”میں یہاں نہیں رہوں گی۔” اعلان دو ٹوک تھا۔ شیر دل نے ایک لمحے کے لیے پلٹ کر ہاتھ کے اشارے سے شہر بانو کو خاموش ہونے کا اشاہ کیا۔ وہ اپنے کندھے سے لگی مثال کو بیڈ پر لٹا رہا تھا جو راستے میں گاڑی میں ہی سو گئی تھی۔ وہ دونوں ابھی SPہاؤس میں ڈنر سے واپس آئے تھے جو ان کے اعزاز میں تھا اور ڈنر سے واپسی پر شہر بانو کا موڈ بری طرح آف تھا۔ وہ اس کے پیچھے اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئی تھی اور اس نے اپنے کانوں سے ائیر رنگز اتارتے ہوئے شیر دل کو بتا دیا۔ شیر دل نے مثال کو توجہ سے بیڈ پر لٹاتے ہوئے بڑی لا پروائی سے شہر بانو کا اعلان سنا تھا۔ اسے SPہاؤس میں ڈنر پر آنے والے طوفان کا اندازہ ہو گیا تھا۔
شہر بانو اس کے اشارے پر خاموش ہو گئی تھی۔ کرسی پر بیٹھ کر سینڈلز کے اسٹریپس کھولتے ہوئے وہ بگڑے تیوروں کے ساتھ شیر دل کے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ شیر دل نے مثال کو بیڈ پر لٹانے کے بعد اس کو کمبل سے ڈھانپا پھر اس نے اپنا کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینکا۔ بیڈ پر سائڈ ٹیبل سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر اٹھاتے ہوئے وہ بڑی نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ والے بیڈروم میں لے آیا۔
”کیا ہو گیا شہی…؟” دونوں بیڈرومز کا درمیانی دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے شہر بانو کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے آہستگی سے کہا۔ وہ دونوں اب مثال کے بیڈروم میں تھے۔ وہ الگ بیڈ روم ہونے کے باوجود اس گھر کے بونوں کے قصے سننے کے بعد شہر بانو نے اسے کبھی ات کو اس کے بیڈ روم میں اکیلا سلانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
وہ تین ہفتوں کی تزئین و آرائش کے بعد ایک ہفتہ پہلے ہی اس گھر میں شفٹ ہوئے تھے اور اب مختلف انتظامی افسران کی طرف سے استقبالیے اٹینڈ کرتے پھر رہے تھے۔ اپنے تمام تر خدشات اور تحفظات کے باوجود شہر بانو، شیر دل کے اصرار اور سمجھانے بجھانے کے بعد اس گھر میں رہائش اختیار کرنے پر تیار ہو گئی تھی۔ وہ شیر دل کی سرکاری رہائش گاہ تھی وہاں رہائش نہ رکھنے کے لیے شیر دل کے پاس کوئی بہت بڑی وجہ ہونی چاہیے تھی خاص طور پر اس صورت میں جب اس سے پہلے آنے والے تمام افسران اس عمارت کو استعمال کرتے آ رہے تھے اور یہ بات شہر بانو کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ ایک ہفتے کے قیام میں وہاں ایسی کوئی چیز رونما نہیں ہوئی تھی جس سے شہر بانو کے خدشات کی تصدیق ہوتی۔ اسے یقین ہونے لگا تھا کہ شیر دل ٹھیک کہتا ہے۔ وہ سب سنی سنائی باتیں اور قصے تھے اور ان میں کوئی صداقت ہوتی تو وہ ڈی سی ہاؤس اس وقت HAUNTED قرار دیا جا چکا ہوتا اور اس شہر میں ڈی سی کی سرکاری رہائش گاہ کہیں اور منتقل ہو چکی ہوتی۔ ایک ہفتہ وہاں قیام کے دوران شہر بانو کا اطمینان اور اعتماد آہستہ آہستہ بحال ہونے لگا تھا اور مزید ایک آدھ ہفتے میں یہ مکمل طور پر بحال ہو جاتا اگر آج وہ اختر درانی کے ڈنر ٹیبل پر اس گھر کے بارے میں وہ سب کچھ نہ سنتی جو اس نے سنا تھا۔
ڈنر بڑے خوشگوار ماحول میں شروع ہوا تھا۔ اختر درانی، شیر دل سے پانچ کامن سینئر تھا۔ شیر دل اور شہر بانو، اختر درانی اور اس کی بیوی تزئین سے بہت کم عمر تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دوستانہ رویے کی وجہ سے شیر دل اور شہر بانو کو ان سے مل کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ شیر دل، اختر سے پہلے بھی چند بار مل چکا تھا لیکن اس کی بیوی سے ان کے گھر پر یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ ڈنر کے آغاز سے پہلے ڈرنکس سرو ہونے کے دوران تزئین اور اس کے درمیان گپ شپ ہونے لگی۔ دونوں ایک دوسرے کی فیملیز کا تعارف حاصل کر رہی تھیں۔ شیر دل اور اختر درانی کمرے کے دوسرے کونے میں صوفوں پر بیٹھے کسی انتظامی معاملے کو ڈسکس کر رہے تھے۔
”ماشاء اللہ بڑا گڈ لکنگ کپل ہے آپ دونوں کا۔” تزئین نے اپنا پہلا ستائشی جملہ اس تک پہنچایا۔ شہر بانو مسکرا دی۔ یہ کمپلیمنٹ ان کو اب اتنی بار مل چکا تھا کہ اس کے لیے یہ ایک روٹین کی بات ہو گئی تھی۔
”میاں اتنا ہینڈسم اور اتنی اچھی پوسٹ پر ہو تو بیوی کی راتوں کی نیند بھی اڑ جاتی ہے۔” تزئین نے مشروب کا گلاس بائیں سے دائیں ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے کہا۔ شہر بانو نے دور اختر درانی کے ساتھ باتوں میں مصروف شیر دل کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے تزئین سے کہا۔
”نہیں، مجھے بڑی گہری نیند آتی ہے۔”
”یہ سمجھداری کا کام نہیں ہے… رسیاں وغیرہ ڈال کر رکھنا چاہیے شوہروں کو… خاص طور پر اتنے خوش شکل شوہروں کو۔” شہر بانو اس بار اس کی بات پر ہنس دی پھر اس نے کہا۔
”یہ رسیوں سے قابو آنے والا مرد نہیں ہے، اعتماد کے دھاگے سے جکڑا ہوا ہے اسے۔” شہر بانو نے سپ لیتے ہوئے جیسے فخریہ انداز میں اس سے کہا۔
”لو میرج ہے کیا…؟” تزئین نے یک دم جسے کچھ اور دلچسپی لیتے ہوئے تجسس سے کہا۔
”لومیرج…؟” شہر بانو نے ایک لمحے کے لیے سپ لیتے ہوئے رک کر سوچا پھر وہ شیر دل کو تیسری بار دیکھتے ہوئے مسکرائی اور اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ہاں، اس طرح کی باتیں تبھی کرتا ہے بندہ۔” تزئین اس بار ہنسی تھی۔
”کیسے اور کہاں ملے تھے دونوں پہلی بار…؟” اس نے اگلا سوال کیا۔
…٭…
شہربانو نے شیر دل کو پہلی بار ہاروڈ یونیورسٹی کے Winthrop Houseکی ویب سائٹ پر دیکھا تھا۔ یونیورسٹی میں Freshmanکے طور پر اسے ابھی چند دن ہوئے تھے۔ وہ Winthrop House میں تھی اور ویب سائٹ پر اسپورٹس کی ایکٹیوٹیز کو چیک کرتے ہوئے اس نے شیر دل کی ایک تصویر دیکھی۔ چند لمحوں کے لیے وہ اس تصویر پر رک گئی تھی۔ تصویر میں نظر آنے والے مرد کی نیشنلٹی سے اندازہ لگانا مشکل تھا… وہ اپنے رنگ اور نقوش کے لحاظ سے عرب، ایرانی، افغانی، پاکستانی کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ بیس لائن پر پوری قوت سے کسی شاٹ گن کو ریٹرن کرتے ہوئے اس مرد کی شرٹ پسینے سے تر ہونے کے باوجود ناف سے اوپر تک اٹھی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں پاؤں کورٹ سے چند انچ اوپر ہوا میں تھے۔ ہاورڈ یونیوسٹی کے Go Crimsonکی تحریر والا ایک یونیورسٹی کلر کا Wrist Band اس کے دائیں بازو کے ابھرے ہوئے مسلز کو جیسے کلائی پر قید کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہونٹوں کو پوری قوت سے بھینچے… بیس لائن کے اندر پڑ کر باہر جانے والی گیند کو پوری طاقت اور مہارت سے سنگل Handedشاٹ کے ساتھ کھلاڑی ریٹرن کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ کوشش اور جنون کسی پروفیشنل فوٹو گرافرکے لینز نے اسی مہارت کے ساتھ محفوظ کر لی تھی۔ وہ ایک بے حد Unusualشاٹ تھا اور شاید کھلاڑی کی غیر معمولی Looksاس تصویر کے وہاں موجود ہونے کی وجہ بھی بنی تھی۔ یہ شہر بانو کا تجزیہ تھا۔
وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ Ivy League میں ہونے والے Straus Cupکے فائنل کا وننگ شاٹ تھا اور وہ کھلاڑی Crimson Tennis Teamکا کیپٹن تھا۔
شہر بانو کئی منٹ تک اس تصویر کو دیکھتی رہی… پھر وہ اپنے ہاؤس کی اسپورٹس Facilities میں ٹینس کو دیکھنے لگی تھی۔ جن چند اسپورٹس میں اسے بچپن سے دلچسپی رہی تھی ، ان میں سے ایک ٹینس بھی تھا اور وہ ہائی اسکول میں جن ووگیمز کو باقاعدگی کے ساتھ کھیلتی رہی تھی اس میں سے وہ ایک تھا۔ اس وقت بھی وہ یونیورسٹی میں ٹینس کھیلنے کے طریقہ کار کو جاننا چاہتی تھی۔ ٹینس کے Linkپر ٹینس ٹیم کے کیپٹن اور کوچ کا نام دیکھتے ہوئے اس نے کیپٹن کے نام کی جگہ شیر دل کا نام دیکھا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹکی تھی۔ ہاورڈ ٹینس ٹیم کے کیپٹن کے طور پر کسی مسلمان کا نام دیکھنا اور جو ساؤتھ ایشین بھی لگتا ہو ، غیر معمولی تھا ۔ اس وقت پہلی بار اسے خیال آیا کہ شاید وہ پاکستانی بھی ہو… کم از کم نام کے اس ایک حصے سے یہ ممکن تھا جو اس کے سامنے تھا۔ کوچ اور شیر دل کا ای میل ایڈریس نوٹ کرنے کے بعد وہ اب اس شش و پنج میں تھی کہ ٹینس کمیپس کو اٹینڈ کرنے اور یونیورسٹی ٹینس ٹیم کو جوائن کرنے کا طریقۂ کار جاننے کے لیے وہ کسے ای میل کرے۔ اس نے بالآخر کوچ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا، اینڈریوز کا آٹوریسپانس فوراً آیا تھا۔ وہ چھٹی پر تھا اس نے اسسٹنٹ کوچ اور شیر دل کا ای میل ایڈریس مزید معلومات کے لیے بھیجے تھے۔ اس بار شہر بانو نے شیر دل کو ہی ای میل کی تھی۔ ہ ابھی اپنی دوسری ای میلز چیک کر ہی رہی تھی کہ شیر دل کی ای میل آ گئی۔ ایک فارمل ای میل میں رسمی علیک سلیک کے ساتھ اس نے شہر بانو کو ایک اٹیچمنٹ بھیجی تھی جس میں وہ تمام معلومات تھیں جو شہر بانو کو درکار تھیں۔ ای میل میں اس نے مزید کسی رہنمائی یا معلومات کے لیے اپنا فون نمبر بھی دیا تھا۔
شہر بانو نے اس کی ای میل کے نیچے Signaturesمیں اس کا ڈیپارٹمنٹ اور سال دیکھا۔ وہ فنانس اور مینجمنٹ میں اپنی بیچلر ڈگری کے آخری سال میں تھا اور یقیناً پاس آؤٹ ہونے والا تھا۔ ایک سرسی نظر اس کے نام پر ڈالتے ہوئے وہ یہ تو جان گئی تھی کہ وہ واقعی پاکستانی تھا۔ ای میل کا جواب بھی چند منٹوں کے اندر ہی آیا تھا۔ وہ شیر دل سے اس کا پہلا غائبانہ تعارف تھا۔
٭……٭٭……٭
شیر دل سے اس کا دوسرا تعاف چند دنوں کے بعد Intramuralٹینس میچز کے دوران ہوا تھا۔ وہ Adams Houseکے خلاف اپنے ہاؤس کے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے گئی تھی اور کورٹ میں اترنے والے پہلے کھلاڑی کو وہ پہلی ہی نظر میں پہچان گئی تھی۔ وہ ویب سائٹ پر اس تصویر والا کھلاڑی تھا… اور وہ شیر دل تھا… اور وہ حقیقی زندگی میں صنفِ نازک کے لیے اس سے کئی گنا زیادہ پرکشش تھا جتنا وہ اس ویب سائٹ کے فوٹو شاٹ میں لگ رہا تھا۔ وہ شہر بانو کا ساتواںCrushتھا اس سے پہلے تین فلم ایکٹرز، دو ٹینس اسٹارز ، ایک رگبی پلیئر اس کی فہرست میں تھے… شیر دل کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ ان سات میں سے پہلا تھا جسے وہ اپنی زندگی میں دیکھ بھی رہی تھی اور کوشش کر کے مل بھی سکتی تھی۔
شیر دل وہ میچ اسٹریٹ Setsمیں جیتا تھا اور میچ کے دوران ہی شہر بانو کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کم از کم یونیورسٹی کی ٹینس کھیلنے اور دیکھنے والی خواتین میں انتہائی پاپولر تھا۔ Winthrop Houseکی ٹینس ٹیم کی سپورٹ کے لیے GTTC پہنچنے والوں کی آدھی سے زیادہ تعداد شیر دل کا حلقۂ احباب تھا… حلقۂ احباب شاید کچھ زیادہ موزوں لفظ نہیں تھا اس گیدرنگ کے تعارف کے لیے جو شیر دل کی وجہ سے وہاں اکٹھا تھا کیونکہ ان میں سے بہت سے شہر بانو کی طرح صرف اس کی Looksکی وجہ سے اس کے مداحوں میں شامل ہو گئے تھے۔ مداح بھی شاید ایک موزوں لفظ نہیں تھا ان سب کے لیے… کیونکہ ان میں سے کوئی بھی شیر دل کے کھیل کے لیے وہاں نہیں آتا تھا وہ سب شیر دل کے کھیلنے کی وجہ سے وہاں آئے یا آئی تھیں۔