عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

”ممی میں”بونے” کی بات کررہی ہوں…” مثال نے عکس کو ٹوکا۔مافوق الفطرت ،خوفناک چیز… آسیب ٹائپ کی۔” اس نے عکس کو اپنے ذہن میں آنے والی ہر مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کی۔ اسے لگا تھا کہ عکس بونے کے بارے میں بتاتے بتاتے کسی اور چیز کے بارے میں بتانے لگی تھی۔
”ہاں، بونے ہی کے بارے میں بتارہی ہوں تمہیں… خوفناک ،مافوق الفطرت، آسیب ٹائپ کی چیز…” عکس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”لیکن بونوں کے قد لمبے کیسے ہوسکتے ہیں؟” مثال ا س کے بیان سے الجھ گئی تھی۔
”بعض بونوں کے قد لمبے ہوتے ہیں، خوب صورت ہونے کے باوجود ان سے کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ انسانی شکل صورت میں ہونے کے باوجود ان سے خوف آتا ہے۔ مافوق الفطرت نہ ہونے کے باوجودان سے خوف آتا ہے۔ مافوق الفطرت نہ ہونے کے باوجود وہ دوسروں کی زندگی کو آسیب زدہ کردیتے ہیں۔”مثال کو یک دم احساس ہوگیا تھا عکس کا اشارہ کس طرف تھا۔ اس نے عجیب تسلی دینے والے انداز میں کچھ بے قرار ہو کر اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ عکس نے جواباً مسکرا کر اسے دیکھا …نم آنکھوں والی مسکراہٹ…
”زندگی میں انسانوں کے شر سے بڑھ کر خوفناک چیز کوئی نہیں، کوئی بھوت ،بلا یابونا برائی میں انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور زندگی میں آنسانوں کی ہمت اور دلیری کے سامنے کوئی آسیب نہیں ٹھہر سکتا۔ وہ لوگ بے وقوف اور بزدل ہوتے ہیں جو گھروں اور جگہوں میں جن، بھوت ،بونے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور پھر ان کے ہونے یا نہ ہونے پر اپنی زندگی کی خوش قسمتی یا بد قسمتی کو طے کرتے ہیں۔” مثال نے عکس مراد علی کو کہتے سنا۔ وہ نصیحت نہیں تھی، تجربہ تھا اوراسے… دلیل کی مار نہیں ماری جاسکتی تھی۔
”اس گھر کے بونوں سے مجھے کبھی تکلیف نہیں پہنچی لیکن انسانوں کی شکل میں ملنے والے بہت سے بونوں سے مجھے بہت تکلیف پہنچی۔” وہ اب بھی مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔”اور پتا ہے میں نے ایسے ہر بونے سے ملنے کے بعد کبھی اس جیسا نہ بننے کا سوچااور ہر بونے سے ملنے کے بعد میں نے سوچا میں اپنی ذات سے ایسی تکلیف ایسا نقصان… کبھی کسی دوسرے انسان کو نہیں پہنچاؤں گی میں کبھی دوسرے کسی انسان کے لیے بونا نہیں بنوں گی… میں اس کے لیے انسان ہی رہوں گی… وہ روپ جو اللہ نے ہمارے لیے پسند کیا ہے اور جس میں ہمیں زمین پر بھیجا ہے۔” مثال پلکیں جھپکائے بغیر کسی معمول کی طرح پاکستان بیورو کریسی کی اس قابل ترین خاتون بیورو کریٹ کے الفاظ سن رہی تھی۔ 22 گریڈ میں پہنچنے والی اس پہلی خاتون DMG آفیسر کے لفظوں میں اسے جو پرکار دانائی دکھتی تھی وہ میراث تھی، حاصل نہیں تھی… وہ خیر دین کی نواسی تھی اور اس کی گفتگو میں اب اتنی دہاہیوں کے بعد خیر دین کے حوالے نہیں ہوتے تھے… وہ خود بولنے لگا تھا۔
……٭……




”نانا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے؟” خیر دین اس وقت ابھی مغرب کی نماز سے فارغ ہی ہوا تھا جب عکس اس کے کمرے میں چلی آئی تھی۔ اس نے ڈنر کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔ خیر دین کو اس کی آمد کی توقع تھی اور اس سے اس جملے کی بھی۔ تسبیح ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ مصلے سے اٹھ گیا اور اس صوفے پر جا کر بیٹھ گیا جس کے دوسرے کنارے پر چند لمحے پہلے وہ آکر بیٹھی تھی۔
”مجھے بھی تم سے بات کرنی تھی۔ اچھا ہوا تم خود آگئیں…” خیر دین نے مدھم آواز میں بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
”یہ ٹھیک نہیں ہے نانا۔” عکس نے تمہید نہیں باندھی تھی… تمہیدوں کا وقت گزر چکا تھا۔
” کیا برائی ہے اس میں؟” خیر دین نے جواباً تحمل سے پوچھا۔ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟” عکس نے انہیں جتایا ۔
”ہاں ،تمہارے پاس مجھ سے بہتر جواب ہونے لگے ہیں اب۔” انہوں نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اسے جیسے خراج تحسین نہیں پیش کیا تھا اپنی کمزوری کا اعتراف کیا تھا۔
”پر جو سوال اس بار آپ مجھ سے کررہے ہیں اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے میرے پاس۔” اس نے خیر دین کی ستائش کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس رشتے سے جو خرابی ہوسکتی ہے، آپ جانتے ہیں… مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔”وہ سنجیدہ تھی اور وہ ان چند مواقع میں سے ایک تھا جب وہ خیر دین سے بالکل متفق نہیں تھی۔ وہ ان کا فیصلہ بدلنے کی نیت سے آئی تھی۔
”ہر فیصلے میں کچھ اچھائی اور کچھ برائی ہوتی ہے، برائی کا اندازہ اگر پہلے سے ہوجائے تو انسان اپنے آپ کو نقصان سے بھی بچا سکتا ہے اور تکلیف سے بھی۔ ” خیر دین نے اس سے کہا۔
”آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے لیے جس حماقت انگیز دلیری کی ضرورت ہے وہ مجھ میں نہیں ہے۔” عکس نے ان سے جواباً کہا۔
”میں صرف تمہاری خوشی چاہتا ہوں چڑیا… زندگی میں آج تک تمہاری خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں رہی میرے لیے۔” خیر دین نے اپنی لوجک کی جڑ نکال کر اس کے سامنے رکھ دی تھی۔ وہ یہ نہیں بھی کہتا تو بھی عکس جانتی تھی۔
”شیر دل میری خواہش نہیں رہا نانا… اس سے شادی میری زندگی کے مقاصد یا حسرتوں میں کبھی شامل نہیں رہی۔” اس نے مدھم آواز میں خیر دین سے کہا۔ اس آدمی کی لوجک ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے کندھوں کے بوجھ کو بڑھانے لگی تھی۔
”لیکن تم اس کے لیے میرے سامنے روئیں۔” اس نے نظریں اٹھا کر خیر دین کے چہرے اور اس معصوم سے رنج کو اس کی آنکھوں میں دیکھا جسے اس کے آنسوؤں نے خیر دین کے اندر پیدا کیا تھا۔ بہت دیر وہ خیر دین کے سامنے اسی دل شکستہ انداز میں کوئی ایک لفظ کہے بغیر بیٹھی رہی۔ کیا سمجھائے اور کیا نہ سمجھائے۔ کیا بتائے اور کیا نہ بتائے… خیر دین کے ایک جملے نے جیسے اسے کچھ دیر کے لیے اس مرد کے سامنے گونگا کردیا تھا جس نے اسے پالا تھا۔
”میرے رونے کو جانے دیں آپ… وہ آنسو کسی خواہش کا اظہار نہیں تھے…”اس نے بالآخر لفظوں کو ڈھونڈھ لیا تھا بات شروع کرنے کے لیے۔
”میں نے تمہیں اس کے لیے جتنا پریشان دیکھا ہے اس سے پہلے صرف تب دیکھا تھا جب ایبک یاد ہے تمہارا میڈیکل کالج والے کلاس فیلو…”عکس نے خیر دین کو بات مکمل نہیں کرنے دی تھی۔
”اس کا ذکر رہنے ہی دیں۔ اس پریشانی اور اس پریشانی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں … میں پریشان ہوں شیر دل کے لیے اور اسے نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے لیکن وہ ٹھیک ہورہا ہے… ٹھیک ہوجائے گا اور میری پریشانی بھی ختم ہوجائے گی۔” اسے اندازہ تھا اس کی ساری باتیں جھوٹ کا پلندہ لگ رہی تھیں اس کے ملمع کے باوجود…
”میں نے شیر دل سے تمہارا رشتہ طے کردیا ہے۔” خیر دین نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔ عکس نے عجیب حیرت سے خیر دین کو دیکھا۔ وہ اس سے لمبی بات کرنا چاہتی تھی لیکن خیر دین جیسے اس سے اس معاملے پر بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔” میں بس یہ نہیں چاہتا چڑیا کہ میں زندگی میں کوئی پچھتاوا سمیٹوں صرف اپنی انا اور ضد کی وجہ سے اور مجھے لگا تمہاری شیردل سے شادی سے انکار وہ واحد معاملہ ہوسکتا ہے میرے لیے پچھتاوے کا ۔” خیر دین کہہ رہا تھا۔ ”میں نہیں چاہتا کسی اور سے شادی کرنے کے بعد راتوں کو اس طرح سے بے چین پھرو جس طرح تم آج کل پھررہی ہو۔ اولاد کی خوشی کے سامنے انسان انا کا جھنڈا گاڑ کے تو نہیں بیٹھ سکتا… بیٹھ جائے تو نقصان دونوں کا ہوتا ہے۔ میری بس اب یہی خواہش ہے کہ تم خیر خیریت سے اپنے گھر بار کی ہوجاؤ اور خوش رہو… اور میں جانتا ہوں تم شیر دل کے ساتھ بہت خوش رہوگی…وہ اچھا لڑکا ہے۔” خیر دین تسبیح کے دانے گھماتا ہوا کہتا گیا تھا۔ عکس اسے صرف دیکھ کر رہ گئی۔ وہ اس سے بحث کر کے اس کا فیصلہ تبدیل کروانے آئی تھی مگر وہ اس سے بحث نہیں کرسکی۔
”شیر دل کے ماں، باپ بہت مشکور ہو کر گئے ہیں یہاں سے … آج بھی ماضی میں ہونے والی اپنی تمام کوتاہیوں کے لیے معذرت کر کے گئے ہیں…بہت وعدے دے کر گئے ہیں تمہارے لیے کہ تمہیں بہت خوش رکھیں گے۔ اپنے خاندان میں بہت عزت دیں گے… اب اس طرح زبان دینے کے بعد میں اپنی زبان سے کیسے پھر جاؤں اور کہوں چڑیا نہیں مان رہی۔” خیر دین نے کہا … عجیب معصوم اور سادہ انداز تھا اس کا… چڑیا کے لیے انکار کو ناممکن کردیا تھا اس نے …وہ کسی سے بھی شادی کا کہتا اس طرح تو وہ کرلیتی یہ تو پھر شیر دل تھا… جس سے وہ محبت کرتی تھی۔
”تمہیں اب بھی اعتراض ہے؟” خیر دین نے اس سے گفتگو کے آخر میں پوچھا۔
”نہیں، ٹھیک ہے اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو میں اعتراض کیسے کرسکتی ہوں۔” اس نے خیر دین کو مدھم آواز میں جواب دیا۔ وہ کڑوی گولی خیر دین نے اس کے لیے نگلی تھی۔اپنے کندھوں کا بوجھ اس کے لیے بڑھایا تھا ایک بار پھر اور اس احساس نے عکس کو سراٹھانے کے قابل تک نہیں چھوڑا تھا۔ وہ تشکر یا احسان مندی نہیں تھی صرف شرمندگی تھی۔
”وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا، وہ کہہ کے گیا ہے۔” خیر دین نے دعا دینے والے انداز میں بہت محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
” شیر دل آیا تھا؟” عکس نے کچھ حیرانی سے خیر دین کو دیکھا۔
”کل آیا تھا۔” اس نے بتایا۔” بہت پریشان لگ رہا تھا وہ۔” خیر دین کی آواز میں تفکر جھلکا تھا۔ ”اللہ کسی کو بھی اولاد کی پریشانی نہ دکھائے۔” پتا نہیں اس نے کس کے لیے دعا کی تھی۔ شیر دل کے لیے…یا اپنے لیے…؟”گھر ٹوٹنا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی… پرندے کا گھونسلا بھی ٹوٹ جائے تو وہ کتنے دن وہیں اڑتا… کرلاتا ہے انسان کی تکلیف تو جانور کی تکلیف سے زیادہ ہوتی ہے۔”وہ اب کہہ رہا تھا۔”تم اس کے ساتھ بہت اچھا گھر بنانا ۔”خیر دین جیسے اسے نصیحت کررہا تھا۔
”بڑا مشکل کام دے رہے ہیں آپ مجھے نانا۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی۔”میں پرندہ نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتی کہ پرندہ جب دوسری بار گھر بناتا ہے تو اس کے احساسات کیا ہوتے ہیں لیکن میں انسانوں کے جذبات اور احساسات سے ضرور واقف ہوں… جانتی ہوں کہ دوسری بار گھر بنانا مرد اور عورت دونوں کے لیے مشکل ہوتا ہے ۔وہ جو پہلا جیون ساتھی ہوتا ہے وہ اچھا ہو یا برا مگر وہ زندگی سے جاتا کبھی نہیں… ساری عمر مقابلوں اور موازنوں کا حصہ بنارہتا ہے۔” وہ اب خیر دین کو اس دریا کی گہرائی اور اس کے اندر موجود خطرات و مشکلات کے بارے میں آگاہ کررہی تھی۔ جس میں اس نے چڑیا کو سوچے سمجھے بغیر اتارا تھا۔
” میں جانتا ہوں چڑیا لیکن زندگی موازنوں اور مقابلوں کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں…تمہیں لگتا ہے مرد یا عورت اپنے پہلے جیون ساتھی کا موازنہ کسی سے نہیں کرتے… کرتے ہیں،پریشانی کی بات تب ہے جب ہم ان موازنوں میں بد تر ثابت ہونے لگیں اور ہوتے ہی رہیں… تب تشویش بھی ہونی چاہیے اور تکلیف بھی لیکن اگر ہم اس موازنے کو اپنے حق میں کرلیں تب تو وہ تشویش کا باعث نہیںرہتا۔” خیر دین اسے کہہ رہا تھا۔
”یہ آسان کام نہیں ہوتا نانا… یہ اتنا آسان کام نہیں ہے نانا جتنا آپ کہہ رہے ہیں۔” وہ ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولی ۔
”تم نے زندگی میں آسان کام کب کیے ہیں چڑیا…؟سارے امتحان مشکل آئے تمہیں… سارے کام مشکل ہی تھے جو تم نے کیے۔” خیر دین نے عجیب فخر سے ہنس کر کہا ۔
”ہاں لیکن کبھی کبھار انسان آسانیاں بھی چاہتا ہے۔” اس نے کسی ننھے بچے کی طرح خیر دین سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
”چڑیا تم جس مرد کی زندگی کا حصہ بنو گی وہ بڑا خوش قسمت ہوگا… تم کہیں بھی کسی کے ساتھ بھی ایک اچھا گھر بناسکتی ہو ایک اچھی زندگی گزارسکتی ہو … کیونکہ تم اچھی لڑکی ہو اور شیر دل بھی اچھا لڑکا ہے اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں یہ فیصلہ چاہتے ہوئے بھی نہ کرپاتا لیکن شیر دل تمہاری قدر کرے گا… ویسی ہی قدر جیسی میں کرتا ہوں۔” عکس کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے تھے۔
”آپ جیسی قدر میری کوئی نہیں کرسکتا۔ شیر دل بھی نہیں… آپ جیسا تو کوئی نہیں اور کبھی نہیں ہوسکتا۔” اس نے خیر دین کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپاتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں لیکن میری خواہش اور دعا ہے شیر دل مجھ سے بڑھ کے تمہاری قدر کرے اور کرے گا۔” خیر دین نے اسے اپنے ساتھ لگالیا ۔
وہ اس دن عجیب بوجھ لیے خیر دین کے پاس سے آئی تھی۔ نانا اسے وہ کھلونا دے بیٹھے تھے جو اس کے لیے خطرناک تھا اور وہ اپنی محبت اور جوش میں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کرسکے تھے۔ شیر دل سے ان حالات میں عکس کی شادی دونوں کو بری طرح اسکینڈلائز کرنے والی تھی۔ خاص طور پر تب، جب وہ ایک ہی ڈویژن میں کام کررہے تھے اور دو قریبی شہروں میں پوسٹڈ رہے تھے۔ شیر دل اور شہر بانو کے درمیا ن ہونے والا جھگڑا ان کے تمام سوشل سرکل میں ہر ایک کی زبان پر تھا لیکن ابھی تک اس سارے جھگڑے میں کوئی شیر دل پر انگلی نہیں اٹھا سکا تھا لیکن اب چند مہینوں کے اندر ہی عکس کے ساتھ شادی کی صورت میں صرف شیر دل ہی نہیں بلکہ خود اس کی ساکھ اور نام بھی بری طرح خراب ہونے والا تھا اور الزامات و تبصروں کا یہ طوفان کتنا شدید ہوسکتا تھا۔ خیر دین کو اس کا اندازہ نہیں تھا، عکس کو اندازہ تھا۔ خیر دین کا فیصلہ اس کے لیے ایک بہت غلط اور خطرناک فیصلہ تھا اور اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بیٹھی اس کے مضرات کو ہی سوچتی رہی تھی۔ وہ اپنے لیے خود کبھی وہ فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی جو خیر دین نے کردیا تھا اور وہ خیر دین کو let down نہیں کرسکتی تھی اس کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی آگئے تھے اور اسے اگر اس وقت کسی سے خفگی محسوس ہوئی تھی تو وہ شیر دل تھا۔ وہ اگر خیر دین کے پاس نہ آتا تو یہ مسئلہ کھڑا نہ ہوتا یا کم از کم وہ آنے سے پہلے اس سے بات کرلیتا تو وہ اسے وہ سب کچھ سمجھا اور دکھاپاتی جو وہ یقینا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نظر انداز کررہا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!