”مجھے حیرت ہے عکس کا ناناا س رشتے پر کس طرح تیار ہوگیا؟” منزہ نے عکس کے گھر نسبت طے کر کے واپس آنے کے بعد لاؤنج میں بیٹھ کر کہا ۔ وہ اور بختیار ابھی کچھ دیر پہلے واپس آئے تھے اور شیر دل بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا۔
”تمہیں وجہ جان کر کیا کرنا ہے؟” بختیار نے ٹوک دیا تھا۔
”حیران ہوں بہت اس لیے پوچھ رہی ہوں۔” منزہ نے کہا۔
”حالانکہ تمہیں حیران ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے۔” بختیار نے ان سے کہا۔
” اتنی خوش ہوں میں کہ مجھ سے بڑھ کر تو شاید آپ کا بیٹا بھی خوش نہیں ہے۔” منزہ نے فوراً کہا۔ شیر دل نے ماں کے اس تبصرے پر بے حد سنجیدگی سے انہیں دیکھا۔
”ممی پہلی شادی نہیں میری … نہ ہی بہت خوشگوار حالات میں ہورہی ہے… میں نہیں جانتا کوئی ایسی شادی پر کس طرح بہت خوش ہوسکتا ہے یا آپ سمجھتی ہیں میں انسانی صفات نہیںرکھتا۔”وہ اتناbitter تلخ نہیں ہونا چاہتا جتنا ہوگیا تھا۔ منزہ نادم سی ہوگئیں۔
”میں نے ویسے ہی ایک بات کہی ہے کوئی غلط معنی مت لو۔ تمہاری مرضی سے ہورہا ہے جو بھی ہورہا ہے کوئی زبردستی تو نہیں ہورہی… تم نے خود فیصلہ کیا ہے عکس سے شادی کا… خود ہمیں اس کے گھر جانے کا کہا۔”منزہ نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا۔ وہ جواب میں کچھ کہنے کے بجائے یک دم وہاں سے اٹھ کر چلاگیا۔
”کیا ضرورت تھی تمہیں اس طرح ڈسکشن دوبارہ شروع کرنے کی…؟وہ اپنا گھر دوبارہ آباد کرنے پر تیار ہوگیا… یہ کافی نہیں ہے کیا تمہارے لیے…؟ یا یہ ضروری ہے کہ تم ایک بار پھر سے کیوں اور کیسے کے چکروں میں پڑو۔”بختیار نے شیر دل کے اس طرح وہاں سے اٹھ کر جاتے ہی بہت ناگواری اور خفگی سے منزہ کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”اور اب عکس سے بھی کسی طرح کی کوئی بحث نہ کرنا، وہ ہمارے خاندان کا حصہ بننے جارہی ہے، تمہاری کسی بات سے اس کی دل شکنی نہیں ہونی چاہیے ابھی… نہ ان دونوں کی شادی کے بعد… ان لوگوں کی اتنی favour بہت ہے کہ انہوں نے ماضی کو بنیاد بنا کر کسی اور تنازعے کو کھڑا کرنے کے بجائے ہماری بات مان لی ۔ ہمارے divorced اور بچے والے بیٹے کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کی شادی کرنے پر تیار ہوگئے… ہمیں اس کے لیے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور بس۔” بختیار نے بھی جیسے بات ہی ختم کردی تھی اور وہ بھی وہاں سے اٹھ گئے تھے۔
منزہ بہت دیر وہیں بے مقصد بیٹھی رہیں۔ شادی کا یہ سلسلہ انہوں نے شروع کیا تھا اور وہ خوش اور مطمئن بھی تھیں کہ شیر دل کا گھر دوبارہ آباد ہوجائے گا لیکن اس احساس کے باوجود عکس مراد علی سے انہیں عجیب سے خدشات تھے اور وہ ان خدشات کو کوئی نام نہیں دے پارہی تھیں۔ کوئی دوسرا کوشش کرتا تو یہ کام بڑی آسانی سے کرلیتا… وہ شکست خوردگی کے احساس سے دوچار ہورہی تھیں باآسان لفظوں میں انہیں اپنا تھوکا چانٹا پڑرہا تھا ۔حسب نسب کی وہ اونچی دیواریں جنہیں اپنے گرد کھڑا کر کے وہ فخر محسوس کرتی تھیں ان پر بہت بری طرح چوٹ پڑی تھی… ایسی زوردار چوٹ کہ ان دیواروں میں آجانے والی دراڑیں زمین تک پہنچ گئی تھیں۔
انسان تقدیر کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ اپنی تقدیر کے سامنے بھی اور دوسرے کی تقدیر کے سامنے بھی… وہ نہ اپنی بد قسمتی کو خوش قسمتی میں بدل سکتا ہے نہ دوسرے کی خوش قسمتی کو بد قسمتی میں… اور نہ ہی اس بے بسی کے احساس کو ختم کرسکتا ہے جو اسے اس صورت حال میں ہوتا ہے۔
……٭……
”شیر دل سے بات ہوئی تمہاری؟” نانا نے دو دن بعد صبح ناشتے کے بعد پورچ میں اسے آفس کے لیے رخصت کرتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں نانا…” وہ ایک لمحے کے لیے جھجکی پھر اس نے خیر دین کو جواب دیا۔”لیکن میں کرلوں گی، ابھی مصروف ہوں۔”اس نے خیر دین کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی وضاحت اور جواب دیا تھا۔
”اس کا مجھے فون آیا تھا کل…تمہارا پوچھ رہا تھا۔” خیر دین نے اسے بتایا اس نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ اسے اگر واقعی عکس سے بات کرنی ہوتی تو خیر دین کے فون پر کال کر کے اس کا پوچھنے کے بجائے سیدھا سیدھا وہ اس کے فون پر کال کرسکتا تھا مگر وہ بھی اس سے بات کرنے میں متامل تھا، وہ محسوس کرسکتی تھی۔
”میں اس سے ایک دو دن میں بات کرلوں گی۔” عکس نے گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے خیر دین سے کہا۔ خیر دین نے اسے جواباً کچھ نہیں کہا تھا۔تھکن کا ایک عجیب سا احساس تھا جو پہلے سے اسے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔ خوشی کی کوئی رمق اسے کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ وہ سجاد سے شادی کی تیاری میں بھی بہت زیادہ ایکسائٹڈ نہیں تھی لیکن کم از کم اس کے ساتھ شادی طے پانے نے اسے اس طرح کی کیفیت سے دوچار نہیں کیا تھا جس طرح کی کیفیت کا شکار وہ اب ہورہی تھی۔
حلیمہ اب خیر دین کے ساتھ ساتھ اس سے بھی بری طرح خفا تھی کیونکہ ا س کا خیال تھا کہ خیر دین کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ بھی خراب ہوگیا تھا کہ وہ خیر دین کو کچھ سمجھانے یا قائل کرنے کے بجائے اس کے کہنے پر ایک طلاق یافتہ ایک بچے کے باپ سے شادی پر تیار ہوگئی تھی اور وہ بھی اس خاندان میں جس نے ان کی زندگی میں تکلیف اور تباہی لانے کے سوا کبھی کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ دو دن سے مسلسل خیر دین اور عکس کے ساتھ بحث ومباحثے میں مصروف تھی اور اب دو دن کے بعد ان میں سے کسی کو بھی قائل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اس نے اپنی کوششوں کو بالآخر ترک کردیا تھا لیکن اس کی خفگی اپنے عروج پر تھی۔ اسے اپنی سسرال میں شدید قسم کی خفگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ اس رشتے کے اس طرح اچانک بغیر کسی وجہ کے کارڈز بانٹنے کے بعد ختم کرنے پر… اور وہ نہ صرف نادم اور شرمندہ تھی بلکہ اس معاملے پر اس تنقید اور مخالفت کو بالکل جائز بھی سمجھ رہی تھی۔ خیر دین پر یک دم پورے خاندان میں تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی تھی۔ نہ صرف حلیمہ کے سسرالی رشتے دار بلکہ خیر دین کا اپنا خاندان بھی اس تنقید میں پیش پیش تھا۔
ان کے خاندان میں شادی کے کارڈ بھی تقسیم ہوجانے کے بعد کسی لڑکی کی شادی رک جانے کا یہ پہلا واقعہ ہوا تھا اور ہر ایک کے پاس کہنے اور اندازے لگانے کے لیے بہت کچھ تھا اور یہ ساری باتیں حلیمہ ،خیر دین تک بھی پہنچارہی تھی۔وہ تنقید اور مخالفت کے اس طوفان کی توقع رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی حد تک ان باتوں سے ہرٹ ہوا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اسے کسی پر غصہ اور کسی سے گلہ نہیں ہوا تھا۔ اپنے فیصلے پر جمے رہنے کے باوجود اسے احساس تھا کہ جو کچھ اس نے کیا تھا وہ غلط کیا تھا۔ سجاد کی فیملی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اس سارے معاملے میں اور خیر دین کو اگر کسی بات پر شدید رنج اور شرمندگی تھی تو وہ یہی ایک بات تھی… ورنہ وہ اپنے خلاف جو کچھ سن رہا تھا اسے اس سب کی پروا نہیں تھی۔ اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ چڑیا کی ایک اور خواہش پوری کرنے جارہا تھا۔ اسے وہ دے رہا تھا جو اس کے دل کی خواہش تھی۔
اور عکس اس سارے معاملے میں ایک خاموش تماشائی کی طرح ماں اور نانا کے درمیان میں ہونے والی اس جنگ کو دیکھ رہی تھی ۔زندگی میں پہلی بار اس نے حلیمہ اور خیر دین کے درمیان کوئی اختلاف دیکھا تھا اور وہ بھی اپنی وجہ سے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ خیر دین نے اس کی خوشی کی خاطر خود کو ہیرو سے ولن کرلیا تھا لیکن وہ خود اس سے کم از کم اس فیصلے پر متفق نہیں تھی اس کے باوجود حلیمہ کی حمایت بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ماں بھی جو اسٹینڈ لے رہی تھی وہ اس کی محبت میں ہی لے رہی تھی۔
اور ان تمام خاندانی جنگوں کے درمیان اسے ایک لمحے کے لیے بھی شیر دل کا خیال نہیں آیا تھا۔ نہ اس کا خیال آیا تھا نہ اس سے بات کرنے کی خواہش ہوئی تھی… حالانکہ ہونی چاہیے تھی، خیال بھی آنا چاہیے تھا لیکن پتا نہیں شیر دل یک دم جیسے ایک اجنبی کی صورت میں اس کے سامنے آنے لگا تھا… وہ کچھ دیر کے لیے جیسے اس کا بہترین دوست بھی نہیں رہا تھا۔ اس سے بات کرنا ضروری تھا لیکن موضوع صرف ایک رہ گیا تھا اور وہ صرف اسی ایک موضوع پر اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ زندگی میں کبھی اسے شیر دل سے ایسی بیزاری نہیں ہوئی تھی جیسی ان چند دنوں میں ہوئی تھی۔
زندگی میں ہر انسان سے ہر فیصلہ صحیح نہیں ہو سکتا تھا بعض فیصلے انسان غصے اور جلد بازی میں کرتا ہے اور بعض جذبات میں مجبور ہو کر… اور کہیں نہ کہیں عقل وہوش کچھ دیر کے لیے انسان کا ساتھ ضرور چھوڑدیتے ہیں۔کبھی نہ کبھی حماقت، عقل پر قبضہ ضرور کرلیتی ہے چاہے وہ چند لمحوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
وہ آفس میں سارا دن بیٹھے دفتری کام انجام دیتے ہوئے خیر دین کے اس فیصلے سے ممکنہ نقصانات کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اورdemage control کے طریقے بھی… نقصان تو ہونا تھا لیکن کم سے کم کیسے کیا جاسکتا تھا ساکھ اور نام بہت بڑی چیزیں تھیں اور اب وہ دونوں چیزیں داؤ پرلگنے والی تھیں۔شیر دل مرد تھا بہت سی چیزیں اس کے لیے matter ہی نہیں کرتی تھیں جس کے پیچھے بختیار شیر دل کا خاندان تھا جہاں وہ خود نہ بچ سکتا وہاں اس کا خاندان اسے بچالیتا… کوئی اس کے اسکینڈلائز ہونے پر اس کے خاندان کے بارے میں سوال کرنے اور اٹھانے والا نہیں تھا۔ وہ ایک فرد کی غلطی سمجھی اور error of judgement (فیصلے کی غلطی )سمجھ کر معاف کردی جاتی۔
عکس مراد علی عورت تھی ،سیلف میڈ تھی اور ایک کمتر خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس کی غلطی پر اس کے بجائے اس کے خاندان کے بارے میں سوال جواب اور تبصرے ہوتے… اپنے کیرئیر کے اتنے سالوں میں کبھی اس کا کوئی اسکینڈل نہیں آیا تھا اور اس ایک اسکینڈل کے بعد ڈاکٹر عکس مراد علی کا نام جہاں بھی آتا اسی حوالے سے آتا۔ وہ عزت اور احترام جس کے ساتھ سب اس کا نام لیتے تھے وہ تضحیک آمیز ہنسی اور تبصروں میں تبدیل ہونے والی تھی اور یہ بہت بڑی قیمت تھی جو اسے شیر دل کے ساتھ کے بدلے میں اداکرنی تھی… خیر دین نے جذبات میں یہ نہیں سوچا تھا اس نے صرف ایک نانا بن کر اپنی نواسی کی خوشی کا سوچا تھا لیکن نواسی یہ سب سوچ رہی تھی کیونکہ وہ عورت ہوتے ہوئے بھی جذباتی نہیں رہی تھی۔ جذبات سے فیصلے وہ پہلے بھی کم ہی کرتی تھی لیکن اس پروفیشن میں آنے کے بعد اس نے جذبات کو سائنا ئڈ دے کر سلادیا تھا۔ وہ اب چاہتی بھی تو جذبات کو عقل پر ترجیح نہیں دے سکتی تھی اور اب اسے یہی کرنا پڑرہا تھا… خیر دین کی محبت میں آنکھوں دیکھی وہ مکھی نگلنا پڑرہی تھی جس سے اسے کم از کم بد ہضمی تو ضرور ہوتی اگر کوئی بڑی بیماری نہ بھی ہوتی تو…وہ اس دن بھی اسی کش مکش میں پھنسی آفس پہنچی تھی جب ٹی بریک کے دوران اسے آفس کے باہر شور کی آواز آئی تھی اس نے انٹر کام اٹھا کر PA کو اس شور کی وجہ معلوم کرنے کو کہا، وہ پانچ دس منٹوں کے بعد بے حد بوکھلا یا ہوا آفس میں آیا تھا۔
”میڈم وہ ایک آدمی خود کشی کرنے کے لیے آپ کے آفس کی چھت پر چڑھ گیا ہے اس نے چھت کا دروازہ اندر سے بند کرلیا ہے اور اب وہ کہہ رہا ہے کہ وہ وہاں سے کود کر جان دے دے گا۔”عکس کو چند لمحوں کے لیے جیسے بات کی سمجھ نہیں آئی تھی اور جب سمجھ میں آئی تو وہ بہت panicked ہو کر فور ی طور پرآفس سے باہر نکل آئی تھی۔ اس کے آفس کے ارد گرد موجود جگہ میں اب ایک مجمع تھا جو چھت پر موجود کسی آدمی سے بہ آواز بلند بات چیت کرنے میں مصروف تھا۔ اسے آتے دیکھ کر اس کا اپنا اسٹاف اور گارڈ بھی پہنچ گئے تھے۔ باہر موجود لوگوں کے ہجوم کو انہوں نے ہٹانا شروع کردیا تھا جو زیادہ تر ان افراد پر مشتمل تھا جو DC آفس اور اس کے آس پاس موجود دوسرے انتظامی عہدے داران کے آفسز میں اپنے کاموں کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے یا پھر درجہ چہارم کے ملازمین جو ان دفتروں میں کام کرتے تھے اور انہیں صبح صبح ہی سنسنی خیز تفریح میسر آگئی تھی۔
وہ آفس سے برآمدے اور برآمدے سے باہر نکل آئی تھی… دو منزلہ عمارت کی چھت پر اس وقت ایک آدمی موجود تھا جو چھت کے بالکل سرے پر تھا۔ صرف عکس نے اس آدمی کو نہیں دیکھا تھا، اس آدمی نے بھی اسے دیکھ لیا تھا اور وہ چلا چلا کر کچھ کہنے لگا تھا جو شاید اسے سمجھ میں آجاتا اگر نیچے کھڑا مجمع بھی بھانت بھانت کی بولیاں نہ بول رہا ہوتا۔
”میڈم کوئی سینٹری ورکر ہے پہلے بھی ایک بار اسی طرح اوپر چڑھ گیا تھا بڑی مشکل سے اتار ا تھا اسے۔پچھلے ڈی سی صاحب نے معطل کیا ہوا ہے اسے اور کئی مہینوں سے اس کی pay بھی رکی ہوئی ہے۔” اس کے اسٹنٹ کمشنر نے اسے دیکھتے ہی بتانا شروع کردیا تھا، وہ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں موجود تھا اور صورت حال کے بارے میں معلومات اور اس آدمی کے کو ائف حاصل کرچکا تھا۔
”میگا فون پر اسے بتاؤ کہ وہ نیچے اترے اور آکر بات کرے… اس کے دنوں مسئلے حل ہوجائیں گے لیکن ا س طرح نہیں۔” اس نے ایک نظر اس مجمع پر ڈالی جس میں سے اب آدھے اس کی طرف متوجہ تھے اور آدھے اس آدمی کی طرف جو چھت پرچڑھا ہوا تھا۔
عکس اسسٹنٹ کمشنر کو ہدایات دے کر وہاں رکی نہیں تھی۔ یہ جیسے اپنے آپ کو تماشا بنانے والی بات تھی۔ چھت پر چڑھا ہوا آدمی اسے اپنے اسٹاف کے ساتھ وہاں سے غائب ہوتے دیکھ کرجیسے مزید جوش میں آگیا تھا۔ اس نے کچھ اور بلند آواز میں وہ تقریر جاری رکھی جو وہ اس سسٹم اور اسے چلانے والے آفیسروں کے خلاف کررہا تھا جو سب حکومت کے آلہ کار بن کر غریبوں کا خون چوس رہے تھے اور ان پر طلم کررہے تھے۔
عکس کے لیے یہ صورت حال سنگین ہونے سے زیادہ مضحکہ خیز تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ کسی خاتون آفیسر کے ساتھ اس طرح کی صورت حال پیش آنے پر اس کی انتظامی صلاحیتوں پر سوالات اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھپتیاں کسنے کا بھی ایک اچھاموقع ہاتھ میں آجاتا ہے اور جو یقینا آگیا تھا۔
……٭……