اماں! آپ تو پرانے زمانے میں رہ رہی ہیں۔ آپ کو کیا پتا آج کل کیسے کیسے غلیظ اور روح فرسا واقعات پیش آتے ہیں۔ ایسے ایسے بے رو ح اور بے ضمیر انسان جو بھیڑیئے کی مانند گھات لگا کر بیٹھے ہوں اُن کا کیا پتا؟ کسی کی شکل پہ تھوڑی لکھا ہوتا ہے کہ وہ کس مزاج اور فطرت کا ہے۔‘‘ وہ بُڑ بُڑاتی ہوئی اندر چلی آتی۔
دور کیسا جا رہا ہے؟ آئے دن ٹی وی پہ نیوز الرٹ کے نام پر چلنے والی خبریں اُس کا خون خشک کیے دیتیں۔ محلے میں بھی وہ ہادیہ کو صرف اُنہی دکان داروں کے پاس بھیجتی تھی، جن کے بارے میں اُسے مکمل اعتماد تھا اور دوسرے وہ کافی پرانی جان پہچان والے تھے۔ برسوں کا ساتھ ہونے کی بنا پر ہی ارشد بھی اُسے یقین دلاتے تھے۔
’’صبیحہ! گلی میں جو دُکانیں ہیں وہاں بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ سب تقریباً ہمارے خاندان کی ہیں۔ سالوں سے یہاں ہیں، بال بچے دار ہیں۔ بھروسہ رکھو اللہ پہ اور دوسری بات میں خود بھی کوشش کروں گا کہ تمہیں ہفتہ وار سودا سلف لا دیا کروں تاکہ تمہیں کسی اور کو دکان پر نہ بھیجنا پڑے۔‘‘ ارشد کے کہنے پہ اُس نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔
ہادیہ اُس کی اکلوتی بیٹی تھی جو اُس نے بڑی دعائوں، منتوں مرادوں کے بعد پائی تھی۔ شاید اسی بنا پر وہ اس کے بارے میں اس قدرے حساس تھی۔ بہرحال اب اُسے سودے کا تو سکون مل گیا مگر ہادیہ ایک بچی تھی اُسے بھی دوسرے بچوں کی طرح ماں سے دس بیس روپے لے کر بسکٹس اور چپس کھانے کی عادت تھی۔ اس کے ایک دوبار کے پھیرے پہ صبیحہ کو بھی اعتراض نہ تھا۔





وہ شاپر بھر کے سلانٹی، ٹافیاں، چپس اور چیونگم لے آتی اور بچوں کے ساتھ کھیلتی ہوئی کھاتی رہتی۔ یوں صبیحہ کے دن پُرسکون کٹنے لگے مگر زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پُرسکون ندی میں ’’نئے دکان دار‘‘ کا کنکر آگرا۔
اُن کے گھر سے تین گھر چھوڑ کر قاضی صاحب رہتے تھے اُن کے دونوں بیٹوں کے بیرونِ ملک چلے جانے کے بعد جب اُن کے ہاں ڈالرز کی بارش شروع ہوئی تو اُن کو ایک چھوٹے سے محلے میں موجود اپنا گھر گھٹن زدہمحسوس ہونے لگا۔ انہوں نے بہتر سمجھا کہ کسی نئی شروع ہونے والی ہائوسنگ سکیم میں شفٹ ہوا جائے۔ یوں اُن کے جانے کے بعد اُن کا مکان ایک میاں بیوی نے خرید لیا تھا۔ اُس آدمی نے بیٹھک میں چھوٹی سی پرچون کی دکان کھول لی۔
اور یوں ہادیہ اب گلی کے کونے پہ جانے کی بہ جائے اُسی کریانے والے سے چیز لے آتی۔ اُس کے پاس بڑی مضبوط وجہ تھی۔ اُسے دور نہیں جانا پڑتا تھا۔ صبیحہ کو پتا چلا تو اوّل اوّل تو وہ فکر مند ہوئی مگر بعد میں اُس نے ارشد کو بتایا جنہوں نے حسبِ عادت اُسے تسلی دی کہ یہ قریب کی تو دُکان ہے اور وہ شریف آدمی ہے، ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے، نماز پنج گانہ کا عادی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ بھروسے کے آدمی کے توسط سے یہاں شفٹ ہوئے ہیں اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ غلط لوگ ہوں۔ اُن کی جانب سے ان دلاسوں کو سننے کے بعد وہ جواباً خاموش رہ گئی مگر درِ پردہ دل ہی دل میں اُس نے سوچا کہ ارشد کو کیا پتا؟ وہ تو سیدھے سادھے انسان تھے۔ جو اپنے اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ ٹی وی پر ایسی نیوز کتنی عام تھیں جن میں ایسے بہ ظاہر مظلوم نظر آنے والے اشخاص نہایت گھنائونے جرائم میں ملوث پائے گئے تھے۔
اس بات کے لیے اُس نے یہ ترکیب نکالی کہ ہادیہ کو نزدیکی دُکان پر بھی تنہا نہ بھیجتی بلکہ ہمیشہ محلے کی کسی بچی کے ساتھ بھیجتی جس کی وجہ سے وہ کافی مطمئن بھی رہتی تھی۔
اور یہ کافی دن بعد کی بات تھی جب ہادیہ دادی سے پیسے لے کر باہر نکل گئی، کپڑے دھوتے ہوئے صبیحہ کو ایک دم سے گھر میں غیر معمولی خاموشی کا احساس ہوا۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ہلکی دھوپ میں اماں اونگھتی نظر آئیں، اُس نے ہاتھ روک کر ہادیہ کو آواز دی مگر جواب میں صرف خاموشی تھی۔ دو تین بار آواز دینے کے بعد اُس نے ہاتھ دھوئے اور تیزی سے صحن کی طرف آئی جو کہ خالی تھا۔ اُسے کچھ پریشانی سی ہوئی۔
گھبرا کر واپس پلٹی اور تار پر لٹکا دوپٹہ اوڑھا اور گلی کے دروازے تک آگئی۔ ایک پٹ کھول کر جھانکا تو گلی خالی دیکھ کر اُس کا دل دَھک سے رہ گیا۔
’’اماں! ہادیہ کدھر ہے؟‘‘ اُس نے دروازے سے پلٹ کر تخت پوش پر لیٹی اماں کو جھنجھوڑا۔ وہ ہڑ بڑا کر جاگ اٹھیں۔
’’کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟‘‘ اُن کی آواز میں تشویش تھی۔
صبیحہ نے حواس باختگی کی حالت میں انہیں ہادیہ کی گم شدگی کا بتایا تو وہ بھی پریشان ہو گئیں۔
’’تم نے ساتھ والوں کے گھر دیکھا؟ انہوں نے فوراً پوچھا کیوں کہ ہادیہ عام طور پر اُنہی کے گھر کھیلنے کے لیے جایا کرتی تھی۔ صبیحہ نے انکار میں سر ہلایا تو وہ اُٹھ کر چپل پہننے لگیں پھر جیسے ہی وہ دروازے کے پار پہنچ کر باہر نکلیں۔ صبیحہ بھی دروازے سے لگ کر انہیں دیکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد اماں وہاں سے نکلیں تو چہرہ اُترا ہوا اور مزید پریشان تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ناکام لوٹیں ۔ اُس کی بیٹی وہاں نہیں تھی۔
صبیحہ کا رنگ اُڑ گیا۔
’’تم پریشان مت ہو بہو! میں باقی گھروں میں بھی دیکھتی ہوں۔ کہیں نہیںجاتی وہ اِدھر ہی کہیں ہو گی۔ ‘‘ وہ اُسے تسلی دیتی آگے بڑھ کر دوسرے ہمسائے کا دروازہ بجانے لگیں۔
اور پھر ایک کے بعد ایک گھر دیکھنے کے باوجود جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو صبیحہ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ وہ دیوانہ وار فون کی طرف لپکی اور ارشد کو فون ملایا۔ رو رو کر اُنہیں ساری بات بتاتے ہوئے وہ نڈھال ہو رہی تھی۔ ارشد کے بھی ہاتھ پیر پھول گئے۔ اُس نے آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ بے چاری ساس بہو پریشان بیٹھی تھیں، جس لمحے ارشد نے دروازے سے اندر قدم رکھا، تب تک صبیحہ تقریباً بے ہوش ہونے والی تھی۔
’’ارشد!‘‘ وہ روتے ہوئے اُس کی جانب لپکی… ’’میری بچی‘‘۔ وہ سسکیاں بھرنے لگی۔
’’صبیحہ! مت پریشان ہو۔ میں دیکھتا ہوں۔‘‘ اُس نے اپنی پریشانی اور اضطراب چھپا کر کہا اور باہر نکل گیا۔
ارشد پریشان سا گلی میں کھڑا تھا۔ کہاں جائے؟ کہاں سے شروع کرے؟ پوری گلی تو اماں دیکھ چکی تھیں… اب کدھر دیکھے؟؟؟
وہ اُلجھن میں چند قدم آگے آیا جب اُس نے دیکھا کہ قاضی صاحب والے مکان میں بنی دُکان کا شٹر آدھا گرا ہوا تھا۔ اُسے کچھ عجیب سا لگا۔ ابھی ظہر کا وقت نہیں تھا پھر شٹر گرانے کا مقصد ؟؟ وہ ایک نامعلوم تجسّس سے بندھا اس کی جانب بڑھا اور اُن کے دروازے پر دستک دی۔ کوئی جواب نہ تھا… دوسری دستک ذرا تیز تھی۔
اور پھر یک لخت اُسے ہلچل سی محسوس ہوئی۔ اندر سے دو افراد کی تیزتیز آوازیں آنے لگیں۔ ارشد کی بے چینی بڑھ گئی۔ اُس نے اس بار بُری طرح سے دروازہ دھڑ دھڑایا ۔ چند لمحوں بعد دروازہ کھلا اور ایک باریش آدمی باہر نکلا… جو بہت حواس باختہ نظر آتا تھا اور ارشد کو دیکھتے ہی ایک لمحے اُس کا رنگ فق ہوا ۔ اب تو ارشد کو یقین ہو گیا کہ لازماً کوئی گڑبڑ تھی۔
’’میری بیٹی… ہادیہ… اِدھر تو نہیں آئی؟‘‘ اُس نے اتنی بلند آواز میں پوچھا کہ اگر ہادیہ اندر ہو بھی تو اُس کی آواز سن لے اور شائد یہ اُس کی خوش قسمتی تھی کہ واقعتا ہادیہ نے اُس کی آواز سن لی تھی۔ وہ کہیں اندر سے بولی : ’’ابو! میں اِدھر ہوں۔‘‘ ہادیہ کی معصوم آواز نے اُس کے اندر بجلی سی بھر دی وہ بے ساختہ اندر بڑھا اور اُس آدمی کو دھکا دے گھر میں گھس گیا۔
مگر ایک لمحے اُسے رُک جانا پڑا… منظر ہی ایسا تھا۔
سامنے بچھی چار پائی پر ایک بجھی آنکھوں والی عورت ہادیہ کے ننھے ننھے ہاتھوں میں چوڑیا ں پہنا رہی تھی اور اُس کے گرد کھانے پینے والی چیزوں کا انبار لگا تھا۔
ارشد کا ذہن جھنجھنا کر رہ گیا۔
اُسے جیسے اس سارے منظر کی سمجھ ہی نہ آئی تھی۔
وہ باریش آدمی اُس کے قریب آیا اور التجائیہ انداز میں اُس کا بازو تھام کر گویا ہوا تھا۔
’’بھائی صاحب! میری بات سُنیے، غلط مت سمجھیے گا۔ جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے میں آپ کو سب سچ بتاتا ہوں‘‘ اور ارشد نے اُس کے چہرے کو دیکھا تو وہاں انتہا ئی بے چارگی اور لجاجت تھی۔
اور جو بات ارشد کو پتا چلی وہ کچھ اس طرح تھی۔
’’فرحان اور سکینہ کی شادی کے تین سال بعد اُن کے ہاں اقراء پیدا ہوئی تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اپنی پہلی اولاد کو انہوں نے بہت نازوں سے پالا… جب وہ چار سال کی ہوئی تو اسے سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کے بعد اُن کے ہاں مزید اولاد نہ ہوئی تو اُن کی نگاہ کا مرکز صرف اور صرف اقراء ہی بن کر رہ گئی۔
مگر پھر ایک دن ساتھ والی گلی میں موجود اسکول سے اقراء واپس گھر نہ لوٹی ۔
ہر جگہ اعلانات کروائے، ٹی وی پر اشتہار ات دیئے گیے، اعلانات کروائے، پولیس میں رپورٹ کی مگر اُسے لاپتا ہوئے آج تین سال ہونے کو آئے تھے۔
فرحان کی بیوی سکینہ کو ہر بچی اپنی اقراء لگتی وہ اُسے پیار کرنے کو لپکتی… ایسے میں ہادیہ دُکان پہ کوئی چیز لینے آئی تو اُس سے رہا نہ گیا… وہ اُسے اندر لے آئی… جب کہ فرحان اُسے سمجھا رہا تھا کہ بچی کو جانے دو اُس کی ماں پریشان ہو رہی ہو گی، اسی اثناء میں ارشد خود وہاں آگیا۔
ارشد مائوف ذہن کے ساتھ یہ کہانی سنتا رہا اور مظلوم فرحان اپنے آنسو چھپا رہا تھا۔
چار پائی پر موجود فرحان کی بیوی سکینہ ہادیہ کی دونوں کلائیوں میں چوڑیاں پہنا چکی تھی۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

کرم جلی — فرح بھٹّو

Read Next

موبائل یاریاں — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!