فتور – ماہ وش عدیل کرمانی

”جو باتیں محلے والوں سے سُن رکھی ہے میں نے ان کی باتوں کو یقین میں بدل دوگی؟”
”جو کرنا ہے کر لو میں نے بھی دیکھ لوں گا۔”
وہ زہر اگلتا ہوا باہر چلا گیا اور شبو وہیں زمین پر ڈھیر ہو گئی اور اپنے اندر انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی سعی ناکام کرنے لگی۔
ایک ہفتے تک تو اس نے ناکام محبت کا سوگ منایا اوپر سے جو آگ سلیم نے لگائی تھی آئے دن اسے ہوا دینے کا کام اس کی بہن فوزیہ کرتی تھی۔ اپنی اور بھائی شہزادہ سلیم کی شادی کی تیاریاں وہ شبو کے ساتھ مل کر کرنا چاہتی تھی مگر شبو انارکلی بنی نہ جانے کس دیوار کے پیچھے چھپ گئی تھی۔ رشید کی شادی بھی ایک ماہ بعد رکھی گئی تھی۔ گویا ادھر سلیم اور فوزیہ کی شادی کا ہنگامہ تھا تو ادھر رشید کے گھر میں شادی کے شادیانے بجنے لگے اور پھر اسی دوران شبانہ نے فیصلہ کیا کہ آخر کب تک اپنا خون جلائے گی، وقت سے سمجھوتہ کرنا ہی ہوگا۔ رشید کی شادی کے لئے ساری تیاری اس نے گلی کے کونے والی افشاں کے ساتھ مل کر کرنے کا سوچا۔ افشاں کا بھائی رکشہ چلاتا تھا اور اب دونوں کو آئے روز شاپنگ کروانے وہی لے جاتا تھا، تو اس طرح شبو کی بچت ہو گئی اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ کنوارہ تھا، یہاں شبانہ کو اپنی دال گلتی نظر آئی۔
وہ ایک مہینہ شادی کی خوشی اور افرا تفری کے باوجود بڑا مشکل ثابت ہوا۔ ماجدہ بیگم کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دے دیا۔ اب تو شبانہ کو ساری تیاریاں بھی کرنی تھیں اور گھر بھی سنبھالنا تھا۔
ماں کی تیمارداری بھی کرنی تھی کہ اگر وہ مر گئی تو رشید کی شادی کا جو ہوگا، سو ہوگا مگر اس کی اپنی شادی جو اب افشاں کے بھائی سے ہونے کا خدشہ تھا، کون کروائے گا۔ بھائی تو پہلے ہی بے قرار تھا اور اب تو اس کے لچھن ظاہر کر رہے تھے کہ شادی کے بعد وہ بیوی کی جی حضوری میں لگا رہے گا اور ہوا بھی کچھ یوں ہی، شبانہ تو یہ دعائیں کرتی رہی تھی کہ جلد سے جلد رشید کی دلہن زرینہ اس گھر میں آئے اور اپنے میاں سمیت یہ گھر سنبھالے۔ شبانہ نے تو تیس سالوں میں اتنا کام نہیں کیا تھا جتنا ان تیس دنوں میں کرنا پڑ گیا تھا۔ ویسے یہ دن بھی گزر جائیں گے، پھر زرینہ کی چوٹی ہوگی اور میرا ہاتھ، اس نے ہاتھ دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
”اماں تم پہلے دن سے ہی زرینہ کی رسی میرے ہاتھ میں دے دینا ورنہ تم سے تو کوئی توقع نہیں ہے کہ اپنی بہو کو قابو کر سکو۔” وہ اپنی اولاد کو قابو نہ کر سکیں پرائی لڑکی سے کیا امید رکھتیں۔
شادی میں دو دن باقی تھے گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ شام کو مایوں ہونا تھی۔ ماجدہ بیگم صبح سے ابٹن کی تیاریوں میں لگی تھیں اور شبانہ پاس بیٹھی انہیں ہدایت دے رہی تھی، دوسرے لفظوں میں آنے والی کے خلاف سازشی مہم میں مصروف تھی۔ اپنی اماں کی طبیعت سنبھلنے سے شبانہ اب مطمئن تھی۔ وہ اتنے دن تک بستر پر لگی رہی تھیں مگر بہر حال اب چلنے پھرنے لگی تھیں، اور زرینہ کے خلاف شبانہ کی زبان بھی۔
شادی متوقع طور پر بڑے شور شرابے سے شروع ہوئی اور پھر دو۔ چار دن تھکاوٹ اتارنے میں گزرے اور اب دلہن والوں کی طرف سے دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ رشید کے خاندان میں تو خیر سے کسی نے ان سب چونچلوں کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی تھی لیکن زرینہ اپنے خاندان بھر کی لاڈلی تھی۔ یہ بات تو یہاں سب کو اچھی طرح بتا اور جتا دی گئی تھی یہی وجہ تھی کے سسرال آنے کے ایک مہینے بعد بھی ان کے ہاتھوں پیروں کی مہندی لگی ہی رہتی تھی۔ اسی لئے آج مہینہ گزر جانے پر شبانہ نے اپنی پیاری بھابھی زرینہ کے سارے کس بل نکالنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
”بھابھی کل تمہیں کھیر میں ہاتھ لگانا ہے ذرا جلدی اٹھ جانا۔”
زرینہ کے کمرے کا دروازہ رشید کے اس دروازے کے ذریعے آمدورفت کے علاوہ کم ہی کھلتا تھا۔ آج دوپہر کے کھانے کے بعد زرینہ دوبارہ اپنے بل میں گھسنے لگی تھی کہ شبانہ نے پہلی بار اسے باورچی خانے میں حاضری دینے کی خوشخبری سنائی مگر وہ شبانہ اور اس آرڈر یا اطلاع کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
ہر روز تو صبح ہونے کی نوبت آتی بھی اور گزر بھی جاتی مگر وہ شاہ زادی بارہ بجے سے پہلے نہ آنکھ کھولتی تھی نہ دروازہ۔ دس بجے رشید کو ناشتہ اب تک اماں ہی دیتی تھیں۔
اگلے دن اماں دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھیں جب زرینہ کچن میں چلی آئی اماں نے طمانیت بھرے چہرے سے اسے دیکھا۔
”اماں میں کھیر بناؤں؟” وہ محبت سے کہے گئے اس جملے کو سننے کی منتظر تھیں مگر زرینہ بغیر کچھ کہے اپنے لئے ناشتہ نکالنے لگی۔
”اماں آپ کھیر بنا لیں تو مجھے بلا لینا میں ہاتھ لگا دوں گی۔” یہ کہتی ہوئی ٹرے لے کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اماں سوچتی رہ گئی کہیں یہ مذاق تو نہیں کر گئی۔ دوپہر کے کھانے کے لئے زرینہ کو یوں بلایا گیا جیسے کوئی جیلر جیل میں قیدی کو کھانا کھلانے کے لئے بلاتا ہے۔ وہ دونوں مستقل شعلہ بار نظروں سے زرینہ کو دیکھتی جا رہی تھیں مگر زرینہ سب کچھ نظر انداز کر کے کھانے میں مصروف ہو گئی تھی۔
”بھابھی اپنے ہاتھ کا کھانا کب کھلا رہی ہو۔ آخر کو اب تو یہ گھر تمہیں ہی سنبھالنا ہے۔” شبانہ اپنے مخصوص انداز میں اس سے مخاطب ہوئی۔
”مجھے یہ گھر سنبھالنا ہے؟” زرینہ کا بناوٹی حیرت زدہ چہرہ اسے آگ لگا گیا۔
”ہاں اب یہ تمہارا ہی گھر ہے۔” شبانہ نے غصہ دبا کر میٹھی بننے کی اداکاری کی۔
”کیوں آپ دونوں کہیں جا رہی ہیں کیا؟”
زرینہ نے باری باری دونوں ماں بیٹی کو دیکھا۔ ان دونوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ شبانہ نے پہلو بدلا مگر چپ رہی۔
”نہیں تو۔” زرینہ کے لہجے میں دبی ہوئی خوشی دیکھ کر حکمرانی جھاڑتے ہوئے اماں نے پہلی بار مذاکرات میں شرکت کی۔
”تو پھر کیا مسئلہ ہے؟ رہی بات گھر سنبھالنے کی تو آپ یہ کام بہتر طریقے سے کر سکتی ہیں۔ اماں آپ کے ہاتھوں میں تو ذائقہ کتنا ہے۔” زرینہ نے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے چاپلوسی کی۔
”بلکہ یہ تو مجھے کہہ رہے تھے کہ انہیں آپ کے ہاتھ کا کھانا کھانے کی عادت ہے خوشامدی لہجے والی اس بھیگی بلی کی بات سُن کر شبانہ نے اسے بری طرح گھورا اور اس سے پہلے کہ اسے کچھ کہتی، زرینہ خود ہی اس کی طرف متوجہ ہوئی: شبو باجی تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میرے ہاتھ کا کھانا کھانے کے لئے سالوں سے بھوکی بیٹھی ہو؟”
شبانہ نے اس کی بات پر کچھ بولنے کے لئے منہ کھولنا چاہا تھا کہ زرینہ سانس بحال کرنے کے بعد دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔
”کوئی جنجال پورہ تو ہے نہیں یہ گھر؟ نہ پہاڑ جیسا کوئی کام ہوتا ہے یہاں؟”
اب یہ تو کوئی شبانہ سے پوچھے زرا سا کام بھی اسے جوئے شیر لانے کے مترادف لگتا ہے بلکہ گھر کے کاموں کا ڈھیر تو اسے اہرامِ مصر لگتے تھے جسے سر کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ گزشتہ دو ماہ جیسے اس نے کولہو کے بیل کی طرح کام کیا ہے یہ تو خدا جانتا ہے یا پھر افشاں کا بھائی کیوںکہ پچھلے دنوں گھر سنبھالنے کے چکر میں اس سے مستقل رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔
”سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے کھانا بنانا آتا ہی نہیں۔ اس قدر عذاب میں جان جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ کیا بتاؤں؟” زرینہ نے نا گواری سے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”کہہ تو ایسے رہی ہے جیسے ملکہ سے کھانا بنانے کے لئے نہیں گٹر صاف کرنے کے لئے کہا ہے۔” شبو بڑبڑائی۔
”میں گھر سنبھال لوں گی تو آخر تمہارے بھائی جان کو کون سنبھالے گا۔” وہ درشتی سے کہی گئی اپنی بات پر خود ہی تھوڑا سا خجل ہوئی تھی ۔
”میرے آنے سے پہلے جس طرح یہ گھر چلتا تھا چلائیں۔ میں جس کام کے لئے لائی گئی ہوں وہی کروں گی۔” وہ اٹھلاتی ہوئی کھڑی ہوئی اور ہاتھ دھو کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اس دندان شکن جواب پر اماں شبانہ کو اور شبانہ اماں کو یوں دیکھ رہی تھی گویا پتھر کی ہو گئی ہوں۔
اماں کا غم سے اور شبانہ کا غصے سے برا حال دیکھنے والا کوئی نہ تھا اور ان کا رشید بھی بیوی کی زلف گرہ گیر کا دائمی اسیر ہو چکا تھا۔ شبانہ کا اپنے مسقبل میں سسرال والوں کے لئے حفظِ ما تقدم کے طور پر بنایا ہوا خیالی خاکہ ایک عملی نمونہ بن کر سامنے آیا تو اسے اپنی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی پر یقین نہ آیا مگر کم سے کم اسے اتنا یقین تو ضرور ہو گیا تھا کہ جو کچھ وہ آج تک متوقع سسرالیوں کے خلاف سوچتی رہی ہے وہ صرف غلطی نہیں بلکہ مکافات عمل کے طور پر سامنے بھی آسکتا ہے۔
لیکن پھر بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرنے سے پہلے صرف سوچنے پر اس کی سزا ملنا؟
شبانہ سوچ میں پڑ گئی اور اگلے ہی لمحے سوچوں کے در اس پر وا ہوئے تھے کہ یہ سزا نہیں یہ تو غلط سوچ پر عمل نہ کرنے کی صحیح آگاہی ہے کہ اگر خود کو نہ سنبھالا تو سزا سخت بھی ہو سکتی ہے۔

Loading

Read Previous

باز – فریال سید

Read Next

پراڈکٹ – نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!