یہ سُن کر دادی جان نے بابا کو ڈانٹا اور کہا:
’’وہ پڑھنا چاہتی ہے اور ضد کررہی ہے تو پڑھنے دو، کیا ہوگیا اگر وہاں لڑکے ہیں تو؟‘‘ یہ سن کر بابا اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ گھر میں دوچار دن اسی بات پر بحث ہوتی رہی کہ مجھے یونی ورسٹی بھیجا جائے یا نہیں۔ اماں اور پھوپھو جان بھی یہی چاہتی تھیں کہ مجھے یونی ورسٹی نہ بھیجا جائے کیوں کہ وہ دونوں میری آزاد خیالی اور بچپنے سے بہت ڈرتی تھیں۔
سب لوگ اس معاملے میں کافی سنجیدہ تھے، مگر مجھے ذرا بھی پروا نہ تھی کیوں کہ میں جانتی تھی کہ میری بات ہر صورت مانی جائے گی۔
کافی سوچ و بچار اور دادی جان کی سفارش کے بعد مجھے یونی ورسٹی بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اماں جان اس فیصلے سے ناخوش تھیں کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ مجھے اس گھر کے اصولوں کا بالکل اندازہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے کئی بار بابا اور دادی جان سے کہا کہ ماہا کو یونی ورسٹی بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مگر اُن کی بات نہ مانی گئی۔ پھوپھو نے بھی انہیں سمجھایا کہ ماہا کو اُس ماحول میں نہیں جانا چاہیے، لیکن دادی جان کے سامنے کسی کی نہ چلتی۔ آخر کار میرا یونی ورسٹی میں ایڈمیشن کروا دیا گیا اور میں ہاسٹل میں رہنے لگی۔
یہاں زندگی بہت مختلف تھی۔ میں نے کبھی اپنا کوئی کام خود نہیں کیا تھا، مگر یہاں آکر سب کچھ خود کرنا پڑ رہا تھا۔ دو ہفتے بعد جب بابا جان مجھ سے ملنے آئے تو وہ گھر میں کام کرنے والی بواکو بھی ساتھ لے آئے کہ وہ یہاں رہ کر میری دیکھ بھال کرے۔
میں یہاں آئی اور نئے نئے لوگوں سے ملی تو نئی دوستیاں ہونے لگیں۔ یہاں پر بھی لڑکیاں مجھے رشک بھری نگاہوں سے دیکھتیں کیوں کہ میں سب لڑکیوں میں کچھ الگ ہی دکھتی تھی۔ جو آسائشیں لوگوں کو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھی نہیں ملتیں، وہ ابھی سے میرے پاس تھیں۔ زندگی اتنی خوب صورت تھی کہ شاید الفاظ ختم ہو جائیں اور میں بیان نہ کر پاؤں۔ یہاں ڈھیر ساری شاپنگ کرنا، دوستوں کے ساتھ گھومنا اور موج مستی کرنا، بس اسی طرح یونی ورسٹی کا ایک سال گزر گیا۔ لڑکوں کے ساتھ میرا کوئی زیادہ تعلق نہ تھا، مگر میری کلاس کا ہی لڑکا جس کا نام عادل تھا، اُس کے بارے میں، میں نے اپنی دوست سے سُن رکھا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے اور مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔
وہ کافی وجیہہلڑکا تھا اور اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ دن گزرتے گئے اور ہم لوگ ایک دوسرے کے کافی اچھے دوست بن گئے۔ ہم دونوں کے علاوہ شاید سب کو معلوم تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ وہ فطرتاً بہت اچھا لڑکا تھا۔ اُس نے کبھی مجھ سے غلط بات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی فلرٹ کرنے کی۔ بس اُس کی انہی عادتوں کی وجہ سے وہ مجھے اچھا لگنے لگا۔ میں روز اُس کے انتظار میں جلدی یونی ورسٹی چلی جاتی۔ میں چاہتی تھی کہ عادل خود مجھ سے شادی کی بات کرے، مگر تین سال گزر گئے اور اُس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ میں جب بھی گھر جاتی، اماں اور پھوپھو جان بس میرے رشتے کی بات کرتے۔ مجھے بہت بُرا لگتا کیوں کہ میں چاہتی تھی یہ فیصلہ میں خود کروں۔ جب یونی ورسٹی ختم ہونے میں دو مہینے باقی رہ گئے تھے تو عادل نے مجھے بتایا کہ اُس نے کافی دیر پہلے ہی اپنے پاپا اور ماما کو میرے بارے میں بتادیا ہے اور وہ لوگ اس رشتے سے راضی ہیں۔ یہ سب بتانے سے پہلے عادل نے مجھ سے پوچھا:
’’کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘
میں اُس کی بات سُن کر شرما گئی اور کچھ بول نہ سکی۔ اُسے شاید میری رضامندی سمجھ آگئی تھی۔
اُس کے والدین نیویارک شفٹ ہوچکے تھے۔ عادل نے مجھے بتایا کہ اُس کے والدین چاہتے ہیں کہ شادی کرکے ہم بھی وہاں شفٹ ہو جائیں۔
یہ سب کچھ سُن کر میں بہت خوش ہوئی۔ مجھے بہت بے صبری سے انتظار تھا کہ کب میں گھر جا کر دادی اور بابا جان سے اس بارے میں بات کروں۔ ایک دن اماں جان کی کال آئی اور انہوں نے بتایا کہ بابا جان کے ایک بہت اچھے دوست کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے جو کہ ڈاکٹر ہے اور بابا جان نے انہیں ہاں کردی ہے۔ میں نے اماں جان کو فون پر ہی بتایا کہ میں ایسے شادی نہیں کروں گی جس میں میری مرضی شامل نہ ہو۔ انہوں نے مجھے ڈانٹ کر خاموش کروادیا۔میرا دل بیٹھ گیا۔ میں نے یہ سب عادل کو بتایا تو اُس نے مجھے گھر جا کر اس بارے میں بات کرنے کے لیے کہا۔
میں گھر گئی تو وہاں جشن کا سماں تھا۔ سب لوگ بہت خوش تھے اور مجھے بہت پیار کررہے تھے۔ میں حیرانی سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ کوئی میری بات نہیں سُن رہا تھا اور پھر جب مجھے پتا چلا کہ میری منگنی کی تیاریاں ہورہی ہیں تو میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ غصے میں آکر میں نے اماں جان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ایک طرف لے جا کر ساری بات بتا دی۔ ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اماں نے میری طرف قہر آلود نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا:
’’بکواس بند کرو اپنی! اور اب اپنے منہ سے اس طرح کی کوئی بات مت نکالنا۔ تم نے آج تک اپنے گھر والوں کا پیار دیکھا ہے اور وہ بھی بے انتہا دیکھا ہے۔ سنو اپنی ماں کی بات یاد رکھنا، ان کا غصہ مت دیکھنا، وہ بہت غضب ناک ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر اماں نے بڑی تلخی سے بازو جھڑکا اور باہر چلی گئیں۔ میں کافی دیر اُن کے الفاظ پر غور کرتی رہی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ دو دن بات کرنے کی ناکام کوشش کے بعد میں ہوسٹل واپس آگئی۔
اگلے دن میں نے یہ ساری صورتِ حال عادل کو بتائی تو اُس نے مجھے ایک بار پھر گھر والوں کو قائل کرنے کے لیے کہا۔ مجھے اماں جان کی باتوں سے یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ بابا جان ابھی تو میری کوئی بات نہیں سنیں گے،لہٰذا میں نے بہت سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ میں اور عادل چھپ کر نکاح کرلیں۔ پھر اماں اور بابا جان کو میری بات ماننا پڑے گی۔ اگر بابا جان غصہ کریں گے بھی تو دادی سے سفارش کروا لوں گی۔ میں نے عادل سے یہ بات کی تو وہ غصے اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت سے بولا:
’’ماہا! یہ سب غلط ہے۔ میں تم سے اس طرح شادی نہیں کرناچاہتا۔‘‘ میں تمہیں پوری عزت اور تکریم سے، دنیا والوں کے سامنے اپنا بنانا چاہتا ہوں۔ میں عادل کی یہ بات سُن کر کچھ پریشان ہوئی، لیکن میرے دل میں اس کی عزت اور محبت اور بڑھ گئی۔ میں نے فون پر بھی کئی بار اماں کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اماں ہر بار انہی اندیشوں کا اظہار کرکے مجھے باز رہنے کی تاکید کرتیں جو انہوں نے پہلی بار کیے تھے۔ میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ میں نے عادل کو بھی کئی بار سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار مجھے یہی کہتا کہ وہ پوری دنیا کے سامنے اور میرے گھر والوں کی مرضی سے ہی مجھے اپنائے گا۔ ایک دن جب ہم دونوں یونی ورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے تھے، میں نے عادل سے کہا:
’’عادل میں بچپن ہی سے چاہتی تھی کہ میرا دلہا ایک بہت بڑی اور خوب صورت سی گاڑی میں آئے اور میں لہنگا پہنے بھاگتی ہوئی اُس کے ساتھ بیٹھ جاؤں۔ لوگ ہمارے پیچھے ہمیں پکڑنے کے لیے بھاگیں مگر ہم کسی کے ہاتھ نہ آئیں اور دور کسی خوب صورت جگہ پر چلے جائیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں ہنسنے لگی۔ عادل جوکہ پہلے ہی پریشانی کے عالم میں کسی سوچ میں گم بیٹھا تھا، میری بات سُن کر چڑ گیا اور غصے سے بولا:
’’بڑی ہو جاؤ ماہا! ایسی باتیں صرف خیالوں میں اچھی لگتی ہیں۔‘‘ اس کا ڈانٹنا بھی شاید مجھے اچھا لگتا تھا۔ میں چپ ہوگئی تو وہ ذرا مدھم سی آواز میں بولا:
’’ماہا! میرے والدین تو راضی ہیں اور انہیں میرے کسی فیصلے پر اعتراض نہیں، مگر تمہاری فیملی کا ردِعمل کیا ہوگا اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی ان خواہشوں کو پورا کرتے کرتے کچھ غلط کر بیٹھو۔‘‘میں اُس وقت عادل کا موڈ دیکھ کر چپ ہوگئی لیکن میں جانتی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں، ورنہ دوسری صورت ہمیں ایک دوسرے کے خواب دیکھنا چھوڑنا پڑیں گے۔ جب یہ بات میں نے عادل سے کی تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔چار و ناچار اسے میری بات ماننی ہی پڑی۔ میں خوشی سے چھلانگیں مارنے لگی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم نکاح کرکے کچھ عرصہ باہر کسی ملک میں گزاریں گے اور اس کے بعد میں اپنی فیملی سے معافی مانگ لوں گی۔
میری دیکھ بھال کے لیے آئی بوا، اماں کے کہنے پر میری ہر بات کی رپورٹ ان کو دیتی تھی۔ اس لیے مجھے ہر بات اُن سے بھی چھپانی پڑتی۔ پیپرز ختم ہونے کے اگلے دن مجھے گھر جانا تھا مگر میں نے تین دن پہلے ہی اپنا بیگ پیک کرلیا۔ اس پر بوا کے سوال جواب شروع ہوگئے لیکن میں نے بوا کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ میری ایک دوست کو میرے کپڑے چاہئیں اور میں بیگ اس کے لیے پیک کررہی ہوں۔ شاید وہ میرے جواب پر مطمئن نہیں ہوئی تھیں لیکن چپ چاپ وہ وہاں سے چلی گئیں۔
اگلے دن ہمارا نکاح تھا جس میں صرف عادل کے کچھ دوست شامل تھے۔ گھر جانے سے ایک دن پہلے میری اور عادل کی فلائٹ تھی۔ بوا شاید بھانپ گئی تھیں کہ میں کیا کرنے والی ہوں اسی لیے وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے آئیں اور گڑ گڑا کر کہنے لگیں:
’’دیکھ بیٹا! تیرا گھرانا عورتوں کے بارے میں بہت سخت مزاج ہے۔ کچھ ایسا مت کر کہ اُن کی عزت کو داغ لگے ورنہ تو اور تیرا خاندان تباہ ہو جائے گا۔‘‘ میں نے مُسکرا کر بوا سے کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں، میں ایسا کچھ نہیں کرنے لگی۔ وہ کچھ دیر اور مجھے سمجھاتی بجھاتی رہیں، پھر وہاں سے چلی گئیں۔
بابا جان کے آنے سے ایک دن پہلے میں اور عادل دو مہینے کے لیے پیرس چلے گئے۔ وہ دو مہینے میری زندگی کے خوب صورت ترین دن تھے۔ ہم نے وہاں ایک شان دار ہوٹل بُک کروایا۔ ان دو مہینوں میں ہی شاید زندگی تھی۔ الفاظ ختم ہو جائیں مگر ان دو مہینوں کی خوشی اور سرشاری بیان نہ ہو پائے۔ شاید وہ کوئی خواب تھا، ایک بہت ہی حسین خواب!
یہاں میں اپنی خوشیوں میں مگن تھیلیکن دوسری طرف میرے گھر میں قیامت برپا ہوچکیتھی۔ دوسروں کی بہو بیٹیوں کو سزا سنانے والوں کی آج اپنی بیٹی اپنے گھر والوں کی رائج کردہ فرسودہ روایت کو روند کر بھاگ چکی تھی۔ انہوں نے مجھے بہت ڈھونڈا مگر میں کہاں ملتی۔ دادی جان ہسپتال میں ایڈمٹ ہوچکی تھیں۔ اماں اور پھوپھو کا رو رو کر بُرا حال تھا۔ وہ دونوں بس یہ دعائیں مانگ رہی تھیں کہ میں کبھی نہ ملوں۔ بابا جان بالکل خاموش ہوچکے تھے، نہ کچھ سنتے اور نہ بولتے۔ میرے کزن اور بھائی ہر جگہ مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔