قرنطینہ ڈ ائری . بارہواں دن

قرنطینہ ڈ ائری

(سارہ قیوم)

بارہواں دن، ہفتہ 4 اپریل 2020

ڈیئر ڈائری!

آج دادو کی پہلی برسی ہے۔ دادو کون تھیں؟ ہماری کیا لگتی تھیں؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ رام پور کے نواب کے خاندان سے تھیں۔ ان کے میاں انڈین سول سروس میں تھے اور تقسیم کے بعد لاہور آبسے تھے جہاں نوجوانی میں ان کا انتقال ہوا اور وہ تین چھوٹے چھوٹے بچے اپنی کم عمر بیوی کو سونپ کر راہی ملکِ عدم ہوئے۔ اب رہا دوسرا سوال کہ وہ ہماری کیا لگتی تھیں تو اس کا جواب ذرا پیچیدہ ہے۔ دادو سے ہمارا خون کا کوئی رشتہ نہ تھا۔ وہ میری چھوٹی بہن کی ساس تھیں۔ سنتے تھے جوانی میں بہت حسین اور خوش لباس تھیں لیکن جب ہماری ان سے ملاقات ہوئی تو بوڑھی اور نحیف ہو چکی تھیں۔ وہ دنیا کی ان معدودے چند ساسوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے اپنی بہو کے خاندان کو دل سے اپنا لیا تھا۔ بہو کی ماں، بہن بھائی، خالہ، ماموں، چچا غرض ہرایک سے اس قدر محبت سے ملتیں اور اتنی عزت سے پیش آتیں کہ گرویدہ کر لیتیں۔ اس عزت و محبت میں تصنع کا شائبہ تک نہ تھا اور بناوٹ نام کو نہ تھی۔

میرے بچے خالہ کے گھر اپنے کزنز سے کھیلنے جایا کرتے تھے۔ وہاں ایک ملازمہ تھیں جنہیں سب گھر والے اماں کہتے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ اماں جو خود بھی عمر رسیدہ تھیں دادو کو دادو کہہ کر پکارتی تھیں اور جواب میں دادو انہیں اماں کہتی تھیں۔ اس باہمی عزت افزائی کے ماحول میں میرے بچے بھی انہیں دادو کہنے لگے۔ حالاں کہ ان کے اپنے پوتے انہیں دادی امی کہہ کر بلاتے تھے لیکن ہمارے بچوں پر اور ان کی دیکھا دیکھی ہم میاں بیوی پر لفظ دادو کا رنگ ایسا چڑھا کہ آخر دم تک قائم رہا۔

انہیں بلیوں سے بہت محبت تھی۔ جوانی سے بلیاں پالتی آئی تھیں۔ ایک مرتبہ لاﺅنج میں اپنی بلی سے یوں گفتگو کرتی پائی گئیں۔

”شش! ارے کہاں سے دوں؟ دودھ ختم ہو گیا ہے۔ ہاں ہاں میں دیکھ آئی ہوں فریج میں۔ نہیں پڑا کچھ بھی وہاں۔ اچھا دیکھو ابھی بھیا دفتر سے آئیں گے تو ان سے کہوں گی وہ لا دیں گے دودھ۔“

”میاﺅں۔“

”اری چپ! دیکھ زیادہ شور کیا تو بھابھی خفا ہوں گی۔“

بلی کی مذکورہ بھابھی یعنی میری بہن نے کہا۔ ”امی دودھ تو پڑا ہے فریج میں۔“

سرگوشی میں بولیں: ”ہاں ہاں! میں تو ویسے ہی اسے کہہ رہی ہوں۔ ضد کرتی ہے نا پھر۔“

ایک مرتبہ بہت شدید آندھی آئی۔ درخت اکھڑ گئے، دیواریں گر گئیں۔ اس آندھی کے ساتھ اڑ کر کہیں سے بلی کے تین نومولود بچے بھی آگئے ۔ یوں لگتا تھا انہیں دنیا میں آئے ابھی چند گھنٹے ہی ہوئے تھے کیوں کہ ان کی آنکھیں ہنوز بند تھیں، منہ سے میاﺅں میاﺅں کے بجائے چوں چوں کی آواز نکلتی تھی اور ان میں ابھی ٹانگوں پر کھڑے ہونے کی سکت نہ آئی تھی۔ وہ پیٹ کے بل ہمارے پورچ میں رینگ رہے تھے۔ بہت دیر میں اور میرے بچے ان بلی کے بچوں کے گرد کھڑے انہیں دیکھتے رہے کچھ سمجھ نہ آتا تھا ان کے ساتھ کیا کریں۔ اتنے میں گیٹ کھلا اور چھوٹی بہن کی گاڑی اندر آئی۔ اس نے جو آکر بلی کے بچے دیکھے تو بولی۔ ”اگر ان کی ماں نہ آئی تو یہ تو مر جائیں گے۔ اچھا! انہیں اپنی ساس کے پاس لے جاتی ہوں۔ وہ بلیوں پر ایکسپرٹ ہیں۔ شاید کچھ بتا سکیں کہ ان کا کیا کریں۔“

یہ وہ زمانہ تھا جب دادو اپنے بڑے بیٹے کے عین جوانی میں انتقال کے بعد ڈپریشن میں جا چکی تھیں۔ Demantia ان کے دماغ میں اپنے پنجے گاڑنا شروع ہو چکا تھا۔ وہ بے حد بیمار اور صاحبِ فراش تھیں۔ کھانا پینا برائے نام رہ گیا تھا اور بستر سے اٹھ نہ سکتی تھیں۔ میری بہن بلی کے بچوں کو ایک جوتوں کے ڈبے میں ڈال کر گھر لے گئی۔ جب دادو نے ان ستم رسیدہ بن ماں کے بچوں کو دیکھا تو گویا کسی نے ان میں نئی زندگی پھونک دی۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھیں جب ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہ تھا۔ لیکن ذمہ داری صرف بوجھ نہیں ہوتی ۔ خود کو کسی کی ضرورت بنتے دیکھنا بڑا خوش کن احساس ہوتا ہے۔ اس احساس نے دادو کو بستر سے اٹھا بٹھایا۔ فوراً دودھ منگایا، روئی منگوائی اور روئی کو دودھ میں بھگو کر بلی کے بچوں کے منہ میں دودھ ٹپکایا۔ بچے اتنے چھوٹے تھے کہ یہ عمل ہر آدھے گھنٹے بعد کرنا پڑتا تھا۔ دو دن کے اندر نہ صرف بلی کے بچوں کی آنکھیں کھل گئیں بلکہ دادو کی بجھتی آنکھوں میں بھی زندگی کی جوت لوٹ آئی۔ بلی کے یہ بچے خوب پھلے پھولے اور جوان ہونے تک دادو کے پاس رہے۔

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری . گیارہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ تیرہواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!