”ارے نہیں، میں آپ لوگوں کے گھر کے بارے میں کہہ رہی ہوں۔”
”چلیں شکر ہے۔ میں سمجھا تھا یہاں کا ہر سرکاری گھرhauntedہے۔” اختر، شیردل کے تبصرے پر ہنسا۔
”اس اعتبار سے تو پاکستان کا ہر سرکاری گھرhaunted ہے…Ask a common man” اختر نے برجستہ کہا۔ اس بار وہ سب اس تبصرے سے محظوظ ہوئے تھے۔ ملازم کھانا سرو کر رہا تھا۔ جب شہر بانو، تزئین کے جملے پر اپنی پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے ٹھٹکی۔
”تو تم لوگوں نے اپنے گھر کے قصے سن لیے؟” تب ہی شیر دل نے کچھ استہزائیہ انداز میں مسکرا کر ایک نظر شہر بانو کو دیکھتے ہوئے تزئین سے کہا۔
”وہ تو آتے ہی سن لیے تھے۔ بونے اور افیئر اور مرڈر اور Suicide… اور What not…” شیر دل کا انداز بے پروائی لیے ہوئے تھا۔
”اور یہ بھی سنا کہ اس گھر میں ہنے والا ہر جوڑا الگ ہو جاتا ہے؟” تزئین نے سنجیدگی سے کہا۔ شیر دل اور شہر بانو نے بیک وقت تزئین کو دیکھا۔ ان کے انداز میں حیرانی نے تزئین کو حیران کیا۔
”یعنی تم لوگوں نے یہ قصہ نہیں سنا؟”
”جھوٹی باتیں ہیں ساری… میری بیگم کو ایسے قصوں میں بڑی دلچسپی رہتی ہے۔ تم سنجیدگی سے مت لینا۔” اختر درانی نے مداخلت کرتے ہوئے شیر دل کو خبر دار کیا۔ شیر دل نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔
”Unforunately میری بیوی کو بھی ان قصوں میں بھابی جیسی ہی دلچسپی ہے اس لیے میں سنجیدہ لوں نہ لوں، وہ سنجیدگی سے ہی لے گی۔”
”آپ کیا کہہ رہی تھیں بھابھی؟” شہر بانو نے شیر دل کے تبصرے کو نظر انداز کیا۔
”آپ کو پتا ہے اختر میں کوئی غلط بات نہیں کر رہی… ہسٹری اٹھا کر دیکھ لیں ان تمام آفیسرز کی… آج تک کوئی ایک کپل یہاں پوسٹ ہونے کے بعد اکٹھا نہیں رہ سکا… یا میاں نے دوسری شادی کر لی یا بیوی نے… یا دونوں میں سے کسی کی ڈیتھ ہو گئی۔” تزئین نے جیسے اپنے میاں کی بات کا برا منایا تھا۔ شہر بانو کے چہرے کی رنگت فق ہوئی تھی۔
”تو اس میں اس گھر کا کیا رول ہے… قسمت کی بات ہے۔” اختر نے صورت حال سنبھالنے کی کوشش کی۔ شیر دل اب بھی اسی بے پروائی سے کھانا کھا رہا تھا لیکن شہر بانو کی بھوک غائب ہو گئی تھی۔
”گھر کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے… اب کچھ ہے اس گھر میں تو ایسی بات مشہور ہے۔ اگر گھر کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا تو…”اختر نے مداخلت کی۔
”میرا خیال ہے کھانے پر دھیان دینا چاہئیے۔”
”اتنا پیارا کپل ہے آپ دونوں کا… بھائی میں تو کہہ رہی ہوں آپ لوگ ریسٹ ہاؤس میں ہی رہ لیں یا کوئی اور انتظام کر لیں۔ وہ گھر ٹھیک نہیں ہے۔” تزئین نے اختر کی بات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”بھابھی میری Official Residence ہے وہ… اور میں بزدل تو نہیں ہوں کہ صرف قصے کہانیاں سن کر گھر ہی نہ جاؤں… اللہ مالک ہے۔” شیر دل نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ لیکن بے حد دو ٹوک انداز میں تزئین سے کہا۔
”میں نے کہا تھا نا شیر دل میری بیوی کچھ وہمی ہیں بالکل یہی اسپرٹ ہونی چاہیے۔ ہم لوگ ایک بار ایبٹ آبادمیں پوسٹڈ تھے اور وہاں مشہور تھا کہ ہماری سرکاری رہائش گاہ…” اختر درانی کوئی اور قصہ سنانے لگے۔ بات موضوع سے ہٹ گئی تھی لیکن شہر بانو کے ذہن میں اب کچھ او نہیں بچا تھا۔
……٭……
”میں تم کو اس قد ر احمق نہیں سمجھتا شبی۔” شیر دل نے کچھ خفگی کے عالم میں اس سے کہا وہ اب مثال کے بیڈ روم میں بیٹھے بات کر رہے تھے۔ شیر دل لائٹرسے سگریٹ سلگا رہا تھا۔
”اس میں حماقت والی کیا بات ہے؟” شہر بانو نے بھی جواباً اتنی ہی خفگی سے کہا۔
”تم نے کہا کہ اوپر والے ماسٹر بیڈ روم میں نہیں رہنا… میں نے کہا ٹھیک ہے… تم نے کہا چھت کو بند کرا دو… میں نے وہ بھی کروا دیا… پورے گھر پر چڑھی ہوئی بیلیں کٹوا دیں تم نے… جو درخت کھڑکیوں تک آ رہے تھے وہ بھی کٹوا دئیے تم نے… میں نے ہر بات مانی تمہاری…But this is just ridiculous” شیر دل کچھ خفگی کے عالم میں اس سے کہہ رہا تھا۔
”میں superstitiousنہیں ہوں شیر دل لیکن میں رسک بھی نہیں لے سکتی۔” شہر بانو نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ Mythsہیں اور کچھ نہیں… تم نے ایکMythاس گھر کے بارے میں یہ سنی تھی کہ یہ Hauntedہے، اب کتنے دنوں سے ہم لوگ یہاں رہ رہے ہیں کچھ ہوا کیا؟” شیر دل نے جواباً اس سے پوچھا۔ وہ اب سگریٹ پیتے ہوئے کمرے میں ٹہلنے لگا تھا۔
”نہیں ہوا… ہو تو سکتا ہے۔” شہر بانو نے کچھ irritateہو کر کہا۔
”مثلاً کیا ہو گا؟” شیر دل چلتے چلتے بالکل اس کے بالمقابل رک گیا۔
”اب مجھے کیا پتا کہ کیا ہو گا۔” شہر بانو اس کے انداز پر کچھ اور خفا ہوئی۔
”کچھ نہیں ہو گا یار…Trust me۔” وہ اس کے قریب صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ اس نے شہر بانو کے گرد ایک بازو پھیلایا تھا یوں جیسے اسے کسی چھوٹے بچے کی طرح سہلانے اور بہلانے کی کوشش کر رہا ہو۔
”مجھے یہاں نہیں رہنا شیر دل۔” شہر بانو نے اس کے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ جانتی تھی وہ اب اس کی توجہ اس ایشو سے ہٹانے کی کوشش کر ر ہا تھا۔
”میں تمہارا ہوں شبی، میں ہمیشہ تمہارا ہی رہوں گا… تم کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے… کوئی مجھے تم سے چھین نہیں سکتا۔” سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھٹکتے ہوئے شیر دل نے نرم گہری آواز میں اس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شہر بانو ننھے بچوں کی طرح شیر دل سے لپٹ جاتی۔ وہ شخص اس کے لیے صرف شوہر نہیں تھا۔ سب کچھ تھا … اور”سب کچھ” میں شیر دل کے ساتھ اس کے کتنے رشتے تھے، وہ کم از کم انگلیوں کی پوروں پر نہیں گن سکتی تھی۔
”میں جانتی ہوں تم میرے ہو… اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ کوئی تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا… مجھے تم پر اندھا اعتماد ہے شیر دل۔” اس نے جواباً شیر دل سے کہا۔
”پھر؟”وہ مسکرایا۔
”لیکن وقت کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔” شہر بانو نے کچھ کمزور آواز میں کہا۔
”یہ آسیب، بھوت پریت اور بونے بکواس چیزیں ہیں، میں ان کو نہیں مانتا۔” شیر دل نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے… کسی گھر کسی جگہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ میری آفیشل ریڈیذنس ہے او رمیں یہیں رہوں گا۔ میں یہاں سے بھاگ کر اپنے اسٹاف کو خود پر ہنسنے کا موقع نہیں دوں گا۔” وہ اب اس کا ہاتھ اپنے میں لیے بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ گرفت نرم تھی، لہجہ سخت تھا۔
”لیکن… ”شیر دل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مجھ سے پہلے جتنے آفیسرز یہاں آئے وہ اسی گھر میں رہے۔ تمہارا کیا خیال ہے انہوں نے یہ سب قصے کہانیاں نہیں سنی ہوں گی؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔ و ہ بے بسی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔ وہ شیر دل سے ہر بات نہیں منوا سکتی تھی۔ یہ اس نے اپنی اور شیر دل کو کورٹ شپ کے دوران ہی جان لیا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بہت سارے معاملات پر ضد کرتی تھی اور شیر دل اسے ضد کرنے دیتا تھا۔ اس میں وقت کے علاوہ دونوں کا کچھ نہیں جاتا تھا۔