وہ خاموش ہوگیا تھا۔ وہ بھی خاموش ہی رہی تھی۔ زندگی واقعی بہت عجیب چیز ہے …کہاں کب کس کو کس سے کیسے ملاتی ہے اور ملاسکتی ہے انسان عقل کی ساری گتھیاں سلجھالے پھر بھی کبھی جان نہیں پاتا… جان سکتا ہی نہیں۔
ہم اپنی زندگی میں پسند اور ناپسند کے گوشوارے میں جو جو کچھ تحریر کرتے ہیں وہ اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے ان دونوں کی زندگی میں بھی کوشش کیے بغیر ہی بدل گیا تھا… کوئی تکلیف سے گزرا تھا اور کوئی تعجب سے گزررہا تھا… پر کہیں بھی کچھ بھی رکتا ہی نہیں ،نہ وقت ،نہ موسم ،نہ ہوا نہ آنکھ کا پانی۔
”تم رورہی ہو؟” کسی سسکی، ہچکی یا آواز کے بغیر بھی شیر دل نے اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ لی تھی۔
”ہاں…” اس نے بھرائی ہوئی مدھم آواز میں کہا۔
”بہت اچھا کررہی ہو صرف یہ ایک خصوصیت ہے جس کی وجہ سے تم مجھے کیوٹ لگتی تھیں۔” بڑے اطمینان سے کہے ہوئے اس جملے پر وہ روتے روتے ہنس پڑی تھی۔
”میں بیوی بننے کے بعد تمہیں رلابھی سکتی ہوں، عورتوں کی یہ خصوصیت بھی ہے مجھ میں۔” اس نے اپنی ناک رگڑتے ہوئے شیر دل سے کہا۔
”دیکھیں گے۔” اس نے بے پروائی سے کہا۔
اس رات زندگی میں پہلی بار وہ ساری رات فون پر بات کرتے رہے تھے۔ جیسے پل باندھنے، دیواریں توڑنے، رشتوں کو جوڑنے کی کوشش میں مصروف رہے… کام مشکل تھا پر ناممکن نہیں تھا ۔وہ ملبے کے جس ڈھیر کو صاف کر کے دوبارہ عمارت بنانے کی کوشش کررہے تھے اس کی بنیادیں پہلے سے ہی موجود تھیں صرف تلاش باقی تھی اور ان کے پاس اس کام کے لیے بہت وقت تھا۔
……٭……
خیر دین کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ اس عمر میں انسان اکثر اونچا سنتا ہے اور غلط بھی۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھا منزہ بہن۔” اس نے جیسے تصدیق کرنے کے لیے منزہ سے دوبارہ پوچھا تھا، وہ ابھی کچھ دیر پہلے بغیر اطلاع کیے اچانک وہاں پہنچی تھیں۔ خیر دین نے بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا تھا اس کا خیال تھا وہ عکس کے لیے کی جانے والی جیولری اور کپڑوں کی شاپنگ کے لیے کسی ناپ کے لیے وہاں آئی تھیں۔ حلیمہ بھی اس وقت عکس کے ساتھ ایسے ہی چند کاموں کے لیے بازار گئی تھی۔ خیر دین نے انہیں فون کرکے فوری طور پر بلوانا چاہا تو منزہ نے روک دیا۔ انہیں اس سے کچھ باتیں کرنی تھیں اور اکیلے میں کرنی تھیں۔ خیر دین کچھ الجھا … انہیں لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا تھا۔ لمبی تمہیدوں کے بعد انہوں نے کہا تھا وہ بھی تمہیدوں کی طرح خیر دین کو سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
”بھائی صاحب شیر دل کی بیوی مصالحت چاہتی ہے اور واپس گھر آنا چاہتی ہے۔” منزہ نے ایک بارپھر اپنا جملہ دہرایا تھا۔ اس دفعہ پہلے سے کچھ زیادہ مضبوط انداز میں۔
” لیکن ان دونوں کی تو طلاق ہوچکی ہے اب مصالحت کیسے ہوسکتی ہے؟” خیر دین کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔ اس جملے کا اصل مطلب کیا تھا وہ اچھی طرح سمجھ سکتا تھا اور اس کھائی کی گہرائی بھی جس میں اس نے عکس کو نادانستگی میں دھکیل دیا تھا۔
”طلاق کا حق تفویض کیا تھا لیکن صرف طلاق سے علیحدگی کا… شہر بانو نے وہی حق استعمال کیا تھا لیکن وہ اب وہ مصالحت چاہتی ہے تو مذہبی اور قانونی طور پر وہ دونوں صرف نکاح کر کے دوبارہ گھر آباد کرسکتے ہیں۔’ ‘ منزہ نے کہا تھا۔ خیر دین کے پاس کہنے کے لیے جیسے کچھ رہا ہی نہیں تھا۔ منزہ بولتی رہیں۔”ایک چھوٹی بچی کا معاملہ ہے، ہماری پوری فیملی بہت اپ سیٹ ہے… شیر دل بھی بہت الجھا ہوا ہے لیکن کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا ،میں نے سوچا میں آپ سے خود بات کرلوں، آپ کے سامنے یہ سارامعاملہ رکھوں گی تو آپ خود ہی اچھا فیصلہ کریں گے ۔عکس کو تو کوئی بھی مل سکتا ہے لیکن شہر بانو اور اس کی بچی کی زندگی تباہ ہورہی ہے، وہ معصوم بچی اپنے باپ کے بغیر کیسے رہے گی۔ شیر دل کا اس بچی کونہ مل پانے کی وجہ سے نروس بریک ڈاؤن ہوگیا۔ اب اگر ایک امید پیدا ہوگئی ہے اس فیملی کے دوبارہ اکٹھے ہونے کی تو بھائی صاحب آپ اس امید کو ختم مت کریں۔” منزہ نے لجاجت سے کہا تھا مگر وہ لجاجت بھی اس خود غرضی کو نہیں چھپا سکی تھی جو ان کے لہجے میں تھی۔
”میں نے عکس کا رشتہ ختم کر کے شیر دل سے اس کی بات طے کی ہے۔ آپ کو اندازہ ہے اس بات کا۔” خیر دین خفا نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن تلخی اور خفگی پھر بھی اس کی آواز میں عود کر آئی تھی۔
”مجھے اندازہ ہے اور بہت شرمندگی ہے لیکن میں پھر اس فیملی سے بات کرلیتی ہوں ابھی زیادہ دن تو نہیں ہوئے…بات ختم ہوئے… عکس اتنی اچھی لڑکی ہے وہ لوگ بہت خوش ہو کر دوبارہ…” خیر دین نے منزہ کی بات کاٹ دی۔
”مجھے اس معاملے میں آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ شیر دل کیا چاہتا ہے؟”
”وہ بہت الجھا ہوا اور پریشان ہے، نہ آپ کو انکار کرسکتا ہے اور شہر بانو سے مصالحت بھی چاہتا ہے۔” منزہ نے بلا توقف فراٹے سے جھوٹ بولا۔
”میں شیر دل سے خود بات کروں گا۔ جو وہ چاہے گا وہ ہوجائے گا۔” خیر دین نے کہا اور اس کی بات پر منزہ کو گھبراہٹ ہوئی۔
”بھائی صاحب شیر دل سے اس معاملے میں کوئی بات نہ کریں، آپ جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کریں ہمیں خوشی سے قبول ہوگا لیکن آپ بس شیر دل سے کچھ بھی ڈسکس نہ کریں… وہ پہلے ہی بہت پریشان ہے۔ میں نہیں چاہتی اس کی اور ہماری ٹینشن بڑھے۔” خیر دین نے ہاں یا نہ میں کچھ نہیں کہا۔ منزہ اس کے بعد وہاں زیادہ دیر تک رکی نہیں تھیں۔
ہر ایک اپنی، اپنی فیملی اور اولاد بچانے کی کوشش میں آخری حد تک جارہا تھا۔ منزہ بھی چلی گئی تھیں۔ ایک جھوٹ سے اگر شہر بانو اور مثال واپس آجاتے اور عکس ان کی زندگی سے نکل جاتی تو یہ مہنگا سودا نہیں تھا۔ وہ آج یہاں ایک بار پھر سب کچھ داؤ پر لگا کر آئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد خیر دین گنگ سا بیٹھا رہا تھا۔ منزہ اس سے عظمت اور اعلیٰ ظرفی کا مینارہ بننے کا مطالبہ کر کے گئی تھیں اور وہ ،وہ نہیں بن سکتا تھا۔ ہم ساری زندگی بے غرض اور اعلیٰ ظرفی نہیں دکھاسکتے ۔کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ہم کمزور ضرور پڑتے ہیں۔ خیر دین بھی اس دن منزہ کے جانے کے بعد ترازو میں سب کچھ رکھ کر پڑگیا تھا۔ یہ گڈے گڑیا کا کھیل نہیں تھا اس کی چڑیا کی زندگی تھی۔ وہ بار بار اس سے اس کی پسندیدہ چیز چھین کر کسی دوسرے کو نہیں دے سکتا تھا۔
……٭……
”وہ اس وقت سونے کے لیے بیڈ روم میں میں آیا تھا اور اس نے چند لمحے پہلے ہی اپنا سیل فون سائڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔ سیل فون رکھتے ہوئے اس پر شہر بانو کا نام چمکا تھا، divorce ہوجانے کے بعد بھی وہ نام اور نمبر اس کے سیل فون میں محفوظ تھا بالکل اسی طرح جس طرح وہ اب بھی اس کی زندگی اور ذہن پر نقش تھی۔ اس نے سیل فون اٹھا کر دیکھ کر جیسے ایک بار پھر یقین دہانی کی تھی کہ وہ اسی کا نام تھا اور پھر وہ الجھا تھا… کال لے نہ لے… اور پھر اسے مثال کا خیال آیا تھا اور اس نے جیسے ایک میکانکی انداز میں برق رفتاری سے کال ریسیو کی تھی۔
”ہیلو!” اس کی ہیلو کے جواب میں دوسری طرف بہت دیر خاموشی رہی۔ شیر دل کو لگاجیسے لائن ڈس کنیکٹ ہوگئی تھی اس نے دوبارہ ہیلو کہا اور اس بار اس نے دوسری طرف شہر بانو کی آواز سنی تھی۔
”ہیلو…”اس ہیلو کے بعد اگلے چند سیکنڈز دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
”مثال کیسی ہے؟” خاموشی بلآخر شیر دل نے توڑی تھی اور شہر بانو کو توقع تھی کہ وہ اس کا حال نہیں پوچھے گا۔
” وہ ٹھیک ہے۔” اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اس نے شیر دل سے کہا۔”تم کیسے ہو؟” اسے سوال پوچھنے کے بعد اندازہ ہوا اس نے غلط سوال کیا تھا۔
”اس سے میری بات کراؤ۔” شیر دل نے اس غلط سوال کا جواب دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔
”اسکول میں ہے وہ اس وقت… لیکن میں تمہاری بات کراؤں گی۔” شہر بانو نے اس سے کہا تھا۔
”کب…؟شیر دل نے بے تابی سے پوچھا۔
”جب وہ اسکول سے واپس آئے گی لیکن تب تک تم سوچکے ہوگے… میں ویک اینڈ پر کروادوں گی۔” شہر بانو کو خیال آیا کہ پاکستان میں کچھ گھنٹوں کے بعد رات کا پچھلا پہر شروع ہوجاتا۔
”میں جاگ لوں گا ،میں ویسے بھی جاگتا رہتا ہوں اس وقت۔” شیر دل نے فور ی طور پر کہا۔ شہر بانو چپ سی ہوگئی تھی۔
”ممی نے بتایا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اب کیسے ہو تم؟” شیر دل کو فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کہ وہ کس ممی کی بات کررہی تھی… یقینا منزہ کی ورنہ شرمین کو اس کی طبیعت کی خرابی کا پتا کیسے چل سکتا تھا۔ وہ منزہ سے بھی بات کرچکی تھی۔ شیر دل کو اچنبھا ہوا۔
”ہاں، میں ٹھیک ہوں۔” اس نے بے تاثر لہجے میں کہا ۔وہ جاننا چاہتا تھا اس کال کی وجہ کیا تھی، وہ بیٹھے بٹھائے یوں اسے اور منزہ کو کال کیوں کررہی تھی۔ مثال سے بات کرانے پر تیار کیوں ہوگئی تھی۔
”کیا ممی نے تمہیں کال کی تھی؟”شیر دل کو ایک دفعہ خدشہ ہوا۔
”نہیں، انہوں نے نہیں کی تھی میں نے انہیں کی تھی۔” شہر بانو نے اسی مدھم آواز میں کہا۔
”کیوں؟” شیر دل کے سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔وہ اس سے معذرت کرنا چاہتی تھی… اب وقت گزرگیا تھا۔۔ شرمندگی کا اظہار کرنا چاہتی تھی… اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا وہ واپس آنا چاہتی تھی… وہ سمجھ نہیں سکاتھا… اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ عکس کو کیوں اپنی زندگی میں لارہا تھا… اور ایسے سوالوں کا حق نہیں رہا تھا… گفتگو پھر ہوتی تو کس موضوع پر ہوتی… شہر بانو نے یک دم بڑے بوجھل دل کے ساتھ فون رکھ دیا۔ شیر دل بہت دیر تک فون پکڑے اسی طرح بیٹھا رہا۔ وہ ایک فون کال سے اس کے سارے زخم ادھیڑ گئی تھی۔ وہ اگلے کئی گھنٹے اسی طرح فون ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا… ایک بار پھر ان چند تکلیف دہ ہفتوں کو دوبارہ زندہ کرتا رہا۔ جب اسے یقین ہوگیا تھا کہ گھر ٹوٹنے کے بعد وہ دوبارہ کبھی مثال کو نہیں دیکھ سکے گا اور اگر کبھی دیکھ پایا بھی تو تب تک وہ اس کا چہرہ تک بھول چکی ہوگی…اور اب … امکان کی کھڑکی ایسے کھلی تھی کہ اسے اندر آنے والی روشنی کو روشنی سمجھنا مشکل ہورہا تھا۔
ٹھیک ساڑھے تین گھنٹے کے بعد اس کے فون پر ایک بار پھر شہر بانو کا نمبر چمکا تھا،اس بار فون اٹھانے پر کان میں پڑنے والی آواز سن کر وہ جیسے لمحوں بعد موم کی طرح پگھلا تھا۔ مثال نے ہیلو کہنے کے بعد باپ کی آواز سنتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا تھا۔ اس کے پاس کھڑی شہر بانو ہل کر رہ گئی تھی۔ درد اور تکلیف کا اس سے کھل کر اظہار ایک بچہ اور کیا کرتا۔ دوسری طرف اس کی آواز سنتا شیر دل بھی رو پڑا تھا۔ وہ اس کی اولاد تھی اور وہ اس سے اتنی دور تھی کہ وہ اسے سینے سے لپٹا کر تھپک کر اس کے آنسو تک نہیں پونچھ سکتا تھا، پونچھ سکتا تو اسے کبھی اس طرح رونے نہ دیتا… شہر بانو نے اس کے اور اس کی اولاد کے ساتھ بہت زیادتی کی تھی۔ اپنی بیٹی کو یوں بلکتے دیکھ کر شیر دل کے اندر شہر بانو کے لیے خفگی اور بڑھ گئی تھی۔ اس کی جذباتیت اور بے وقوفی نے اس کا ہنستا بستا گھر لمحوں میں تباہ کردیا تھا۔
”Papa i want to come back ‘‘مثال روتے ہوئے شیر دل سے بار بار کہہ رہی تھی اور شہر بانو نے عجیب رنج کے عالم میں اسے دیکھا۔ بچے خوش قسمت ہوتے ہیں ان میں کوئی انا نہیں ہوتی… وہ کبھی کچھ بھی کہتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ان کی بات سے ان کی عزت میں کمی آئے گی وہ بھی یہی جملہ شیر دل سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ واپس آنا چاہتی تھی لیکن وہ نہیں کہہ سکتی تھی کبھی کبھار بڑ اہوناآپ کا سب سے بڑا عیب بن جاتا ہے۔
اس رات مثال کو بہ مشکل سلانے کے بعد شہر بانو پہلی کئی راتوں کی طرح جاگتی اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ شاید پہلی بار اس نے اس mess کا حقیقت پسندی اور غیر جانبداری سے جائزہ لیاتھا جو اس نے اپنے شیر دل اور مثال کے لیے پیدا کرلیا تھا۔ تھوڑی سی برداشت ،تھوڑی سی اعلیٰ ظرفی، تھوڑا سا حوصلہ …کچھ زیادہ تو نہیں چاہیے تھا اسے اس سارے مسئلے سے نبٹنے کے لیے جو مٹی کا ایک ٹیلا تھا پر وہ اسے اپنے لیے ماؤنٹ ایورسٹ بنا بیٹھی تھی۔
”شہر بانو، مثال کو لے کر آرہی ہے 27 کو۔” شیر دل نے اگلی صبح ناشتے کی میز پر بختیار اور منزہ کو بتایا۔ وہ آج خلاف معمول ناشتے کی میز پر موجود تھا ورنہ وہ ہر روز بہت دیر سے سو کر اٹھتا تھا۔ منزہ کو حیرت نہیں ہوئی لیکن بختیار آملیٹ کو کانٹے اور چھری سے کاٹتے کاٹتے چونک گئے تھے۔
”شہر بانو نے تمہیں فون کیا ہے؟” انہوں نے تعجب سے شیر دل سے پوچھا۔ شیر دل نے سر ہلادیا اور منزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔”ممی کو بھی کیا تھاbut I,am surprised ممی نے مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا۔” اس نے جیسے کچھ کھوجنے اور کریدنے والی نظروں سے منزہ کو دیکھا تھا۔