”میں چاہتی ہوں اب تم اپنے تمام jokes میں سے شیر دل کو نکال دو… دنیا میں اور بہت سی چیزیں اور لوگ اس سے زیادہfunny ہیں تم چاہو تو میں کچھ لوگوں کے نام تمہیں بتاسکتی ہوں۔”وہ بہت سہولت سے گفتگو کو اس موضوع سے ہٹالے گئی تھی جس پر وہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔غنی نے بھی موضوع بدلنے دیا تھا۔ وہ شیر دل کا خیر خواہ مر کے بھی نہیں ہوسکتا تھا لیکن وہ عکس کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا اور یہ بات عکس جانتی تھی عجیب بات تھی، لیکن زندگی میں اس کی ساری دوستیاں ہمیشہ لڑکوں سے ہی ہوتی رہی تھیں… کم دوستیاں لیکن بہت مضبوط اور قابل بھروسہ تعلقات… اسکول میں پھر بھی کسی حد تک اس کی کچھ چھوٹی موٹی دوستیاں لڑکیوں سے رہی تھیں لیکن میڈیکل کالج، اکیڈمی اور پھر جاب میں آنے کے بعد اس کے دوستوں کا سب سے قریبی سرکل مردوں پر مشتمل رہا تھا۔ کئی بار اس نے بیٹھ کر اس چیز analyze بھی کیا تھا اور ہر باراسے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آئی تھی… خیر دین… اس کی زندگی پر حلیمہ کے بجائے خیر دین کا اثررہا تھا۔ اس کا پورا بچپن ایک مرد کے گرد گھومتا رہا تھا۔ جو اس کے ساتھ صرف ایک خونی رشتہ نہیں رکھتا تھا بلکہ اس کا بہترین دوست اور استاد بھی تھا اور جس نے اسے زندگی میں کبھی انسانوں کو صنف کی بنیاد پر تعصب کا شکار ہونے نہیں دیا تھا جس نے اچھائی اور برائی کے بارے میں بات کرتے وقت اس کے سامنے ہمیشہ انسانوں کی اچھائی اور برائی کی بات کی تھی مردوں یا عورتوں کی نہیں، اپنی زندگی میں مردوں سے ہونے والے تمام تلخ تجربات کے باوجود اگر عکس مراد علی کے لیے کوئی رول ماڈلز رہے تھے تو مرد ہی رہے تھے… خیر دین کی شکل میں، میڈیکل کالج کے پروفیسرز کی شکل میں… اکیڈمی میں انسٹر کٹرز اور پروفیشنل لائف میں سینئر آفیسرز کی شکل میں… شیر دل اور غنی کی شکل میں، چند عزیز ترین دوستوں کی شکل میں جن کے مشوروں اور رائے کو وہ ہمیشہ بہت اہمیت دیتی رہی تھی لیکن اپنی زندگی میں مردوں کی اتنی نمایاں اہمیت اور اثرہونے کے باوجود ایک عورت کے طور پر اس نے نہ اپنی شخصیت پر صنف مخالف کی کوئی چھاپ لی تھی نہ وہ صنف نازک ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پر کسی عدم تحفظ اور کمپلیکس کا شکار تھی۔ وہ ایک عورت اور ایک انسان کے طور پر اپنی انفرادیت کوبرقرار رکھے ہوئے تھی… اور وہ کتنا مشکل کام کررہی تھی خود اسے بھی کبھی ا س کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔
……٭……
کسی کی زندگی سے خود نکل جانا اور بات ہے لیکن اپنی جگہ کو بڑی آسانی سے پر ہوتے دیکھنا اور بات …کسی سے نفرت ہو تو بھی تکلیف ہوتی ہے اور وہ شخص جو اپنی زندگی میں آپ کو replaceکررہا ہو وہ آپ کی پہلی اور آخری محبت ہو تو پھر صرف تکلیف نہیں ہوتی… انسان سولی پر لٹک جاتا ہے، نہ بھول سکتا ہے نہ نظر انداز کرسکتا ہے… صبر کرلینا تو ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔
شہر بانو بھی عکس اور شیر دل کی شادی کی خبر سن کر کچھ ایسی ہی تکلیف سے گزررہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ عکس کی جگہ شیر دل کی زندگی میں کوئی اور عورت آتی تو اس کا رد عمل کیسا ہوتا… تکلیف تو اسے یقینا تب بھی ہوتی لیکن یہ غصہ اور غم جو وہ اپنی چیز اس شخص کی ہوتی دیکھ کر محسوس کررہی تھی جس سے اس نے زندگی میں سب سے زیادہ نفرت کی تھی… یہ غصہ شاید وہ تب محسوس نہ کرتی وہ شیر دل کو چھوڑتے ہوئے اسے option دے آئی تھی کہ وہ عکس سے شادی کرلے کیونکہ وہ اس سے نہیں عکس ہی سے محبت کرتا تھا لیکن اب جب وہ ہونے جارہا تھا تو وہ عجیب صدمے اور بے بسی کی کیفیت سے دوچار تھی… کہیں نہ کہیں اسے امید تھی کہ اس ایشو پر اس کی طلاق ہونے کے بعد شیر دل کسی سے بھی شادی کرتا لیکن عکس سے شادی نہیں کرسکتا تھا۔ کہیں نہ کہیں اسے یقین تھا منزہ اور بختیار کبھی عکس کو اپنی بہو بنانے پر رضامند نہیں ہوسکتے تھے خاص طور پر اس بیک گراؤنڈ اور اس ٹریجڈی کے بعد جس کا ایک کردار اگر عکس تھی تو دوسرا کردار شہباز حسین تھا… اس کا باپ… منزہ کا اکلوتا بھائی… اس خاندان کو چھوڑ آنے کے باوجود وہ یہ توقع کررہی تھی کہ وہ اپنوں اور غیروں میں فرق رکھیں گے… جنہیں وہ ناپسند کرتی تھی وہ سب بھی ان کے لیے اتنی ہی ناپسندیدگی اور بے مہری رکھیں گے… اور اب جب سب کچھ اس کی توقعات اور اندازوں کے برعکس ہوا تھا تو وہ سکتے سے زیادہ صدمے میں بیٹھی تھی۔
غلط توقعات ،غلط اندازے ،واضح فیصلے غلط اور جلد بازی ہی شہر بانو کی زندگی کو define کرتے تھے۔ ضرورت سے زیادہ حساسیت اور انا پرستی وہ دوسرے مسائل تھے جن سے وہ دوچار تھی اور وہ ان میں سے کسی ایک خامی کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی کیونکہ وہ اپنی شخصیت میں ان خامیوں کی کبھی نشاندہی کر ہی نہیں پائی تھی۔ سب سے آسان کام وہ تھا جو وہ بھی ہر بے وقوف کی طرح کرتی تھی۔ اپنی زندگی میں پیدا ہونے والے ہر مسئلے کی ذمے داری دوسروں کے سر تھوپ دینا… خود پر ترس کھانا اور کھاتے ہی چلے جانا… اور وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی… کہانی کی پرفیکٹ ہیروئن… بے پناہ حسین ،نازک خاندانی، کمزور، بات بات پر گھبرا کر رودینے والی، مصیبتوں میں گھری ہوئی… اور ہمیشہ کسی ایسے شہزادے کی منتظر جو اسے اس کی زندگی کے ہر مسئلے اور مصیبت سے بچا کر اپنے ساتھ اپنے محل میں لے جاتا جہاں وہ دونوں ہمیشہ ہنسی خوشی زندگی گزارتے… اور پڑھنے والے ایک اطمینان بھری سانس اور مسکراہٹ کے ساتھ کہانی کا آخری صفحہ پلٹ کر کتاب بند کرتے… اور ناظرین اپنی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے تالیاں پیٹ پیٹ کر اور اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو کر سینما اسکرین پر ابھرنے والے ا س خوش وخرم جوڑے کے آخری shot پر داد دیتے جس میں وہ اپنے محل کی بالکونی سے ایک دوسرے کی بانہوں میں بالکونی کے نیچے موجود لوگوں کی طرف ہاتھ ہلاتے۔
زندگی کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ کہانی کے آخری صفحے سے شروع ہوتی ہے اس میں بعض دفعہ شہزادے کی آمد بھی ہیروئن کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی… اور کئی بار محل میں پہنچ جانے کے بعد بھی ہیروئن اپنے لیے مصیبت کا انبار کھڑا کرلیتی ہے۔
شہر بانو نے بھی یہی کیا تھا اور اب وہ پچھتارہی تھی لیکن شہزادے کی دوبارہ آمد کہیں سے ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔
”تو تم اب کیا کرنا چاہتی ہو؟” شرمین نے یہ سب کچھ جاننے کے بعد اس سے پوچھا تھا۔ شہر بانو کو کم از کم ماں کو اپنی anguish mental (ذہنی اذیت) کے بارے میں بتانے کے لیے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا چہرہ اور پورا وجود یہ بتارہا تھا۔
”میں شیر دل سے پھر بھی رابطہ کروں گی شادی کے لیے نہیں… لیکن میں چاہتی ہوں مثال اس سے ملتی رہے۔”زندگی میں شاید پہلی بار اس نے کوئی صحیح فیصلہ کیا تھا اور شرمین نے اسے ٹوکا نہیں تھا اس نے بس ایک سوال کیا تھا۔
”مثال سے کیسے ملے گا وہ؟ وہ یہاں آنہیں سکتا… تو کیا تم وہاں جاؤگی؟ اور اگر جاؤگی تو پھر داؤد اعتراض کرسکتا ہے۔”
……٭……
”I am so sorry میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی حرکت کرسکتا ہے۔ میرا مطلب ہے میں یہ سمجھ نہیں پارہا کہ اتنی جرات کیسے آگئی اس میں، صبح سے اسی ایک بات کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔” ایبک شیر دل بہت معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔وہ تحمل سے اس کی بات سنتی رہی وہ اس وقت ڈنر کرنے کے بعد اپنے بیڈ روم میں آئی تھی جب شیر دل نے اسے کال کیا تھا۔ اس نے آفس میں بھی کئی بار اسے فون کیا تھا لیکن عکس اس قدر مصروف اور الجھی ہوئی تھی کہ اس نے شیر دل کی کال نہیں لی۔ شیر دل کو لگا کال نہ لینے کی وجہ اس کا وہ مشورہ تھا جو عکس کو مہنگا پڑگیا تھا۔ وہ اس لیے بھی کچھ panicked پریشان تھا کہ اس نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ کودنے کے بعد جیکب مسیح کا بنا کیا… اس کے بہت دفعہ کے text کے بعد بھی عکس نے اسے جواب نہیں دیا تھا اور اس کی خاموشی نے شیر دل کو کچھ پریشان کردیا تھا۔ ڈی سی آفس کی چھت سے کود کر کسی کا مر جانا اس صورت میں اور بھی سنگین معاملہ تھا اگریہ رد عمل ڈی سی کے کود جاؤکے اعلان کے بعد ہوا تھا… اور خاص طور پر ایک خاتون آفیسر کی طرف … عکس کے جواب نہ دینے کے باوجود اس نے اپنے اسٹاف کے ذریعے یہ معلوم کرلیا تھا کہ جیکب مسیح خود کشی کی اس کوشش کے باوجود زندہ سلامت تھا اور شیر دل نے اس خبر کے ملنے کے بعد جیسے سکون کی سانس لی تھی لیکن اس کے باوجود عکس سے بات کر کے معذرت کرنا ضروری ہوگیا تھا۔
”تو کیا نتیجہ اخذ کیا تم نے اتنی لمبی سوچ بچار کے بعد؟” اس کا لب ولہجہ طنزیہ نہیں تھا لیکن شیر دل جانتا تھا کہ وہ طنزہی تھا۔
”میرا خیال ہے وہ کسی عورت کی طرف سے کہے ہوئے اس چیلنج کو برداشت نہیں کرسکا اگر تمہاری جگہ کوئی مرد اسے یہ کہتا تو وہ کبھی نہ کودتا لیکن…تم نے کہا تو اس کے لیے یہ عزت کا مسئلہ بن گیا ۔” شیر دل نے سنجیدہ لہجے میں مذاق کیا تھا۔
”مجھے تم سے اسی طرح کے نتیجے کی امید تھی۔” عکس نے اسی تحمل سے کہا۔
”یار مذاق کررہا ہوں میں۔” شیر دل فوراً سنبھلا تھا اسے احساس ہوا شاید یہ کوئی زیادہ مناسب موقع نہیں تھا ایسی بات کے کہنے کا۔
”ویسے for your kind information میں نے تمہار ے مشورے پر عمل نہیں کیا تھا۔”
”اوہ اچھا تو میں خواہ مخواہ شرمندہ ہورہا ہوں۔” شیر دل یک دم مطمئن ہوا تھا۔”لیکن پھر کیوں کودا وہ؟”
”کیونکہ وہ کودنے ہی آیا تھا… بچ اس لیے گیا کیونکہ نیچے فائر بریگیڈ والوں نے net لگایا ہوا تھا۔they cooped him in time ۔وہ اب اسے بتارہی تھی۔”لیکن میں نے بہر حال اسے جاب پر بحال کردیا ہے۔”
” ویری گڈ… اب تم دیکھنا جس کے خلاف بھی کوئی disciplinary action (تادیبی کارروائی) ہوگا وہ سیدھا تمہارے آفس کی چھت پراسی کام کے لیے پہنچ جائے گا۔” شیر دل نے ناپسندیدگی سے کہا۔
”اب تم کہہ دوpoor woman, poor management ۔” عکس نے بے ساختہ کہا۔ وہ جواباً ہنس دیا۔
” تم ہر بات کو اب زیادہ ہی دل پر لینے لگی ہو۔” وہ اب ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگا تھا۔
”ہاں دماغ نے کام کرنا چھوڑ ا ہوا ہے میرے آج کل… اس لیے دل پر بوجھ ڈال دیا ہے سارا۔” اس نے جواباً کہا۔
”ویسے بھی تم ہو ناں دماغ استعمال کرنے کے لیے… آج کل بہت سارے نئے نئے کاموں میں دماغ لگا رکھا ہے تم نے۔” عکس نے دوسرے جملے میں اسے چوٹ کی تھی۔ شیر دل کو ریفرنس بوجھنے میں سیکنڈز لگے۔
”بعض ”نئے کام”بہت پہلے ہوجاتے تو نہ تمہارا دماغ کام کرنا چھوڑتا نہ میرا دل۔”
”ساری عمر تم مجھے اسی ایک بات کے طعنے دوگے۔” وہ ہنس پڑی تھی۔
” میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا۔”
”نانا کے پاس آنے سے پہلے تمہیں مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا …تم نے میرے لیے بہت مشکل صورت حال پیدا کردی ہے۔” شیر دل اس کی بات کے جواب میں کچھ دیر خاموش رہا۔
”ا ب کوئی فائدہ ہے ان باتوں کا… دوبارہ زیرو سے بات شروع کریں کیا؟” پھر ایک گہری سانس لے کر شیردل نے کہا۔
”ہاں، اب کوئی فائدہ نہیں ہے ان باتوں کا نانا نے ہاں کی ہے میں ان کی بات نبھاؤں گی۔” اس نے جواباً کہا۔
”اوہ… صرف نانا کی بات نبھاؤگی… ورنہ تو تمہیں مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… نہ پہلے تھی… نہ اب ہے…نہ آئندہ ہوگی۔” شیر دل کے لہجے میں شکوہ نہیں تھا تلخی تھی اور عکس حیران رہ گئی تھی، وہ چھوٹی سی بات پر تلخ ہوجانے کا عادی نہیں تھا یہ ایک نئی عادت تھی اس کی یا حالات کا نتیجہ… چند لمحوں کے لیے عکس کو واقعی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔
”تم اظہار محبت چاہتے ہو مجھ سے؟”اس نے چند لمحوں کے بعد… مدھم آواز میں کہا۔
”تمہیں اعتراض ہے کیا؟” اس نے جواباً کہا۔ عکس نے جواب نہیں دیا۔کہنے کو بہت الفاظ تھے عکس کے پاس پر کہہ دینے کی ہمت نہیں تھی۔
”تم بہت بڑی قربانی دے رہی ہو میرے لیے۔” شیر دل نے چند لمحوں بعد کہنا شروع کیا۔” زندگی میں ایک بہت مشکل موڑ پر میرا ساتھی بننے کا فیصلہ کیا ہے، وہ بھی میرے بارے میں سب کچھ جاننے کے باوجود… ایک بہتر آپشن کو چھوڑ کر تم میری طرف آرہی ہو اور میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں۔” وہ خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی، اس کے لہجے میں تھکن تھی یا شاید اداسی تھی اور عکس کو حیرت نہیں ہوئی تھی۔ زندگی کا ساتھی دوسری بار چننا اور اس طرح چننا کسی کے لیے بھی بہت خوشگوار فیصلہ نہیں ہوتا۔
اس کائنات محبت میں ہم مثل شمس و قمر کے نہیں
اک رابطہ مسلسل ہے اک فاصلہ مسلسل ہے
میں خود کو بیچ دوں پھر بھی میں تجھ کو پا نہیں سکتا
میں عام سا ہمیشہ ہوں تو خاص سا مسلسل ہے