خیر دین نے اسے کیئرئیر بدلنے کی اجازت تو نہیں دی تھی لیکن اگلے دن اس کو ایک ریکٹ لا دیا تھا… وہ بیڈمنٹن ریکٹ تھا۔ لکڑی کا ایک معمولی سا… کم قیمت… پہلی نظر میں ہی چڑیا نے اس ریکٹ کو ناپسند کر دیا تھا… لیکن اس نے اپنی ناپسندیدگی خیر دین تک نہیں پہنچائی تھی… بھاری دل کے ساتھ اس نے وہ ریکٹ اٹھا لیا تھا اور اس نے اس کے ساتھ چند بار اس گیند کو ہٹ کرنے کی کوشش کی تھی جو خیر دین ریکٹ کے ساتھ لے کر آیا تھا… تیسرے یا چوتھے شاٹ پر ریکٹ کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ چڑیا نے بوجھل دل کے ساتھ وہ ریکٹ اٹھا کر کمرے میں پڑی اکلوتی سیف کے اوپر رکھ دیا۔ اسے سمجھ میں آ گیا تھا کہ بعض چیزیں صرف صاحب لوگ کیوں کر سکتے ہیں، وہ کیوں نہیں۔
اس شام اس آئینے میں دیکھے جانے سے پہلے ایبک نے کبھی چڑیا کو اس گھر میں نہیں دیکھا تھا اور اب یک دم اس آئینے میں ابھر آنے والے ایک ہم عمر کے عکس نے اسے حیران کیا تھا۔ اس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ریکٹ کے ساتھ ٹینس شاٹس کی پریکٹس کرنا اس کا روز کا معمول تھا اور اسے پریکٹس کرتے دیکھنا چڑیا کا۔ پہلی بار اس نے اتفاقی طور پر ایبک کو اس وقت شام کو اس آئینے کے سامنے موجود پایا تھا جب وہ ہمیشہ کے اپنے معمول کے مطابق شام کے وقت اس آئینے میں ”کچھ” دیکھنے آئی تھی اور جو کچھ اسے نظر آیا تھا اس نے چڑیا کو بے حد محظوظ کیا تھا۔ ایبک آئینے کے سامنے کھڑا اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا ریکٹ کو گھماتا پھر رہا تھا۔ وہ آئینے میں کسی کھلاڑی کے کھیل کے انداز کی نقل اتار رہا تھا، نہ صرف کھیل کے انداز کی بلکہ اس کھلاڑی کے کھڑے ہونے، سر جھٹک کر اور کندھے اچکا کر بات کرنے کی بھی… وہ ریکٹ کو ایک کپ کی طرح پکڑے جیسے ومبلڈن سینئر کورٹ پر کھڑا چیمپئن شپ جیتنے کے بعد تقریر کر رہا تھا۔ وہ کس کھلاڑی سے متاثر تھا اور کس کی نقل کر ہا تھا چڑیا کو کچھ اندازہ نہیں تھا لیکن ایبک کے اس چار منٹ کے ”Skit” یا ”رول پلے” کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا اور ایبک کو اگر یہ پتا چل جاتا کہ اس کی وہ ونرز اسپیچ کسی کو اس طرح گدگدا رہی تھی تو وہ شرم سے ڈوب کر مر جاتا، بونوں کو دیکھنے کی خواہش کے علاوہ اب چڑیا اس آئینے کے سامنے ایبک کے ”Acts” دیکھنے آتی تھی۔ وہ ہر روز وہاں نہیں ملتا تھا لیکن اکثر وہاں مل جاتا تھا۔
اور آج اس آئینے میں پہلی بار ایبک نے چڑیا کو دیکھ لیا تھا۔ برآمدے میں رکھے گئے اس آئینے کی پوزیشن صفائی کے دوران کچھ تبدیل ہوئی تھی اور برآمدے کے ایک ستون پر چڑھی بوگن ویلیا کے ساتھ چپکی اندر جھانکتی چڑیا جو آئینے کی پہلی پوزیشن میں نظر نہیں آ سکتی تھی اب بڑی آسانی سے نظر آ گئی تھی۔ اس نے بے ساختہ پلٹ کر اپنے عقب میں اس ستون کو دیکھا تھا۔ ستون اور اس آئینے میں فاصلہ بے حد کم تھا۔ چڑیا کچھ دیر کے لیے جیسے ہکا بکا رہ گئی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح رنگے ہاتھوں پکڑی جا سکتی ہے اور پگڑی کیسے گئی تھی وہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ایبک اب اس پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ پرتجسس… حیران… مسکراتی ہوئی نظریں… چڑیا کی سمجھ میں نہیں آیا وہ فوری طور پر کیا کرے… برآمدے کے ستونوں کی آڑ میں بھاگتی ہوئی فرار ہو جائے… ایبک کے سامنے آ جائے یا آہستہ سے اپنی کسی چڑیا کی طرح نکلی ہوئی گردن کو اسی آہستگی کے ساتھ واپس کھینچ کر ستون کے عقب میں چھپ جائے… یہاں تک کہ اییبک وہاں سے چلا جاتا… اسے فیصلہ نہیں کرنا پڑا تھا۔ یہ کام ایبک نے کیا تھا۔ وہ چند قدم اور آگے بڑھ آیا تھا۔ اب وہ بالکل اس کے سامنے کھڑا تھا۔ چڑیا اپنے دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اپنی گردن ستون کے پیچھے سے نکالے ہوئے تھی۔ اب ایبک کے بالکل سامنے آ جانے پر وہ گھٹنوں سے ہاتھ اٹھا کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ شرمندگی سی شرمندگی تھی اور کنٹا، منٹا منٹوں میں کہیں غائب ہو گئے تھے… حد تھی ویسے یہ بھی۔
”ہیلو۔” ایبک نے دوستانہ انداز میں اس کو مخاطب کرنے میں پہل کی اور چڑیا کو اس سے ہیلو سننے کی توقع نہیں تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس نے حیران ہو کر ایبک کو دیکھا پھر اس نے جواباً ہیلو کہا۔ بھاگنے کا ارادہ اس نے فی الفور ترک کر دیا تھا۔
”تم کون ہو؟” ایبک نے فوراً سے پیشتر کہا۔ چڑیا کے حلیے سے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ وہ کسی نوکر کی بیٹی ہو سکتی ہے اور کسی ملازم کے بچے میں ایبک دلچسپی نہیں لے سکتا تھا۔ یہ اس کے پیرنٹس کی ہدایات تھیں۔ اس کے پیرنٹس ملازمین کو ہی فاصلے پر نہیں رکھتے تھے۔ ان کی فیملیز کو بھی اپنی فیملیز سے فاصلے پر رکھنے میں یقین رکھتے تھے اور ایبک اسی طرح کی ویلیوز کے ساتھ پروان چڑھا تھا۔
چڑیا کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اپنا تعارف کیسے کروائے۔ ”میرے نانا کک ہیں۔” چند لمحے الجھ کر اس نے بالآخر کہا۔
”اوہ خیر دین۔” ایبک نے بے ساختہ کہا۔ چڑیا کو اس کے منہ سے یوں اپنے نانا کا نام اچھا نہیں لگا تھا۔ خیر دین کو دوسرے ملازمین چاچا کہتے تھے اور آفیسرز نام سے پکارتے تھے لیکن اس نے آج تک کسی بچے کو خیر دین کا نام لیتے نہیں سنا تھا۔
”چاچا خیر دین۔” اس نے جیسے برا منا کر ایبک کو جتانے والے انداز میں بتایا۔ ایبک نے اس کی خفگی نوٹس نہیں کی تھی۔ چڑیا میں اس کی دلچسپی فوری طور پر کم ہوئی تھی۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” ایبک نے ریکٹ گھماتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وہ وہاں کیا کر رہی تھی۔ یہ تو چڑیا ایبک کو مر کر بھی نہیں بتا سکتی تھی۔ وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
”میں نے کچھ پوچھا ہے؟” ایبک نے اسے ڈانٹا۔
”میں یہ مرر دیکھنے آئی تھی۔” چڑیا نے بے ساختہ کہا۔ ایبک نے حیرانی سے پلٹ کر مرر کو دیکھا۔
”کیوں؟”
”یہ پسند ہے مجھے۔” جواب سادہ تھا لیکن ایبک پھر بھی حیران ہو رہا تھا۔
”کیا کرتی ہو تم؟” ایبک نے جواباً اس سے پوچھا۔
”پڑھتی ہوں۔”
”کس کلاس میں؟”
”4th”۔
”کس اسکول میں؟” اور اسکول کے نام پر ایبک کو چند لمحوں کے لیے کچھ سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ نوکروں کے بچے کانونٹ میں نہیں پڑھتے تھے اور چڑیا پڑھ رہی تھی۔ اس کی اپنی بہن بھی ایک کانونٹ اسکول میں ہی تھی۔ ایک بچہ ہونے کے باوجود ایک ”اچھے” اور”برے” اسکول کا فرق جانتا تھا… اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کی تفریق اور ریٹنگ سے بخوبی واقف تھا۔
”میں بھی 4th میں ہوں… ایچی سن میں۔” اس نے اب اپنے بارے میں چڑیا کو بتایا۔
”اوہ…” چڑیا حیران ہوئی۔ ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ بھی کلاس فور کا اسٹوڈنٹ ہو گا اور اس نے یہ کہنے میں تامل بھی نہیں کیا۔ ایبک پہلے خجل ہوا پھر بلش۔
”کتنا بڑا لگتا ہوں میں؟” اس نے جیسے اپنے کسی خدشے کو جھٹلانے کے لیے چڑیا سے پوچھا۔
”پتا نہیں لیکن تم مجھ سے بڑے لگتے ہو… جیسے 5th,6thاسٹینڈرڈ میں ہو۔” چڑیا نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”That’s because i,m a boy” ایبک نے اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں بڑی رکھائی سے کہا۔ وہ اب چڑیا کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے پلٹ کر دوبارہ آئینے کے سامنے جا کر اپنے ٹینس شاٹس کی پریکٹس کرنے لگا تھا۔ چڑیا کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے… لیکن اس کی موجودگی سے پوری طرح با خبر… چڑیا دونوں ہاتھ پشت کے پیچھے باندھے ستون سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی… اب چھپنے کی ضرورت نہیں رہی تھی… اور کیا طمانیت محسوس کی تھی اس نے۔
”You Play Very Well۔” چند منٹ کی خاموشی کے بعد چڑیا نے اس تک ا پنی ستائش پہنچانا ضروری سمجھا۔ ریکٹ گھماتا ایبک کا ہاتھ چند لمحوں کے لیے رکا۔
”Thank You” وہ دوبارہ پریکٹس کرنے لگا۔ وہ چڑیا کی نظریں آئینے میں بھی خود پر جمی نوٹس کر رہا تھا اور اس احساس نے جیسے اس کی پریکٹس کے انہماک کو بڑھا دیا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ایک فین مل گیا تھا اسے… اور یہ اپنے خاندان سے باہر ملنے والا اس کا پہلا فین تھا۔ اس آٹھ سالہ بچے کے لیے فوری طور پر یہ تعریف ہضم کرنا تھوڑا مشکل ہو گیا تھا۔
”تم نے کبھی کورٹ میں دیکھا ہے مجھے؟” اس نے یک دم چڑیا کے ساتھ گفتگو جاری رکھنا ضروری سمجھا۔ ”بڑا نظر آنے” کا غم تھوڑی دیر کے لیے ہلکا پڑ گیا تھا۔
”روز دیکھتی ہوں جب تم کورٹ میں کھیلنے کے لیے جاتے ہو۔” چڑیا نے روانی سے کہا۔ایبک کے سر پر اچانک نمودار ہونے والے سرخاب کے پروں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا تھا۔
”میں نے کورٹ میں کبھی نہیں دیکھا تمہیں……تم کہاں سے دیکھتی ہو مجھے کھیلتے ہوئے؟” ایبک نے بے حد دانشمندانہ سوال پوچھا تھا۔ اس نے واقعی اتنے دنوں میں ایک بار بھی چڑیا کو نہیں دیکھا تھا۔ اس بار بلش ہونے کی باری چڑیا کی تھی۔