”اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہم سب کے لیے ٹھیک ہوتا… میرے لیے… شیر دل کے لیے… شہر بانو اور مثال کے لیے…” اس نے خیر دین سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”آپ نے بہت خود غرضی دکھائی نانا… اور زندگی میں پہلی بار خود غرضی دکھائی۔” اس نے مدھم آواز میں خیر دین کو جتایا تھا۔
”تم ٹھیک کہتی ہو لیکن بڑھاپا اور اولاد انسان کو مجبور کردیتے ہیں… میں کتنی بار تمہیں تکلیف میں پڑتے دیکھتا… سجاد سے رشتہ ختم نہ ہوچکا ہوتا تو اور بات تھی لیکن رشتہ ختم ہونے کے بعد… اور وہ بھی میری جلد بازی کی وجہ سے… میں نے یہی ٹھیک سمجھا کہ تمہاری شادی شیر دل کے ساتھ ہوجانی چاہیے۔” خیر دین کی آواز میں ندامت تھی۔ وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح کسی بڑے کے سامنے خود سے ہونے والی کسی غلطی کا اعتراف کررہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔
” جو بھی تھا یہ ٹھیک نہیں تھا نانا… میں آپ کو اتنا کمزور نہیں سمجھتی تھی۔” اس نے کچھ ناپسندیدگی سے کہا۔
”جب تمہاری اپنی اولاد ہوجائے گی تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ اولاد انسان کو کس طرح کمزور کرتی ہے۔ اس کے اصول اور اخلاقیات کو کس طرح بدل کر رکھ دیتی ہے۔”خیر دین نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا وہ کچھ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ بے اختیار ہنس پڑی۔ اسے خیر دین سے ایسی مثال کی توقع نہیں تھی۔
……٭……
شیر دل کے ساتھ ازدواجی زندگی کا آغاز ایک آسان آغاز نہیں تھا… یہ وہ شیر دل نہیں تھا جسے عکس اتنے سالوں سے جانتی تھی۔ وہ خوش مزاج ،تحمل مزاج شخص اب بہت چھوٹی سی بات پر غصے میں آجاتا تھا… فطرتاً اچھا ہونے کے باوجود شہر بانو اور مثال سے علیحدگی نے اس کے مزاج کو بہت بری طرح بدلا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت سنجیدہ ہوگیا تھا۔ اگر بات نہ کرتا تو کئی کئی دن بات نہیں کرتا تھا… فون نہیں کرتا تھا… اور اگر فون کر نے پر آتا تو دن میں کئی کئی بار اسے فون کرتا… وہ متلون مزاج ہوگیا تھا اور وہ پہلے ایسا نہیں تھا عکس کو اس کے mood swing بری طرح پریشان کرتے تھے لیکن اس کے باوجود شیر دل کے ساتھ شروع کے چھ ماہ اس نے بڑے تحمل کے ساتھ گزارے تھے پھر آہستہ آہستہ بچے کی آمد کا وقت نزدیک آتا گیا تھا اور شیر دل کا مزاج بدلتا گیا۔ وہ پرانا شیر دل لوٹنے لگا تھا اس کی توجہ،محبت اور خیال بڑ ھ گیا تھا، اس کی متلون مزاجی میں کچھ کمی آنے لگی تھی۔ شاید اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ عکس کے ساتھ اتنا اچھا شوہر بن کر نہیں رہا تھا جتنا وہ شہر بانو کے ساتھ ہمیشہ رہا تھا۔
……٭……
شہر بانو کو طغرل کی پیدائش کا پتا مثال سے چلا تھا۔ وہ اپنی چھٹیوں میں پاکستان شیر دل سے ملنے گئی تھی اور اس بار شہر بانو نے اسے اکیلے بھجوادیا تھا۔ وہ اپنی جاب کی وجہ سے چھٹی نہیں لے سکتی تھی اور نہ ہی اب وہ ایک بار پھر شیر دل کا سامنا کرنا چاہتی تھی۔ جب زندگی بدل نہیں سکتی تھی تو پھر حقیقت سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے فرار بہتر تھا وہ بھی اب یہی کرنا چاہتی تھی، نو سے پانچ بجے کی ایک تھکا دینے والی نوکری، ایک شوہر جو اسے بیوی سے زیادہ ایک ہاؤس کیپر سمجھتا تھا اور ایک بیٹی جو اس کے کسی فیور ،کسی خدمت سے خوش نہیں ہوتی تھی… شہر بانو کے پاس اس ”baggage ”کے ساتھ زندگی ویسے ہی ایک ہی دائرے میں گھومنے لگی تھی جس میں وہ کولہو کے بیل کی طرح کچھ سوچے سمجھے بغیر چکر کاٹتی جارہی تھی۔ شیر دل کے ساتھ گزاری ہوئی زندگی، اس کی محبت، وہ ناز برداریاں وہ آرام و آسائش خواب ہوچکے تھے۔ جو اب باقی تھا وہ ایک مشکل زندگی تھی جس میں obligations تھیں options نہیں تھے اور اس ٹھہرے ہوئے پانی میں مثال نے جیسے ایک تلاطم پیدا کردیا تھا۔
وہ پاکستان جانے کے پانچویں دن اس سے فون پر بات کررہی تھی جب مثال نے اسے بے حد ایکسائٹڈ انداز میں ایک چھوٹا اور پیارا سا بھائی آنے کی اطلاع دی تھی۔ شہر بانو ہل بھی نہیں سکی تھی، یہ غیر متوقع نہیں ہونا چاہیے تھا اس کے لیے… پھر بھی غیر متوقع تھا… تکلیف نہیں ہونی چاہیے تھی اسے پھر بھی ہوئی تھی، سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا کہ وہ مثال سے کیا کہتی یا کسی سے بھی کیا کہتی… مثال دوسری طرف سے بڑے پرجوش انداز میں آسے بھائی کے حلیے کی تفصیلات دے رہی تھی۔ اس نے عجیب کم ہمتی کے عالم میں فون رکھ دیا تھا۔ تھکن اتنی تھی کہ اسے لگا وہ اب کبھی اٹھ نہیں سکتی۔ ایک بیٹا اس کی اور شیر دل کی خواہش تھی۔ وہ پلان کررہے تھے اگر یہ سب ان کی زندگی میں نہ ہوتا تو شاید اس سال وہ بیٹا اس کا بیٹا ہوتا۔ وقت اس سے سب کچھ چھین کر لے گیا تھا اور جو چھین کر لے گیا تھا وہ دوسروں کو دے رہا تھا۔ داؤد کے ساتھ اس کی شادی کو بھی ایک سال ہونے والا تھا لیکن وہ اولاد نہیں چاہتا تھا اور کم از کم چند سال تو اس کے لاکھ سر پٹخنے کے باوجود وہ اس ایک بات پر اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔
”تمہاری اولاد ہے… بیٹی ہے پھر تمہیں کیا ٹینشن ہے اگر کوئی ٹینشن ہونی چاہیے تو وہ مجھے ہونی چاہیے۔” اس کے پاس ہروقت اس ایشو پر بحث کے دوران ایک ہی جواب ہوتا تھا۔
وہ چھوٹے دل کی اور کم ظرف نہیں تھی لیکن بس وہ ایک چیز کے معاملے میں اپنا دل بڑا کر کے شیر دل یا عکس کو مبارک بادبھی نہیں دے سکی تھی نہ خود نہ ہی مثال کے ذریعے… اس نے اس خبر کے ملنے کے بعد اگلے کئی دن مثال سے بھی بات نہیں کی تھی وہ اس سے اس بچے کے بارے میں مزید کچھ نہیں سننا چاہتی تھی… اور مثال نے جیسے اس کی کال کے آنے نہ آنے کو محسوس تک نہیں کیا تھا… وہ ننھے طغرل کے ساتھ اس طرح مصروف تھی کہ اسے کوئی ہوش ہی نہیں تھا۔ جتنی ایٹجڈ وہ ا س بچے کے ساتھ ہوگئی تھی اتنی ہی اٹیجڈ وہ عکس سے بھی ہورہی تھی… وہ ڈھٹائی جو وہ شہر بانو کو دکھاتی تھی وہ عکس کے سامنے ایک بار بھی نہیں جھلکی تھی۔ وہ ایک ماہ شیر دل اور عکس کے پاس رہی تھی اور شیر دل واپس پشاور جاتے ہوئے اس کی ضد پر اسے عکس اور طغرل کے پاس ہی چھوڑ گیا تھا اور اس ایک ماہ میں وہ طغرل سے زیادہ عکس کی پرچھائیں بن کر رہی تھی، وہrelationship جو اس نے کبھی شہر بانو کے ساتھ جانے کے بعد بد اعتمادی میں کھویا تھا وہ اس نے ایک اور جگہ دریافت کیا تھا۔ مثال کے اپنے ساتھ بہت اٹیچ ہونے کے باوجود شیر دل کو ان مسائل کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ تھا جو مثال کے رویے اور عادتوں میں تھے اور پشاور جانے کے بعد بھی وہ اس حوالے سے بار بار اسے اور عکس کو فون کرتا تھا لیکن اسے حیرت ہوئی تھی جو ضد اور بد تمیزی وہ اسے دکھاتی تھی عکس نے اس کی شکایت نہیں کی تھی۔ اسے لگا تھا شاید وہ لحاظ میں اس کی شکایت سے اجتناب کررہی تھی مگر چند دن بعد دوبارہ عکس کے پاس اس کے گھر آئے پھر اس کے مثال کو ویسا ہی فرمانبردار اور باتمیز پایا تھا جیسا عکس اسے فون پر بتاتی تھی۔ وہ شیر دل کے آنے پر اس سے ضد کرنے لگی تھی لیکن عکس کے ایک بار منع کرنے پر وہ فوراً مان جاتی تھی اور اس اطاعت میں خوف اور سختی کا کوئی element نہیں تھا۔ وہ طفرل پر جان چھڑکتی تھی مگر وہ عکس کی توجہ پانے کے لیے ہر وقت اس کے اردگرد بھی منڈ لاتی رہتی تھی۔ وہ پہلا موقع تھا جب وہ دونوں ملی تھیں یا انہوں نے بات کی تھی اور وہ عجیب طرح سے ایک دوسرے سے connect ہوئی تھیں۔
ایک مہینا گزر جانے کے بعد مثال بہت مشکل سے واپس امریکا جانے پر تیار ہوئی تھی۔ شہربانو کے پاس واپس جانا جیسے اس کی زندگی کا ایک بھیانک خواب تھا جسے وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ شہربانو کے پاس وہی مثال واپس پہنچی تھی جو وہاں سے گئی تھی۔ خاموش، بدتمیز، خفا، irritated اور کنفیوز وہ جو عکس اور شیردل کے پاس 24 گھنٹے چہکتی رہتی تھی اس کے پاس شہربانو سے کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس کی آواز میں وہ کھنک اور خوشی تک نہیں تھی جو شہربانو اس سے پاکستان میں بات کرتے ہوئے محسوس کرتی تھی ہاں البتہ اس کی کبھی کبھار کی جانے والی باتوں میں دو نام آگئے تھے۔ طغرل اور عکس آنٹی، اسے پہلے نام نے نہیں توڑا تھا۔ دوسرے نام نے کسی شیشے کی طرح کاٹا تھا، مثال جتنی بار طغرل کا ذکر کرتی تھی عکس کا بھی ذکر کرتی تھی اور بعض دفعہ شہربانو کو لگتا طغرل کا ذکر تذکرتاً ہوتا تھا عکس کا ذکر خصوصاً… اس عورت میں کوئی witch چاپلوس کوالٹی تھی جو وہ سب کو اپنی مٹھی میں کر لیتی تھی لوگ جس کے پاس بھی ہوتے ان کا دل و دماغ عکس مراد علی کے قبضے میں رہتا۔ اس نے شیردل کے ساتھ یہی کیا تھا اور اب وہ مثال کے ساتھ بھی یہی کررہی تھی۔ کیوں؟ وہ اب کیا چاہتی تھی؟ اس کی بیٹی؟ شہربانو بے وجہ خفا ہوئی، بے وجہ خوف زدہ ہوئی۔
”ممی، عکس آنٹی نے کہا ہے جب میں next ٹائم ان کے پاس جاؤں گی تو وہ طغرل کے ساتھ ساتھ میرا بھی ایک بہت اچھا سا روم بنا دیں گی پھر میں اپنے روم میں رہوں گی۔”وہ اس دن اسے صبح اسکول جانے کے لیے تیار کررہی تھی جب مثال کویک دم پتا نہیں کیا یاد آیا تھا او اس نے بڑے ایکسائٹڈ انداز میں ماں سے کہا۔
”وہ کبھی تمہارے لیے کچھ نہیں بنائیں گے، اب ان کے پاس اپنا baby ہے تمہارے پاپا اور طغرل کی ممی کو تم میں دلچسپی نہیں ہے، ان کے لیے اپنا baby کافی ہے ۔ وہ تم سے جھوٹ بول رہے ہیں۔” اس نے مثال کا سفید پڑتا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا وہ بس غصے کے عالم میں اس کے اس محل کو اپنے پیروں تلے روندتی چلی گئی تھی جو اس بچی نے بنایا تھا۔ وہ ان پڑھ، جاہل عورتوں کی طرح یہ باتیں نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اپنی اکلوتی بیٹی کو صحت مندانہ سوچ اور رویہ ہی دینا چاہتی تھی مگر حسد اور غصے نے کچھ دیر کے لیے جیسے اس کا ذہن ماؤف کر دیا تھا۔ اس کے پاس صرف مثال رہ گئی اور وہ کم از کم اس کی محبت عکس کے ساتھ نہیں بانٹ سکتی تھی۔ وہ پورا دن مثال گم صم رہی تھی۔ رات کو اس نے شیردل سے Skype پر بات کرنے کی ضد کی۔ وہ اسے laptop دے کر خود چلی گئی تھی۔ وہ دو گھنٹے کے بعد کچن کا کام نمٹا کر اس کے کمرے میں آئی تھی۔ مثال بستر پر laptop کے پاس ہی سو چکی تھی۔ اس نے laptop میں skype کی ونڈو آف کرنا چاہی اور رک گئی، شیردل کی ڈسپلے میں طغرل کی تصویر تھی۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔ اس کے چہرے میں شیردل کی واضح شباہت تھی۔ سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی آنکھوں اور معصوم مسکراہٹ والا ایک گول مٹول چہرہ… وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر کے لیے غصہ پتا نہیں کہاں چلا گیا تھا۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ laptop بند کر کے کمرے سے چلی گئی۔
”عکس آنٹی نے کہا ہے طوغی کے آنے سے میری importance میں کوئی کمی نہیں آئی، پاپا نے بھی یہی کہا ہے۔” اگلی صبح وہ اسے اسکول چھوڑنے جارہی تھی جب مثال نے یک دم اس سے کہا تھا۔ وہ بری طرح چونکی۔
”عکس سے بات کب ہوئی تمہاری؟” نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ کچھ خشک ہو گیا تھا۔
”پاپا نے رات کو skype پر بات کروائی ہے میں نے طوغی کو بھی دیکھا۔” مثال نے بے حد خوشی سے اسے بتایا۔ شہربانو کا پارہ یک دم چڑھ گیا تھا۔
”تم نے اگر دوبارہ طغرل کی ممی سے بات کی تو میں تمہیں دوبارہ کبھی تمہارے پاپا سے بات نہیں کرنے دوں گی۔” اس نے بلاجھجک اسے دھمکایا تھا۔
”لیکن کیوں، عکس آنٹی بہت اچھی ہیں… I really like her۔”
Stop it… “تمہیں ضرورت نہیں ہے مجھے بتانے کی کہ تمہیں کون پسند ہے اور کون نہیں، میں نے تمہیں کہہ دیا تم عکس سے بات نہیں کرو گی تو تم نہیں کرو گی۔” اس نے بری طرح اسے جھڑکا تھا۔ مثال کچھ دیر الجھی نظروں سے ماں کو دیکھتی رہی۔ پھر وہ ایک دم کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔ شہربانو کچھ دیر خاموشی سے ڈرائیو کرتی رہی پھر اس نے جیسے کچھ بے چین ہو کر مثال کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے کی کوشش کی جسے اس نے جھٹک دیا۔
”وہ تمہیں مجھ سے چھین لینا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ تمہیں پیار کررہی ہے۔ وہ تمہیں genuinely (خلوص سے) میری طرح پیار نہیں کرتی۔” شہربانو نے عجیب بے چینی سے اس سے کہا۔ مثال نے اس پر ایک اور الجھی نگاہ ڈالی اور کہا۔
”ممی میں پاپا اور عکس آنٹی کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ،میں طوغی کو miss کرتی ہوں۔” اس نے اتنے کھلے ڈلے الفاظ میں اس سے کہا تھا کہ چند لمحوں کے لیے شہربانو کچھ بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”میں تمہیں کبھی وہاں نہیں بھیج سکتی، تم میری اکلوتی بیٹی ہو تم مجھے چھوڑ کر اس کے پاس کیسے رہ سکتی ہو۔”you love them more then me?(تم انہیں مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہو؟)۔ بات کرتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
”yes۔” ایک لفظی جواب نے اس کی ہمت ختم کر دی تھی۔
وہ باقی کا سارا راستہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ خاموشی سے ڈرائیو کرتی رہی تھی۔ مثال بے حد سردمہری اور بے نیازی کے عالم میں پورا راستہ گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔
بعض دفعہ اولاد انسان کے لیے نعمت سے زیادہ ایک ٹارچر بن جاتی ہے۔ ٹو وے ٹارچر… وہ آپ کو کچھ کہیں تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے، آپ ان کو کچھ کہیں تو بھی آپ ہی کو تکلیف ہوتی ہے… اور وجہ صرف یہ ہے کہ آپ نے انہیں پیدا کیا ہوتا ہے انہوں نے آپ کو نہیں…وہ آپ کو چھوڑ سکتے ہیں آپ ان کو نہیں۔
مثال کے ساتھ ہونے والے یہ بار بار کے arguments مکالمے جیسے شہربانو کے دل میں ایک اور اولاد کی خواہش شدت سے پیدا کررہے تھے وہ ایک سیکنڈ چانس لینا چاہتی تھی شاید ایک اور تجربہ اور اس کے اور داؤد کے کھوکھلے رشتے کی بنیاد بدل دے اور اگر نہیں بھی ہوتا تو وہ بچہ مثال اور اس کے درمیان communication تعلق کے گرتے ہوئے پل کو تو سہارا دے سکتا تھا۔ اس نے مثال کی طغرل کے لیے دیوانہ وار محبت دیکھی تھی اور اسے یوں لگتا تھا کہ وہ یہ محبت اس کے اور داؤد کے بچے کے ساتھ بھی کر سکتی تھی۔
اگلا سال اس کی زندگی کا ایک اور مشکل سال تھا۔ داؤد ،شرمین اور فاروق کے مجبور کرنے پر اس فیملی کا آغاز کرنے پر تو تیار ہوگیا تھا لیکن ان دونوں کے باہمی تعلقات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے تھے اور تعلقات کی یہ خرابی اس وقت او ر بھی بڑھ گئی جب داؤد کو اچانک اسی کمپنی سے Pay off ( نوکری سے نکالنا)کردیا گیا جہاں وہ کئی سالوں سے کام کررہا تھا۔ شہر بانو پہلے جاب سے اپنے اخراجات پورے کرتی تھی اور گھر میں تھوڑا بہت کنٹریبیوشن کرتی تھی اب یک دم گھر کے سارے اخراجات اس کے سر آگئے تھے ۔گھر mortgage ہونے کی وجہ سے ان دونوں پر شدید فنانشل پریشر تھا۔ ایک اوربچہ ان حالات میں پیدا کرنا اس گلے میں پھندا ڈالنے کے برابر تھا جس میں پہلے ہی بہت سے پھندے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں مثال کے لیے ہر ماہ شیر دل کی طرف سے بھیجی جانے والی رقم ایک نعمت غیر مرتبہ سے کم نہیں تھی۔ وہ رقم جو پہلے کچھ معنی نہیں رکھتی تھی۔ اب یک دم بہت جگہوں پر کام آنے لگی تھی۔