فیصلے — نازیہ خان

پلک جھپکتے دو مہینے گزر گئے۔ جب ہمارے واپس آنے کا وقت ہوا تو عادل نے ایک رات پہلے مجھے کہا:
’’ماہا! میں اب یہاں سے جانا نہیں چاہتا، دو مہینے کیسے گزر گئے پتا ہی نہیں چلا۔ پتا نہیں تمہارے گھر والے کیسے ری ایکٹ کریں گے۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک اندیشہ تھا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، وہ فکر نہ کرے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ میں خود ڈری ہوئی تھی۔ آخر کار ہم وطن واپس آگئے۔ گھر جانے سے ایک دن پہلے میں نے اماں جان کو فون کیا۔ میری آواز سُن کر وہ بلک پڑیں اور گڑ گڑاتے ہوئے بولیں:
’’ماہا تجھے اللہ کا واسطہ ہے واپس چلی جا۔ اب اس گھر میں کبھی نہ آنا، کسی اور ملک چلی جا، چھپ جا کہیں! یہ لوگ تجھے چھوڑیں گے نہیں۔ بہت بُرا کریں گے تیرے ساتھ۔‘‘
اماں نے مجھے بتایا کہ بابا جان نے بوا کو بھی سزا دی ہے۔ اُس نے اللہ کا واسطہ دے دے کر کہا کہ اُسے کچھ معلوم نہیں، پھر بھی اُسے گاؤں سے نکال دیا گیا۔
گاؤں کے مزارعے بھی یہی بات کرتے کہ کیا اپنی بیٹی کو بھی وہی سزا دی جائے گی جو باقی عورتوں کو دی جاتی ہے۔ یہ سب باتیں میرے گھر بھی پہنچ رہی تھیں جس سے میرے بابا اور تاؤں کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
یہ سب باتیں سُن کر بھی میں نے اماں سے کہا:
’’میں ضرور آؤں گی اماں، میں بہت اُداس ہوں آپ سب کے بغیر، میں سب سے معافی مانگ لوں گی۔‘‘ میں نے روتے ہوئے اماں سے کہا تو اماں بچوں کی طرح بلکتے ہوئے بولیں:
’’ماہا! تجھے خدا کا واسطہ ہے ایسا کچھ مت کر۔ دور رہ ان سے، اتنا ظلم نہ کر خود پر کہ تو برداشت ہی نہ کر پائے۔‘‘ یہ سُن کر میں تڑپ اٹھی۔ میں نے سوچا تھا یہ لوگ تو خود مجھ سے ملنے کے لیے تڑپ رہے ہوں گے، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ میں نے عادل کو ان باتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور گھر جانے کا فیصلہ کرلیا مگر میں نے عادل کو کہا کہ وہ ساتھ نہ آئے۔ وہ اس بات پر بالکل راضی نہ ہوا لیکن میں نے اسے کسی طرح راضی کر ہی لیا۔
آخر یہ دن بھی طلوع ہونا تھا۔ جب میں گھر پہنچی تو گیٹ پر کھڑے خان بابا حیرت سے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتے رہے۔ انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے میرے سر پر ہاتھ رکھا، میں آگے بڑھ گئی۔ میں جب اندر داخل ہوئی تو سامنے اماں جان تسبیح پڑھ رہی تھیں اور تایا جان ان کے پاس ہی کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر اماں جان پر لرزہ طاری ہوگیا۔ تایا جان غصے اور حیرانی سے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ دراصل گھر کا کوئی فرد نہیں چاہتا تھا کہ میں کبھی واپس آؤں۔ اماں آگے آئیں، میرے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارا اور روتے ہوئے کہنے لگیں:




’’کیوں آئی ہے یہاں؟ واپس چلی جا یہاں سے، اب تیرا اس گھر سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ یہ شور سُن کر بابا اپنے کمرے سے باہر نکل آئے۔ میں نے خوشی سے اُن کی طرف دیکھا اور روتے ہوئے اُن کی طرف بھاگی۔ میں بابا جان کے پاس پہنچی تو انہوں نے اپنا ہاتھ آگے کرکے مجھے گلے لگنے سے روک دیا۔ وہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتے رہے۔ ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں گویا مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ میں نے یہ سب کیوں کیا اور اگر کر ہی لیا تھا تو واپس کیوں آئی۔ وہ کچھ دیر یونہی بت بنے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر شکست خوردہ سے باہر نکل گئے۔ مجھے بازو سے پکڑ کر ایک کمرے میں بند کردیا گیا۔ میں حیران و پریشان کمرے میں بیٹھی چیختی رہی مگر کسی نے میری آہ و بکا نہ سُنی۔
یہ جو کچھ ہورہا تھا، میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ میرے موبائل سے عادل کا نمبر نکال کر اسے فون کرکے فوراً مجھے طلاق دینے کے لیے کہاگیا اور اس کے انکار پر اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ عادل بہت نڈر انسان تھا اور سب سے بڑھ کر وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، وہ میرے لیے حویلی تک پہنچ گیا۔ میرے بھائیوں اور کزنز نے اُسے بہت مارا۔ میں کھڑکی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ میں چیختی رہی مگر وہ لوگ اُسے مسلسل مارتے رہے۔ کچھ دیر بعد وہ بے ہوش ہوگیا اور اُسے گاڑی میں لے جا کر کہیں پھینک دیا گیا۔ میں روتی رہی مگر کسی نے میری کوئی بات نہ سنی۔
آج اپنے آپ کو اس حال میں دیکھ کر میں بہت حیران تھی۔ یہ وہ گھر تھا جہاں میری ایک آواز پر دس دس لوگ آیا کرتے تھے۔ آج وہی گھر میرے لیے قید خانہ بن گیا تھا۔
عادل نے قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے میرے گھر والوں کے خلاف مجھے حبسِ بے جا میں رکھنے کا مقدمہ درج کرا دیا۔ جب سب کواُس کے بارے میں پتا چلا تو وہ اور بھی غصے میں آگئے۔ عادل کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کے اس عمل نے جلتی پر تیلی کا کام کیا تھا۔ وہ جن کے خلاف لڑنا چاہتا تھا، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ کچھ دنوں بعد ایک معذور اور پاگل انسان گھر لایا گیا جسے دیکھ ہی اس سے خوف آتا تھا۔ مجھے بتایا گیا اب میری شادی اس سے ہوگی۔ جو چیز میں نے محض سُن رکھی تھی، آج اس کا اطلاق مجھ پر کیا جارہا تھا، اپنے گھر کی بیٹی پر، اپنے لختِ جگر پر۔ میں نے بابا جان کے پاؤں پکڑ لیے۔ بابا جان آنکھوں میں آنسو لیے کھڑے رہے لیکن کچھ نہیں بولے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یہ فیصلہ سنا چکے تھے۔
رات کو اُس کمرے کا دروازہ کھلا جس میں مجھے رکھا گیا تھا۔ میں ایک بار پھر کانپ اُٹھی کہ ایک اور عذاب شاید اب مجھ پر مسلط ہو، لیکن آنے والا شخص کوئی اور نہیں، میری اپنی ماں تھی۔ میں نے بھاگ کر اماں جان کے پاؤں پکڑ لیے۔ میں ان سے رحم کی فریاد کررہی تھی کہ اماں عجلت میں بولیں:
’’بھاگ جا بیٹی! بھاگ جا یہاں سے، اور آئندہ کبھی یہاں واپس نہ آنا۔‘‘ انہوں نے یہ جملہ ہچکیاں بھرتے ہوئے کہا تھا۔
میں روتے ہوئے اماں کا منہ تکتی رہی۔ میں نے کبھی اس عورت کی کسی بات کو غور سے سنا ہی نہیں تھا کیوں کہ مجھے باقی لوگوں کی محبت پر بہت مان تھا۔ اس دن میں اماں کو گلے لگا کر بہت روئی کہ آج کے بعد میں دوبارہ یہ چہرہ نہیں دیکھ سکوں گی۔ مامتا کا یہ لمس محسوس نہیں کر سکوں گی۔پھر اماں نے ایک پوٹلی جس میں کچھ روپے اور کچھ اور سامان تھا، میرے ہاتھ پر رکھا اور میں وہاں سے بھاگ کر کسی نہ کسی طرح عادل تک پہنچ گئی۔
اب ہمارا یہاں رہنا کسی صورت ممکن نہیں رہا تھا۔ ہمارے زندہ رہنے کی آخری امید یہی تھی کہ ہم کسی طرح اس ملک سے نکل جائیں۔صبح ہونے پر عادل اسی سلسلے میں باہر گیا تھا کہ میرے کزن اور بھائی گھر میں داخل ہوگئے۔ پتا نہیں انہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہم یہاں رہ رہے ہیں۔ جب میں نے اُن کی آواز سُنی تو میں چھپ گئی۔ وہ مجھے تلاش کررہے تھے اور میں دعائیں کررہی تھی کہ یا اللہ! ابھی عادل واپس نہ آئے۔
وہ پورے گھر کی تلاشی لے رہے تھے کہ باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اُس آواز کے ساتھ ہی میری جان نکل گئی کیوں کہ عادل بھی گھر میں داخل ہوگیا تھا۔ ان لوگوں نے عادل کو پکڑ لیا، میرے ہوش و حواس میرا ساتھ چھوڑنے لگے تھے۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب وہ لوگ عادل کو مار کر وہیں پھینک گئے تھے۔
کچھ دیر بعد جب خاموشی ہوئی تو میں ڈرتے ڈرتے کمرے سے نکلی۔ صحن میں جا کر دیکھا کہ عادل گرا پڑا تھا۔ میں اُس کی طرف بھاگی، وہ سانس لے رہا تھا، وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہیں پارہا تھا۔ آخر جس نے مجھے جینا سکھایا تھا، وہ میرے ہی ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔
میرے حواس معطل ہوچکے تھے، پاؤں سے زمین نکلنا اور سر پر آسمان ٹوٹنا کسے کہتے ہیں، مجھے آج سمجھ آرہا تھا میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکی تھی۔ میں کتنی دیر وہاں بیٹھی رہی اور پھر کیسے ایک سرکاری ہسپتال تک پہنچی، مجھے نہیں معلوم۔ میری بے ہوشی کے دوران ہی ہسپتال انتظامیہ نے عادل کے کفن دفن کا بندوبست کیا تھا۔ عادل کے مرنے کے بعد بھی میرے گھر والے مجھے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے میں ہسپتال بھاگ گئی۔ سڑکوں پر بے یارو مددگار چھپتی چھپاتی ایک دربار پر جا پہنچی اور وہیں کی ہوکر رہ گئی۔کیوں کہ سکون تو اب مجھے ساری زندگی ہی نہیں آنا تھا، لیکن شاید یہاں ہی میں اس کی محبت پا لوں جس کے بعد ان بے رحم دنیا والوں سے سروکار نہیں رہتا۔
میں نے دنیا والوں کی بے پناہ محبتیں دیکھی تھیں، پھر خدا کی محبت دیکھنے لگی۔ دن رات دربار میں بیٹھ کر اللہ پاک کی عبادت کرتی رہتی اور اپنے ناکردہ گناہ پر روتی رہتی۔ اب لوگ مجھے ’’اللہ والی‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ لوگوں نے میرے بارے میں جاننے کی کافی کوشش کی ،لیکن میری خاموش نے ان سب کو بھی چپ کروا دیا تھا۔
تین سال بعد میری امی اور پھوپھو وہاں دربار پر آئیں تو انہیں دیکھ کر ماضی کی تلخ یادیں آنکھوں کے سامنے گھوم گئیں۔میرے سامنے سے گزرتے ہوئے شاید میرے بدلے حلیے کی وجہ سے وہ مجھے پہچان نہیں پائی تھیں، مگر مجھے نہ جانے کیوں لگا کہ اماں جان کی نظریں مجھ پر کچھ دیر کے لیے ٹکی تھیں۔
میں جانتی ہوں اب مزید میں زندہ نہیں رہ پاؤں گی، مگر میرے مرنے کے بعد سب لوگ جان جائیں گے کہ آخر یہ اللہ والی تھی کون۔
میں نے اپنی زندگی سے ایک ہی بات سیکھی ہے کہ جو لوگ دوسروں کے گناہوں کا فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں، پھر ناچاہتے ہوئے بھی انہیں اپنے ان جانے میں کیے گئے گناہوں کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا پڑتا ہے۔
میرا خاندان دوسروں کے گناہوں کا فیصلہ کرتا تھا۔ پھر ناچاہتے ہوئے بھی انہیں اپنی لاڈلی بے گناہ بیٹی کا فیصلہ بھی خود کرنا پڑا۔ لوگ پتا نہیں کیوں نہیں سمجھتے کہ بے شک فیصلہ کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کارآمد — عریشہ سہیل

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!