عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

داؤد کے ساتھ شادی ایک مشکل فیصلہ تھا خاص طور پر اب جب شہربانو کو اپنی بہت سی غلطیوں کا احساس ہورہا تھا لیکن اب اس کے پاس چوائس نہیں رہی تھی۔ شیردل نئی زندگی کا آغاز کر چکا تھا اور وہ کسی کہانی کی ہیروئن ہوتی تو اکیلے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیتی لیکن وہ حقیقی زندگی میں شرمین کے گھر پر اکیلے نہیں رہ سکتی تھی خاص طور پر شادی کے لیے شرمین کے دباؤ کی وجہ سے بھی۔
اس کی زندگی داؤد سے شادی کے بعد بھی سنبھل نہیں سکی تھی بس اس کی زندگی اور ذات میں ایک اور خانے کا اضافہ ہو گیا تھا جس میں وہ ایک بیوی تھی کچھ ذمے داریوں کا بھی اضافہ ہو گیا تھا اور بس… اور کچھ نہیں ہوا تھا۔ نہ داؤد، شیردل جیسا ساتھی تھا، نہ اسے داؤد سے محبت ہو سکتی تھی اور نہ داؤد شیردل کی جگہ لے پایا تھا۔ وہ شہربانو سے صرف شادی کے لیے ایکسائٹڈ تھا، شادی ہو جانے اور اسے اپنے گھر لے آنے کے بعد وہ یک دم ہی اس کے لیے ایک بہت ثانوی سی چیز بن گئی تھی۔ یہ وہ داؤد بھی نہیں تھا جسے وہ اتنے سالوں سے جانتی تھی، اس داؤد اور اس داؤد کی زندگی، ترجیحات اور دلچسپیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا اور اس رشتے میں زمین شہربانو تھی۔
”تم کوئی جاب کیوں نہیں کرتیں… اتنی اچھی ڈگری ہے تمہارے پاس اور یہاں تو اس ڈگری کی بہت ویلیو ہے۔” داؤد نے شادی کے چند ہفتے بعد ہی اس سے ایک رات کہا تھا۔ وہ ابھی ہنی مون سے واپس آئے تھے اور شہربانو، مثال کو شرمین کے گھرسے اپنے گھر لے کرآئی تھی۔
”جاب؟” شہربانو نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ ان کی اتنے مہینوں کے میل ملاپ میں کبھی جاب کا تذکرہ نہیں ہوا تھا نہ داؤد نے کیا تھا نہ ہی اس نے کیا تھا۔
”ہاں۔” داؤد نے کہا۔




”میں نے تو انٹرن شپ کے بعد کبھی جاب کی ہی نہیں۔”
”ہاں لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ تم شادی کر کے پاکستان چلی گئی تھیں اگر امریکا میں رہ رہی ہوتیں تو یقینا کرتیں۔” داؤد نے اس کا جملہ اچکا۔
”گھراور جاب دونوں کو اکٹھے چلانا بہت مشکل ہے۔” اس نے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔
”اسی (80) فیصدعورتیں جو یہاں رہتی ہیں وہ یہ مشکل کام بڑی آسانی اور مہارت سے کرتی ہیں تم کرنا شروع کرو گی تو تمہیں بھی آسان لگنے لگے گا۔” داؤد اپنی بات پر جما ہوا تھا۔ ”ویسے بھی یہاں صرف ایک پارٹنر کے کام کرنے سے گزارہ نہیں ہوتا۔ میں نے نیا نیا گھر mortgage کیا ہے اس کی بہت heavy instalments دے رہا ہوں ابھی نئی گاڑی لی ہے اس کا بھی قرض ہے میرے سر پر… صرف میرے کام کرنے سے یہ گھر نہیں چل سکے گا۔” وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کی بات سنتی رہی۔ وہ نپے تلے لفظوں میں اسے کیا بات صاف صاف بتا رہا تھا وہ سمجھ سکتی تھی… کہ اسے بھی اس کے ساتھ کام کر کے گھر میں contribute کرنا پڑے گا ورنہ وہ اس کے اور اس کی بیٹی کے اخراجات نہیں اٹھائے گا۔ وہ امریکا تھا اور وہاں داؤد کا وہ مطالبہ غلط نہیں تھا مگر وہ کچھ دیر کے لیے سکتے میں ضرور آگئی تھی۔ سالوں گھر بیٹھے رہنے کے بعد اگر یک دم کوئی نوکری تلاش کرنے کے لیے کہتا تو کوئی بھی اس کی طرح پریشان ہوتا بعد میں اس نے سوچا اسے کام کرنا ہی چاہیے۔ شیردل، مثال کے اخراجات کے لیے اسے رقم دے رہا تھا مگر وہ نہیں جانتی تھی اب شادی کر لینے کے بعد کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد وہ اسے کچھ دیتا یا نہیں، اس وقت اس کا ذہن شیردل کو اچھی طرح جاننے کے باوجود اس کی جانب سے شکوک و شبہات کا شکار تھا۔
داؤد اور مثال کے درمیان بھی اس طرح کا کوئی رشتہ نہیں بن سکا تھا جس خواہش اور امید میں شہربانو نے داؤد کے ساتھ شادی کی تھی۔ داؤد کے پاس بیوی کی سابقہ شوہر سے ہونے والی اولاد کے ساتھ وقت گزارنے یا اس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش سے زیادہ دلچسپ اور اہم کام تھے۔ مثال اس کے نزدیک ایک unfriendly چائلڈ تھی جس کو بگاڑنے کا سارا کریڈٹ وہ شہربانو کے نازونعم کو دیتا تھا۔ اس کا خیال تھا اسے مثال کے پیچھے ہر وقت بھاگتے رہنے کے بجائے اسے وہ سب کرنے کی آزادی دے دینی چاہیے تھی جو وہ کرنا چاہتی تھی… شہربانو، مثال کے حوالے سے اس کے مشوروں اور رائے پر کان بھی نہیں دھرتی تھی۔ وہ اس کی اولاد نہیں تھی اور وہ نہ اولاد کی اہمیت کو سمجھتا تھا، نہ ہی اپنی اولاد پیدا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا اور یہ ایک اور مسئلہ تھا جو شہربانو کو اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ داؤد کو زارا کے ساتھ بھی یہی مسائل تھے جب وہ اولاد چاہتی تھی اس وقت داؤد کو اس میں دلچسپی نہیں تھی اور جب داؤد کو اس کا خیال آیا، اس وقت زارا کو اپنے کیریئر کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہی تھی اور زارا کے ساتھ ہونے والے بریک اپ کے بعد داؤد کو اب اگر کسی چیز میں دلچسپی تھی تو وہ اپنی ذات، اپنی خوشی، اپنی خواہشات تھیں۔ شادی سے پہلے وہ جس طرح شہربانو کو شادی پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے آگے پیچھے پھرتا، اس کی ناز برداریاں کرتا پھرتا، شادی کے بعد سب سے پہلے غائب ہونے والی چیز وہ ناز برداریاں ہی تھیں۔ وہ اب جیسے ایک بار پھر سے اپنی زندگی جینے لگا تھا جو میں، مجھے، میرا سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوتی تھی۔ زندگی میں آنے والا وہ دوسرا مرد کسی بھی طرح سے شہربانو کے لیے دلاسے کا باعث نہیں بنا تھا… صرف اس کے پچھتاوے میں اضافے کا باعث بن گیا تھا پہلے پچھتاوا شیردل کو چھوڑنے کا تھا… اب پچھتاوا اتنی جلد بازی میں داؤد کو اپنی زندگی میں شامل کر لینے کا بھی تھا۔
……٭……
”تم ایسا نہیں کرو گے شیردل۔” عکس نے دوٹوک انداز میں اسے جیسے خبردار کیا تھا۔ ان کی شادی کو ابھی کچھ دن گزرے تھے اور شہربانو، مثال کو لے کر پاکستان آئی تھی اور اس کے آنے کے فوراً بعد شیردل نے مثال کی کسٹڈی کے حوالے سے کورٹ میں کیس کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ کسی بھی صورت میں اسے دوبارہ شہربانو کے ساتھ واپس بھیجنا نہیں چاہتا تھا اس نے بختیار اور منزہ سے بھی یہ معاملہ ڈسکس کر لیا تھا اور ان دونوں کی بھی رائے یہی تھی کہ انہیں مثال کو شہربانو سے لے لینا چاہیے یہ کام اس لیے بھی ضروری تھا کہ شہربانو واپس جاکر داؤد سے شادی کرنے والی تھی اور مثال جس طرح شیردل سے اٹیچڈ تھی، شیردل کو بالکل نہیں لگتا تھا کہ اسے اس کی پرورش کرنے میں کوئی مسئلہ ہو سکتا تھا۔ لیکن عکس کے ساتھ یہ مسئلہ ڈسکس کرتے ہی وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی۔ ”تم اب ایک ماں سے اس کی بچی چھینو گے… وہ تم پر اعتبار کرتے ہوئے اسے یہاں لے کر آئی ہے۔” اس نے شیردل کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”اس نے بھی تو مجھ سے میری بیٹی کو چھینا تھا۔ میں نے بھی تو اس پر اعتبار کرتے ہوئے اسے marrige nuptials (ازدواجی بندھن کے ناتے) میں چائلڈ کسٹڈی دی تھی لیکن اس نے اسی ایک اجاز ت کو میرے خلاف استعمال کرتے ہوئے مجھے اپنی ہی بیٹی کی شکل دیکھنے کے لیے ترسا دیا تھا۔” شیردل کے انداز میں بے حد سردمہری تھی۔
”اس نے غلط کیا اور اب تم اس کی غلطی کو اپنی ایک بڑی غلطی سے بدلنا چاہتے ہو۔” عکس نے کہا۔
”I dont care ”
”You have to… یہ ایک چھ سالہ بچی کی زندگی کا سوال ہے، تم دونوں اپنی جنگیں اس پر لڑنا بند کر دو۔ تمہیں کیا لگتا ہے تم اسے شہربانو سے لے لو گے تو وہ آرام سے چلی جائے گی؟ وہ ایک کے بعد دوسری اپیل کرے گی اور وہ بھی امریکن ایمبیسی کی سپورٹ کے ساتھ… تم چاہتے ہو جیسا سین پہلے ہوا ہے ویسا ہی دوبارہ ہو… مزید شرمندگی اور ذلت اٹھاؤ تم۔” وہ اسے اس کے فیصلے کے مضمرات بتا رہی تھی۔
”تب میں دھوکے میں مارا گیا تھا۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد کرنے کی وجہ سے… لیکن اب وہ لے آئے جس کو بھی اپنی سپورٹ کے لیے لانا چاہتی ہے، میں دیکھوں گا وہ میری بیٹی کو پاکستان سے باہر کیسے لے کر جاتی ہے۔” عکس اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی۔ شیردل کو اس نے کبھی اس طرح کی scheming کرتے نہیں دیکھا تھا نہ وہ اسے کبھی بے وقوفانہ حد تک انا پرست لگا تھا لیکن اس وقت وہ اسے صرف ایک مرد لگ رہا تھا جس کے لیے سب سے اہم بات صرف اس pride کو بحال کرنا تھا جو اس سے اس کی بیوی چھین کر لے گئی تھی۔
”تم نے سوچا ہے مثال کیسی زندگی گزارے گی۔ اس طرح کی قانونی جنگ کا اس پر کیا اثر ہو گا؟” شیردل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”وہ میرے اور تمہارے ساتھ ایڈجسٹ کرلے گی… وہ بہت خوش رہے گی یہاں۔”
”تم اس equation میں سے مجھے اور میرے گھر کو نکال دو… میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھوں گی۔” عکس نے دوٹوک انداز میں کہا۔ شیردل کو جیسے یقین نہیں آیا۔
”تم میری اولاد کو نہیں پالو گی؟” اس نے جیسے عکس کو جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں تمہاری صرف وہ اولاد پالوں گی جو میں پیدا کروں گی میں کسی دوسری عورت کی اولاد چھین کر اس کی ماں بننے کی خواہش مند نہیں ہوں اور تمہیں اگر یہ کام کروانا ہے تو پھر تمہیں ایک تیسری شادی کرنی پڑے گی۔ I would not support you۔” عکس نے بہت صاف لفظوں میں اسے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
”میں تم سے ایسی بات کی توقع نہیں کر سکتا۔” شیردل کو یقینا شاک لگا تھا۔
”میں بھی تم سے اس طرح کے غلط کام کی توقع نہیں کر سکتی جو تم کرنے جارہے ہو۔ تم نے شادی کرلی ہے لیکن تم شہربانو کو punish کرنا چاہ رہے ہو کہ وہ شادی کر کے اپنی زندگی میں سیٹل ہونے کے بجائے یہاں کورٹس میں خوار ہوتی پھرے، تم ایسا کیسے کر سکتے ہو شیردل… تم مرد ہو،تعلیم یافتہ ہو… ایک باشعور انسان سے ایک جاہل اجڈ جانور کیوں بننا چاہتے ہو۔ اس عورت کے ساتھ تم نے اتنے اچھے سال گزارے ہیں اور کچھ نہیں تو تمہیں انہی سالوں کی پروا کرنی چاہیے۔ لحاظ ہونا چاہیے اس ایک رشتے کا جو کبھی تمہارے اور اس کے درمیان تھا۔” وہ اس کی باتوں سے سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھتا جارہا تھا وہ اسے ملامت کر رہی تھی، شرم دلا رہی تھی، عقل دے رہی تھی اور شیردل کو انہی چیزوں کی ضرورت تھی۔
”وہ مجھے مثال سے دوبارہ ملنے نہیں دے گی اگر اس بار وہ اسے لے گئی تو…” اس نے بالآخر جیسے ایک توجیہہ دینے کی کوشش کی تھی اپنے ان اقدامات کے لیے۔
”یہ تمہاری assumption ہے اور ایک وہم کی بنیاد پر تم اپنی بچی اور سابقہ بیوی کو کورٹس کے دھکے نہیں کھلوا سکتے۔ تم تو کورٹس میں جاتے ہو وہاں کا سسٹم اور حال دیکھا ہے تم نے… تم شہربانو کو وہاں کے چکر لگوانا چاہتے ہو؟” وہ اب کچھ نہیں بول سکا تھا۔
”جب وہ نہیں ملنے دے گی تو دیکھا جائے گاابھی تو وہ اچھے طریقے سے اسے یہیں لائی ہے، یہاں رہ رہی ہے اگر اس نے تم سے مثال کو دوررکھنا ہوتا تو وہ اب بھی اسے یہاں نہ لے کر آتی۔” عکس نے کہا۔
”وہ یہاں اس لیے آئی ہے تاکہ اگر میرے ساتھ patch up ہوسکتا ہے ہے تو کرلے… اسے پتا نہیں تھا کہ میں نے تم سے شادی کرلی ہے اگر اسے امریکا میں یہ پتا چل جاتا تو وہ کبھی مثال کو یہاں لے کر نہیں آتی… میں نے صرف ایسی کسی صورت حال سے بچنے کے لیے تم سے ایمرجنسی میں نکاح اور رخصتی کی۔” عکس حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی اسے شیر دل کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
Patch up” کیا مطلب…؟ تم دونوں کی divorce ہوچکی ہے پھر patch up کیسے ہوسکتا ہے۔”اس نے کہا۔
”طلاق کا حق تفویض کیا تھا میں نے اسے اور وہ ایک طلاق کے ساتھ علیحدگی کی شرط کے ساتھ تھا۔ ہم دونوں چاہیں تو دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔” اس نے ممی سے بات کی تھی اس بارے میں اور ممی نے مجھے پریشر رائز کیا تھا ،تمہارے نانا سے بھی بات کی تھی، عکس کا دماغ جیسے گھوم کر رہ گیا تھا۔
”انہوں نے مجھے ا یسا کچھ نہیں بتایا۔” عکس نے کہا۔
”ہاں لیکن انہوں نے مجھے بلوا کر بات کی تھی۔” وہ خاموش اسے دیکھتی رہی وہ اس شادی کے حوالے سے جو خدشات لے کر بیٹھی وہ غلط نہیں تھے… اور وہ سارے مسائل اب آہستہ آہستہ اس کے سامنے آنے لگے تھے۔
شہر بانو کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ پاکستان میں اس کے ایک ہفتے کے قیام کے دوران وہ عکس کی وجہ سے مصیبتوں کے کس پہاڑ سے بچی تھی۔ وہ ایک بلا تھی جو عکس نے اس دن شیر دل کو مجبور کر کے شہر بانو کے سر پر آنے سے ٹالی تھی۔
شیر دل مثال کے پاکستان سے چلے جانے کے کئی دن بعد تک بہت اپ سیٹ رہا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ نارمل ہونے لگا تھا۔ مثال امریکا جانے کے بعد بھی اس سے رابطے میں تھی اور اس کے ذہنی سکون کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اس کی پوسٹنگ انہی دنوںnufp ہوگئی تھی اور وہ جو پہلے عکس کے ساتھ لاہور یا کراچی میں ایک ہی شہر میں پوسٹنگ کروانے کا خواہش مند تھا اسے ایمر جنسی میں وہاں جانا پڑا تھا۔ عکس نے بھی اس کی پوسٹنگ والی جگہ پر اپنی پوسٹنگ کروانے کے لیے کوششیں ترک کردی تھیں کیونکہ شیر دل nufp میں جہاں پوسٹڈ تھا وہ فیملی کے لیے کچھ زیادہ محفوظ علاقہ نہیں تھا اور نہ ہی وہاں اچھی میڈیکل سہولیات تھیں عکس ان دنوں امید سے تھی اور وہ کوئی رسک لینا نہیں چاہتا تھا۔
”آپ نے مجھے یہ سب کیوں نہیں بتایا؟” شہر بانو اور شیر دل کی مصالحت کے حوالے سے ہونے والے انکشاف کے بعد عکس نے خیر دین سے بات کی تھی اور اس سے شکایتاً کہا تھا۔
”اگر تمہیں بتادیتا تو تم شیر دل کو چھوڑ دیتیں ۔” خیر دین نے کہا اور ٹھیک کیا تھا اگر اسے یہ پتا چلتا کہ شہر بانو نے شیر دل کے درمیان اب بھی مصالحت کی کوئی گنجائش تھی تو وہ ان دنوں کے درمیان سے ہٹ جانے میں ایک لمحے کا بھی تامل نہ کرتی بلکہ شاید وہ خود شیر دل کو اس مصالحت پر مجبور بھی کرتی۔




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!