”تو سویٹ ہارٹ ہم یہیں رہیں گے۔” شیر دل نے اس کو خاموش دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنکیں ڈالتے ہوئے اس کے ہاتھ کی پشت پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
”یہ ونڈوز مجھے زہر لگتی ہیں۔” شہر بانو نے جھنجلاہٹ اس کھڑکی پر اتاری جس کے سامنے اس وقت وہ صوفہ تھا جس پر وہ دونوں بیٹھے تھے۔ شیر دل نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ روکی۔
”بدلو ا دیتے ہیں صبح ہی۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔ وہ جانتا تھا وہ اپنا غصہ اب کسی اور چیز پر اتارے گی۔
”تم کبھی میری کوئی بات نہیں مانتے۔” اس نے اپنے عقب میں شہر بانو کو کہتے سنا۔ وہ اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے رکا پھر اطمینان سے بولا۔
”یہ تو ہے…But I Love You Shaib۔” صوفے پر بیٹھی ہوئی شہر بانو نے بے حد خفا انداز میں اسے دیکھا۔ وہ کمرے کے دروازے میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔
”Smile Please۔” وہ اب ایک بار پھر اس کو بچوں کی طرح پچکار رہا تھا۔
” No۔” شہر بانو نے بے حد خفگی سے کہہ کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ اس مرد سے اسی طرح لاڈ کروانے، ناز اٹھوانے کی عادی تھی اور اسی لیے اس پر مرتی تھی۔
”Honey۔”
”No۔”
Sweet Heart”۔”
No””
”Darling”
”No”
وہ اسے منا رہا تھا۔ وہ صوفے پر آنکھیں بند کیے اسی انداز میں انکار کر رہی تھی مگر اس کا ہر اندازِ تخاطب اسے موم کی طرح پگھلا رہا تھا۔ اس کے ماتھے کے بل، ہونٹوں کے تبسم میں بدل رہے تھے۔ شیر دل کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی تھی۔ وہ ہنوز آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی لیکن اس کے ہونٹ اب مسکرا رہے تھے۔ بعض دفعہ مثال شہر بانو سے یا شہر بانو مثال سے اس قدر مشابہ لگتی کہ اس کے لیے یہ تخصیص کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ وہ اس وقت کس کو دیکھ رہا ہے جیسے اس وقت شہر بانو کو دیکھتے ہوئے اسے مثال کا خیال آ رہا تھا۔
”میں سونے کے لیے جا رہا ہوں۔” شیر دل نے جماہی لیتے ہوئے اس کی مسکراہٹ سے جیسے مطمئن لاتے ہوئے کہا۔ ان کی ازدواجی زندگی میں کبھی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری تھی جب شیر دل نے اسے خفا ہو کر سونے یا رونے دیا ہو۔ وہ اپنے معاملات میں اپنی مرضی کرتا تھا لیکن وہ اسے ناراض بھی نہیں رہنے دیتا تھا۔
شہر بانونے آنکھیں کھول دیں۔ شیر دل وہاں سے جا چکا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے کمرے میں پڑی چیزیں سمیٹنے لگی۔
وہ اس وقت ٹیبل پر پڑا شیر دل کا سگریٹ پیک اور لائٹر اٹھا رہی تھی جب اس نے کسی کو اپنا نام پکارتے سنا۔
”شہر بانو۔” وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی، ایک لمحے کے لیے اسے لگا شیر دل نے اسے پکارا تھا مگر شیر دل وہاں نہیں تھا۔
”شاید دوسرے کمرے سے پکار رہا ہے۔” شہر بانو نے سوچا اور اس کا لائٹر اور سگریٹ پیک اٹھا کر دوسرے کمرے میں آ گئی۔ شیر دل وہاں بھی نہیں تھا۔ وہ کپڑے تبدیل کرنے واش روم میں تھا۔ اس کے سائڈ ٹیبل پر اس کا لائٹر اور پیک رکھتے ہوئے شہر بانو نے اس آواز کواپنا وہم سمجھ کر جھٹکا۔ اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ رات کے اس پہر اسے پکارنے والا شیر دل کے علاوہ کوئی دوسرا ہو سکتا تھا۔
……٭……
”میں نے ایک جن دیکھانانا۔” اس رات چڑیا نے خیر دین کو آئینے میں نظر آنے والے عکس کے بارے میں بتایا۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ وہ بونا ہو سکتا تھا اور کنفیوژن اسے یہ تھی کہ اگر وہ بونا نہیں تھا تو پھر کیا تھا… بدصورتی اور خوف ناکی نے اسے دیکھی جانے والی چیز کے لیے جن کا لفاظ استعمال کرنے پر اکسایا تھا لیکن اس کے تصور میں جن ایک Hugeجسم کا مالک ہونا چاہیے تھا اور یہاں… لیکن اس کے باوجود اس نے اس عکس کے لیے جن کا لفظ ہی استعمال کیا تھا۔
خیر دین کے اس انکشاف پر چونکا تھا۔
”کہاں دیکھا تھا؟” اس نے پوچھا۔
”آس آئینے میں جو باہر برآمدے میں لگا ہے۔” چڑیا نے بے حد سنجیدگی کے عالم میں تھا۔ خیر دین نے چڑیا کو گود میں لیتے ہوئے جیسے تحفظ دینے والے انداز میں اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”تم کو منع کرتا ہوں نا میں کہ مت جایا کرو شام کے بعد آئینوں کے پاس”۔
”لیکن نانا وہ جن بہت چھوٹا سا تھا … اتنا… نہیں… اتنا۔” چڑیا نے خیر دین سے الگ ہوتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کچھ الجھے انداز میں جن کے سائز کا تعین کرنے کی کوشش کی۔
”بیٹا جن نہیں ہے وہ… بونا ہے۔” خیر دین نے اسے ٹوکا۔
”نہیں نانا… وہ بونا نہیں تھا… وہ بدصورت تھا… اتنا ڈراؤنا… اور کالا سیاہ۔” چڑیا یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ اس کے تصوراتی بونوں میں سے کوئی بھی اس حلیے کا ہو سکتا ہے جو اس نے دیکھا تھا۔
”وہ بونا ہی تھا بیٹا… بونے بھی اتنے ہی خوفناک ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں جتنے جن، بھوت… بلکہ بعض تو جن بھوتوں سے بھی زیادہ ڈراؤنے ہوتے ہیں… بس جسم اور قد کا فرق ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔” خیر دین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ چڑیا کی تصوراتی دنیا کو ڈھانے کی جیسے پہلی کوشش تھی لیکن وہ بچی اتنی آسانی سے کیسے مان جاتی، چنٹو، منٹو، ٹوکو اور دوسرے بونوں کو کیسے منٹوں میں ہوا میں تحلیل ہونے دیتی۔ خیر دین کے علم کو اس نے اس سے پہلے کبھی چیلنج نہیں کیا تھا۔ وہ نانا کے علم پر اندھا ایمان رکھتی تھی۔ خیر دین کا وجود وہ آنکھیں تھیں جس سے وہ دنیا دیکھتی تھی۔ وہ اس کو اپنے بچپن کے انگریزوں کے قصے سناتا… وہ پلکیں جھپکائے بغیر سنتی… انگریز اس نے ٹی پر دیکھے تھے۔ کتابوں میں یا پھر خیالوں میں… لیکن اس کے لیے یہ سوچنا مشکل تھا کہ وہ بھی وہاں تھے ان کے ملک میں… حاکم کے طور پر… اس کے لیے انگریز بھی ایک خلائی مخلوق جیسے تھے اور ان کا دیس کوہ قاف جیسا… اور خیر دین اس خلائی مخلوق کی عجیب عجیب باتیں سناتا تھا… ان کی اصول پرستی کی… ان کی دیانتداری کی… ان کی محنت اور جانفشانی کی… ان کی خوبصورتی اور ذہانت کی… اور ان کی زبان کی… وہ زبان جو وہ خیر دین کے منہ سے سنتی تو متاثر ہوتی اور خود بولتی تو فخر کے احساس کے ساتھ۔
مگر آج وہ پہلی بار خیر دین کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ کتابوں میں دیکھا جانے والا خوب صورت imageخیر دین کے بتائے ہوئے سچ اور حقیقت سے زیادہ طاقتور اور زیادہ پُراثر تھا۔ اس نے خیر دین سے نہیں کہا تھا لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، وہ غلط تھا اس گھر میں کہیں نہ کہیں چنٹو، منٹو، ٹوکو وغیرہ ہی تھے … وہ بدصورت شے نہیں جسے اس نے آئینے میں دیکھا تھا۔
وہ خیر دین اور حلیمہ کے ساتھ نئے ڈپٹی کمشنر کی بیوی کو سلام کرنے گئی تھی اور وہ پہلی نظر میں ہی اس ڈپٹی کمشنر کی بیوی پر بری طرح فریفتہ ہوئی تھی۔ چند لمحوں کے لیے وہ اسے انگریز لگی تھی وہی انگریز جسے اس نے ٹی وی پر دیکھا تھا اور جن کے ہزاروں قصے اس نے خیر دین سے سنے تھے۔ دراز قد، بے حد دبلی پتلی اور بے حد حسین… جس کا لب و لہجہ بھی انگریزوں جیسا تھا… حالانکہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اردو میں بات کر ر ہی تھی۔ اس نے چڑیا سے چند رسمی سوال جواب کئے اور پھر خیر دین اور حلیمہ سے گفتگو کرنے لگی تھی۔ چڑیا کی توجہ اس تین سالہ، ماں ہی کی طرح خوب صورت، بچی نے کھینچ لی تھی جو اس وقت بھی اس کمرے میں ایک کھلونا پکڑے ادھر سے ادھر بھاگتی پھر رہی تھی۔ کمشنر کی بیوی حلیمہ اور خیر دین کے ساتھ بات چیت کے دوران وقفے وقفے سے اپنی بیٹی کو ہدایت بھی دے رہی تھی۔