لال فیتا — امینہ عنبرین

تیسرے دن میں ابھی پبلک ریلیشنز کا پیریڈ اٹینڈ کر کے نکلی ہی تھی کہ اسے کلاس روم کے باہر اپنی مخصوص مسکراہٹ سمیت منتظر پایا۔ سُرخ ٹی شرٹ اور جھاگ جیسی سفید پینٹ پہنے وہ ایک معصوم کھلنڈرا سا لڑکا نظر آ رہا تھا اور مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایسی چمک کوندی جیسے اپنی چھت پر تنہا کھیلتے بچے کو، پڑوس کی چھت پر دوسرا بچہ نظر آ جائے۔ میرا بھی دل چاہا کہ بھاگ کر کسی ننھی بچی کی طرح اس کا بازو تھام لوں اور پھر ہم سیڑھیاں پھلانگتے نیچے اتریں اور بھاگتے بھاگتے نہر کے کنارے کنارے دور نکل جائیں اور پھر زورزور سے قہقہے لگاتے ہنستے چلے جائیں۔ سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ وہ بولا: ’’دیکھو میں کیا لایا۔‘‘ اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے دو پہلوان نما گڈے تھے۔ جو ربر سے اس طرح بندھے تھے جیسے کشتی کے داؤ پیچ آزما رہے ہوں۔ ربر کو لپیٹ کر چھوڑتے تو وہ حرکت میں آجاتے۔ جب تک ربر کے بل کھلتے وہ لڑتے رہے۔ ہم دونوں خوب ہنسے۔ میں نے پوچھا: ’’یہ کیا سوجھی؟‘‘ تو بولا: ’’ راستے میں سائیکل پر کھلونے بیچنے والا مل گیا کہنے لگا کہ بابو جی کوئی کھلونا لے لو صبح سے کچھ نہیں بکا، روٹی کھانی ہے، تو میں نے یہ لے لیے۔‘‘
کچھ دیر میں ہم دونوں کینٹین پر پہنچ گئے۔ اوپن ایئرکینٹین میں بیرے کو چائے کا آرڈر دے کر ہم ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے پڑی ٹیبل پر آ بیٹھے اور گڈوں سے کھیلنے لگے۔ شاہد بولا: ’’یہ گڈا میرا اور وہ تمھارا۔ جس کا پہلوان زیادہ مرتبہ ہارے گا آج کا بل وہی دے گا‘‘ اور ہم بلاوجہ ہنسنے لگے۔ چائے پی اور اس دوران کھیل میں اس قدر مگن ہو گئے کہ گویا سچ مچ کوئی میچ ہو رہا ہو۔ زورزور کی چیخ و پکار اور ہنسی نے بیش تر لوگوں کو بھی ہماری طرف متوجہ کردیا لیکن ہمیں کوئی پروا نہیں تھی۔ تاہم یہ کھیل میں ہار گئی اور پھر اس نے دونوں گڈے مجھے دے دیے اور ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ باربار چائے، ٹھنڈا پیتے رہے، ایک دوسرے کو میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھتے رہے۔ چھدرے سے درخت کی چھاؤں گرم ہو گئی۔ ہم بیٹھے رہے پھر درخت کا سایہ سمٹ کر ہماری ٹیبل تک محدود ہو گیا ہم پھر بھی بیٹھے رہے۔ بہ ظاہر ہم دنیا جہان کی باتیں کر رہے تھے۔ شعروادب سے لے کر حالاتِ حاضرہ تک، کیٹس اور شیلے کی شاعری، صوفیہ لارین کی ناک اور فردوس کے معاشقوں تک لیکن حقیقت میں ہم دونوں کہیں اور تھے۔ نہ جانے کیوں میرا دل چاہا کہ وہ ہنستا ہی رہے اور اس کے خوب صورت چمکیلے شاداب ہونٹوں سے اس کے چمک دار سفید دانت یونہی جھانکتے رہیں اس کے گال اور کانوں کی دہکتی ہوئی سرخ لویں کتنی اچھی لگ رہی تھیں۔ اس کے خوب صورت گول شانے اور مضبوط بازو کتنے شان دار نظر آ رہے تھے۔ باتیں کرنے کا انداز کتنا بھلا تھا۔ وہ اب انگریزی سے اُردو اور اُردو سے پنجابی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کتنا اعتماد تھا اس کے لہجے میں۔۔۔۔۔ دوسری طرف اس کی نگاہیں بھی چغلی کھا رہی تھیں کہ پڑھنے کے بہانے باربار عینک صاف کرتے ہوئے اس کی نگاہیں میرے بدن کے نشیب وفراز میں کیوں بھٹک بھٹک جاتی ہیں۔ میری نظروں کے ساتھ ساتھ اس کی نظریں اٹھتی ہیں۔




میرے ہاتھوں کے تعاقب میں اس کا ہاتھ بار بار اضطراری کیفیت میں کیوں حرکت کرتا ہے اور جب کبھی وہ کوئی شریر سا فقرا اچھال دیتا ہے اورمیں گھبرا کر اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتی ہوں تو اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ کیوں پھیل جاتی ہے۔ میں نے کئی بار اٹھنے کا سوچا لیکن شیشوں کے پار سے جھانکتی شریر آنکھیں جیسے پیروں میں زنجیریں سی ڈال دیتیں۔
’’یوآرسوسویٹ اینڈ انوسنٹ مائی گولڈن فیری‘‘ اس نے کمنٹ دیتے ہوئے کہا: ’’تمہارے چہرے پر بکھرتے شہابی رنگ اور گھبراہٹ سے پھیلتی یہ خوب صورت آنکھیں دیکھ کر مجھے بڑا لطف آ رہا ہے۔ دراصل میڈیکل کی بے جھجک لڑکیوں میں رہ رہ کر زندگی کا رومانس غارت ہو گیا ہے۔ جو جی میں آئے کہہ ڈالو کوئی فرق ہی نہیں اور یوں بھی ہم تو ان سے بور ہو گئے ہیں۔ اگر برا نہ مانو تو کہہ دوں کہ تمھاری آنکھیں اور یہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت گداز ہاتھ مجھے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں تو کیوں باقی میں بے کار ہوں؟‘‘ میں نے بگڑ کر کہا۔
’’ارے بھئی نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا۔‘‘وہ بولا: ’’دراصل تم اتنی خوب صورت نہیں جتنی پرکشش ہو۔ کوئی بھی مرد تمہیں دیکھ کر متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ کشش بعض اوقات حسین سے حسین تر لڑکیوں میں بھی نہیں ہوتی۔ تمہیں دیکھ کر تمھارے قریب آنے اور چھو کر دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے اور یہی مرد کے لیے سب سے بڑا حسن ہے۔‘‘ میں یہ سُن کر خوش ضرور ہوئی لیکن خاموش رہی۔
اِدھراُدھر دیکھا۔ ہم نجانے کتنی دیر اوپن ایئرکیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے کہ کچھ یاد نہ رہا۔ کیمپس کی رونقیں دھیرے دھیرے گھٹ رہی تھی اور گرمی کی تپش اپنا آپ دکھا رہی تھی۔ ہمارے چہرے تانبے کی طرح دہک اٹھے مگر ہم بیٹھے رہے۔ سائے پھیل گئے ہم بیٹھے رہے، دھوپ کی کرنیں تمازت کھونے لگیں ہم بیٹھے رہے، کینٹین کے لان میں لگی ایک ایک ٹیبل خالی ہو گئی ہم بیٹھے رہے۔ بیرے آرام سے بیٹھ کر سگریٹ سلگانے لگے تو ہم بادلِ نا خواستہ اُٹھے۔ میں بس پر بیٹھی اور گھر آ گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کا طویل ٹھنڈا غسل لیا اور پھر رات کو حسین خواب بُنتے بُنتے سو گئی۔ کئی بار دیکھا کہ شاہد کا گڈا میچ ہار رہا ہے اور میں جیت رہی ہوں۔ مسلسل اور مسلسل جیت رہی ہوں لیکن اچانک کھیل کے عین درمیان ربر ٹوٹ گیا اور دونوں گڈے زور سے دوردور فاصلے پر جا گرے۔ گھبرا کر میری آنکھ کھلی تو میں اپنے خواب پر خوب ہنسی۔ اگلی صبح چھٹی تھی اور میں معمول کے مطابق خوش و خرم اپنے کاموں میں مشغول رہی۔ ہاں البتہ ایک تبدیلی ضرور تھی کہ مجھے معمول کی ہر شے زیادہ خوب صورت نظر آ رہی تھی۔ شاید یہی محبت تھی۔
اور یہ محبت ابھی زبانوں پر نہ آئی تھی کہ چند ہی ملاقاتوں کے بعد اس کو سکالرشپ مل گیا اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے لاہور سے کراچی چلا گیا اور میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں جوش و خروش سے جُت گئی۔ ہاں ایک مصروفیت کا اضافہ ہوا کہ آتے جاتے کیمپس کے پوسٹ آفس کے چکر لگنے لگے اور نیلے پیڈ پر لکھے مزے مزے کے انگریزی خطوط کے جواب خوب سے خوب تر دینے کی جستجو میں شعروادب کی کتب کھنگالی جانے لگیں اور خوب صورت نظم و نثر سے مزّین شہ پارے آنے جانے لگے اور یوں تین ماہ گزر گئے۔
نہ جانے یہ چاہے جانے کا سرور تھا یا خودپسندی کا غرور کہ اس کی یاد دل میں چٹکیاں ضرور لیتی لیکن یہ دوری لذت آمیز سی لگتی۔ آہ، کبھی سرد نہ بنی بلکہ جس دن اس کا خط ملتا گالوں کی شفق اور آنکھوں کی چمک دو چند ہو جاتی اور اسے دیکھنے کی میٹھی میٹھی خواہش لیے رات بھر ڈٹ کر سوتی اور سپنوں میں اسے دیکھتی۔ صبح مسکراتی اٹھتی پہلے سے کہیں زیادہ پرجوش اور سرگرم۔
اگست کا آخر یا ستمبر کا آغاز، برسات جوبن پر تھی۔ روز گھٹائیں اُمڈاُمڈ کر آتیں اور جواں دلوں کی دھڑکنوں سے چھیڑ چھاڑ کر جاتیں۔ ایسے ہی ایک خوب صورت دن وہ آ نکلا۔ صرف دو دن کے لیے جن میں سے صرف چند گھنٹے میرے لیے تھے۔ بادل گِھر گِھر کر آ رہے تھے اور ہم ٹھنڈی ہواؤں میں کیمپس کے برآمدوں اور کوریڈورز میں آوارہ گردی کرتے، بیٹھنے کے لیے کوئی اچھی سی جگہ تلاش کر رہے تھے۔ چھٹیاں ہونے کے باوجود ہم جیسے بے شمار منچلے موسم انجوائے کرتے پھر رہے تھے۔ آخر دوسری منزل کے اس کونے پر آ بیٹھے جہاں سے نہر، سڑک اور دور دور تک پھیلے سبزے کا نظارا کرسکتے تھے۔ سخت چوبی کرسیوں پر بیٹھے ہم باتیں کرتے رہے، ہنستے رہے اور چھاجوں مینہ برستا رہا۔ نہر ہماری طبیعت کی روانی کی طرح بہ رہی تھی اور ہمارے سامنے درخت جھوم جھوم کر ناچ رہے تھے۔ دنیا کی ہر چیز ہمیں ہنستی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ ہم جنم جنم سے ہنستے چلے آ رہے ہیں اور ہنستے رہیں گے۔ غم و فکر کبھی ہمارے پاس نہ پھٹکے گا۔ اپنے اپنے کلاس فیلوز کے قصے، ان کے رومانس، نئے یاد کیے ہوئے لطیفے۔۔۔۔۔ بارش تھم گئی۔ ہم اُٹھے کینٹین سے گرما گرم چائے پی۔ اس نے میرا ہاتھ تھام کر خدا حافظ کہا اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوا کہ اپنے ہاتھوں اور آنکھوں کا کلوزاپ فوٹو بھیج دینا، تنہائی میں دیکھا کروں گا۔
اگلے روز اسے ٹرین سے جانا تھا اور میں مقررہ وقت پر اسے الوداع کہنے موجود تھی۔ وہیں اس کی شفیق اور مہربان ماں سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ’’ماں یہ ہے نینا‘‘ ماں نے مجھے گرم جوشی سے گلے لگا لیا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ ٹرین آنے تک وہ میرے اور میرے گھر کے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔ ٹرین آئی تو سب کوخداحافظ کہہ کر سوار ہو گیا اور چند لمحوں بعد میرے اور اس کے درمیان ٹرین اک لکیر سی رہ گئی۔ جب وہ لکیر چھٹی تو کوئی میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے دبا رہا تھا ممتا کی آنکھوں میں بیٹے کے لیے نمی اور ہونٹوں پر میرے لیے مسکراہٹ تھی۔ سٹیشن سے باہر نکل کر میں گھر آ گئی۔ اس کی ماں کی نظروں میں مجھے اپنے لیے پسندیدگی نظر آ گئی تھی۔
دن گزرتے گئے میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھی کہ جنوری کی ایک نرم دوپہر وہ اچانک نمودار ہوا۔ غیرمتوقع ملاقات سے دوگنی خوشی ہوئی۔ چائے کے دوران بات چلی کہ ’’چلو ماں سے نہیں ملو گی؟ وہ تمہیں یاد کر رہی تھیں‘‘ اور پھر ہم وہاں سے اٹھ کر اس کے گھر چلے آئے۔
ماں سے مل کر خوشی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد اصرار کر کے وہ چائے بنانے چلی گئیں تو شاہد بھی اٹھ کر کہیں اِدھراُدھر گیا۔ میں یونہی عادتاً میز پر رکھی کتابیں الٹ پلٹ کرنے لگی تو اچانک ایک کتاب سے ایک خط پھسل کر زمین پر آ گرا۔ اُٹھا کر دیکھا تو شاہد کے نام تھا۔ چھٹی حس کے اصرار اور تجسس کے باعث میں تھوڑی دیر کے لیے اخلاقیات بھول گئی اور اسے کھول لیا۔ پھر جیسے تمام دنیا گھوم گئی۔ میں ایک لمحے کے اندر ہی اندر سر سے پاؤں تک جل کر راکھ ہو گئی۔ ہلنا چاہا تو ہل بھی نہ سکی۔ بہ مشکل تمام وہ خط کوٹ کی جیب میں اڑس کر صوفے پر آ بیٹھی۔ ماں چائے لے آئیں مجھے انتہائی کرب اور اذیت کے عالم میں مسکرانے کی ایکٹنگ کرنا پڑی۔ چائے کی پیالی حلق میں انڈیلی اور آنسو پیتے ہوئے ماں سے واپسی کی اجازت مانگی۔ شاہد میری کیفیت بھانپ گیا تھا کہ میری لرزتی آواز اور بدلتی رنگت سب کچھ کہہ رہی تھی۔ لہٰذا مجھے چھوڑنے کے لیے فوراً اُٹھ کھڑا ہوا، گھر آ کر خط دوبارہ پڑھا۔ شاہد کے نام گہرے تعلقات کے واسطے، رابطوں کے حوالے سے بے وفائیوں کے شکوے گلے اور اس کا ہو جانے کے لیے منت و فریاد، آہیں اور نالے تھے۔ نیچے نام کی بجائے دو حروف تہجی۔ خط کا ایک ایک لفظ خنجر بن کر سینے میں اتر گیا۔ دکھ، غصے اور نفرت کا ایک طوفان سا اٹھا ، آٹھ دس ماہ کی کمسن محبت اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ تنکے کی طرح بہ نکلی۔ اپنی نظر کے غلط انتخاب پر پہلی محبت کے فنا ہو جانے پر یا دوسری عورت کا دکھ یا حسد نہ جانے وہ کیا تھا میں رات بھر جاگی۔ صبح ہوئی تو آنکھیں سُرخ تھیں اور بخار بھی۔ بارش کے پھر آثار تھے لیکن میں پروا کیے بغیر کیمپس پہنچی کہ اس سے ملاقات کا وعدہ تھا۔ وہ ملا، کھسیانی سی ہنسی ہنستا، کچھ خجل خجل سا۔۔۔۔۔ میرے کچھ کہنے سے قبل ہی کہہ اٹھا: ’’ دراصل وہ لڑکی ہمارے ملنے والوں میں ہے اور نفسیاتی مریضہ ہے۔ بس خوامخواہ لفٹ لے گئی۔ علیک سلیک کو غلط رنگ دے گئی۔ میری اصل منزل تو تم ہو‘‘۔۔۔۔۔ وہ عشق پیچاں کی بیل تلے کھڑا صفائیاں پیش کر رہا تھا اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ اسے اس زور کاطمانچہ ماروں کہ اس کا جبڑا ہل جائے۔ لیکن میں کچھ بھی تو نہ کر سکی نہ کہہ سکی۔ سوائے بھیگی بھیگی نظروں سے دیکھتے رہنے کے اور دھیرے دھیرے چلتے ہم اسی جگہ کرسیوں پر آن بیٹھے۔ بادل گہرے ہو گئے تھے اور اب گرج گرج کر برسنے بھی لگے تھے۔ لیکن میں اب بھی خاموش تھی مجھے نہیں معلوم کہ کیوں؟ وہ مجھے بلانے اور منانے کے مختلف حربے آزماتا رہا لیکن میں تو جیسے پتھر ہو چکی تھی۔ آخرکار جھلا کر اس نے میری وہ خوب صورت سُرخ رنگ کی نوٹ بک اٹھا کر زور سے دور پھینک دی اور ہنسنے لگا۔ میں چیخ اُٹھی۔۔۔۔۔ ’’اوہو! یہ تم نے کیا کیا؟ اس میں تو میرے قیمتی نوٹس تھے۔‘‘ حالاںکہ میں کہنا یہ چاہتی تھی کہ اس میں وہ قیمتی خرافات درج تھیں، جو ہم دونوں اکثر بے کار بیٹھے اس میں لکھتے رہتے تھے۔‘‘ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو۔۔۔۔۔ وہ درخت کی اوپری پھننگ میں اس طرح پھنسی ہوئی تھی کہ ڈھیروں پانی پڑنے اور ہوا کے زور کے باوجود گرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اب تو جیسے میرے اندر ابلتے لاوے کو راہ مل گئی تھی۔ میں پھٹ پڑی اور انتہائی تلخ ہو کر وہاں سے اُٹھ آئی۔ ہمیشہ کے لیے اور پھر جب تک میں یونیورسٹی رہی اکثر آتے جاتے اپنی اس سُرخ نوٹ بک کو خاص طور پر دیکھتی جو پہلے تو بارش سے پھول کر ملیدہ سا ہوئی پھر دھوپ سے سوکھ کر چھوہارا بنی اور کچھ دنوں بعد خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ اُڑ اُڑ کر اس کے کچھ اوراق بکھر گئے۔ پھر کچھ اور پھر کچھ اور ۔۔۔۔۔ یوں ایک دن یہ خالی فیتا سا الجھا رہ گیا اور میری محبت کا ثبوت وہ اوراق نجانے کہاں کھو گئے۔ لیکن اس کی جلد کا یہ فیتا آج بھی اس شاخ پر لٹکا ہے، جو چوراہے کی اس سرخ بتی کی مانند ہے جہاں سے ایک راہ ختم ہو کر کئی اور راہیں نکل آتی ہیں۔۔۔۔۔ شاید یہاں سے ایک راہ تمہارے گھر کو بھی مڑتی ہے۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ ماجد کے شانے پر جھکی، عقیدت سے ایک بوسہ لیا اور آنکھیں بند کر کے نجانے کہاں کھو گئی۔ ماجد نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور نم آلود نظروں سے کتنی ہی دیر اس سرخ فیتے کو دیکھتا رہا جس نے اس کی نینا کو اتنا دکھ دیا تھا۔




Loading

Read Previous

خوشی بادشاہ — افراح فیاض

Read Next

چاند میری زمین، پھول میرا وطن — زاہدہ عروج تاج

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!