”تم اوپر اس کمرے میں کیوں گئے تھے؟” شہر بانو نے گفتگو کا سلسلہ پچھلی رات سے جوڑنے کی کوشش کی۔
”میں سوچ رہا ہوں اس کمرے کو بند نہ رکھا جائے، میں اپنی اسٹڈی وہاں شفٹ کرنے کا سوچ رہا ہوں۔” شیر دل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے، تم اب روز رات کو اس کمرے میں جا کر بیٹھا کرو گے۔” شہر بانو نے بے اختیار تلملا کر کہا۔
”کیا حرج ہے؟” وہ مسکرایا۔
”تم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کمرا بند ہی رہے گا۔” شہر بانو نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”میں نے کل کہیں پڑھا ہے کہ جن جگہوں پر اثرات ہوں انہیں ویران اور غیر آباد نہیں رکھنا چاہیے۔” شیر دل نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”اوہ، رئیلی…” شہر بانو نے طنزیہ انداز میں کہا۔ ”اور اس کمرے کو آباد کرنے کے لیے تم اپنی خدمات پیش کر رہے ہو… واہ کیا بات ہے، اس سے وہاں اثرات ختم ہو جائیں گے؟ شیر دل تم واقعی احمق ہو یا اس گھر میں آ کر ہو گئے ہو؟” شیر دل کا دل بے ساختہ چاہا تھا وہ کہنے کہ اس گھر میں آ کر ہو گیا ہوں۔ پچھلی رات اگلی کئی راتوں تک اسے یاد رہنے والی تھی۔ خاص طور پر اس کمرے میں دیکھا جانیوالا مثال کا وہ ٹیڈی جسے بری طرح ادھیڑ دیا گیا تھا۔
……٭……
”کیا کر رہی ہو چڑیا؟” خیر دین سوتے ہوئے اٹھ کر باہر آ گیا تھا۔ چڑیا نے اسے باہر آتے نہیں دیکھا وہ یک دم اس کی آواز سن کر ڈر گئی تھی۔
”کچھ نہیں نانا، میں ٹینس کی پریکٹس کر رہی ہوں۔” چڑیا نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ تختی کے ساتھ گیند کوارٹر کی بیرونی دیوار پر مار مار کر ٹینس کھیلنے کی کوشش کر رہی تھی اور خیر دین اسی آواز سے جاگا تھا۔
”تم نے وقت دیکھا ہے؟” خیر دین نے خفگی کے ساتھ اس سے کہا۔ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی۔ پتا نہیں چڑیا کب اٹھی تھی اور کب گیند اور تختی لے کر باہر آ گئی تھی۔ کوارٹر کے سامنے دس فٹ لمبا ایک صحن تھا جس کے ایک حصے میں ایک کچن، باتھ روم اور دوسرے میں ایک چارپائی پڑی رہتی تھی۔ اس صحن کے گرد چھ فٹ اونچی چار دیواری تھی اور اب اسی چار دیواری کے اندر صحن میں جلتے بلب کی روشنی میں چڑیا پر یکٹس میں مصروف تھی۔ وہ اگلے دن ایبک کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ اسے کھیل کی الف بے بھی نہیں آئی… وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسے بچوں کی جس دنیا میں وائلڈ کارڈ انٹری ملی تھی وہ موقع اس سے چھن جائے۔ بچکانا سوچ تھی اور بچکانا ہی کوشش تھی لیکن صرف لگن جو بچکانا نہیں تھی۔
”نانا ابا آپ سو جائیں میں ابھی آ کر سو جاؤں گی۔” اس نے گیند کو ایک اور ہٹ کرتے ہوئے خیر دین سے کہا۔ تختی کے ساتھ ٹینس بال کو ہٹ کرنا بے حد مشکل تھا۔ نہ وہ ہموار طریقے سے تختی پر لگ کر اچھل رہی تھی اور نہ ہی دیوار سے لگنے کے بعد ٹھیک سے تختی پر آ رہی تھی لیکن چڑیا کوشش ترک کرنے پر تیار نہیں تھی… یہ ایبک کے ساتھ پہلے پریکٹس سیشن کی تیاری تھی۔
”بیٹا صبح کھیلنا… ابھی بہت رات ہو گئی ہے۔” خیر دین نے اسے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”نہیں نانا مجھے ابھی کھیلنا ہے۔” وہ نہیں مانی تھی۔ خیر دین چند لمحوں میں ہی ہار مان کر اندر واپس سونے چلا گیا تھا۔ دس پندرہ منٹ بعد بالآخر تختی ٹوٹ گئی تھی۔ مایوسی اور صدمے سے چڑیا کا برا حال ہو گیا… کھیلنے کے لیے اب اور کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ بے حد رنجیدہ کوارٹر میں سونے گئی اور نیند کی وادی میں بھی وہ اس رات ٹینس ہی کھیلتی رہی تھی۔
”ریکٹ پکڑنا آتا ہے نا؟” اگلی سہ پہر ایبک نے کورٹ پر اسے ریکٹ پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔” چڑیا نے بڑے اعتماد سے ریکٹ پکڑ لیا۔
”تو پھر ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں تمہارے؟” ایبک نے اس کے ہاتھوں کی Gripکو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ چڑیا اسے کیا بتاتی کہ وہ ایکسائٹمنٹ کی وجہ سے تھا۔ وہ ریکٹ جسے ہاتھ لگانے کے لیے وہ کئی مہینوں سے ترس رہی تھی اب اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس سے کھیل رہی تھی۔
”اس طرح نہیں… یہاں سے پکڑتے ہیں۔” ایبک نے ریکٹ پر اس کے ہاتھوں کی پوزیشن کو ٹھیک کیا۔ چڑیا نے میکانکی انداز میں اس کی ہدایات کے مطابق اپنے ہاتھ کی پوزیشن تبدیل کی۔
اس دن وہ دونوں ایک گھنٹے کھیلتے رہے اور ایک گھنٹے کے اختتام پرچڑیا کی Serveجو شروع میں Net کے دوسری طرف جا ہی نہیں رہی تھی وہ اب دوسرے کورٹ تک پہنچنے لگی تھی۔ ایبک کسی ایکسپرٹ کوچ کی طرح اسے ٹینس سکھا اور کھلا رہا تھا یہ اندازہ تو اسے بھی بخوبی ہو گیا تھا کہ چڑیا کی ٹینس پریکٹس اور نالج واقعی صرف دیکھنے تک ہی محدود تھی لیکن وہ بہت اسمارٹ تھی اس کا اندازہ ایبک کوہو گیا تھا۔
”You are a quick learner” اس نے اپنی ستائش کھیل کے دوران ہی چڑیا تک پہنچا دی تھی۔ ایبک کی ستائش چڑیا کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔ کھیل میں اس کی لگن اور انہماک کچھ اور بڑھ گیا تھا، ایک گھنٹے میں انہوں نے صرف ٹینس نہیں کھیلی تھی انہوں نے بہت ساری باتیں بھی کی تھی۔ ایبک اس کی کمپنی انجوائے کر رہا تھا۔ وہ باتونی تھا اور وہ اچھی سامع تھی۔ عام بچوں کے برعکس وہ زیادہ باتیں نہیں کرتی تھی۔لیکن دلچسپ باتیں کرتی تھی اور ایبک کو وہ ”لڑکی” نہیں لگی تھی۔ وہ Silly , Loud, Talkative goofyگرلز جن سے اس کی جان جاتی تھی جو ہر بات میں رونے بیٹھ جاتی تھیں یا پھر جھگڑا کرنے… چڑیا کے ساتھ وہ اس طرح اور اسی قسم کی باتیں کر رہا تھا جو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرتا تھا…All the boy talk اور چڑیا اس کی باتوں کو سمجھ رہی تھی جواب دے رہی تھی، تبصرہ کر رہی تھی اور اختلاف کر رہی تھی… اور یہ صرف آغاز تھا… ان کی دوستی کا، ان کی پارٹنر شپ کا… ان کی Compatability اور Understanding کا۔ وہ دونوں عجیب طریقے سے ایک دوسرے کے قریب ہوئے تھے۔
ایک گھنٹا آنے والے دنوں میں کئی گھنٹوں میں بدلتا چلا گیا اور ٹینس کورٹ کے علاوہ بھی اب وہ دونوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے تھے۔ ایبک نے اسے بتایا تھا کہ وہ ٹینس پلیئر
بننا چاہتا ہے لیکن ساتھ سول سروس بھی جوائن کرے گا کیونکہ اس کے فادر سول سرونٹ تھے اور اسے یہی بنانا چاہتے تھے اور وہ باہر جا کر Planeاڑانا بھی سیکھے گا اور کسی باہر کی یونیورسٹی سے پڑھے گا…Most probably Harvard کیونکہ اس کے فادر بھی وہاں سے پڑھے تھے… اس نے اس کے علاوہ بھی اپنے تمام عزائم اور ارادے چڑیا کو بتائے تھے۔ جن میں ایک پولو پلیئر بننا، پیانو سیکھنا اور نوبل پرائز جیتنا بھی شامل تھا لیکن وہ کس فیلڈ میں نوبل پرائز جیتنا چاہتا تھا یہ ابھی اس نے طے نہیں کیا تھا۔
چڑیا نے اسے بتایا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور ڈاکٹر ہی بنے گی۔
”اور؟” ایبک نے اسے خاموش ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
”اور کچھ بھی نہیں بس ڈاکٹر۔” چڑیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”بس صرف ڈاکٹر بنوگی تم… اور کچھ بھی نہیں… کوئی اور کام نہیں کرو گی… کوئی اور پلان نہیں تمہارا۔” ایبک کو جیسے یقین نہیں آیا تھا کہ چڑیا ایسی بات کر سکتی تھی۔ وہ پہلی لڑکیوں والی بات تھی جو اس نے چڑیا کے منہ سے سنی تیھ۔ Typicalپروفیشن اور بس ایک ہی کام۔
”اتنی لمبی زندگی میں تم بس ایک کام کرو گی؟” ایبک نے جیسے اس اس کا مذاق اڑا کر اسے Motivateکرنے کی کوشش کی۔
”میرے نانا کہتے ہیں کہ ایک وقت ایک ہی کام کرنا چاہیے۔ اس طرح کام آسان بھی ہو جاتا ہے اور اچھا بھی ہوتا ہے۔” چڑیا نے خیر دین کا گُر ایبک کو کسی طرطے کی طرح سادھ لہجے میں بتایا۔
”I don’t agree with your nana” ایبک نے سر جھٹک کر کہا۔ ”زندگی تو بڑی چھوٹی ہوتی ہے ایک وقت میں ایک کام کریں گے تو پھر زندگی میں تھوڑے سے کام ہوں گے بس۔” چڑیا نے بغور اس کی بات سنی۔ ”تم بس ڈاکٹر بننے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتیں؟” ایبک نے اس سے پوچھا۔
”کرنا چاہتی ہوں۔” چڑیا نے کہا۔