قرنطینہ ڈ ائری . بارہواں دن

تقسیم کے وقت ان کا تقریباً سارا خاندان انڈیا میں رہ گیا تھا۔ چند ایک رشتے دار یہاں آئے تھے، ان میں سے بھی کئی باہر کے ملکوں میں سیٹل ہو چکے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ہم سے یوں پیار کرنے لگی تھیں جیسے کوئی اپنے سگوں سے کرتا ہے ۔ہم پنجابی تھے اور وہ اہل زبان، یوپی کی تہذیب کا مرقع۔ ان کی گفتگو، ان کے کھانے، ان کا رہن سہن ہمیں بڑا اچھا لگتا تھا۔ انہوں نے لان میں موتیے کا پودا لگوا رکھا تھا۔ روز شام کو موتیے کے پھولوں کا ہار، گجرے اور بالے پروتیں اور پہن کر بیٹھ جاتیں، کبھی شام کو ان کے گھر جانا ہوتا تو نکھری ستھری، عطر کی خوشبو میں بسی، موتیے کے پھول پہنے دادو پر کسی سفیدی بالوں والی گڑیا کا گمان ہوتا۔

جوانی میں بہت طرح دار تھیں ، الہڑ اور نوخیز تھیں۔ میاں کی لاڈلی بیوی تھیں اور وہ کوئی فرمائش نہ ٹالتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ فلمیں دیکھتی تھیں، گانے سناتی تھیں، جی او آر کی سڑکوں پر سائیکل چلایا کرتی تھیں حتیٰ کہ سگریٹ پینے کی فرمائش کی تو میاں نے وہ بھی پوری کی۔ افسوس کہ یہ پیار بھرا، لاڈ اٹھانے والا ساتھ صرف چند برس کا تھا۔ ان حسین دنوں کی یاد میں سے ان کے پاس صرف ایک چیز رہ گئی تھی۔ اس زمانے کی فلموں کے گانے۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتی ہم دونوں ایک دوسرے کو گانے سناتے۔ ان کی محبت اتنی سادہ اور اتنی خالص تھی کہ ان کے سامنے کسی قسم کی جھجک یا رد کیے جانے کا ڈر نہ ہوتا تھا۔ بری سے بری چیز سن کر بھی بے حد خوش ہو جاتیں اور بڑے پیار اور بے ساختگی سے کہتیں۔ ”آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔“

یہی جملہ وہ اسی فطری بے ساختگی اور سادگی اور بچوں کی سی خوشی سے میرے میاں صاحب کو بھی کہتیں۔ ”آپ بہت پیارے ہیں، مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔“ اس جملے میں نہ کوئی تکلف تھا نہ لفاظی، نہ سجاوٹ نہ بناوٹ۔ بس ایک سیدھا سادا، صاف شفاف، سچا اور معصوم سا۔ ”آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔“

ان کے Dementia کی شدت کا اندازہ مجھے تب ہوا جب وہ ہمارے گھر رہنے آئیں۔ میری بہن بچوں کی تعلیم کے لیے کینیڈا چلی گئی تھی جب کہ بہنوئی بوڑھی ماں کی خدمت کے لیے یہیں رہ گئے تھے۔ لاہور میں کوئی اور رشتہ دار نہ تھا۔ سال میں دو یا تین مرتبہ جب بہنوئی بچوں سے ملنے کینیڈا جاتے تو ہمیں دادو کی میزبانی کا موقع ملتا۔ وہ بہت پیارا مہمان تھیں بلکہ مہمان کہنا غلط ہو گا۔ میرے بچوں نے اپنی سگی دادی کو کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ میری شادی سے پہلے ہی انتقال کر چکی تھیں۔ دادو کی شکل میں انہوں نے اس رشتے کو پایا اور جانا کہ نانی دادی کے ساتھ رہنا کتنا پیارا تجربہ ہے۔ وہ بچوں سے پیار کرتی تھیں۔ اکثر ان کے نام بھول جاتیں پھر انہوں نے اپنی آسانی کے لیے خود ہی ان کے نام گھڑ لیے۔ کسی کو برا بیٹا کہتیں، کسی کو چھوٹا۔ ہاں عمر جو ان دنوں کافی صحت مند تھا،موٹا بھائی کہلایا۔

ایک دن مجھ سے فرمائش کی کہ گانا سناﺅ ۔میں نے پوچھا: ”دادو کون سا گانا سناﺅں؟“

سوچ کر کہنے لگیں۔ ”وہ جوانہوں نے گایا ہے جو مر گئی ہیں۔“

میں نے عقل کے گھوڑے دوڑائے اور انکل سے پوچھا: ”نور جہاں؟“

”ارے نہیں۔ وہ جو بہت پیاری تھیں۔ انہوں نے گایا تھا کہ وہ کم بخت کہیں چلا گیا ہے اور میں کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی۔ بتاﺅں گی تو لوگ مذاق اڑائیں گے۔“

اب میں لاکھ سوچوں، پھر بھی ذہن میں نہ آئے کہ کس گانے کی بات کر رہی ہیں۔ میں نے تکے لگانے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ بے چاری دادو نہ جھلائیں نہ ناراض ہوئیں۔ بڑے تحمل اور سادگی سے مجھے یاد دلاتی رہیں کہ ”بھئی وہ بہت پیاری تھیں، جوانی میں مر گئی تھیں اس دکھ میں کہ وہ کمبخت مجھے چھوڑ گیا ہے، لوگوں کو پتا چلے گا تو وہ کیا کہیں گے؟“

اچانک میرے ذہن میں جھماکا ہوا اور میں نے پوچھا: ”پروین شاکر؟ کیسے کہہ دوں کہ وہ مجھے چھوڑ گیا ہے، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی؟“

دادو کھل اٹھیں۔ خوشی سے میرا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیا اور پیار سے بولیں: ”آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔“

ہر مرتبہ جب وہ ہمارے گھر رہنے آتیں، مزید کمزور، مزید بیمار اور زندگی کو مزید بھولی ہوتیں۔ نہ بھولیں تو اس محبت کو نہ بھولیں جو انہیں ہم سے تھی ۔اورہم سب سے زیادہ پیار انہیں میرے میاں سے تھا۔

”آپ تو بالکل میرے بیٹے کی طرح ہیں۔“ وہ محبت سے کہتیں۔ ”مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔“

یہ دونوں آپس میں گپیں مارتے، ایک دوسرے کو سگریٹ پلاتے۔ دادو انہیں اپنی جوانی کے بھولے بسرے قصے سناتیں۔ وہ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے۔ دادو پاس بیٹھی انتہائی وارفتگی سے انہیں دیکھتی رہتیں۔ نظر ملنے پر بے ساختہ کہتیں۔ ”آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔“

کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان دونوں پر ایک کہانی لکھوں۔ ایک داستانِ محبت۔ ایک مرد اور عورت کے درمیان ایک ایسی محبت کی داستان جو رشتے، غرض، عمر سے ماورا ہے۔ وہ ماں کی طرح ان سے پیار کرتے تھے اور دادو بیٹے کی طرح انہیں چاہتی تھیں ۔یہ الگ بات کہ ان کا نام انہیں یاد نہ رہتا تھا اور انہیں بھائی جان کہتی تھیں۔

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری . گیارہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ تیرہواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!