قرنطینہ ڈ ائری . بارہواں دن

میں نے دادو سے سیکھا کہ ایک سچی محبت اور پیار کے ایک سادہ سے میٹھے بول میں کیا جادو ہوتا ہے۔ ایک عمر کی بیوگی، جوان اولاد کا دکھ بھوگنے کے بعد بھی نہ ان میں کوئی تلخی تھی نہ شکایت۔ میرے بہنوئی افراز نے ان کی اس طرح خدمت کی جیسے خدمت کا حق ہے۔ ان کے ساتھ راتوں کو جاگے، اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا، انہیں باتھ روم تک خود لے کر گئے، اپنے ہاتھوں سے ان کی الٹیاں صاف کیں۔ جب وہ ہمارے گھر آتے تھے تو حضرت اویس قرنیؒ کی سنت پوری کرنے کے لیے ہم ان سے اپنے لیے دعا کروایا کرتے تھے۔

دادو ہمارے گھر کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بچہ تھیں Dementia .کی وجہ سے ہر بات بھول جاتی تھیں اور بار بار پوچھے جاتی تھیں، بالکل بچوںکی طرح۔ انکے چند پسندیدہ سوال تھے: لائیٹ کب آئے گی؟ بچے آگئے؟ آج کھانے میں کیا پکا ہے؟ یہ سوال وہ ہر آئے گئے سے کرتیں اور بار بارکرتیں۔میرے بچے انکے ساتھ بہت کھیلا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ابراہیم کو شغل سوجھا اور اس نے انہیں دوپٹہ اوڑھا کر اپنی چھوٹی کرسی میں بٹھا دیا اور کہا ©”چلیںدادو نماز پڑھیں۔“ اب دادو بےچاری کو نماز سے زیادہ اپنے سوالوں کی فکر تھی۔ انہوں نے نماز یوں پڑھنی شروع کی:

دادو: سبحانک اللہ ھم وبحمدک۔۔۔آج کھانے میں کیا پک رہا ہے؟ 

ابراہیم: شش دادو۔ کھچڑی پکی ہے۔ آپ نماز پڑھیں۔

دادو: الحمداللہ رب العالمین۔۔۔چائے بھی بن رہی ہے؟

ابراہیم: جی دادو لیکن پہلے آپ چپ کر کے نماز پڑھیں۔

دادو: قل ہو اللہ احد۔۔۔۔کھچڑی کب بنے گی؟ 

آدھے گھنٹے کی کوشش کے بعد یبراہیم نے نماز پڑھانے کا ارداہ ترک کر دیا اور دادو کو انعام کے طور پر کھچڑی پر کیچ اپ ڈال کر کھلائی۔

 انہیں باہر کھلی ہوا میں بٹھانے کے لئے ہم پنکھا بند کر دیتے اور ان سے بہانہ کر دیتے کہ لائٹ چلی گئی ہے۔ وہ مان جاتیں۔ پان کھانے کی فرمائش کرتیں ( جو ڈاکٹر نے منع کر رکھے تھے) تو بچے کہتے دادو ا ّپکا پیٹ خراب ہے۔ بےچاری فرمانبرداری سے کہتیں اچھا۔ کبھی نہ پوچھتیں کہ بھئی پیٹ میرا ہے یا تمہارا؟ 

مصطفی روز شام کو انہیں سیر کروانے لے کر جاتا اور سگریٹ پلاتا اور آئس کریم کھلاتا۔ ایک دن مصطفی نے دادو کو ان چیزوں کے ساتھ جوس بھی لا کر دیا۔ دادو نے غور سے اس کی شکل دیکھی اور سنجیدگی سے پوچھا: ”آپ ہمیں بہت پسند کرتے ہیں؟“

”جی دادو۔“ مصطفی نے پیار سے کہا۔

بیاسی سالہ، سفید بالوں والی دادو شرما کر بولیں: ”آپ بہت خراب آدمی ہیں۔“

موٹا بھائی یعنی عمر انہیں گلے لگاتا، پیار کرتا، ابراہیم انہیں عمرو عیار کی کہانیاں پڑھ کر سناتا۔ میرے بچے اپنی زندگی کا سب سے اہم سبق سیکھ رہے تھے۔ خدمت کا سبق، یہ وہ سبق ہے جو دنیا کا کوئی سکول کالج نہیں سکھا سکتا۔ یہ سبق انہیں دادو کے طفیل ملا تھا۔

ایک دن دادو باہر بیٹھی تھیں کہ بچے اور انکے ابا نماز پڑھ کر آئے۔ آ کر دادو کے پاس بیٹھ گئے۔ ابا سے ویسے ہی دادو کی گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ انہیں اپنی ساس کی قصہ سنانے لگیں۔

” بہت سخت تھیں ہماری ساس۔ ہمیں بہت ڈانٹاکرتی تھیں، گالیاں بھی دیتی تھیں۔بھوپال کی تھیں۔ ٓپ جانتے ہیں بھوپال کہاں ہے بھائی جان؟“

بھائی جان نے کہا، ” وہ تو میں جانتا ہوں لیکن آپکی ساس آپکو کیوں ڈانٹتی تھیں؟“

”غصے کی تیز تھیں نا اسلئے۔ ہم سے دودھ ابل کر گر جاتا تھا، ڈانٹتی تھیں۔ ایک مرتبہ ہم جی او آر میں سائیکل چلا رہے تھے، گر گئے، حمل بھی گر گیا۔ انہیں بہت غصہ آیا۔ ہمیں پیٹا انہوں نے۔“

میرے ذہن میں نوخیز، نوجوان، الہڑ دادو کی شبیہہ لہرائی جو اپنے کھیل کود میں مگن رہتی تھیں اور ان سے دودھ اور حمل گر جاےا کرتا تھا۔ اور انکی ساس انہیں پیٹا کرتی تھی۔

میں نے پوچھا،” تو آپکے میاں نے انہیں کچھ نہیں کہا دادو؟“

بولیں، ”وہ توانہیں بھی پیٹ ڈالتی تھیں۔وہ کہتے تھے میری ماں ہیں میں انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔“

بھائی جان نے ہاتھ میں پکڑے اخبار کو رول کیا اور کہا، ” میں ابھی جاتا ہوں اور اس ڈنڈے سے آپکی ساس کوپیٹ کر آتا ہوں۔“

خوش ہو کر بولیں، ”آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔“ 

ان کے انتقال سے دو دن پہلے افراز بھائی انہیں ہم سے ملوانے لائے۔ وہ اتنی نحیف ہو چکی تھیں کہ گاڑی سے اتر نہ سکتی تھیں۔ ہم وہیں ان کے اردگرد کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ وہ کچھ دیر میرے میاں کو تکتی رہیں پھر آہستہ سے بولیں: ”سگریٹ، بھائی جان۔“ بھائی جان نے سگریٹ سلگا کر دی لیکن ایک سے زیادہ کش نہ لے سکیں۔

دودن بعد صبح دادو نے سکون سے آخری سانس لی اور آنکھیں موند لیں ہمارا گھر ان کی زندگی میں بھی انہی کا تھا، موت میں بھی ان کا رہا ۔وہ اس گھر میں رحمت، برکت، عزت اور محبت لے کر آئی تھیں، ان کا جنازہ بھی یہیں سے اٹھا۔ محبت کی جو فصل انہوں نے اپنی زندگی میں بوئی تھی، اس پر پھول ان کی موت کے ساتھ ہی کھلنا شروع ہو گئے۔ دادو کے اپنے رشتے داروں میں دور دراز کے صرف چار لوگ تھے جو فوراً پہنچ گئے تھے۔۔ لیکن اللہ کو ان کا جنازہ یوں بے سروسامانی سے اٹھوانا منظور نہ تھا۔ان کے بیٹے نے انہیں انکی زندگی میں شہزادیوں کی طرح رکھا تھا، انکا جنازہ بھی اسی شان سے اٹھا۔ میں نے ہمسائے میںایک خاتون کو فون کیا کہ غسل میں رہنمائی کریں۔ کچھ ہی دیر میں وہ چند خواتین کو لیے آگئیں۔ ان خواتین کے ہاتھوں میں ہیروں کی انگوٹھیاں تھیں اور تن پر باریزے کے جوڑے۔ امیر گھرانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ یہ خواتین دادو کے لیے بہترین کپڑے کا کفن لائیں اور میرے ساتھ دادو کو غسل دیا اور انتہائی عزت و تکریم اور محبت کے ساتھ دیا۔ ان کے جنازے میں اتنے لوگ پہنچے کہ وہم و گمان میں نہ تھا۔ میرے ننھیالی اور دھدیالی رشتے دار، آگے سے ان کے رشتے دار جو کسی کام سے لاہور آئے ہوئے تھے۔ چند رشتے دار جو کینیڈا میں ہوتے ہیں بیٹی کی شادی کے لیے آئے تھے اور ان سے پچھلے بیس سالوں میں کسی خوشی غمی پر ملاقات نہ ہوئی تھی، عین وقت پر ان کی فلائٹ کینسل ہو گئی اور وہ دادو کے جنازے میں شرکت کے لیے آ پہنچے۔ میرے بہت سے ہمسائے جن سے ہماری کوئی جان پہچان نہ تھی، گھر کے باہر ٹینٹ لگے دیکھ کر خیریت معلوم کرنے آئے اور دادو کی دعا میں شامل ہو گئے۔

دادو زندگی میں ہمارے قریب رہی تھیں۔ موت کے بعد بھی ہمارے قریب رہیں۔ انہیں ہماری سوسائٹی میں دفنایا گیا۔ رات کو جب سب لوگ چلے گئے تو عمر میرے پاس آیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آواز بھرا رہی تھی۔ آہستہ سے بولا۔ ”میں جب اللہ کے پاس جاﺅں گا تو سب سے پہلے دادو سے گلے ملوں گا۔“

میں نے عمر کو گلے لگا لیا۔ تسلی دینے کے لیے کہا: ”دادو وہاں بہت خوش ہوں گی۔“

 عمراداسی سے مسکرایا اور کہا: ”ہاں داد ا سے مل رہی ہوں گی۔ پوچھ رہی ہوں گی مجھے اتنی جلدی چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔“

کیا عجب دادو نے واقعی یہ پوچھا ہو۔ محبت کی جو فصل وہ دنیا میں بیج کر گئی تھیں، وہاں جنت میں اس پر پھول ہی پھول کھلے ہوں گے اور ان پھولوں کے کنارے جوان اور ہینڈسم دادا نے ان کا استقبال کیا ہو گا۔

”یہ سب پھول آپ نے میرے لیے سجائے ہیں؟“ دادو نے حیران ہو کر پوچھا ہو گا۔

”ہاں۔“ دادا نے مسکرا کر کہا ہو گا۔

”آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ”دادو نے اپنی فطری بے ساختگی سے کہا ہو گا۔

دادا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہوں گے۔ انہوں نے اپنی صدیوں سے بچھڑی لاڈلی حسین بیوی کی طرف دیکھا ہو گا اور بھرائی آواز میں کہا ہو گا۔ ”تم بھی نسیمہ! تم بھی مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔“

 اور نوجوان، نوخیز، الہڑ دادو نے لجا کر کہا ہو گا: ”آپ بڑے خراب آدمی ہیں۔“

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری . گیارہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ تیرہواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!