عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

”تم نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ داؤد تم پر ہاتھ اٹھاتا ہے؟” شرمین نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”پہلے ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا … جب سے بے روزگار ہوا ہے بات بات پر بہت ایگریسو ہوجاتا ہے…”اس نے چند لمحوں کے بعد عجیب سی ندامت کے ساتھ شرمین کو بتایا۔
”تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ،میں اور فاروق تو دماغ درست کردیتے اس کا…ایک بار پولیس کو کال کردیتیں چار دن پولیس اسٹیشن رہ کر آتا تو دوبارہ تم پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچتا۔” شرمین بہت غضبناک ہو کر اس سے کہہ رہی تھیں وہ ٹوکے بغیر ان کی بات سنتی رہی۔
”پھر اس کے بعد کیا ہوتاایک بار پھر بریک اپ… ممی میں بار بار گھر تو ڑ اور بنانہیں کرسکتی۔” وہ بات کرتے کرتے آبدیدہ ہوگئی تھی۔
”but you don’t deserve this life ” شرمین بھی رنجیدہ ہوئی تھیں۔
”پتا نہیں میں کیا deserve کرتی ہوں کیا نہیں… لیکن بس ایک گھر بنائے رکھنا چاہتی ہوں میں اب… کچھ عرصے میں جاب ہوجائے گی تو اس کا یہ ڈپریشن و غصہ بھی ختم ہونا شروع ہوجائیں گے۔” وہ پتا نہیں کیا توجیہہ دے رہی تھی اور کس کو دے رہی تھی۔
”اور اگر نہ ہوئے تو؟” شرمین نے اس سے پوچھا۔
”آپ صرف میرے لیے دعا کریں۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں ماں سے کہا۔
”میں داؤد کا دماغ درست کردوں گی۔”
”ممی آپ اس سے اس ایشو پر کوئی بات نہیں کریں گی… میں گھر میں کوئی ہنگامہ نہیں چاہتی… آپ چلی جائیں گی لیکن مجھے تو یہیں رہنا ہے۔” اس نے ماں کو دیکھا تھا۔
”تم ایکabusive relationshipمیں رہنا چاہتی ہو… کیوں؟” اس نے بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
”ممی میںexpcet کررہی ہوں۔”’ چند لمحوں تک شرمین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔




” لیکن تم نے تو فیملی اسٹارٹ کرنے کا ارادہ ابھی ترک کردیا تھا۔” وہ الجھی تھی۔
”ہاں… لیکن بعض چیزیں unexpected ہوتی ہیں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تم abort کرواسکتی ہو اس بچے کو… اس mess میں پڑے رہنے کے لیے یہ بچہ زنجیر نہیں ہونا چاہیے تمہارے پیروں میں۔” شرمین نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”جیسے آپ نے abort کروایا تھا۔” اس کے سوال نے شرمین کو چند لمحوں کے لیے گونگا کردیا تھا۔”میں یہ نہیں کرسکتی… میں اس بچے کو کسی چیز کی سزا نہیں دے سکتی…” وہ رنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔”آپ اس بچے کو abort نہ کرواتیں تو میرا کوئی بہن ،بھائی ہوتا ،کسی سے اپنی تکلیف شیئر کر سکتی میں۔”
حماد اور اسد …”
”وہ دونوں میرے بھائی نہیں ہیں۔ وہ آپ کے اور انکل فاروق کے بیٹے ہیں لیکن میرے بھائی نہیں ہیں۔” شہر بانو نے اسے بات کرنے سے روک دیا۔
”تم نے ہمیشہ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھا، گھلنے ملنے کی کوشش کرتیں تو ان کے ساتھ بھی تمہارا کوئی ریلیشن شپ بن ہی جاتا۔” شرمین نے اس کو blame کیا تھا اس بات کا احساس کیے بغیر کہ وہ ذہنی طور پر کس اذیت اور خود ترسی کا شکار تھی۔
”آپ ٹھیک کہتی ہیں… سارے flaws( خامیاں) مجھ میں ہی ہیں… ساری غلطیاں صرف میری ہیں… ساری قیمت بھی تو میں ہی ادا کررہی ہوں اور میں ہی ادا کروں گی۔”’ وہ رنجیدگی سے کہتے ہوئے کافی کا کپ وہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
……٭……
”تم اپنے پاپا سے میرے بارے میں بھی کبھی کوئی بات نہیں کروگی۔” شرمین دوسرے دن داؤد سے بات کیے بغیر چلی گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد شہر بانو نے مثال کو پاس بٹھالیا تھا۔
”میں نے پاپا سے آپ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی… ”مثال نے جواباً کہا۔
”stop lieing ” (جھوٹ بولنا)شہر بانو نہ چاہتے ہوئے بھی rude ہوگئی تھی۔
”I am not lineng ” مثال بھی ماں کے اس طرح بات کرنے پر irritate ہوئی تھی ۔
”تم نے پاپا سے کیوں کہا کہ…” شہر بانو کے سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ اس جملے کو کس طرح مکمل کرے۔ مثال اس پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔”میرے اور داؤد کے درمیان جو کچھ بھی ہو ا وہ تمہارے پاپا کا مسئلہ نہیں ہے۔ تمہیں ان کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے، تم نے شیر دل سے کیوں کہا کہ داؤد مجھے مارتا ہے۔”
”میں نے پاپا کو نہیں بتایا عکس آنٹی کو بتایا تھا۔ ” اس کے جواب نے شہر بانو کی رہی سہی عزت نفس بھی اتار کر رکھ دی تھی۔ وہ بے بسی سے ہونٹ کاٹنے لگی تھی۔ وہ جیسے تماشا بن گئی تھی۔ ایک کے بعد ایک شکست عکس، شیر دل کے سامنے اس کی زندگی کی بساط پر موجود مہروں میں سے کوئی چل نہیں پارہا تھا۔
”آئندہ کبھی ان لوگوں سے میرے بارے میں کچھ مت کہنا… I am warning you ” اس نے حلق کے بل چلا کر مثال سے کہا اور پھر روتے ہوئے کمرے نکل گئی۔ مثال سہم گئی تھی۔ ممی اب ویسے کیوں نہیں رہتی تھیں جیسے پہلے رہتی تھیں… خوش… مسکراتے ہوئے… مجھ سے ڈھیروں باتیں کرنے والی… ممی ،عکس آنٹی جیسی کیوں نہیں ہوسکتیں… وہ غصہ نہیں کرتیں… وہ shout نہیں کرتیں… وہ تو طوغی کے ساتھ اس طرح بات نہیں کرتیں جیسے ممی میرے ساتھ… آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ مثال نہیں جانتی تھی وہ ایک ایسا موازنہ کررہی تھی جو اگر شہر بانو جان جاتی تو اس کی اذیت میں اور اضافہ ہوجاتا ۔
……٭……
خیر دین کی موت نے کچھ مہینوں کے لیے عکس اور شیر دل کی توجہ شہر بانو سے ہٹادی تھی۔ وہ عکس مراد علی کی زندگی کا ایک اور تکلیف دہ دور تھا۔ شیر دل جیسا ساتھی اگر اس کی زندگی میں نہ ہوتا تو اس تکلیف سے گزرے اور سنبھلنے میں اسے بہت وقت لگ جاتا لیکن شیر دل نے اسے سنبھال لیا تھا، وہ جانتی تھی خیر دین دنیا سے بہت مطمئن اور پرسکون ہو کر گیا تھا اوراس کی ایک وجہ شیر دل اور طغرل بھی تھے اور اس دوسرے بچے کی خبر بھی جو اسے خیر دین کی اس آخری علالت سے کچھ دن پہلے ملی تھی۔
خیر دین کے انتقال کے تین ماہ بعد عکس کو ایک دن مثال سے بات کرتے ہوئے اس مسئلے کا خیال آیا تھا۔ جو مثال نے اس سے شیئر کیا تھا۔
”وہ expect کررہی ہے اور وہ داؤد کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔” skype پر بات ختم کرنے کے بعد اس نے شہر بانو کے متعلق شیر دل سے پوچھا تھا اور اس نے مدھم آواز میں اسے بتایا۔وہ مزید سوال نہیں کرسکی۔ فیصلہ صحیح تھا یا غلط شہر بانو کا فیصلہ تھا اور ان حالات میں کیا گیا تھاجب اس کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر تھے۔ بات وہیں ختم ہوگئی تھی اور شاید یہ موضوع دوبارہ زیر بحث نہ آتا اگر چند ماہ کے بعد انہیں شہر بانو کے miscarriage کا پتا نہ چلتا، وجوہات کیا تھیں، شرمین یا مثال شیر دل کو یہ نہیں بتاسکے تھے… مگر وہ اور عکس دونوں ہی اس خبر کو سن کر اپ سیٹ ہوئے تھے۔ عکس شہر بانو کی تکلیف اور ذہنی کیفیت کا اندازہ شیر دل سے زیادہ اچھی طرح لگا سکتی تھی، خاص طور پر تب جب وہ خود ایسی حالت میں تھی… وہ پہلا موقع تھا جب وہ شہر بانو کو فون کیے بغیر نہیں رہ سکی تھی، تب شہر بانو کے miscarriageکو دو ہفتے گزر چکے تھے۔ عکس مراد علی کے تعارف سے پہلے ہی صرف اس کی آواز سننے پر بھی وہ اسے پہچان گئی تھی۔ کچھ دیر کے لیے اس کے حواس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ کال اتنی ہی unexpected تھی۔
”مجھے آپ کے miscarriage کا پتا چلا… بہت افسوس ہوا ہے۔ صرف اس لیے بات کرنا چاہتی تھی میں۔” اس نے شہر بانو سے علیک سلیک کے بعد کہا تھا پھر اس کے جواب کا انتظار کیا۔ شہر بانو اسی طرح چپ رہی… عکس نے چند اور جملے بولے تھے۔ شہر بانو نے اس کا بھی جواب نہیں دیا ۔وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ وہ اگر کبھی عکس مراد علی سے بات کرے گی تو اسے اس پر شدید غصہ آئے گا وہ اسے بہت برا بھلا کہے گی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر وقفے وقفے سے اس کے جواب کے انتظار میں بولتی رہی تھی اور شہر بانو روتی رہی تھی۔ اسے زندگی میں کم از کم اس عورت کی ہمدردی نہیں چاہیے تھی لیکن اسی عورت کی ہمدردی سے اس کے اندر کا غصہ اور خفگی آنسو بن کر بہنے لگے تھے۔
”میں نے طغرل کی تصویریں دیکھی ہیں وہ بہت خوب صورت ہے۔ شہر بانو کو سمجھ میں نہیں آیا اس وقت طغرل کیسے یاد آگیا تھا اور اس کا ذکر وہ بھی تب… جب عکس اس سے کچھ اور بات کررہی تھی۔
عکس نے اس کی آواز کی بھراہٹ محسوس کی تھی پھر اس کے لفظوں کی بے ربطی بھی… وہ آنسو جو فون لائن کے ایک طرف تھے اب دوسری طرف بھی بہنے لگے تھے۔ اس نے شہر بانو سے مزید کچھ کہنے کی کوشش کی مگر شہر بانو نے فون بند کردیا… وہ عکس مراد علی کے سامنے ریت کی دیوار کی طرح ڈھے نہیں جانا چاہتی تھی۔ اپنا کچھ بھرم رکھنا چاہتی تھی ۔عکس نے اس کے بعد کئی بار اسے فون کرنے کی کوشش کی تھی وہ یا تو کال ہی نہیں لیتی تھی اور اگر لیتی تو اس کی آواز سنتے ہی فون بند کردیتی…
پانچویں مہینے میں ہونے والے اس miscarriage نے شہربانو کی صرف ذہنی اور جذباتی کیفیت کو متاثرنہیں کیا تھا بلکہ اس کی شادی کو بھی بری طرح ہلا دیا تھا۔ شہر بانو اس ایک حادثے سے اتنی اپ سیٹ نہیں ہوئی تھی اس پریگنینسی کے دوران مس کیرج کے بعد داؤد کی سرد مہری اور بے نیازی سے… اسے نہ اس کی پریگنینسی کی ایکسائٹمنٹ تھی نہ ہی بچے کے ضائع ہونے پر کسی طرح کی کوئی پریشانی یا افسوس۔ وہ اس کے مس کیرج کے دن اسے اسپتال میں اکیلا چھوڑ کر کسی جاب انٹرویو کے لیے چلا گیا تھا۔ فنائشل کرائسز اور رویے پیسے کی تنگی انسان کو صرف توڑتی ہے لیکن اپنے خونی رشتوں اور لائف پارٹنر کی خود غرضی اور بے حسی انسان کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ شہر بانو کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
تقریبا چھ ماہ گزرنے کے بعد وہ بالآخر اس شادی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی تھی۔ اسے تب تک یوں لگنے لگا تھا کہ وہ اگر چند ماہ اور اس شادی میں رہی تو پھر شاید وہ اس کے بعد ذہنی امراض کے کسی اسپتال میں پائی جائے گی۔
مثال ان دنوں ایک بار پھر چھٹیوں میں پاکستان تھی۔ جب شہر بانو اور داؤد کے درمیان طلاق ہوئی تھی۔ وہ اس طلاق کے بعد شرمین اور فاروق کی ہزار کوششوں کے باوجود ان کے پاس جاکر رہنے پر تیار نہیں ہوئی۔ وہ اب مثال کے ساتھ کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر اکیلے رہنا چاہتی تھی۔ جاب اس کی اچھی تھی اور وہ مثال کے ساتھ آرام سے رہ سکتی تھی۔ اسے اب شیر دل کی اس ماہانہ بھیجی جانے والی رقم کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
……٭……
”آنٹی میں ممی کے پاس نہیں جانا چاہتی آپ مجھے یہیں رہنے دیں میں طوغی اور باذل کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔” چھٹیاں ختم ہونے کے قریب پہنچنے پر مثال نے ایک دن بہت اکتاہٹ آمیز انداز میں عکس سے کہا۔
”بیٹا تمہاری ممی کو اس وقت تمہاری بہت ضرورت ہے وہ وہاں آکیلی ہیں، عکس نے اسے سمجھایا تھا وہ شہربانو اور داؤد کی طلاق کے بارے میں جان چکی تھی۔
”ممی کو میری ضرورت نہیں ہے۔ وہ میرے بغیر بھی بہت خوش ہیں۔ She can live withouth me”وہ عکس کے سمجھانے پر جیسے بہت مایوس ہوئی تھی اور بہت دیر تک عکس سے امریکا نہ جانے کے لیے ضد کرتی رہی تھی۔ وہ پہلا موقع تھا جب اس نے عکس سے کسی بات پر ضد کی تھی، عکس حیران تھی وہ کیوں شہربانو کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں تھی۔
”وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ ممی کے پاس میرے لیے ٹائم ہی نہیں۔ میں سارا دن اکیلے رہتی ہوں، اکیلے کمپیوٹر پر گیمز کھیل کھیل کر تھک جاتی ہوں۔” اس آٹھ سالہ بچی نے عجیب بے بسی اور بے چارگی سے عکس کے ساتھ اپنی تکلیف شیئر کی تھی وہ بہت دیر اسے بیٹھ کر سمجھاتی رہی تھی۔مثال نے بالآخرضد ختم کردی تھی لیکن وہ بے حد مایوس اور دل گرفتہ لگی تھی۔




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!