عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

وہ پہلا موقع تھا جب اس کے پاکستان سے چلے جانے کے بعد بھی عکس کئی دن اس کے بارے میں سوچتی اور پریشان ہوتی رہی۔ ہمیشہ کی اس طرح امریکا جاتے ہیں اس نےSkype پر ان سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد Skype پر آئی تھی اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہی عکس اور شیردل کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کسی وجہ سے بہت اپ سیٹ ہے لیکن وہ ان کے ساتھ کچھ بھی شیئر کرنے کو تیار نہیں تھی۔
وہ اس سے اگلے سال پاکستان نہیں آسکی تھی۔ شہربانو اس کے اورشرمین کے ساتھ چھٹیوں میں آسٹریلیا چلی گئی تھی۔ شیردل اپنی پروفیشنل مصروفیات میں اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ اس کی امریکا کی جانے والی کالز
میں بھی وقفہ آنے لگا تھا صرف عکس تھی جو اب بھی Skype کے ذریعے ہر دوسرے تیسرے د ن تغرل اور باذل کے ساتھ مثال کی بات کروانے کی کوشش کرتی رہتی۔
……٭……




جاب بہتر ہوگئی تھی لیکن جاب اور جاب سے متعلقہ مصروفیات بھی بہت زیادہ ہوگئی تھیں اور شہربانو بالآخر اس زندگی اور اس مصروفیت کی عادی ہونے لگی تھی، مصروفیت اچھی تھی کم ازکم یہ اسے بار بارپچھتاؤوں کے لیے وقت اور موقع نہیں دیتی تھی۔ میکانیکی زندگی تھی لیکن پھر بھی بہتر تھی۔
وہ مثال کی گیارہویں سالگرہ کے چند دن بعد کی بات تھی جب وہ آفس میں تھی اور اسے لنچ ٹائم کے قریب مثال کے اسکول سے فون آیا تھا۔ انہوں نے اسے تفصیلات نہیں بتائی تھیں لیکن اسے فوری طورپر اسکول پہنچنے کا کہا تھا۔ شہر بانو بے حد گھبراہٹ اور بدحواسی میں اسکول پہنچی تھی اور جو کچھ اسے وہاں جاکر پتا چلا تھا اسے لگا تھا جیسے آسمان اس کے سرپر گرپڑا تھا۔ مثال کا ایروبک انسٹریکٹراس سے زیادتی کی کوشش میں کسی دوسرے ٹیچر کی نظر میں آیا تھا اور پکڑا گیا تھا ۔ خوش قسمتی صرف یہ ہوئی تھی کہ مثال بروقت بچ گئی تھی۔
اسکول ہیڈمسٹریس اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس سے معذرت کررہی تھی اور شہر بانو گنگ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی، یہ کیسے ہوسکتا تھا اور پھر اس ہی کی بیٹی کے ساتھ۔ زندگی میں ابھی مصیبتیں کم تھیں۔اس نے اپنے ٹھنڈے ہوتے ہوئے وجود کے ساتھ سوچا، پھر جیسے وہ شدید غم وغصے کا شکار ہوکرپرنسپل پر برستی رہی تھی جو اس کی باتیں سنتی ہوئی اسے وضاحتیں دینے کی کوشش کررہی تھی۔ اس کا اگر بس چلتا تو وہ اس کے انسٹریکٹر کو جاکر ابھی شوٹ کردیتی۔ یہ کیسے ہوا کہ اس نے اس کی مثال کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھا۔ پرنسپل نے اسے مثال کے رویے کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کی تھی مگر وہ تشویش کے عالم میں اس آفس سے نکل کر مثال کے پاس آگئی تھی وہ ایک دوسرے آفس میں بیٹھی تھی، اس نے ماں کو ایک نظر دیکھا تھا لیکن پھر اسی طرح سرجھکالیا جیسے اس نے پہلے جھکایا ہوا تھا۔ وہ اس کے قریب آئی اور اس نے اسے گلے لگایا تھا مثال نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ وہ گم صم تھی، شہربانو کو لگا وہ شاک میں تھی وہ اسے لے کر گھرآئی۔
ایرک چند مہینے پہلے ہی اس کے اسکول میں آیا تھا اورمثال مسلسل اس سے اس کا ذکر کررہی تھی اور یہ بے حد Unusual تھا کیونکہ مثال بہت کم اس طرح اسکول کے کسی ٹیچر کی تعریف یا باتیں کرتی تھی اور اب وہی ایرک اس کی زندگی تباہ کردینے کا سبب بنتے بنتے رہ گیا تھا۔
وہ رات شہربانو کی زندگی کی ایک اور مشکل راتوں میں سے ایک تھی۔ وہ ایک چیز جس کو اس نے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا وہ اس رات جاکر اس نے بالآخر تسلیم کرلی تھی۔ وہ بھی تب جب وہ ماں کے طورپر اس anguishسے گزری تھی،پہلی بار زندگی میں اس نے مان لیا تھا کہ اس کے پاپا نے عکس مراد علی کے ساتھ زیادتی کی ہوئی تھی ۔وہ اس کی زندگی کے ہیرواور فرشتے تھے ۔عکس مراد علی کی زندگی کے ولن تھے… اور عکس مراد علی نے ان پر جو الزام لگایا تھا وہ ناقابل یقین سہی لیکن ناممکنات میں سے نہیں تھا۔ اس رات پہلی بار اس نے آئینے میں حقیقت اور سچ کا وہ چہرہ دیکھنے کی کوشش کی تھی جو وہ ہمیشہ جھٹلاتی رہی تھی… شرمین کے انکشافات کے باوجود بھی… پہلی بار اس نے اپنے باپ کی بیٹی بن کر نہیں صرف غیر جانبداری سے سوچا تھا اور وہ اپنے آپ سے نظریں نہیں ملاسکی تھی اور شاید یہی وہ احساس تھا جس سے بچنے کے لیے وہ اتنے سالوں سے اپنے باپ کو مجرم ماننے سے انکار کررہی تھی… وہ اسے مجرم مان لیتی تو وہ ایک شخص بھی اس کی زندگی کی اس فہرست سے غائب نہ ہوجاتا جسے اس نے آئیڈیل کا درجہ دیا ہوا تھا… اور زندگی میں ایک آئیڈیل کو انسانیت سے گرتے دیکھنا انسان کی ساری قدریں بھلا دیتا ہے خاص طور پر تب جب وہ آئیڈیل ایک خونی رشتہ بھی ہو۔
……٭……
”شہر بانو نے فون کیا تھا مجھے… وہ پاکستان آرہی ہے۔” شیر دل ڈنر پر اس رات عکس کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا۔
”تمہیں فون کیا تھا…؟ اکیلی آرہی ہے؟”
”ہاں… مثال کو لے کر آرہی ہے ،مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔”
”کس لیے…؟”
”پتا نہیں … مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی…” وہ دونوں ہی کچھ حیران اور الجھے ہوئے تھے۔ عکس نے شیر دل سے یہ بات شیئر نہیں کی لیکن پتا نہیں کیوں اسے یہ لگا تھا جیسے شہر بانو، مثال کو اس کے پاس چھوڑنے کے لیے آرہی تھی۔ شاید وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتی تھی اور مثال کی وجہ سے اسے کسی پریشانی کا سامنا تھا اس لیے اس نے اسے شیر دل کو دے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ عکس سوچ رہی تھی اور وہ تب تک یہ سارے اندازے لگاتی رہی جب تک شہر بانو ان کے گھر آنہیں گئی۔
پہلی نظر شہر بانو پر ڈالتے ہی اس کو شاک لگا تھا۔ دس بیس سال نہیں گزرے تھے بس پانچ سال ہی تو گزرے تھے مگر وہ اپنی عمر سے کئی سال بڑی لگنے لگی تھی۔ تھکن اور شکستگی جیسے اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ عکس کو اسے دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی۔
”تم نہیں ملوگے اس سے؟” اس نے پچھلی رات شیر دل سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔” اس نے جواباً کہا۔
”ملنا چاہیے۔”
”کیا کروں گا؟”وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اور ٹھیک کررہا تھاکہ اس سے ملنے کے لیے وہاں نہیں تھا۔ عکس نے سوچا تھا شہربانو کے لیے اس گھر میں اسے اور شیردل کو ایک جوڑے کے طور پر دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا۔ کسی کے لیے بھی ہوتا …اور شیردل کے لیے ان دونوں عورتوں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنا بہت آکورڈ ہوجاتا۔
عکس کا اندازہ ٹھیک تھا وہ مثال کو مستقل طور پر وہاں چھوڑنے آئی تھی اور وہاں آنے کے چند منٹوں بعد ہی اس نے عکس کو یہ بتادیا تھا۔
”کل واپسی کی فلائٹ ہے میری…بس رک نہیں سکتی، میں چاہتی تھی کہ مثال کو خود یہاں چھوڑ جاؤں۔” عکس نے اسے رکنے کے لیے کہا تھا اور اس نے جواباً کہاتھا۔ وہ دونوں اس وقت لان میں بیٹھی ہوئی تھیں آور ان سے کچھ فاصلے پر مثال، طغرل اور باذل کے ساتھ بڑے جوش وخروش کے عالم میں کھیل رہی تھی۔ وہ ایک happy family تھی جس کا شہر بانوحصہ نہیں تھی۔ شہربانو نے ایک لمحے کے لیے ان سب کو دیکھتے ہوئے سوچا اور کم از کم اب اس کی زندگی اس تنہائی میں نہیں گزرے گی جس میں اس کا اپنا بچپن گزرا تھا۔
”کل رات کی فلائٹ ہے… تم اگر کل دوپہرکو بھی نکلو تو بہت آرام سے پہنچ سکتی ہو… لاہور زیادہ دور تو نہیں ہے یہاں سے۔” عکس نے اس کے آج ہی واپس جانے کے ارادے کو جان کر کہا۔ ایک عجیب سے آکورڈ کیفیت کا شکار تھیں وہ دونوں اس وقت… بات کرنے میں جھجک ہورہی تھی ۔ خاموش بیٹھے رہنے میں شرمندگی۔
”مثال یہاں رہے گی تو تم اکیلے امریکا میں کیسے رہوگی؟” عکس نے اس سے پوچھا۔یہ اندازہ کرلینے کے باوجود کہ وہ مثال کو اس کے پاس چھوڑدینے کے ارادے سے آرہی تھی۔ حیران تھی کہ شہربانو نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرلیا تھا۔
”میں اور مثال ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دسرے سے بہت دورہیں۔ ہم دونوں ساتھ رہتے ہوئے بھی اکیلے ہیں۔ مجھے اس زندگی کی عادت ہوگئی ہے لیکن میں نہیں چاہتی مثال کو اس زندگی کی عادت ہو۔ میں چاہتی ہوں وہ شیردل کے پاس رہے ۔ اس کے پاس پلے بڑھے۔” شہربانو نے مدھم آواز میں کہا ۔ وہ اب بھی اسے وہ وجہ بتانے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی جس نے اسے اتنا بڑا فیصلہ کرنے پرمجبور کردیا تھا۔ جس نے اسے یہ احساس دلایا تھاکہ وہ ایک غیر ذمے دارماں ہے جو ایک بچی کی بھی حفاظت نہیں کرسکتی… اور مثال کے ساتھ آئندہ کچھ بر انہ ہو اس خوف نے اسے مثال کو شیردل کے پاس لانے پر مجبور کردیا تھا۔
”میں تم سے معافی بھی مانگنا چاہتی تھی۔”عکس اس کی بات سنتے سنتے اس کے جملے پر چونک پڑی۔
” مجھ سے معافی …کس چیز کی؟” وہ واقعی نہیں سمجھی تھی۔
بہت دیر خاموش رہنے اور کچھ کہنے کی ہمت جمع کرنے کے بعد اس نے بالآخر عکس سے کہا۔
”پاپا نے جو کچھ کیا تھا بہت غلط کیا تھا… بہت غلط… I am sorry for what he did to you ۔”(جو کچھ انہوں نے کیا میں اس پر معافی چاہتی ہوں) زندگی عجیب شے ہے بعض دفعہ وہ باتیں ان سے کہلواتی ہے جن سے آپ کو کبھی وہ سننے کی توقع تک نہیں ہوتی ۔عکس اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی جس کی آنکھیں اس وقت آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ اٹک اٹک کر زبان سے کی گئی معذرت سے زیادہ موثر اس کی آنکھوں اور چہرے پر تحریر شرمندگی اور ندامت کا احساس تھا۔
عکس نے خود پر قابو پالیا تھا وہ یہاں لان میں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا نہیں چاہتی تھی بہت نرمی سے اس نے شہربانو کے کرسی کے ہتھے پر دھرے ہاتھ کو تھپکا۔
”وہ سب گزر گیا … بہت عرصہ ہوگیا ۔ میں نے اب اس کے بارے میں سوچنا چھوڑدیا ہے ۔ تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی کسی معذرت کی ۔ اس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا۔”
”ہاں لیکن میں اس فیملی کا حصہ ہوں اور اس حوالے سے اپنے رول پر شرمندہ ہوں۔ صرف پاپا نے تمہیں تکلیف نہیں پہنچائی میں نے بھی …” شہربانو بات کرتے کرتے رک گئی تھی۔
”تمہاری فیملی نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی لیکن تمہاری ممی نے میرے نانا کی مالی مدد بھی کی تھی اس وقت جب ہم مالی طور پر بالکل تباہ ہوچکے تھے۔” اس نے جیسے شہربانوکا احساس جرم کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
”ایک لاکھ کی وہ رقم جو انہوں نے میرے نانا کو دی تھی۔ انہوں نے اسی رقم سے اپنی اور میری زندگی دوبارہ بنائی تھی۔” شہربانو نے کچھ الجھتے ہوئے اسے بات جاری رکھنے سے ٹوک دیا۔
”ممی نے تمہارے نانا کو کوئی رقم نہیں دی تھی۔ وہ چیک لے کر گئی تھیں اور انہوں نے تمہارے نانا کو وہ رقم لینے پر مجبور کیا تھا لیکن انہوں نے وہ رقم نہیں لی تھی۔ ممی نے مجھے خود بتایا تھا۔” عکس چند لمحے پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ خیردین کی زندگی کا پہلا جھوٹ تھا اس سے اور وہ جھوٹ بھی کس جگہ آکر کھلا تھا۔ وہ اسے شہربانو کی ماں کا احسان مند کرکے شہربانو کا گھر توڑنے سے بچانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس نے اپنی چڑیا کے گرد احسان کی لکشمن ریکھا کھینچی تھی کیونکہ اسے یقین تھا وہ احسان فراموشی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اس شخص کی بیٹی کا گھر اور زندگی بچانے کی کوشش کررہا تھا جس نے خود اس کی اور اس کی چڑیا کی زندگی تباہ کردی تھی۔ وہ کیسا انسان تھا۔عکس بہت دیر تک چپ رہی، گتھی سلجھانے میں اسے چند سیکنڈ لگے تھے لیکن اس کیفیت سے نکلنے کے لیے بہت دیر… وہ جو ایک بوجھ اس کے نانا نے اس کے کندھوں پر رکھ کر اسے جھکایا تھا وہ اس انکشاف نے اٹھالیا تھا ۔ کیسا سکون اوراطمینان تھا جو عکس مراد علی نے محسوس کیا تھا۔
”۔Thank you ” اس نے شہربانو سے کہا۔
”کس چیزکے لیے؟” وہ الجھی۔
”ایک بوجھ ہٹالینے کے لیے۔”
……٭……




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!