’’وہ۔۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔۔ وہ جو سامنے درخت کی اوپری پھننگ پر تم لال فیتا سا الجھا دیکھ رہے ہو نا؟‘‘ نینا نے شدت سے چاہنے والے اپنے شوہر کو شرارت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں ہاں کہو!‘‘ وہ تو جیسے ہمیشہ سے گوش برآواز تھا۔ ’’وہ ہے میرے پہلے پیار کی پہلی نشانی‘‘ کھنکتے قہقہے کے درمیان اس نے انکشاف کیا۔ ’’ہائیں؟‘‘ درخت کی آخری شاخ پر لال فیتا۔۔۔۔۔ تمھاری محبت کی نشانی؟ یہ تمھاری محبت تھی یا خطرے کا نشان؟‘‘ ماجد نے اپنی غیرت کو کمال بردباری سے دباتے ہوئے مسکرا کر حیرت سے کہا۔
کیوںکہ وہ اپنے اس عہد کا پابند تھا کہ اپنی بے پناہ محبت کی خاطر وہ اس شوخ لڑکی کی تمام شرارتوں، حرکتوں اور غلطیوں کو معاف کر چکا ہے۔ اس فراخ دلی اور بردباری کے پیچھے جان سے بڑھ کر چاہنے کا وہ دعویٰ تھا جس کی بدولت یہ حسین لڑکی آج اس کے گھر کی زینت اور دل کی دھڑکن تھی اور یہ دعویٰ بہت حد تک درست بھی تھا، جب ہی تو یہ اعلیٰ ظرف شخص تیرپہ تیر کھا کے مسکرائے چلا جا رہا تھا یا پھر کوئی احساس برتری یا احساس فتح کی سرشاری تھی کہ جو بیوی کی زبانی اس کی پہلی محبت کے قصے یوں ہنس ہنس کر سن رہا تھا۔ ورنہ کس مرد میں اتنا حوصلہ ہو سکتا ہے لیکن وہ سمجھ دار اور سنجیدہ مرد اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ہمت بھی بہت کم عورتوں میں ہوتی ہے، جو شادی سے پہلے کے رومانس کا ذکر شوہر سے کر سکیں اور پھر ایسی شوخ لڑکی کی مانند، جیسے بچپن کی کسی حسین شرارت کا ذکر کر رہی ہو۔ ورنہ تو مرد ایسی بیوی چاہتے ہیں جسے چاند سورج کے علاوہ کسی نے دیکھا نہ ہو، تو عورتیں بھی یہ ثابت کر کے دکھا دیتی ہیں کہ ان کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تو صرف ان کا شوہر ہی ہے اور لڑکپن سے جوانی کا فاصلہ تو جیسے چھے ماہ جاگنے اور چھے ماہ سونے والی شہزادی کی مانند گزار دیا ہو حالاںکہ بہتی ندی اور چڑھتی جوانی کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی راستہ تو بنا ہی لیتی ہے۔ جوانی کے دور میں لڑکا اور لڑکی کا کسی نہ کسی جانب متوجہ ہو جانا فطری سی بات ہے۔ لیکن اس پیاری سی لڑکی کی یہی سچائی تو اسے پسند تھی وہ ہر لگی لپٹی اور مکروفریب سے بے نیاز تھی۔ معصوم اور بھولی سی۔ جب ہی وہ مسکرا کر بولا: ’’اوہو! بے تکی لڑکی ہو! بات کبھی ڈھنگ سے شروع نہ کرو گی۔ اگر تم خدانہ خواستہ مصور ہوتیں تو تصویر بنانا بھی پیروں سے شروع کرتیں۔‘‘
’’ارے واہ کرتی کیا؟ بلکہ کرتی رہی ہوں پرائمری کلاسز میں ہم جب ڈرائنگ کیا کرتے تھے تو گدھا بناتے وقت میں ہمیشہ دم سے سٹارٹ لیا کرتی تھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نینا بے طرح ہنستے ہنستے ماجد کے شانے سے چپک گئی۔
’’آخر اس لڑکی میں ایسی کیا بات ہے کہ میں اس کی چاہت کے آگے خود کو بے بس محسوس کرنے لگتا ہوں۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے بھی نینا کو اتنا قریب کر لیا کہ مبادا لال فیتے کا سحر اسے دوبارہ اس سے چھین نہ لے جائے۔ جس کے جال میں آ کر وہ پہلے بھی ڈیڑھ برس تک اسے مسلسل انگاروں پر لوٹنے پر مجبور کرتی رہی اور ماجد یہی سوچ کر کہ یہ بے ڈھنگی سی پاگل لڑکی بہت معصوم ہے، کمسن ہے کہہ کر اپنے دل کو سمجھاتا رہا اور رقابت کے غبار کو دھو تا رہا۔
’’اچھا تو پھر بتاؤ نا اس لال فیتے کے بارے میں؟‘‘ اس نے اس انداز سے چمکار کر کہا گویا کسی بچے سے نظم سننے کی فرمائش کر رہا ہو۔
’’یہ لال فیتا دراصل‘‘۔۔۔۔۔ وہ کچھ رُک کر سنجیدگی سے بولی۔
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ خطرے کا سگنل ہے۔ سرخ رنگ جس کا مطلب ہے سٹاپ! واقعی یہ فیتا ہماری معصوم سی بے ضرر سی اور احمقانہ قسم کی محبت کے مختصر پیراگراف کا فل سٹاپ اور چھوٹے سے سفر کا آخری سٹاپ۔‘‘
لفظ ’’ہماری‘‘ سے ماجد کے دل پر جیسے چھری سی چل گئی لیکن وہ خاموشی سے سنتا رہا وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔ ’’آپ چوںکہ نہ صرف میرے شوہر بلکہ اچھے دوست اور رازداں بھی ہیں ۔ اس لیے میں آپ سے اس چھوٹی سی کہانی کا ایک لفظ بھی نہ چھپاؤں گی حالاںکہ یہ کسی بھی عورت کا مرتے دم تک نہ بتایا جانے والا راز ہوتا ہے لیکن میں کوئی زیرزبر حذف کیے بغیر سنا دوں گی۔ ہماری کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے ہم دونوں کے راز اس طرح ایک دوسرے میں یک جان ہو جانے چاہئیں کہ ہم ان سے اپنے اپنے راز الگ نہ کر سکیں۔‘‘ فریحہ نے قدرے سنجیدگی سے اپنے اندر کی اُداسی کو چھپاتے ہوئے کہا اور پھر ماجد کے شانے سے ٹیک لگا کر اور سامنے اونچے لمبے پیڑ کی اوپری پھننگ پر نظریں جمائے اپنی گزشتہ زندگی کا ایک چھوٹا سا سنہرا خواب سنانا شروع کیا۔ نوجوانی کے ان حسین خوابوں جیسا ایک خواب، جن کی تعبیریں ہمیشہ الٹ ہوا کرتی ہیں۔
’’یہ شاید مئی 1971ء کے اس آخری ہفتے کی بات ہے جب میرے امتحانات شروع ہونے والے تھے اور ہم یونیورسٹی کے چند لڑکے لڑکیاں حسب عادت اپنے ڈیپارٹمنٹ کے برآمدے میں لائبریری کے سامنے کھڑے بحث ومباحثہ میں مشغول تھے۔ لڑکے باتوں کے ساتھ ساتھ نظروں ہی نظروں میں میری تعریف بھی کر رہے تھے اور مجھے معلوم تھا کہ میں حسبِ معمول اچھی لگ رہی ہوں۔ خوب صورت لباس اور درمیانی سی ہیل کے منفرد سے سینڈل میں جچ رہی تھی۔ لڑکوں کی میری جانب بار بار اٹھتیتعریفی نگاہیں اور لڑکیوں کی تنقید بھری نگاہیں تھیں جو مجھے یہ احساس دلا رہی تھیں۔ بہرحال جب بحث کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو ہم لڑکیاں لڑکوں کو وہیں چھوڑ کر لائبریری میں آ گئیں۔ میں ابھی ایک کتاب کو الٹ پلٹ ہی رہی تھی کہ چپڑاسی نے بڑے رازدارانہ لہجے میں باہر کسی ملاقاتی کی اطلاع دی اور میں آنے والے کے بارے میں سوچنے لگی کہ کون ہو سکتا ہے؟ اپنی روایتی بے نیازی اور خوداعتمادی سے چلتی باہر نکلی تو ایک خوب صورت اجنبی نوجوان کو مسکراتے ہوئے اپنا منتظر پایا۔ نکلتا ہوا قد، صحت مند، ڈیل ڈول، کھلتے ہوئے گندمی رنگ پر چمکتے سیاہ بال، مسکراتے ہوئے شگفتہ ہونٹ اور موٹے شفاف شیشوں کی عینک کے پار دو بڑی بڑی سیاہ ذہین آنکھیں۔۔۔۔۔ ایک دم متاثر کن شخصیت۔ لیکن میں نے تو کسی سے مرعوب ہونا سیکھا ہی نہ تھا۔ ہونہہ! تو کیا۔۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھ کر آگے بڑھا لیکن عام نوجوانوں کی سی تیزی اور بے صبری سے نہیں بلکہ وقار اور شان بے نیازی سے۔۔۔۔۔ گویا ہم سیر تو وہ سواسیر تھا اور پھر مجھے بولنے کا موقع دیے بغیر ہی بول اٹھا۔ ’’ایکس کیوزمی! میں آپ کے چند منٹ ضائع کروں گا۔‘‘ اور پھرمجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے میرے جواب کا انتظار کیے بنا چل پڑا۔ اور میں بھی کسی ہپناٹائز کئے ہوئے شخص کی مانند اس کے ساتھ چل پڑی۔ جونہی اپنے کوریڈور سے گزر کر ہم سیڑھیاں اترے، اس نے بڑی شستہ انگریزی میں گفت گو کا آغاز کیا: ’’میں نے آپ کو زحمت دی لیکن اپنے لیے نہیں اپنے قوم اور ملک کی بھلائی کے لیے۔ اس ملک کی ڈولتی کشتی کو بچانے کی کوشش کے لیے کہ جسے آج سے پچیس برس پہلے بڑی مشکلات اور قربانیوں سے حاصل کیا تھا۔ آپ جیسے باشعور اور ذہین طالب علم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک کے مشرقی حصے میں کیا ہو رہا ہے۔ خودغرضی اور شر کے اس طوفان کا آغاز ڈھاکہ یونیورسٹی سے ہوا اور طلبا نے جو کردار ادا کیا وہ بھی آپ جانتی ہیں۔ اس سلسلے میں آپ سے کچھ کانفیڈنشل گفت گو کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو۔۔۔۔۔‘‘ اس نے سلجھی ہوئی انگریزی میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’اوہ! بڑا آیا انگریز کا بچہ! بات کرتا ہے قومی معاملات کی اور رعب گانٹھتا ہے انگریزی کا‘‘۔۔۔۔۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، جسے وہ شاید رضامندی کی علامت سمجھا اور فوراً آخری سیڑھی پھلانگ کر دل کش مسکراہٹ لیے ہاتھ کے اشارے میں مجھے اپنے ساتھ چلتے رہنے کے لیے کہا۔’’ آپ کا نام؟‘‘ اب انگریزی کا رعب گانٹھنے کی باری میری تھی۔ ’’جی شاہد! اور میں میڈیکل سٹوڈنٹ ہوں۔ ایم بی بی ایس مکمل کر کے آج کل کینسر پر ریسرچ کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ لیکن آپ نے تو میرا نام بھی نہیں پوچھا اور بن جانے بن پہچانے یہ سب؟؟۔۔۔۔۔ اس نے میری بات سنی اور بولا: ’’آپ کا نام نینا اور تعمیری نقطۂ نظر سے سوچنے والے سٹوڈنٹ گروپ سے تعلق رکھنے والی ذہین اور اچھے سٹوڈنٹس کیرئیر کی حامل ہیں۔ ‘‘
’’یہ سب آپ نے کیسے جانا؟‘‘ اب میرے حیران ہونے کی باری تھی ’’ابھی بتائے دیتا ہوں آئیے ایک ٹھنڈا ہو جائے۔‘‘ اس نے کھوکھے سے دو سوفٹ ڈرنکس کھلوائے اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا تو میں شرمندہ سی ہو گئی ’’اوہو! سوری یہ تو میرا فرض تھاآپ مہمان ہیں۔‘‘
’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘کہہ کر اس نے دو بوتلیں پکڑیں اور بولا: ’’آئیے ‘‘اور پھر پتھر کے بینچ پر بیٹھے وہ کہہ رہا تھا: ’’کچھ لوگ طلبا کے روپ میں یونیورسٹیوں میں توڑپھوڑ اور تخریبی کارروائیوں کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر ان کے ساتھی ہی نظر رکھ سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان تخریب پسندوں کے خیالات کے بارے میں وقتاً فوقتاً معلومات حاصل ہوتی رہیں تاکہ بروقت مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔ میں نے آپ کو اسی سلسلے میں زحمت دی کیوںکہ اس کام کے لیے آپ جیسی پُرکشش ، ذہین اور سوشل شخصیت کی ضرورت تھی۔ کیا آپ ہماری مدد کرنا پسند کریں گی؟‘‘ میں سمجھ گئی کہ اس کا تعلق کسی حساس ادارے سے ہے لیکن ایک خوب صورت اور آئیڈیل قسم کے نوجوان کی زبانی ایک لڑکی ایسے تعریفی کلمات سن کر جس خوشی سے سرشار ہو سکتی ہے اسی سرور کی کیفیت کو غرور کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے ہنس کر بولی: ’’تو گویا آپ ہم سے جاسوسی کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’آف کورس‘‘ اور ہم دونوں ہنس دیے اور پھر اس ہنسی اور مسکراہٹ میں جیسے برسوں کی شناسائی کی سی مٹھاس اور مستقبل کی رفاقتوں کی امیدیں گھل مل گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے الوداع کہہ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے جب واپس ڈیپارٹمنٹ آئی تو شاید اس خوب صورت مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں سے الگ نہ کر پائی تھی۔ جب ہی تو میری کلاس فیلوز کی پرُجوش چیخ و پکار نے میرا استقبال کیا، جو بہت مدت سے میرے کسی سکینڈل کی تلاش میں تھیں۔ معلوم ہوا کہ کم بختوں نے نہ صرف میرا تعاقب کیا تھا بلکہ دوردور سے ہماری مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی دیکھ لیا تھا۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ تم غلط سمجھیں وہ شریف آدمی تو اپنے کام سے آیا تھا۔ ’’ہونہہ! اس عمر کے شریف آدمی کا تمھارے ساتھ کیا کام ہو سکتا ہے۔ یہ ہم خوب سمجھتے ہیں۔ اب بکواس بند کر اور صاف صاف بتاؤ کون تھا؟‘‘ ’’ہائے خدا کی قسم تم دونوں بہت اچھے لگ رہے تھے ساتھ ساتھ‘‘ ’’ہائے ٹریٹ، ہائے ٹریٹ‘‘ مختلف قسم کے نعرے بلند ہو رہے تھے اور میں ٹال رہی تھی لیکن جانے والے کی نظروں کی تپش اور مسکراہٹ کا عکس شاید ابھی تک میرے چہرے پر جھلملا رہا تھا کہ کسی نے میری بات کا یقین نہ کیا اور پھر میرے دل نے بھی چپکے سے کہا ارے پگلی! یہ ناممکن بھی تو نہیں، وہ تھا تو واقعی تیرے قابل! یہ سوچ کر نیم رضا خاموشی اختیار کرنے میں ہی مزہ آنے لگا اور یہ خاموشی ان کے تجسس کو پل پل بھڑکا رہی تھی اور میرے اندر کی مغرور لڑکی کی تسکین کر رہی تھی۔ لہٰذا مجھے ٹریٹ دینا ہی پڑی۔