عمارت اور اس سے ملحقہ لانز کی زبوں حالی کی اگر ایک وجہ اس میں رہائش پذیر آفیسر کی اس کی تزئین و آرائش میں عدم دلچسپی تھی تو دوسری وجہ دیکھ بھال کے لیے مناسب فنڈز کی عدم دستیابی بھی تھی۔ اتنی بڑی عمارت کا انتظام و انصرام کسی کے لیے بھی خالہ جی کا گھر نہیں تھا خاص طور پر ایک ایمان دار آفیسر کے لیے اور وہ بھی ایسا آفیسر جو خاندانی اعتبار سے بھی خاصا سفید پوش ہو… سرکاری خزانے کو ایک خاص حد تک اور بجٹ سے زیادہ ڈی سی ہاؤس پر خرچ کرنے کے لیے جس جرأت و چالاکی اور ہاتھ کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ شیر دل کے پیش رومیں نہیں تھی، شیر دل میں تھی۔ اس لیے عمارت اور اس کے لانز کے ساتھ ساتھ سرونٹ کوارٹرز کی حالت بھی دنوں میں بدلی تھی۔ شیر دل ہارڈ ٹاسک ماسٹر تھا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ Workaholicبھی … دوسرے آفیسرز کی طرح وہ صرف عمارت کے اس حصے تک خود کو محدود نہیں رکھتا تھا جو اس کی رہائش گاہ تھی۔ وہ کسی بھی وقت عمارت کے کسی بھی حصے میں پہنچ جاتا اور اس کی اس عادت نے جہاں عملے کو بے حد مستعد اور پریشان رکھا تھا وہاں دوسری طرف ڈی سی ہاؤس کے دن واقعی پھر گئے تھے۔ سرونٹ کوارٹرز میں تقریباً پندرہ سالوں بعد بڑے پیمانے پر مرمت کا کام ہوا تھا۔ ڈی سی کی اپنی رہائش توخیر ہر سال ہی Renovate ہوتی تھی۔ شیر دل اپنے ماتحت عملے کے حوالے سے خاصا فیاضانہ رویہ رکھتا تھا اور وہ جہاں بھی پوسٹڈ رہا تھا اس نے اس معاملے میں اپنے لیے خاصی پسندیدگی اور نیک نامی کمائی تھی۔ جب تک سرونٹ کوارٹر میں کام ہوتا رہا وہ تقریباً ہر روز آفس جانے سے پہلے یا واپس آنے کے بعد پیچھے کا ایک چکر ضرور لگا کر آتا۔ عمارت کے عقب میں وہ تمام پھل دار درخت کاٹ دیئے گئے تھے جو اب اپنی مدت پوری کر چکے تھے اور بہار کے موسم میں کچھ نئے پودوں کی قلمیں بھی لگائی گئی تھیں۔ صرف سرونٹ کوارٹرز اور عمارت کی ہی کایا کلپ نہیں ہوئی، لانز کی شکل صورت بھی بدل گئی تھی۔ چند مہینے پہلے بہار کے موسم میں لگائے ہوئے بیجوں کی پنیری اب ہر جگہ کو سر سبز اور رنگین کئے ہوئے تھی۔ گرمیوں کا موسم آ جانے کے باوجود لان میں پھولوں کی ایک بڑی تعداد مختلف کیاریوں میں نہ کسی نہ کسی حالت میں تھی۔ بہت سارے نئے دیسی اور بدیسی پودوں اور پھولوں کا اس ڈی سی ہاؤس میں اضافہ ہو گیا تھا اور ٹینس کورٹ ایک بار پھر ”معرض و جود ” میں آ گیا اور تمام تبدیلیوں میں شیر دل کے ساتھ شہر بانو کا بھی کلیدی کردار تھا۔ Horticulture اس کا سبجیکٹ نہیں تھا لیکن اسے اس میں دلچسپی تھی۔
وہ اب تک جہاں بھی پوسٹڈ رہے تھے شہر بانو گھر کی Renovationضرور کرتی تھی اور جب تک اس کی Renovation ختم ہوتی ان کی اگلی پوسٹنگ کے آرڈرز آ جاتے۔ اسے یقین تھا کہ ان کے بعد آنے والوں کو اس سے Well maintained گھر زندگی میں نہیں ملے ہوں گے۔ شہر بانو کے لیے یہ ایکٹیوٹی جیسے اپنے پروفیشن کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے جڑے رہنے کی ایک کوشش بھی تھی جس کو وہ شیر دل کی جاب کی وجہ سے بالائے طاق رکھے ہوئے تھی۔ اس گھر میں آنے کے بعد ابتدائی طور پر چھوٹے موٹے پرابلمز ہونے کے بعد سب کچھ آہستہ آہستہ سیٹ ہوتا گیا تھا۔ وہ خوف اور عدم تحفظ کا احساس جس کا شکار شہر بانو وہاں آتے ہی ہو گئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا گیا۔ شیر دل نے اگرچہ اسے پہلی بار خودبخود دروازے کھلنے کے بارے میں نہیں بتایا لیکن اس کے بعد اوپر نیچے ایسے کئی واقعات ہوئے کہ شیر دل کو ہر بات شہر بانو سے چھپانی مشکل ہو گئی تھی۔ شہر بانو نے بھی آہستہ آہستہ وہاں ایسی کئی چیزیں محسوس کی تھیں جنہیں وہ اگنور نہیں کر پائی لیکن کمروں کے دروازے خودبخود بند ہونا اور کھل جانا جیسے اب ایک معمول کی بات تھی… اس کے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی چیزیں خود بخود غائب ہوتیں پھر کچھ دنوں بعد واپس آ جاتیں۔ استری کے لیے نکالے ہوئے کپڑے غائب ہو جاتے اور ایک بار تو استری ہی تین دن غائب رہی۔ مثال کے گم ہونے والے کھلونے واحد چیز تھی جو دوبارہ نہیں ملتے تھے۔ شہر بانو اور شیر دل شروع کے شاکس اور Set backs کے بعد آہستہ آہستہ ان تمامExperiencesاور واقعات کے عادی ہوتے چلے گئے۔ خوف کی وہ کیفیت جو شروع شروع میں شہر بانو کے سر پر سوار رہتی تھی اب ختم ہو چکی تھی۔ وہ لوگ وہاں باقاعدگی سے قرآن خوانی کروانے کے عادی تھے، ہفتے میں ایک بار ہونے والی قرآن خوانی کے اثرات چند ہی ہفتوں میں آنا شروع ہو گئے۔ پہلے کی نسبت ان غیر معمولی واقعات کا تناسب بہت کم ہو گیا تھا خاص طور پر گھر میں کبھی کبھار رات کو آنے والی آوازوں کا، اوپر والا ماسٹر بیڈ روم اب شیر دل کے زیرِ تصرف ایک اسٹڈی روم کی شکل اختیار کر چکا تھا اور جب سے وہ کمرا آباد ہوا تھا اس گھر میں پیش آنے والے عجیب و غریب واقعات بڑی تیز رفتاری سے کم ہوئے تھے۔ شہر بانو نے اسٹڈی بننے کے بعد شروع میں بہت عرصے تک شیر دل کو رات کو اکیلے اس اسٹڈی میں کام کرنے نہیں دیا۔ وہ خود بھی کام کے دوران اس کے پاس کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتی تھی اور تب تک وہیں موجود رہتی جب تک شیر دل کام کر رہا ہوتا لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ مطمئن ہوتی چلی گئی کہ اس گھر اور خاص طور پر اس کمرے میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے شیر دل کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا۔
گرمیوں کا سیزن شروع ہو چکا تھا اور اب اس سیزن کے آغاز کے ساتھ ہی ان کے گھر میں مہمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ شہر بانو کے اپنے ننھیالی رشتے دار زیادہ تر ملک سے باہر تھے۔ اس کے والدین اور دونوں بھائی بھی امریکا میں ہی تھے۔ شیر دل سے شادی کے بعد اتنے سالوں میں وہ بہت کم امریکا گئی تھی اور اس کی فیملی میں سے کوئی ایک بار بھی اس سے ملنے پاکستان نہیں آ سکا تھا لیکن شیر دل کی اپنی فیملی بہت لمبی چوڑی تھی۔ فرسٹ اور سیکنڈ کزنز کی ایک بڑی تعداد جن میں سے زیادہ تر سول سروس سے ہی منسلک تھے یا پھر مختلف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز اور باڈیز کے ساتھ اور وہ سب آپس میں بہت میل جول رکھے ہوئے تھے۔ خود شیر دل کو بھی اپنے گھر میں مہمانوں کا آنا جانا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور فیملی کے پسندیدہ ترین انکلز اور بچوں میں سے تھا اور اتنا پاپولر ہونے کا مطلب یہ تھا کہ یا وہ ہر وقت کہیں نہ کہیں مدعو ہوتے یا پھر کوئی نہ کوئی ان کو وزٹ کر رہا ہوتا۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بھی اس کے رشتے داروں ہی کی طرح وسیع تھا۔ شہر بانو، شیر دل کے برعکس زندگی کا بڑا حصہ امریکا میں گزارنے کی وجہ سے بے حد محدود میل جول کی عادی تھی۔ اس کی فیملی زیادہ سوشل نہیں تھی اور وہ ان سے زیادہ Aloof… اس کے گنتی کے چند دوست تھے اور شیر دل سے شادی کے بعد ان سے بھی اس کا رابطہ بہت محدود ہو گیا تھا… تہواروں اور برتھ ڈے Greetings کے علاوہ وہ کم ہی کسی سے رابطہ رکھ پاتی تھی۔ اس کی زندگی شیر دل اور مثال سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہو جاتی تھی اور بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ بھی شیر دل کے ذریعے اور اس کے ساتھ ہی تھا۔ شیر دل کے لائف اسٹائل اور فطرت کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرنے میں شہر بانو کو وقت لگا تھا لیکن ہی تبدیلی اسے اچھی لگی تھی۔ سالوں لوگوں سے نہ ملنے کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں سے ملنا اور ان سے تعلقات بنانا مشکل سہی لیکن دلچسپ تھا۔
شیر دل کی بہن ان دنوں اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزارنے ان کے ہاں آئی ہوئی تھی، آئزہ شیر دل سے بہت کلوز تھی اور اس کے بچے بھی… ہر سال Summers میں وہ ضرور کچھ دنوں کے لیے شیر دل کے پاس آتی تھی۔ آئزہ اور اس کے بچوں کی وجہ سے شہر بانو کے پاس ایک دم جیسے ایک نئی مصروفیت آ گئی تھی۔ وہ دونوں تقریباً روز ہی شہر کو Explore کرنے نکلی ہوتیں۔ وہ کام جو شہر بانو امریکا میں اکیلے کر سکتی تھی لیکن پاکستان میں نہیں خاص طور پر شیر دل کی بیوی ہونے کی وجہ سے…
ریڈیو پر اب کوئی اور Song چلنے لگا تھا جب شیر دل اور اس کا ناشتا ایک ہی وقت میں آئے تھے۔ ملازم ٹیبل پر ناشتا لگا رہا تھا جب شیر دل اس کے پاس آ کر بیٹھا، اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا سیل فون ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔
”مجھے بھی ایک کپ چائے بنا دو۔” شیر دل نے ملازم کو ہدایت دی اور ساتھ ہی ریڈیو اٹھا کر اس نے اس کی ٹیوننگ شروع کر دی۔
”Summer of 69 چل رہا تھا ابھی۔” شہر بانو نے مسکراتے ہوئے شیر دل سے کہا۔
”اوہ… اچھا۔” وہ بھی چونک کر مسکرایا اپنی چپل اتار کر اس نے سینٹر ٹیبل کے ایک کونے میں اپنی ٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے نکالی تھیں۔ ریڈیو پر دوبارہ وہی چینل ٹیون کرنے کے بعد اس نے ریڈیو ٹیبل پر رکھا اور ملازم سے چائے کا کپ تھام لیا۔ ملازم چائے کے پہلے برتن سمیٹ کر لے گیا تھا۔
”آئزہ سو رہی ہے ابھی؟” شیر دل نے اپنی بہن کے بارے میں پوچھا۔
”ہاں، میرا خیال ہے … نور یہ کو بخار تھا کل رات اس کی وجہ سے کافی لیٹ ہی سوئی… تم کہاں تھے، میں بہت دیر سے یہاں آ کر بیٹھی ہوں۔” شہر بانو نے دلیے کا چمچ میں منہ میں ڈالتے ہوئے شیر دل سے پوچھا۔
”گیٹ تک گیا تھا یار… اب مجھے پتا تھوڑی تھا کہ تم بھی باہر آ جاؤ گی۔” شیر دل نے چائے پیتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ شہر بانو کچھ کہتی ٹیبل پر پڑا شیر دل کا فون بجنے لگا۔ شیر دل چونک کر فون کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ فون اٹھانے کے لیے سیدھا ہوتا شہر بانو نے فون اٹھا کر اسے پکڑا دیا۔
”اب کوئی لمبی کال کرنے مت بیٹھ جانا۔” اس نے ساتھ ہی شیر دل کو وارننگ دی۔ وہ کچھ کہنے کے بجائے مسکرا دیا۔ پھر اس نے فون پکڑتے ہوئے چائے کا کپ واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہیلو… وعلیکم السلام فیاض… کیسے ہو یار؟” وہ اب کسی سے بات کرنے لگا تھا۔ شہر بانو نے پیالے میں موجود دلیہ تقریباً ختم کر لیا تھا جب اس نے شیر دل کو کہتے سنا۔
”اچھا، پوسٹنگ آرڈرز آ گئے ہیں تمہارے… کہاں پوسٹنگ ہوئی ہے…Great… تو تمہاری جگہ کون آ رہا ہے؟… عکس؟…Is she back” شیر دل کے انداز میں کچھ تھا کہ وہ بے ساختہ اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ اس نے شیر دل کو ٹیبل سے بے اختیار اپنی ٹانگیں ہٹاتے اور سیدھے ہو کر بیٹھتے دیکھا تھا۔ شہر بانو نے یہ بھی نوٹس کیا تھا۔
……٭……