عکس — قسط نمبر ۱۲

”میری ان سے بات نہیں ہو سکی… اب کرنا چاہتا ہوں۔” شیردل انہیں یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ شرمین کی کال عکس نے ریسیو کی تھی اور اس کا فون عکس کے پاس تھا۔ یہ منزہ کے غصے کو نئے سرے سے جگانے کا باعث بنتا۔
”مجھے لگتا ہے مجھے اب تمہارے باپ سے بات کرنی چاہیے… عکس کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی ہو گی تبھی اس مسئلے کا کوئی حل نکلے گا۔” منزہ نے یک دم جیسے کسی نتیجے پرپہنچتے ہوئے کہا۔
”ممی آپ ایک mess کھڑا کر چکی ہیں ایک اورمت کریں… آپ پاپا سے اس طرح کی کوئی چیز نہیں کروائیں گی۔ جس سے اس کے کیریئر کو کوئی نقصان پہنچے۔” شیردل نے دوٹوک انداز میں ماں کو خبردار کیا۔
”تم اس کو اس کیس کو واپس لینے پر رضامند نہیں کروگے اور تم اس کے خلاف کچھ کرنے نہیں دو گے… شیردل تم اس کے لیے اپنے خاندان کو تماشا بنواؤ گے… اور وہ میں نہیں ہونے دوں گی۔” منزہ نے بڑی تلخی کے ساتھ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ شیردل فون ہاتھ میں لیے بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے پہلے ازدواجی کرائسس میں پھنسا تھا اور فی الحال اسے اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کیونکہ وہ شہربانو سے ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا تھا… سنگاپور میں بیٹھے آنے والے دنوں کا تصور اسے ہولا رہا تھا۔ ایک دن پہلے تک یہ صرف عکس کی پریشانی تھی جو اس کی ایڑھی کا کانٹا بنی ہوئی تھی اور اب یک دم شہربانو کی خفگی… وہ زندگی میں پہلی بار اس سے خفا ہوئی تھی شیردل کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کی خفگی کو کس طرح دور کرے اس سے پہلے چھوٹے موٹے معمولی جھگڑے ہوتے تھے ان دونوں کے درمیان جن کا دورانیہ چند گھنٹوں سے زیادہ کبھی نہیں بڑھ پایا اور اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے اور شیردل اسے خفا نہیں رہنے دیا کرتا تھا۔ شہربانو بچے کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہل جایا کرتی تھی اورشیردل نے اس کی خفگی کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ خفا تھی اور دور تھی اور اسے بات یا وضاحت کرنے کا موقع نہیں دے رہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا منزہ نے شہربانو سے کس طرح بات کی تھی خاص طور پر عکس کے حوالے سے… لیکن شہربانو کے اس طرح سے غائب ہو جانے سے اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جو کچھ بھی کیا گیا تھا وہ شہربانو کے لیے بہت زیادہ پریشان کن تھا۔
سنگاپور میں قیام کے باقی دنوں میں سرتوڑ کوشش کے باوجود وہ شہربانو سے بات نہیں کر سکا تھا۔ فون اٹھایا جاتا اور اس کی آواز سنتے ہی کچھ کہے بغیر رکھ دیا جاتا اور یہ شرمین اور شہربانو دونوں کی طرف سے ہورہا تھا۔ اس نے بہت اپ سیٹ ہو کربالآخر ایک دن فاروق کو کال کی تھی۔ فاروق کا رویہ بھی بے حد سردمہری لیے ہوئے تھا اور اس نے بہت صاف لفظوں میں اس سے کہا تھا کہ یہ اس کا اور شہربانو کا مسئلہ ہے وہ اسی کے ساتھ حل کرے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس نے شہربانو سے بات کرانے کے سلسلے میں بھی صاف انکار کر دیا تھا۔
شیردل نے شدید خفگی اور ڈپریشن میں دوبارہ منزہ کو فون کیا تھا۔ ”آپ اب خود دوبارہ شہربانو سے بات کریں… یہ مصیبت میرے لیے آپ نے پیدا کی ہے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اب اسے ختم بھی کریں۔” شیردل کو ماں سے شدید شکایت تھی۔ منزہ نے واقعی بیٹھے بٹھائے باہر جاتی پریشانی کو اس کے گھر لا بٹھایا تھا اور منزہ کو اب اس کا احساس ہونے لگا تھا۔
”بیٹا میں نے تم کوشیردل کو سمجھانے کے لیے کہا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ تم اس سے بات چیت ہی ختم کر دو۔” منزہ نے شیردل سے بات کرنے کے بعد اس دن شہربانو کو فون کیا تھا۔ شیردل کے فون کے برعکس شہربانو نے منزہ کی کال ریسیو کرلی تھی۔
”ممی میں ایک ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہوں گی جو مجھ سے sincere نہیں ہے۔ اگر اس کے لیے کوئی دوسری عورت اہم ہے تو اسے اس دوسری عورت کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔” شہربانو نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تم کیا حماقت کرنا چاہ رہی ہو؟” منزہ نے اسے ڈانٹ دیا۔ ”تم یہ چاہتی ہو کہ وہ اس عورت کے ساتھ مل کر شہباز کی عزت اور نام خراب کرے؟ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے پاپا کا ہی خیال کرو تم۔” منزہ نے اسے سمجھانے کی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔ ”اور میں نے تم سے کہا تھا اپنی ممی سے ذکر مت کرنا تم نے ان سے بات کیوں کی اس معاملے پر… تم ہماری فیملی کا حصہ ہو شرمین کی فیملی کا نہیں… شرمین نہ اس مسئلے کو سمجھ سکتی ہے نہ ہی وہ اس کا حل نکال سکتی ہے۔ وہ صرف تمہیں غلط مشورے دے سکتی ہے۔” منزہ نے بے حد تنفر سے کہا تھا۔
”ممی انہوں نے مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا اور میں نے ان سے پوری بات ڈسکس نہیں کی صرف شیردل اورعکس کے افیئر کے حوالے سے بتایا ہے۔”
”بس تو پھر کافی ہے اتنا ہی… تمہیں اس سے زیادہ شرمین کو بتانا بھی نہیں چاہیے ۔ تم پاکستان آجاؤ اور یہاں آکر شیردل سے بات کرو۔” منزہ نے جیسے سکون کی سانس لی تھی کہ شہربانو نے شرمین سے بہت کچھ چھپا لیا تھا۔ شہربانو انکار کرنا چاہتی تھی لیکن وہ منزہ کو انکار نہیں کر سکی تھی۔ وہ شیردل کا فون نہیں لے رہی تھی اور وہ اسے اورشرمین کو کالز پر کالز کررہا تھا لیکن اب اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بات نہ کرنے سے اور امریکا میں بیٹھے رہنے سے بھی کیا ہو گا۔ اس مسئلے کا حل بات چیت سے ہی نکلنا تھا آخر میں… اسے شیردل کی بات سننی ہی تھی… لیکن وہ شیردل کے منہ سے اب عکس کا نام نہیں سننا چاہتی تھی۔ وہ اتنے سالوں بعد بڑی خوشی سے امریکا چھٹیاں گزارنے آئی تھی لیکن اب اس کی واپسی عجیب احساسات کے ساتھ ہونے والی تھی۔
”ممی آپ نے پاپا سے divorce کیوں لی تھی؟” شہربانو نے شرمین کو اپنے اور منزہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بارے میں نہیں بتایا تھا لیکن اس نے شرمین کو یہ ضرور بتا دیا تھا کہ وہ واپس جانے کا سوچ رہی تھی کیونکہ وہ شیردل سے اس سلسلے میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنا چاہتی تھی۔ شرمین نے اسے روکنے یا منع کرنے کی کوشش نہیں کی تھی لیکن وہ خود اندرسے بہت سے خدشات کا شکار تھی، اس نے شہربانو کو اس رات شیردل کا فون ملانے پر عکس کے فون اٹھانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا ۔ اس میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ شہربانو کو یہ بات بتا سکتی۔ شہربانو نے اس سے کہا تھا کہ عکس کی کچھ عرصے تک شادی ہونے والی تھی اور لاشعوری طور پر شرمین کو یہ آس بندھ گئی تھی کہ اس کی شادی کے ساتھ ہی یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ یہ کرائسس اس کی بیٹی کی زندگی سے ختم ہو جائے گا۔شیردل اس کی نظروں سے بری طرح گر گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ جیسے اپنی بیٹی کی خوشیاں اور گھر بچانے کے لیے اسے ایک آخری موقع دے رہی تھی۔ اس ساری گفتگو کے دوران شہربانو نے وہ سوال کیا تھا۔ شرمین کچھ دیر کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔ اس نے کئی سالوں بعد اس سے دوبارہ یہ سوال پوچھا تھا اس کے باوجود کہ وہ اس کو جواب دے چکی تھی۔
”تمہیں بتایا تھا میں نے… ہم دونوں کی انڈر اسٹینڈنگ نہیں تھی۔” شرمین نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا۔ کچھ دیر کے لیے پتا نہیں کون کون سازخم ہرا ہو گیا تھا اس کا۔
”انڈر اسٹینڈنگ نہ ہو تو انسان اتنے سال تو اکٹھے نہیں رہتا… بس دو چار سال میں سب کچھ پتا چل جاتا ہے۔” شہربانو نے ماں کی بات کو پہلی بار کھلے لفظوں میں رد کرتے ہوئے کہا۔
”بعض شادیاں سالوں چلنے کے بعد بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔” شرمین نے عجیب دل گرفتگی کے عالم میں کہا تھا۔ وہ پہلا موقع تھا جب شہباز سے اپنی شادی کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہربانو نے شرمین کو رنجیدہ دیکھا تھا ورنہ وہ ہمیشہ ایک بے تاثر چہرے اور سرد مہر لہجے میں اس ایشو پر بات کرتی تھیں یوں جیسے وہ کسی اور کی زندگی کے بارے میں بات کررہی ہوں۔
”ایسا کیا ہوا تھا آپ میں اور ان کے درمیان کہ آپ نے divorce جیسا بڑا فیصلہ کر لیا۔” شہربانو نے اپنے سوال پر اصرار کیا۔
”تمہیں آج بیٹھے بٹھائے مجھ سے یہ پوچھنے کا خیال کیسے آگیا؟”
”ہمیشہ ہی پوچھنا چاہتی تھی آپ نے کبھی موقع ہی نہیں دیا۔” شہربانو نے ماں کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”بہت وقت گزر گیا بہت پرانی بات ہو گئی اب اس کے بارے میں بات کرنے کا کیا فائدہ… زندگی بہت آگے آگئی ہے ۔” شرمین نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”میرے لیے نہیں آئی… میری زندگی کا ایک حصہ، پاپا کے ساتھ بندھا ہوا تھا وہ آج بھی وہیں ہے۔” بہت تکلیف دہ اعتراف تھا یہ شہربانو کا اور اتنا ہی تکلیف دہ یہ شرمین کے لیے تھا۔ شہربانو، شہباز سے کس طرح اٹیچڈ تھی شرمین کو اس کا اندازہ اور احساس تھا اور شادی کے اس رشتے کو توڑتے ہوئے اگر اسے کسی چیز کی سب سے زیادہ تکلیف تھی تو وہ یہی تھی۔ جھگڑے کی وجہ وہ نہ ہوتی جو تھی تو وہ شہربانو کو شہباز سے اس طرح دور نہ کرتی لیکن پتا نہیں اسے شہباز اور شہربانو کے حوالے سے عجیب سے وہم ہوتے تھے۔ نفسیاتی طور پر وہ شہربانو کو شہباز کے پاس اکیلا چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی اور یہ ایک ایسا خوف اور وہم تھا جسے وہ کسی کے ساتھ شیئر کر کے اس سے نجات حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ شہباز، شہربانو کا باپ تھا اور یہ سوچنا بھی شرمناک تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی غلط حرکت کر سکتا تھا لیکن شرمین اس ایک انکشاف کے بعد ہر طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئی۔ اس کا گھر زمین بوس نہیں ہوا تھا، اس کی پوری شخصیت زمین پر آگری تھی۔ شہباز اپنے جرم کا اعتراف کرنے پر تیار نہیں تھا اور اس کی اس ڈھٹائی نے شرمین کے خوف اور عدم تحفظ کو بڑھا دیا تھا۔ وہ شہباز سے اعتراف جرم کا مطالبہ کررہی تھی اور وہ اس سے انکاری تھا۔
”تم خود سوچو میں آیسا کیسے کر سکتا ہوں۔ میں ذہنی طور پر بیمار ہوں کیا؟” اسے منانے کی کوششوں کے دوران وہ بار بار ایک ہی جملہ بولتا رہتا تھا اور ایک پوائنٹ پر آکر شرمین چلا اٹھی تھی۔
”تم ذہنی طور پر بیمار ہو۔ تمہیں علاج کی ضرورت ہے۔ اس mode of denialسے باہر نکل آؤ شہباز… کم از کم اب جب تم یہ بھی جانتے ہو کہ سب کچھ پتا چل گیا ہے مجھے۔” شہباز پر اس کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ سب ٹھیک ہو جاتا اگر اسے منزہ کی اتنی بھرپور اور کھلی حمایت نہ ملتی۔ اسے اپنی زندگی میں کبھی اپنے اس فیصلے پر پچھتاوا نہ ہوتا اگر خلع ہو جانے کے کچھ عرصے کے بعد شہباز نے خودکشی نہ کرلی ہوتی۔
اس کی موت نے شرمین کو اس سے رشتہ ختم ہو جانے کے باوجود بری طرح توڑ دیا تھا… وہ پہلا موقع تھا جب اس نے اپنے فیصلے کے نتائج کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی کوشش کی تھی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ شہباز حسین کے ساتھ گزاری ہوئی زندگی اس کی زندگی کا بہترین حصہ تھا جب تک اسے چڑیا کے بارے میں پتا نہیں چلا تھا اور زندگی کے بہترین حصے کو اپنی یادوں سے مکمل طور پر کاٹ دینا آسان نہیں تھا… فاروق کے زندگی میں آجانے کے بعد بھی… وہ شہباز کے لیے کبھی کسی کے سامنے نہیں رو سکی تھی… یہ کام اس نے ہمیشہ اکیلے میں کیا تھا۔ کسی چیز پر جج بن کر فیصلہ کر دینا ایک بات ہوتی ہے لیکن اس فیصلے کے ہاتھوں ساری زندگیsuffer کرنا ایک دوسری بات… ضمیر کی آواز پر اس نے فیصلے تو کیے تھے لیکن زندگی ان فیصلوں کے بعد بھی کبھی آسان نہیں لگی تھی شرمین کو۔
”تم نے کیا فیصلہ کیا ہے پھر؟” شرمین نے بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”پاکستان جارہی ہوں میں… شیردل سے بات کروں گی اور اگر کوئی حل نہ نکلا تو…” شہربانو بات مکمل نہیں کر سکی تھی۔ شرمین نے اس تو کے بعد اگلے جملے کے بارے میں نہیں پوچھا تھا۔
”جو بھی تم بہتر سمجھتی ہو کرو لیکن بس ہمیشہ یہ یقین رکھنا کہ تم اپنے ہر فیصلے میں مجھے ساتھ پاؤ گی۔” شرمین نے اسے تسلی دی تھی۔ شہربانو نے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا کہ کہنے کے لیے اب اس کے پاس کچھ تھا ہی نہیں۔ وہ غرور اور فخر جو وہ شیردل کی ذات کی وجہ سے لیے پھرتی تھی وہ ختم ہو گیا تھا۔
……٭……
خیردین کی حالت آہستہ آہستہ سنبھلنے لگی تھی اور اس کی حالت کے سنبھلنے کے ساتھ ساتھ جیسے عکس کی جان میں جان آنا شروع ہو گئی تھی۔ حلیمہ بھی پاکستان واپس آچکی تھی اور ہاسپٹل میں ہی اس نے جواد یا اس کی فیملی کی طرف سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے پر عکس سے اس کے بارے میں پوچھا تھا۔
”میں نے جواد کو سنگاپور سے ہی نانا کے بارے میں انفارم کیا تھا اور اس نے نانا کے پاس آنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن پتا نہیں اس کے بعد کیا ہوا… میرے اسٹاف نے کہا کہ وہ ایک بار آیا تھا میرے پاکستان پہنچنے سے پہلے کی بات ہے… لیکن بس اس کے بعد اس کے ساتھ میرا کوئی رابطہ نہیں۔ میں نے چند ایک بارفون کیا تھا اسے لیکن اس نے کال ریسیو نہیں کی پھر میں نے بھی دوبارہ کال نہیں کی… یہاں نانا کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کرنی پڑ رہی ہے۔ آفس سے چھٹی پر ہوں لیکن وہاں سے بھی کالز پر کالز اٹینڈ کرتی رہی ہوں سارا دن۔” وہ حلیمہ کو تفصیل سے جواد سے رابطے کے حوالے سے بتا رہی تھی جو بات وہ ماں کو نہیں کہہ پارہی تھی وہ یہ تھی کہ وہ جواد کے اس رویے اور بے اعتنائی سے بری طرح ہرٹ ہوئی تھی۔ وہ مستقبل میں اس کا لائف پارٹنر بننے والا تھا اور اس کی زندگی کے اس مشکل وقت میں اس نے اس سے مکمل طور پر رابطہ ختم کر دیا تھا۔ وہ سپورٹ جو وہ اس سے چاہتی تھی وہ اسے شیردل سے مل رہی تھی۔ وہ پاکستان میں نہ ہوتے ہوئے بھی اس سے رابطے میں تھا۔ ہاسپٹل انتظامیہ سے رابطے میں تھا۔ اس کی رہائش کے انتظامات فوری طور پر اس کی وجہ سے ہوئے تھے۔ اس کا اسٹاف تقریباً ہر روز اس سے رابطہ کر کے کسی بھی کام کے حوالے سے اپنی خدمات پیش کررہے تھا۔ شیردل کا اثرورسوخ اس کے اثرورسوخ سے کہیں زیادہ تھا اور اس کی وجہ سے خیردین کو ہاسپٹل میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا جارہا تھا… اور وہ اگر نہ ہوتا تو عکس کو بہت سارے کاموں کے لیے بہت سارے لوگوں کو کہنا پڑتا… اثرورسوخ جواد اور اس کی فیملی کا بھی کم نہیں تھا لیکن ان کی طرف سے اس کے لیے کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ باقی سب کچھ وہ اگر نظرانداز کر بھی دیتی تو اس کے لیے یہ نظرانداز کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے کسی نے عیادت کے لیے بھی اس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
”میں سوچ رہی ہوں میں فون کرتی ہوں جواد کو۔” حلیمہ نے اس سے کہا تھا۔
”امی آپ کو نہیں لگتا کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔” عکس نے نے بے حد سنجیدگی سے ذکرنہ کرتے ہوئے بھی جواد کی بے اعتنائی جتائی تھی۔
”ہاں فرض تو بنتا تھا ان کا… اور یہ اچھا نہیں کیا اس نے لیکن پھر بھی وہ… چلو ایک بار ابا کو دیکھنے تو آیا تھا… میں سوچ رہی تھی ہو سکتا ہے کوئی مصروفیت ہو۔” عکس نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مصروفیت کسی کو ایک کال کرنے سے تو منع نہیں کرتی۔”
”گلے شکوے تو ہوتے رہتے ہیں بیٹا… سسرال والے یہی سب کرتے ہیں… اتنا بڑا اور اونچا خاندان ہے ان کا… ہم تو ان سے شکایت بھی نہیں کر سکتے۔” حلیمہ نے بالآخر اپنے احساس کمتری کا اظہار کیا تھا۔ عکس کو ماں کی اس بات پر شدید تشویش ہوئی تھی۔ اس کے لیے جواد ”خاندان” نہیں تھا اس کے لیے جواد ”جواد” تھا۔ زندگی میں اگر ایک چیز اس کے اندر خیردین نے کبھی نہیں آنے دی تھی تو وہ احساس کمتری تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی اپنے ”سابقوں” اور ”لاحقوں” کو نہیں چھپایا تھا۔ اپنے ”حوالوں” پر شرم محسوس نہیں کی تھی۔ وہ ”اچھے” خاندان کو پہچان سکتی تھی۔ ”اونچے” خاندان کی تعریف اور شناخت سے لاعلم تھی۔ اور اب حلیمہ اس کے سامنے ایک عجیب سوال لے آئی تھی۔ اس نے حلیمہ سے بحث نہیں کی تھی اس کے اصرار پر اس بار اپنی بجائے اپنے اسٹاف سے فون لے کر جواد کو کال ملائی تھی۔ کال unknown نمبر کی وجہ سے ریسیو کرلی گئی تھی۔ وہ بے عزتی محسوس کرنا چاہتی تو یہ بھی کافی تھی۔ غیر متوقع طور پر اس کی آواز سننے پر جواد کچھ دیر کے لیے گڑبڑا گیا تھا۔ پھر اس نے نارمل ہوتے ہوئے اس سے حال چال پوچھا، نانا کے بارے میں دریافت کیا۔
”امی تم سے بات کرنا چاہتی ہیں۔” عکس نے اس سے کہا اور اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس سے کہا۔
”میری امی بھی تمہاری امی سے بات کرنا چاہتی ہیں۔” اس کا لہجہ اتنا عجیب تھا کہ عکس پوچھے بغیر نہیں رہ سکیں۔
”کس لیے؟”
”میرے پیرنٹس یہ رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔” وہ فوری طور پر کچھ بول نہیں سکی۔ چند ہفتوں پہلے تک وہ خود اس رشتے کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن اس کے باوجود چند لمحوں کے لیے اسے عجیب ٹھیس سی لگی تھی جواد کے منہ سے یہ بات سن کر۔
”میں وجہ جان سکتی ہوں؟” اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی جواد سے پوچھا۔
”وجہ تم اچھی طرح جانتی ہو عکس۔”
”اگر میں جانتی ہوتی تو تم سے کبھی نہ پوچھتی۔”
”تمہیں شیردل اور اپنے بارے میں مجھے بتانا چاہیے تھا… لیکن تم…” وہ رشتہ ختم کرنے کے بارے میں سن کر اتنا شاکڈ نہیں ہوئی تھی جتنا جواد کے منہ سے شیردل کا نام سن کر۔
”تم اگر شیردل کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھیں تو…” جواد کے لہجے میں عجیب سی خفگی تھی۔ عکس نے بے حد الجھ کر اس کی بات کاٹی۔
”تم سے کس نے کہا کہ میں شیردل سے شادی کرنا چاہتی تھی؟”
”اس کی ممی نے میری ممی کو فون کیا تھا۔” عکس کا دماغ جیسے بھک سے اڑگیا تھا۔ آخری چیز جس کی توقع وہ منزہ بختیار شیردل سے کرسکتی تھی وہ یہ تھی جو وہ کر چکی تھی۔
……٭……
”آپ اسے suspend کروائیں… اس کے خلاف کوئی انکوائری کروائیں لیکن اس کو سبق سکھا دیں، اسے پتا چل جائے کہ اس طرح کی حرکت کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ آپ ذرا سوچیں ہماری فیملی کی عزت خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے… پتا نہیں کہاں سے یہ کمی کمینوں کے بچے آرہے ہیں سول سروس میں اور پھر آکر خاندانی لوگوں کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں…” منزہ پچھلے پندرہ منٹ سے بختیار شیردل کے سامنے عکس کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف تھی۔
بختیار کو اس کورٹ نوٹس کا علم ہو گیا تھا کیونکہ کورٹ کی طرف سے ویسا ایک نوٹس ایس اینڈ جی اے کو بھی موصول ہو گیا تھا اور اس کے بعد یہ خبر بختیار تک پہنچنی مشکل نہیں تھی۔ وہ جیسے کیس کی نوعیت سے زیادہ کیس کرنے والے کے بارے میں سن کرہکا بکا ہوئے تھے۔ عکس کی شیردل کے ساتھ دوستی سے وہ واقف تھے اور کسی کو بھی شاک لگتا اگر انہیں ان دونوں کے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ نہ ہوتا۔ کیس کی details شاک کی شدت بڑھانے کے لیے کافی تھیں۔
انہوں نے گھر آکر منزہ سے اس بارے میں بات کی تھی اورمنزہ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا تھا کہ وہ عکس کے خلاف جتنا زہر اگل سکتی تھی اگلتی۔
”شہباز کی reputation ایک ایماندار اور قابل آفیسر کے طور پرتھی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ملازم کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے اتنی بڑی زیادتی کرے اور وہ ملازم اتنے سال چپ رہنے کے بعد اب اس کے لیے کیس کررہا ہے۔” بختیار کے لیے بھی کیس کی مندرجات سے متفق ہونا مشکل تھا۔
”یہ آدمی چور تھا… چوریاں کرتا رہا شہباز کے گھر میں… اور وہ اس پر اتنا ٹرسٹ کرتا تھا۔ جب پکڑا گیا تو شہباز نے اسے نکال دیا اور اس پر ترس کھاتے ہوئے اس کے خلاف کیس نہیں کیا لیکن اس نے شرمین سے مل کر اسے شہباز کے خلاف بھڑکایا۔شہباز پر بہت گھناؤنا الزام لگایا… شرمین نے اسی آدمی کی باتوں میں آکر شہباز کو چھوڑا تھا… میرے تو یہ سامنے آجائے تو میں اسے شوٹ کردوں ۔” منزہ بالکل آگ بگولا تھی۔معاملے کو وہ جتنا لپیٹنے اور hushed up رکھنے کی کوشش کررہی تھی وہ اتنا ہی پھیلتا جارہا تھا۔
”کیا الزام لگایا تھا اس نے شہباز پر؟” بختیار نے یک دم اس سے پوچھا۔
منزہ چند لمحوں کے لیے کچھ بھی بول نہیں سکی تھیں۔ انہیں اس وقت اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا انہیں بختیار کے سامنے الزامات کی بات شاید کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ یہ نہیں تھا کہ انہیں یہ خدشہ تھا کہ خیردین کے لگائے ہوئے الزام کی نوعیت جان کر بختیار کو شہباز پر کوئی شبہ ہونے لگتا لیکن اس کے باوجود وہ بختیار کے سامنے وہ الزام دہرانا نہیں چاہتی تھیں۔
شرمین اور شہباز کے درمیان طلاق والے معاملے کو بھی انہوں نے جس حدتک ممکن تھا بختیار سے چھپائے رکھنے کی کوشش کی تھی۔ بختیار نے معاملہ بہت بار بگڑنے پر چند ایک بار اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن منزہ نے انہیں اس معاملے کے درمیان آنے نہیں دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں شرمین کے الزامات کی بازگشت بختیار تک پہنچے۔ اپنے اکلوتے بھائی کے نام اور عزت کو ہر طرح سے محفوظ رکھنے کے لیے منزہ کسی بھی حد تک جانے پر تیار تھیں۔
”تم نے بتایا نہیں کہ شہباز پر کیا الزام لگایا تھا اس نے؟” بختیار نے انہیں یوں گم صم دیکھ کر جیسے ایک بار پھر اپنے سوال کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ منزہ بے حد کنفیوزڈ تھیں ۔
……٭……
عکس مراد علی کے suspend (معطل) ہونے کی خبر شیردل کو لاہور ائرپورٹ پر پہنچتے ہی مل گئی تھی۔ اس کا اسٹاف وہاں اسے ریسیو کرنے کے لیے موجود تھا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی اس کے پی اے نے اسے مختلف معاملات پر update کرتے ہوئے عکس کی معطلی کی بھی اطلاع دی تھی شیردل کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
suspend ہو گئیں؟ کس لیے…؟ کب؟” شیردل نے بے حد اضطراب کے عالم میں پی اے سے پوچھا۔ ابھی پچھلی رات اس کی عکس سے بات ہوئی تھی اور اس سے بات چیت کے دوران اسے اس کے لہجے تک سے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ کسی کرائسس میں تھی۔
”کل آرڈرز نکلے ہیں اور وجہ کا نہیں پتا۔’ ‘ اس کے پی اے نے اسے جواباً بتایا تھا۔ شیردل بہت اپ سیٹ ہو گیا تھا اس کی چھٹی حس نے اسے جیسے خبردار کیا تھا اور اگر یہ اس کی فیملی کی وجہ سے ہوئی تھی تو اس کا مطلب تھا یہ سارا معاملہ اس کے باپ تک پہنچ چکا تھا چیس بورڈ پر تمام چھوٹے پیادے پٹ چکے تھے۔ اب صرف بڑے مہرے رہ گئے تھے اور بڑے مہرے صرف سیدھی نہیں ٹیڑھی چالیں بھی چل سکتے تھے۔
……٭……




Loading

Read Previous

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Read Next

جواز — امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!