عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

”میں نے صرف اس لیے نہیں بتایا کہ وہ خود تمہیں فون کرے اور بات کرے تو بہتر ہے، میں تم سے کوئی بات کرتی تو تمہیں غصہ آتا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں بھی فون کرے گی اس لیے میں انتظار میں تھی کہ وہ فون کرلے اور تم خود ہی بات کرو تو بہتر ہے۔” منزہ نے اطمینان سے کہتے ہوئے شیردل کو غور سے دیکھا،اس کی آنکھیں رات بھر جاگنے کی وجہ سے بے حد سرخ ہورہی تھیں لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پر وہ اضطراب اور تھکن نہیں تھی جو اتنے مہینوں سے وہ ہر روز دیکھنے کی عادی تھیں۔ عجیب سا سکون اترا تھا منزہ کے دل میں… چیزیں بالآخر ٹھیک ہونے لگی تھیں۔
”بیٹھے بٹھائے اسے فون کرنے کا خیال کیسے آگیا؟ اور اب یہ سب کچھ کرنے کے بعد؟” بختیار کے ماتھے پر بل تھے۔”کیا داؤد سے شادی ہوگئی اس کی؟”
”میں نے پوچھا نہیں۔” شیر دل نے بختیار کے سوال کا جواب دیا۔
”نہیں ہوئی۔” منزہ نے شیر دل کے مزید کچھ کہنے سے پہلے کہا۔ شیر دل اور بختیار نے چونک کر منزہ کو دیکھا تھا۔ ”اور میں تو خوش ہوں کہ نہیں ہوئی… اب اگر وہ مثال کو لے کر واپس آرہی ہے تو یقینا مصالحت کا بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ بہت شرمندہ تھی وہ اور اس نے اس کا اظہار بھی کیا تھا…ہونا بھی چاہیے تھا اسے شرمندہ۔” منزہ چائے پیتے پیتے کہتی گئی تھیں لیکن شیر دل صرف ایک لفظ مصالحت پر ٹھٹک گیا تھا۔
”کیسی مصالحت…؟”اس نے منزہ کی بات ختم ہونے کے بعد ان سے بے حد خشک لہجے میں کہا۔ منزہ ایک لمحے کے لیے اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئیں۔ شہر بانو نے کیا شیر دل سے مصالحت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے بے حد الجھ کر سوچا ۔




میز پر چند لمحے خاموشی رہی پھر منزہ نے بے حد سنبھل کر اس سے کہا۔
”اب وہ واپس آرہی ہے تو ہوسکتا ہے تمہارا اور اس کا patch up ہوجائے بلکہ میں چاہتی ہوں ایسا ہو ہی جائے ۔تم لوگوں کے ساتھ ساتھ مثال کی زندگی پر بھی اثر پڑرہا ہے۔”
”آپ نے اسے میری اور عکس کی شادی کے بارے میں بتایا؟” شیر دل نے ان کی بات کے جواب میں ان سے پوچھا تھا۔
”نہیں، میں نے نہیں بتایا…لیکن مجھے لگا اس کی ضرورت نہیں تھی اگر تمہاری اور شہر بانو کی مصالحت ہوجائے تو…” شیر دل نے ماں کی بات بے حد درشتگی سے کاٹی۔
”میری اور شہر بانو کی divorce ہوچکی ہے اور میری اور عکس کی شادی بھی طے ہوچکی ہے۔ آپ کون سی مصالحت کی بات کررہی ہیں؟” منزہ نے بختیار کو دیکھا ان کے ماتھے پر بھی ویسے ہی بل تھے جیسے شیر دل کے ماتھے پر تھے۔
”شہر بانو بہت شرمندہ ہے، اس نے مجھ سے معافی مانگی ہے۔ وہ سب کچھ بھول کر واپس آنا چاہتی ہے۔ تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہے… تم بھی جانتے ہو، تم دونوں اگر چاہو تو صرف نکاح کر کے دوبارہ اپنا گھر آباد کرسکتے ہو۔” منزہ نے با لآخر ہمت کر کے وہ بات کہہ دی جو وہ کہنا چاہتی تھیں۔ شیر دل ساکت بیٹھا ماں کو دیکھتا رہا… بے حس وحرکت پلکیں جھپکائے بغیر اس کے دماغ نے جیسے کچھ دیر کے لیے کام ہی کرنا چھوڑ دیا تھا۔
”اور میں ایسا نہیں چاہتا، آپ کو لگتا ہے کہ میں ایک ایسی عورت کو دوبارہ اپنے گھر میں لا کر آباد کروں گا جس نے گھر چھوڑتے ہوئے پورے شہر میں میرے اشتہار لگا کر مجھے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔” اس نے بے حد تلخی سے ماں سے کہا تھا۔
”وہ بہت شرمندہ ہے بیٹا۔” اس نے ماں کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”ا س کو میری اور عکس کی شادی کے بارے میں پتا چل گیا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا یہ بہت پرفیکٹ موقع ہے ایک بار پھر مجھے ایموشنلی بلیک میل کرنے کا… اولاد کا ہتھیار استعمال کر کے ۔”
”تم غلط سمجھ رہے ہو شیر دل اسے تو…” منزہ نے شہر بانو کی صفائی دینے کی کوشش کی تھی۔ شیر دل نے خفگی سے ایک بار پھر ان کی بات کاٹی۔
”ممی میں عکس کے ساتھ شادی کرنے والا ہوں آپ لوگ اس کی فیملی کے ساتھ تاریخ طے کر کے آئے ہیں اور میں اپنے وعدے کو dishonour کبھی نہیں کرسکتا۔” اس نے دو ٹوک انداز میں ماں سے کہا۔
”تم مثال کا سوچو… ”شیر دل نے ایک بار پھر بہت تند لہجے میں ماں کی بات کاٹی۔
”ممی وہ میری اولاد ہے اور آپ اسے اولاد رہنے دیں، مجھے بلیک میل کرنے کا ہتھیار مت بنائیں، شہر بانو اور میری شادی ختم ہوچکی ہے وہ چیپٹر اب دوبارہ کبھی نہیں کھل سکتا۔”وہ کہتا ہوا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔
”آپ ہی کچھ سمجھاتے اسے۔” منزہ نے اس کے جانے کے بعد قدرے بے بسی سے بختیار سے کہا۔
”سمجھانے کی ضرورت اسے نہیں تمہیں ہے… تم نے اور تمہاری فیملی کی عورتوں نے شادی کو کیا سمجھ رکھا ہے… مذاق…؟” بختیار نے بہت سخت الفاظ میں انہیں سرزنش کی تھی۔”چھ ماہ جس طرح پوری فیملی شہر بانو کے پیچھے خوار ہوتی رہی ہے وہ تمہیں یاد نہیں ہے؟ اور اب اگر وہ دوبارہ اپنا گھر بنانے کی کوشش کررہا ہے تو تمہیں ایک بار پھر اپنی بھتیجی یاد آگئی ہے اور تم نے یہ سوچا ہے کہ ہم لوگ عکس کی فیملی سے کیا کہیں گے؟ کیا apology (معذرت )دے کر رشتہ ختم کریں گے؟” بختیار، شیر دل ہی کی طرح برہم تھے۔
”میں عکس کے نانا سے پہلے ہی بات کر آئی ہوں۔” منزہ نے یک دم کہا۔”شاید وہ خود ہی رشتہ ختم کردیں… مجھے لگتا ہے۔” بختیار نے بے یقینی سے اپنی بیوی کا چہرہ دیکھا۔ وہ منزہ بختیار کا چہر نہیں تھا… وہ خود غرضی اور طبقاتی تقسیم کو پتھر کی لکیر ماننے والے ایک موقع پرست کا چہرہ تھا۔
……٭……
”نانا آپ مجھ سے کچھ چھپارہے ہیں؟” عکس نے خیر دین سے پوچھا۔
”نہیں۔” خیر دین نے نظریں ملائے بغیر انکار کیا۔
”شیر دل یہاں آتا ہے آپ مجھے نہیں بتاتے، اس کی ممی آتی ہیں آپ مجھے نہیں بتاتے… میں شیر دل سے پوچھتی ہوں وہ کچھ نہیں بتاتا… ” ان بے مقصد ملاقاتوں کی کوئی وجہ نہیں ہے؟” عکس کو خیر دین کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ اسے پچھلے دو تین دنوں میں وہاں آنے والے لوگوں کی تفصیلات آج ملی تھیں اور وہ حیرت زدہ تھی۔
”شادی کے ہزار انتظامات ہوتے ہیں اب اگر ان کے لیے وہ لوگ یہاں آجارہے ہیں تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔” خیر دین نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”لیکن آپ پریشان کیوں لگ رہے ہیں پچھلے چند دن سے؟” عکس نے کریدا۔
”تمہارا وہم ہے۔”
”میں آپ کا چہرہ پڑھ سکتی ہوں۔”وہ نہیں مانی تھی۔
”تمہاری شادی کا سوچ کر ادا س ہوں۔” خیر دین نے کہا اس نے یقین نہ آنے والے انداز میں خیر دین کو دیکھا۔
”میں شادی کے بعد بھی آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھوں گی۔ میں شیر دل سے یہ بات کرچکی ہوں۔” عکس نے کہا۔
” نہیں چڑیا میں اب…” عکس نے خیر دین کو بات مکمل کرنے نہیں دی اس نے بہت مستحکم آواز میں خیر دین سے کہا۔
”نانا مجھ سے وہ روایتی باتیں مت کیجیے گا کہ بیٹیوں کے گھر رہنا مناسب نہیں۔ وغیرہ وغیرہ… نہ میں روایتی ہوں نہ میں ایسی روایات پر یقین رکھتی ہوں جو انسانیت اور اخلاقی قدروں کے بجائے تعصبات پر بنائی گئی ہوں۔ میں اس عمر میں آپ کو تنہائی کے کسی عذاب کو اکیلا جھیلنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتی خاص طور پر اس صورت میں جب آپ بیمار بھی ہیں اور شیردل روایتی مرد نہیں ہے، اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے آپ کے ہمارے ساتھ رہنے پر… ہو گا بھی تو میں دور کر سکتی ہوں۔” عکس نے دوٹوک انداز میں خیردین سے کہا اور خیردین چاہتے ہوئے بھی اس سے بحث نہیں کر پایا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑے گی وہ لاکھ کوشش کرتا تب بھی نہیں۔
……٭……
لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل arrival launge ائر پورٹ کے باہر نکلنے سے بھی پہلے مثال نے شیردل کو دور سے دیکھ لیا تھا… ہمیشہ کی طرح اس نے شہربانو سے اپنا ہاتھ چھڑانے اور باہر نکلنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ اگر کوئی شیردل کو پہلی نظر میں نہیں پہچان سکا تھا تو وہ شہربانو تھی۔ وہ پہلے سے بہت کمزور ہو گیا تھا۔ اس کی رنگت زرد، آنکھوں کے گرد حلقے اور سر میں جابجا سفید بال تھے۔ وہ بازو مثال کے استقبال کے لیے پھیلائے گھٹنوں کے بل عجیب بے اختیاری کے عالم میں لاؤنج کے بالکل سامنے بیٹھا تھا۔ مثال لپکتی ہوئی اس کی گود میں سما گئی تھی۔ شیردل زندگی میں پہلی بار آتے جاتے لوگوں کے ہجوم میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکا تھا۔ مثال کو اپنے بازوؤں میں بھینچے وہ رو پڑا تھا۔ وہ اتنے دنوں سے ہر روز فون پر مثال سے بات کررہا تھا۔ اس کے باوجود اسے اپنے سامنے دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔ شہربانو اپنا بیگ سنبھالے ہوئے باہر اس کے نزدیک آگئی تھی۔ شیردل نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں تھا، وہ مثال کو اپنے بازوؤں میں سمیٹے اسی طرح اٹھ کر کھڑا ہو گیا نہ اس نے شہربانو سے علیک سلیک کی، نہ اس کا حال پوچھا، نہ اس کا سامان پکڑا۔ مثال کو اٹھائے وہ پلٹ گیا تھا۔ شہربانو جیسے ڈھیٹوں کی طرح اس کے پیچھے چلنے لگی تھی… ایک وقت وہ تھا جب وہ اس کے پیچھے پیچھے آتا تھا اور وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر تنفر سے چلتی رہتی تھی اور ایک وقت یہ تھا جب وہ یہ دیکھنے کی زحمت تک نہیں کررہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ تھی یا نہیں۔
گاڑی کے پاس پہنچ کر ڈرائیور نے اس سے سامان لے لیا تھا۔ شیردل ہمیشہ کی طرح اس کے ساتھ پیچھے نہیں بیٹھا تھا۔ وہ مثال کو لیے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ پورا راستہ صرف مثال بولتی رہتی تھی۔ اتنے مہینوں میں شہربانو نے اسے پہلی بار اس طرح خوش ہو کر باتیں کرتے دیکھا تھا… بالکل اسی طرح جیسے وہ ہمیشہ کرتی تھی۔ پچھتاوا کچھ اور گہرا ہوا تھا۔
گھر پہنچنے پرمنزہ نے اس کا استقبال کیا تھا۔ گرم جوشی دکھانے کی شدید کوشش کے باوجود شہربانو کو ان کے انداز میں ٹھنڈک نظر آئی تھی۔ وہ گھر کچھ عرصے پہلے اس کی سسرال تھا، وہ وہاں ملکیت کے احساس کے ساتھ آتی تھی آج وہ وہاں صرف ایک مہمان کے طور پر آئی تھی… ایک ہفتے کے لیے۔
عکس، شیردل کی زندگی میں آچکی تھی اس کا اندازہ اسے گاڑی میں ہی ہو گیا تھا جب اس نے عکس کی کال ریسیو کی تھی اور اسے فلائٹ کے آنے اور گھر کی طرف روانگی کے بارے میں بتاتے ہوئے اس سے کچھ اور باتیں کی تھیں۔ ایک وقت تھا جب وہ سوچتی تھی شیردل کی زندگی میں کوئی اور عورت آگئی تو وہ جیسے مر ہی جائے گی، وہ سانس بھی نہیں لے سکے گی شیردل کا نام کسی اور عورت کے نام کے ساتھ دیکھ کر… اور اب… وہ زندہ بیٹھی ان دونوں کی چند منٹ کی وہ گفتگو سنتی رہی تھی اور زندہ بھی رہی تھی اور سانس بھی لیتی رہی تھی… آسمان بھی نہیں ٹوٹا تھا… زمین بھی نہیں پھٹی تھی… شہربانو، شیردل سے وہ ایک بار پھر شہربانو شہباز ہو چکی تھی اور وہ نام کسی اور کے نام کے ساتھ لگ چکا تھا۔
اسے اس بار گیسٹ روم میں رکھا گیا تھا اور ایک گیسٹ والے پروٹوکول اور فارمیلٹی کے ساتھ… شیردل کو ابھی پوسٹنگ نہیں ملی تھی وہ یقینا اس کی وجہ سے وہاں مقیم تھا ورنہ یقینا عکس کے ساتھ ہی رہ رہا تھا… وہ ایک ہفتہ وہاں رہی تھی اور اس ایک ہفتے میں مثال اس کے پاس دن رات کے کسی وقت نہیں آئی تھی، وہ شیردل کے پاس ہی سوتی جاگتی رہی تھی اور شیردل کے ساتھ ہی سارا سارا دن گھومتی پھرتی رہتی۔ شہربانو کاہونایا نہ ہوناجیسے فیملی کے دوسرے لوگوں کی طرح اس کے لیے بھی میٹر نہیں کرنے لگا تھا خود شیردل سے اس کا آمنا سامنا کھانے کی میز پر بھی نہیں ہوتا تھا، وہ جان بوجھ کر اس کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا اور اس سمیت گھر کے باقی لوگ بھی… نند اور دیور سے بھی صرف ایک بار اس کی ملاقات ہوئی جب وہ کسی فیملی فنکشن میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے اور تب اسے احساس ہوا اس فیملی فنکشن میں عکس بھی لاہور آکر شریک ہوئی تھی لیکن وہ اس گھر میں نہیں آئی تھی… یقینا اس کی وجہ سے… وہ ایک اضافی اور غیر ضروری چیز بن گئی تھی اس فیملی کی زندگی میں…جہاں اس سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں ہوتا تھا… ان سب کی زندگی سے نکل جانے کا فیصلہ اس کا اپنا فیصلہ تھا اس کے باوجود شہربانو کو وہ سب دیکھتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی۔
منزہ اور اس کے درمیان ایک ہفتے کے قیام کے دوران کسی قسم کا کوئی ڈسکشن نہیں ہوا اور یقینا منزہ کو اس کے لیے خاص طور پر ہدایات دی گئی تھیں ورنہ وہ کچھ نہ کچھ کہنے سے باز رہنے والی نہیں تھیں۔
اپنی زندگی کا ایک اور مشکل ہفتہ وہاں گزار کر وہ روتی دھوتی مثال کو لے کر واپس امریکا آگئی تھی اور واپس آنے کے بعد ایک بار پھر سے مثال اسی رویے کا مظاہرہ کرنے لگی تھی جو وہ یہاں آنے کے بعد کرتی تھی،شیردل سے فون پر ہر روز بات کرنے نے بھی اس کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی… وہ شہربانو کی اکلوتی اولاد تھی اور وہ شہربانو سے بے حد ناخوش تھی… وہ ”پاپا” کے پاس رہنا چاہتی تھی۔ ممی کے پاس نہیں اور اسے ممی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس کی ناخوشی اور عدم دلچسپی میں اس وقت اور اضافہ ہو گیا تھا جب اس کی ”ممی” نے داؤد کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا اور انہیں نانو کا گھر چھوڑ کر ایک نئے گھر میں شفٹ ہونا تھا۔ وہ عکس سے نہیں ملی تھی نہ ہی شیردل نے اس سے ”نئی ممی” اور اپنی شادی کا ذکر کیا تھا اس لیے چھ سالہ اس بچی کی نظروں میں باپ اچھا تھا صرف ماں بری تھی جو اسے ہر اس جگہ اور شخص سے توڑنے اور الگ کرنے کا باعث بنی تھی جس سے وہ پیار کرتی تھی۔




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!