شیردل جب کمرے میں واپس آیا تو وہ فون بند کر چکی تھی اور اب اپنے دوبارہ آنسوؤں سے بھیگ جانے والے چہرے کو خشک کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
”بات ہو گئی؟” وہ اس سے بہت فاصلے پر بیٹھ گیا۔
”ہاں… وہ نانا کے پاس جارہا ہے۔” عکس نے فون سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں نے تمہیں کافی پریشان کیا۔” اس کو اب پہلی بار رات کے وقت کا اور شیردل کی خواری کا احساس ہوا… صبح اب قریب تھی اور وہ اتنے گھنٹوں سے ایک کے بعد ایک فون کرتا اور سنتا رہا تھا۔
شیردل بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔”وہ تو تم کئی سالوں سے کررہی ہو۔” اس نے جواباً دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔ سائڈ ٹیبل پر پڑا فون اٹھا کر اس نے عکس کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ اپنے پاس رکھو۔ تمہیں ضرورت پڑے گی اس کی پاکستان رابطہ کرنے کے لیے۔”
وہ جھجکی۔ ”تم کیا کرو گے فون کے بغیر؟”
”اتنا لمبا کورس نہیں ہے میرا گزارہ ہو سکتا ہے۔ ضروری ہوا تو لے لوں گا یہاں سے کوئی فون۔” اس نے عکس سے کہا۔
سہ پہر کو وہ ابھی اپنا سامان سمیٹ کر فارغ ہوئی تھی جب شیردل آگیا تھا۔ ”تم کیوں آئے ہو… ابھی تو کلاس چل رہی ہو گی۔” عکس نے اس سے کہا۔
”تمہیں سی آف کرنا تھا میں نے۔”
”میں چلی جاتی ٹیکسی لے کر۔”
”تم سوئی نہیں؟” شیردل نے بات بدلتے ہوئے اس کی سرخ اور متورم آنکھیں دیکھ کر کہا۔
”نیند نہیں آئی۔” اس نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
”کچھ کھایا ہے؟”
”شیردل تم واپس جاؤ… اپنا کورس خراب مت کرو میرے لیے… کوئی نیگیٹو ریمارکس چلے گئے تمہاری رپورٹ میں تو تمہارے لیے مسئلہ ہو جائے گا۔” عکس کو اس حالت میں بھی تشویش ہوئی تھی۔
”کچھ نہیں ہوتا۔” اس کے بیگز اٹھاتے ہوئے اس نے بے پروائی سے کہا تھا۔
فلائٹ دوگھنٹے لیٹ تھی اور عکس کی فرسٹریشن میں اضافہ ہو گیا تھا۔ شیردل نے اسے زبردستی کھانا کھلایا تھا۔ وہ اندر جانے کے بجائے باہر وقت گزارنے کے لیے بیٹھ گئے تھے۔ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے عکس کو نیند آنے لگی تھی۔ وہ اس کا ذہن بٹانے کے لیے اسے دن میں اٹینڈ کی ہوئی کلاسز میں لیکچرز کی تفصیلات بتا رہا تھا۔
”تمہیں نیند آرہی ہے تو تم سو جاؤ۔” شیردل نے اس کی بند ہوئی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ عکس نے بینچ کی پشت سے سر ٹکا کر نیم دراز ہوتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
”تم ٹائم کا خیال رکھنا اور گھڑی دیکھتے رہنا۔” آنکھیں بند کرنے سے پہلے وہ اسے ہدایت دینا نہیں بھولی تھی۔ وہ فلائٹ مس کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
“Don’t worry” شیردل نے اسے تسلی دی۔ وہ اب اس کا پہرا دینے لگا تھا۔ وہ اس کے بے حد قریب تھی۔ زندگی میں اگر وہ کبھی کسی رشتے کو صرف محبت کی کیٹیگری میں بھی نہیں رکھ پایا تھا تو وہ اس عورت کے ساتھ رشتہ تھا… اس کا دل اس کے وجود کے ساتھ تعلق کے کن کن دھاگوں سے بندھا ہوا تھا وہ کبھی بیٹھ کر گن نہیں پایا۔ گنتا تو دھاگے الجھ جاتے اور مشکل اسی کو ہوتی۔
نیند کے جھونکے میں وہ اس کی طرف جھکی۔ شیردل اس کے قریب ہو گیا اس نے جیسے اس کے سر کو ٹکانے کے لیے سہارا دیا تھا۔ وہ نیند میں ہی کچھ اور اس کی طرف جھک آئی۔ شیردل کو شہربانو یاد آئی تھی۔ وہ بھی اسی طرح سفر کرتے ہوئے اکثر سو جایا کرتی تھی۔ اس کے کندھے پر سر ٹکائے اس کے پیٹ کے گرد بازو حمائل کیے وہ کسی بچے کی طرح اس سے لپٹ کر سوتی تھی… ملکیت کے احساس کے ساتھ تحفظ کے اعتماد کے ساتھ۔ وہ سارا راستہ اپنے laptop پر کام کرتا رہتا یا کوئی کتاب پڑھتا رہتا لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ اس کے جسم کی کسی حرکت سے شہربانو کی نیند خراب نہ ہو۔ بعض دفعہ ایک ہی حالت میں کئی گھنٹے بیٹھے ہوئے اس کے جسم کا وہ حصہ بھی سن ہوجاتا تھا اور تب وہ بڑی احتیاط کے ساتھ شہربانو کو خود سے الگ کرتے ہوئے جیسے کچھ دیر کے لیے خود کو آرام دینے کی کوشش کرتا اور شہربانو تب بھی سوئی رہتی۔ وہ چند منٹ آرام کرنے کے بعد اسے پھر اپنے ساتھ لگا لیتا تھا اور وہ پھر اسی طرح نیند میں اس سے لپٹ کر سو جاتی… شیردل، شہربانوکے ساتھ سفر کے دوران آج تک کبھی نہیں ہو سکا تھا وہ سوتی جاگتی کیفیت میں رہتا لیکن کبھی آنکھیں بند نہیں کر پاتا تھا۔ عجیب لاشعوری انداز میں وہ جیسے شہربانو کی حفاظت کررہا ہوتاتھا۔ وہ نیند میں بھی بعض دفعہ اپنا سر اور ہاتھ پاؤں کہیں نہ کہیں مار لیتی تھی۔
عجیب بات تھی وہ شہربانو کو دیکھتا تو اسے عکس یاد آتی اور اب عکس کو دیکھ رہا تھا تو شہربانو یاد آنے لگی تھی۔ اس کا دل دو عورتوں سے عجیب انداز میں بندھا ہوا تھا۔ عکس نے نیند میں اپنے جسم کو ذرا سا ٹیڑھا کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر رکھ دیا۔ شیردل کچھ دیر کے لیے حرکت کرنا بھول گیا تھا۔ اس کا ہاتھ اس کے بازو سے سرکتے سرکتے اس کے ہاتھ پر آکر ٹک گیا تھا اوراس کے ہاتھ کی ایک انگلی میں شیردل نے وہ انگوٹھی دیکھی جو اسے ایک جھٹکے سے جیسے اس خیالی دنیا سے باہر لے آئی تھی۔
”یار دیکھو تمہاری اور میری شادی صرف ایک سال چلنی ہے… زیادہ سے زیادہ… توتم ایک سال کے لیے مجھ سے شادی کر لو اس کے بعد تم وہاں شادی کر لینا جہاں تمہارے نانا کہیں اور میں اپنی فیملی میں کہیں شادی کر لوں گا۔” اس نے اپنا پرپوزل چوتھی بار ریجیکٹ کرنے پر جھلا کر عکس سے کہا تھا۔
”یہ funny بات نہیں ہے cheap بات ہے۔” عکس نے بڑے اطمینان سے اس سے کہا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں یہ یقین کیوں نہیں آرہا کہ مجھے واقعی تم سے محبت ہے اور میں تمہارے بارے میں سیریس ہوں۔” شیردل نے اس کی لعنت وملامت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے اصل میں کسی اور سے محبت ہے اس لیے۔” اس نے شیردل کے سر پر جیسے بم پھوڑا تھا۔
نیند میں عکس نے پبلک اناؤنسمنٹ سسٹم پر کوئی آواز گونجتی سنی اس نے یک دم ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کی فلائٹ کا اعلان ہورہا تھا۔ چیک ان اسٹارٹ ہو چکا تھا اور اس کے برابر بیٹھا شیردل گہری نیند میں تھا۔ اس نے اپنا ٹکٹ نکال کر ایک بار پھر چیک کیا۔ وہ اسی کی فلائٹ تھی جو دو گھنٹے کے بعد اب روانگی کے لیے تیار تھی۔ اس کی آنکھ اگر خود نہ کھل جاتی تو وہ اور شیردل یقینا وہیں سوئے پڑے رہتے۔
”شیردل، شیردل… اٹھ جاؤ۔” اس نے شیردل کا بازو تھپتھپایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔
Oh my god…”میں کیا سو گیا تھا؟”
”تم اب جاؤ… تھکے ہوئے ہو۔” عکس کو اسے سوتے دیکھ کر اندازہ ہوا تھا کہ وہ بھی اس کے جانے کے بعد سو نہیں سکا تھا اور صبح کلاسز ہونے کی وجہ سے دن میں سونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
”تمہارا فون!” وہ اب بیگ سے اس کا فون نکال کر اسے دے رہی تھی۔
”اسے پاس رکھو۔ connecting flight ہے… پتا نہیں آگے کہیں مزید delay نہ ہو جائے۔ میں کم از کم تم سے رابطے میں تو رہوں گا۔ ”وہ اس کا سامان اٹھا کر کھڑا ہو گیا تھا۔
انٹرنیشنل ڈیپارچر کے سامنے کھڑے اسے رخصت کرتے ہوئے شیردل نے اس سے کہا۔”مجھے شاید تمہارے ساتھ جانا چاہیے تھا۔”عکس کا دل بھر آیا تھا۔ وہ فکرمندی بناؤٹی نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی وہ اس کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھا۔
”نہیں میں ٹھیک ہوں، تمہیں کورس مس نہیں کرنا چاہیے۔ تمہارے لیے ضروری ہے یہ کورس۔ ورنہ تو میں شاید چاہتی کہ تم بھی ساتھ آتے نانا تم سے مل لیتے… تمہیں بہت پسند کرتے ہیں وہ۔” بات کرتے ہوئے اس کی آواز پھر بھرائی تھی۔
”میں سنگاپور آتے ہوئے ان سے مل کر آیا تھا۔” وہ فریز ہو گئی۔ ایک لمحے میں اس نے خیردین کی اس اچانک بیماری کی وجہ کو جان لیا تھا۔
……٭……
شہربانو نے آج جانا تھا کہ لاعلمی کو نعمت کیوں کہا جاتا تھا… منزہ کی فون کال بند ہونے کے بعد بھی وہ بہت دیر تک بت بنی فون گود میں رکھے بیٹھی رہی تھی۔ پتا نہیں زندگی میں ناممکنات کہاں پائے جاتے ہیں اور کس کے لیے ہوتے ہیں۔ ا س کے لیے تو وہ یک دم اپنا وجود اور مفہوم ہی کھو بیٹھے تھے۔ شیردل اور عکس… شیردل، عکس سے شادی کرنا چاہتا تھا… اور وہ شہربانو اس کی زندگی میں متبادل کے طور پر آئی تھی… اتنے سالوں میں متبادل ہی رہی تھی شاید… اور عکس اور اس کے نانا کی وجہ سے اس کی ممی اور پاپا میں علیحدگی ہوئی تھی۔ ان کا گھر ٹوٹا تھا۔ پتا نہیں کس بات کا رنج اور غصہ زیادہ تھا اس کو… رنج اور غصے کے علاوہ ایک تیسرا احساس دھوکے اور تذلیل کا تھا۔ شیردل اس کی آنکھوں کے سامنے عکس سے افیئر چلا رہا تھا اور اسے شائبہ تک نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے شوہر پر، اس کی محبت پر اس کی وفاداری پر فخر کرتی رہی، قصیدے پڑھتی رہی۔ وہ اس کی آنکھوں میں اس طرح دھول کیسے جھونک سکتا تھا… کس طرح سے زیادہ بڑا سوال تھا کہ کیوں جھونک رہا تھا۔
زندگی میں جن چند چیزوں کو ایک عورت کبھی سمجھ نہیں پاتی اس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مرد جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو، آپ سے چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے کرتا ہو، وہ اچانک کسی اورکی محبت میں گرفتار کیسے ہو جاتا ہے… کیسے ہو سکتا ہے؟ اخلاقیات نام کے ڈھیر میں سے کوئی ایک بھی اس کے لیے رکاوٹ کیوں نہیں بنتی اور یہاں پر معاملہ اس سے بھی زیادہ خراب تھا۔ وہ اسے زندگی میں اس لیے لے کر آیاتھا کیونکہ وہ اس عورت سے شادی نہیں کر سکا تھا جس سے وہ کرنا چاہتا تھا… منزہ نے اس سے کہا تھا کہ عکس اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ شہربانو کم از کم اب اس معاملے کو ون سائیڈڈ سمجھنے پر تیار نہیں تھی۔ شیردل کی زندگی میں عکس نام کا ڈارک ہول اب کم از کم شہربانو کے لیے ڈارک نہیں رہا تھا۔ وہ اس کے اندر جھانک کر دیکھ سکتی تھی لیکن یہ مسٹری اس کی زندگی میں بہت غلط وقت پر حل ہوئی تھی، وہ عکس مراد علی کے ساتھ سنگاپور میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ اس کے کہنے پر بے وقوفوں کی طرح آکر امریکا بیٹھ گئی تھی۔ اسے امریکا کا ٹرپ لمبا کرنے کا مشورہ اسی کا تھا اور وہ اس کی عدم موجودگی میں عکس مراد علی کی جنگ لڑنا چاہتا تھا… کس کے خلاف؟ اس کے پاپا کے خلاف… جن کا وہ کبھی فیورٹ ہوا کرتا تھا۔ اس نے اتنے سالوں میں کبھی ایک بار اسے تکلیف نہیں پہنچائی تھی اور اب تکلیف پہنچانے پر آیا تھا تو بیک وقت کہاں کہاں سے ہرٹ کررہا تھا۔
خیردین اور اس کی نواسی… عکس مراد علی… اس کے ماں باپ کے جھگڑے… اور دوناموں کی بازگشت… خیردین اور چڑیا… وہ ان ناموں کو بھول چکی تھی… زندگی اسے بہت آگے لے آئی تھی لیکن آج منزہ کی ایک کال نے اسے علیحدگی سے پہلے شرمین اور شہباز کے درمیان ہونے والے شدید جھگڑوں کی یاد دلائی تھی جس میں شرمین، شہباز کو برا بھلا کہتی تھی ”کسی چیز” کے حوالے سے… وہ کیا چیز تھی شہربانو کو نہ اس وقت سمجھ آیا تھا نہ اب یاد آرہا تھا… چڑیا کے حوالے سے بہت ساری باتیں… بہت سارے الزامات لگتے دیکھتی… الزامات… جنہیں وہ سمجھ نہیں پاتی تھی لیکن چڑیا کا نام اس کے حافظے کا حصہ بن گیا تھا کیونکہ اس نے اپنے ماں باپ کے جھگڑوں میں اس نام کو بار بار سنا تھا۔ اس وقت اسے چڑیا یاد تھی وہ اس کی محبت میں گرفتار تھی اور وہ حیران تھی کہ اس کے ماں باپ چڑیا کی وجہ سے کیوں جھگڑتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ چڑیا اور اس کا نام اس کے حافظے سے غائب ہوتا گیا ۔ اسے یہ بھی بھولتا گیا کہ آٹھ نو سال کی عمر میں اس کے ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کی نوعیت اور وجہ کیا تھی اور اب آج جیسے منزہ کے عکس کو اس کے ماں باپ کی علیحدگی کی وجہ قرار دینے پر اسے یاد آگیا تھا… کہ اس کے ماں باپ کے درمیان کسی ملازم اور اس کی بچی پر جھگڑا ہوتا تھا لیکن شہربانو کو اس سے زیادہ کچھ یاد نہیں تھا۔
ساڑھے تین سے ساڑھے چار سال وہ راک اسٹار کے ا سٹارڈم والی جس چڑیا کے عشق میں گرفتار رہی تھی اسے اس وقت کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ نہ چڑیا نہ وہ وقت نہ وہ گھر… صرف اسکول تھا جس کے بارے میں اسے شرمین کے بتانے کی وجہ سے یاد تھا کہ اس نے اپنی اسکولنگ کا آغاز وہاں سے کیا تھا اور یہ بات شیردل بھی اس کے بتائے بغیر جانتا تھا۔ اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ کبھی بچپن میں وہاں رہ چکی تھی۔ تب وہ بہت چھوٹی تھی اور تب وہ بھی وہاں چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ شہربانو نے بڑی دلچسپی سے شیردل کی گفتگو سنی تھی۔ شیردل پاکستان میں گزارے جانے والے سالوں میں جھانکنے والی اس کی واحد کھڑکی تھی۔ شرمین اس کی اوراپنی زندگی کے اس حصے کے بارے میں بات ہی نہیں کرتی تھی۔ شیردل کرتا تھا۔ اسے جو کچھ شہربانو کے بارے میں، اس کے بچپن کے حوالے سے علم تھا اس نے شہربانو کو وہ بتا دیا تھا… جب بھی جو بھی یاد آجاتا تھا وہ بتا دیا کرتا تھا… اسی نے اسے اس گھر کے بارے میں بھی بتایا تھا جب وہ وہاں رہنے کے حوالے سے خائف تھی۔ اور شہربانو کو یہ جان کر ایک عجیب سی طمانیت ہوئی تھی کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ اس سے پہلے اس گھر میں رہ چکی تھی… اور اگر وہ گھر اتنا خوفناک ہوتا تو اس کے پاپا اسے کیسے وہاں رہنے دیتے… وہ گھر یک دم اس کے لیے آسیب زدہ نہیں رہا تھا۔ وہ اس گھر میں پھرتے ہوئے ہر جگہ پر شہباز حسین کی موجودگی کے احساس سے دوچار رہتی تھی اور اسے جیسے یقین ہو گیا تھا کہ وہاں اسے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
گھر میں ہونے والے عجیب و غریب واقعات کے باوجود شہربانو کا ابتدائی خوف اور بدحواسی ختم ہو گئی تھی اور اب وہ گھر اس کی زندگی کو دوسری بار تباہ کررہا تھا۔ مثال دروازہ کھول کر اندر آگئی تھی۔
”ممی پارک جانا ہے۔” مثال نے اس کے قریب آکر اس کا ہاتھ کھینچا۔ وہ ماں کا چہرہ پڑھ سکتی توکبھی اس وقت اسے کہیں جانے کے لیے نہ کہتی۔ شہربانو لٹھے کی طرح سفید چہرے کے ساتھ ایک ممی کی طرح وہاں بیٹھی تھی یوں جیسے اس کا سارا خون کسی نے نکال لیا تھا۔ منزہ کی کال ایک ڈریکولا کی طرح لگی تھی اسے۔
”ممی۔” مثال نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ کھینچا۔ شہربانو نے مثال کا چہرہ دیکھا اور اس کا دل بھر آیا۔ وہ ایک بت سے گوشت پوست کے انسان میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنا سارا بچپن ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں، گھر ٹوٹنے کے خوف اور گھر اور باپ کے ختم ہوجانے کے trauma میں گزاری تھی… لیکن اس کے پاس بچپن کے پھر بھی کچھ اچھے اور یادگار سال تھے… وہ چند سال جب وہ لاہور میں تھے جب شرمین اور شہباز کے درمیان جھگڑے ہونا شروع نہیں ہوئے تھے… جب اس کے ماں باپ نے اسے کسی آنے والے بہن یا بھائی کی نوید سنائی تھی اور وہ اس کے بارے میں اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ ایکسائیٹڈ تھی جب زندگی مزہ تھی… سکون… تحفظ… انجوائے منٹ سے بھرپور… جب وہ ایلس تھی لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ تھی ونڈر لینڈ میں نہیں۔
اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا زندگی اسے اوراس کی اولاد کو کبھی اسی راؤنڈ اباؤٹ پر لے آئے گی جہاں سے وہ اپنے پیر اور وجود زخمی کر کے گزر چکی تھی… وہ مثال اور شیردل کو ساتھ دیکھ کر اپنی ہی بیٹی پر رشک کیا کرتی تھی… وہ اس سے بہتر بچپن اور بہتر زندگی گزار رہی تھی اور اسے یقین تھا اس کا سارا بچپن ایسے ہی ہنستے مسکراتے اپنے ماں باپ کی مضبوط پناہ میں گزر جائے گا… اور اب…
شہربانو نے مثال کو اپنے ساتھ لپٹا لیا اوررونے لگی۔ پتا نہیں بڑے بچوں کے سامنے روتے ہوئے یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھیں گے کچھ نہیں کھوجیں گے کوئی سوال نہیں کریں گے… اور انہیں ان آنسوؤں سے تکلیف بھی نہیں ہو گی… کیونکہ وہ بچے ہوتے ہیں… آنسو ہر ایک پر ایک جیسا اثرکرتے ہیں… درد ہر ایک کو محسوس ہوتا ہے… غم کو ہر کوئی سمجھ لیتا ہے… بڑوں اوربچوں کے درمیان فرق صرف لفظوں کی کمی کا ہوتا ہے عمر کے سالوں کا نہیں۔
مثال بھی اپنے وجود سے لپٹی ماں کے بہتے آنسوؤں اور سسکیوں سے شاکڈ اور حواس باختہ تھی۔ یہ اس کی زندگی میں پہلی بار ہورہا تھا کہ اس کی ماں کو اپنے آنسوؤں اور تکلیف شیئر کرنے کے لیے اس سے لپٹنا پڑا ہو ورنہ یہ کام وہ کیا کرتی تھی۔
”پاپا کو بتاؤں گی ممی رو رہی ہے۔” پہلا خیال اسے وہی آیا تھا جو اسے آنا چاہیے تھا۔ اس کی ہربات پاپا کو بتا کر شروع ہوتی تھی یااس پر ختم ہوتی تھی۔ شیردل، شہربانو کی طرح اس کی بھی زندگی کا محور تھا۔ وہ پارک بھول گئی تھی۔ کینڈیز بھی بھول گئی تھی، جھولے بھی بھول گئی تھی اور باتیں بھی بھول گئی تھی… وہ بس کھڑی رہی… گم صم… پریشان… الجھی ہوئی… وہ شہربانو کو تسلی دینا چاہتی تھی نہیں دے سکی… اس کے آنسو پونچھنا چاہتی تھی وہ بھی نہیں کر سکی… وہ دونوں بڑوں کے کام تھے وہ کرنا نہیں جانتی تھی لیکن اس نے وہی کیا جو وہ اپنی باربی ڈول کو سلانے کے لیے کرتی تھی… نیند میں آنسو رک جاتے ہیں وہ کم از کم یہ تو جانتی ہی تھی۔ اس نے شہربانو کا سر تھپکنا شروع کر دیا… اس کی تھپکیوں نے شہربانو کی سسکیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔
”Do you want to talk to papa?۔”مثال نے بالآخر اس کی سسکیوں سے پریشان ہو کر کہا۔
”Are you missing papa…?” ۔ اس نے اوپر نیچے شہربانو سے سوال کیے۔ یوں جیسے اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی جو اس کی ماں کو پریشان کر کے رلاتی۔
”I would never speak to your papa again”۔’اس کے جواب نے مثال کو شاکڈ کر دیا تھا۔
……٭……