عکس — قسط نمبر ۱۲

” نانا وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ وہ گیدڑ ہیں شیر نہیں۔ صرف اندھیرے میں نکل کر نقصان پہنچاسکتے ہیں اور ہمارا اندھیرا ختم ہوچکا ہے۔” وہ بڑی سنجیدگی سے خیر دین سے کہہ رہی تھی۔”اور آپ کو اگر یہ لگتا ہے کہ زمین لے لینے کے بعد وہ ہم سے میل جول ختم کردیں گے تو نانا میں آپ کو یقین دلاتی ہوں وہ یہ بھی نہیں کریں گے۔ وہ آپ سے پہلے ہی کی طرح ملتے رہیں گے، آپ کو اگر زمین کی وجہ سے اپنوں کے ایک بار پھر سے چھوٹ جانے کا ڈر ہے تو مت ڈریں۔ وہ اب آپ کو چھوڑنا افورڈ نہیں کرسکتے۔” خیر دین ایک بار پھر گنگ رہ گیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ اس کے لاشعور کی تہوں تک پہنچی ہوئی تھی وہ کچھ بھی پڑھ رہی تھی جو وہ اپنے آپ سے بھی چھپا رہا تھا۔ایک طویل خاموشی کے بعد اس نے عکس سے کہا۔
” میں اپنے خاندان والوں پر قانون کی آری نہیں چلاؤں گا۔” میں جانتا ہوں وہ کمزور ہیں۔ ہمارے سامنے اب نہیں ٹھہر سکتے لیکن میں انہیں بھوکا ننگا نہیں کرنا چاہتا۔” وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”لیکن کیوں؟” عکس نے بھی سنجیدگی سے پوچھا۔” آپ اپنی زمین جانتے بوجھتے انہیں دے دینا چاہتے ہیں؟”
” مجھے یقین نہیں ہے کہ مجھے میری زمین مل سکتی ہے۔”
” میں نے آپ سے کہا ہے آپ اس بات کی فکر مت کریں۔ آپ کو آپ کی زمین مل جائے گی اور کسی طویل قانوی لڑائی کے بغیر ملے گی۔” عکس نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔




”زمین مل بھی گئی تو بھی اب اس عمر میں، میں نے اس زمین کا کیا کرنا ہے… نہ میں ہل چلا سکتا ہوں ،نہ وہاں گھر بنا سکتا ہوں۔” خیر دین اس سے آنکھیں ملائے بغیر کہہ رہا تھا۔” اور چڑیااب میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ دکان ہے جس کی قیمت اب ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اپنا ذاتی ڈبل اسٹوری گھر ہے۔ گاڑی ہے، دکان سے ہر ماہ اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ ایک مہینے کی آمدنی سے بھی میرا پورا سال گزر سکتا ہے۔ تمہارے پاس اتنی اچھی نوکری ہے، تم بھی اپنا کماتی اپنا کھاتی ہو… تو ہمیں اس چیز کو کسی دوسرے سے چھیننے کی کیا ضرورت ہے جس سے کسی کے گھر کا چولھا جلتا ہو۔” خیر دین کچھ رنج کے عالم میں کہہ رہا تھا۔” اس زمین کے ٹکڑے سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کبھی اتنی برکت نہیں ہوئی کہ وہ میرے بھائیوں ،ان کی اولادوں اور ان کی اولادوں کی اولادوں کو پیٹ بھر کر کھلا سکے۔وہ آج تک اسی پرانے خستہ حال گھر میں رہ رہے ہیں… زمین کا وہ ٹکڑا ان کے پاس رہنے سے بھی ان کے پاس وہ برکت نہیں آسکتی جو اللہ نے ہمارے رزق میں دی ہے۔” خیر دین بڑی سنجیدگی اور دلسوزی سے کہہ رہا تھا۔ اس کا خیال تھا عکس اسے ٹوکے گی۔ عکس نے اسے نہیں ٹوکا تھا وہ بے حد خاموش اور تحمل سے خیر دین کی بات سنتی رہی تھی۔ جب خیر دین خاموش ہوا تو اس نے اس سے کہا ۔
”آپ بات ختم کرلیں پھر میں بات کروں گی۔”
”زندگی بہت قیمتی شے ہے چڑیا… زندگی کا مقصد انتقام اور بدلہ بنانا اسے کوڑیوں کے بھاؤ بیچنا نہیں ہے۔” عکس بے اختیار خیر دین کی بات پر مسکرادی تھی ۔ خیر دین نے چاندی کے ورق میں لپیٹ کر اسے جو بات کہی تھی وہ اس کا مطلب اور اشارہ بخوبی جانتی تھی۔
اپنی کرسی پر آگے ہو کر اس نے خیر دین کے ہاتھ کو بڑی نرمی سے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔” کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ میں آپ کی تربیت کے بعد اپنی زندگی کو سازشوں اور انتقام لینے میں ضائع کرسکتی ہوں؟ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ میں اپنے دن رات ان چیزوں اور ماضی کے اس baggage کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارتی ہوں؟” خیر دین نے کچھ اچھنبے سے اس کا چہرہ دیکھا پھر کہا۔
”نہیں میں کبھی ڈاکٹر عکس مراد علی سے یہ توقع نہیں کرسکتا۔” وہ ہنس دی تھی۔خیر دین اس کا اس طرح نام شاذو نادر ہی لیتا تھا۔
”نانا انتقام لینے میں اور احسن طریقے سے اپنا حق لینے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ میں چاہتی ہوں آپ کو آپ کا وہ حق مل جائے جو بد دیانتی اور بد نیتی سے چھینا گیا اور میں جانتی ہوں میں آپ کو آپ کا حق دلوا سکتی ہوں۔ آپ گاؤں کے اتنے لوگوں کے سفارشی رقعے اور درخواستیں لے کر میرے پاس آتے ہیں اور مجھے ہر وقت یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا مجھ پر حق ہے اور میرا فرض ہے ان کی خدمت کرنا… مجھ پر آپ کا بھی تو حق ہے۔” خیر دین اس کی بات سنتے ہوئے مسکرارہا تھا۔
” رحم کرنا بہت اچھی بات ہے… نیکی کرنا، سخاوت کرنا، رشتے داروں کا خیال رکھنا سب اچھا ہے لیکن جس طریقے سے آپ یہ کام کرنا چاہتے ہیں وہ اچھا نہیں ہے۔” وہ اب بہت سنجیدہ ہوگئی تھی۔ ”آپ اس گاؤں میں ایک بہت غلط اور خطرناک مثال قائم کر کے چھوڑ نا چاہتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ اس گاؤں میں خاندان والے جس کو کمزور اور نہتا پائیں اس کا حصہ چھین کر کھاجائیں کیونکہ وہ غریب ہیں اور آپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس ناانصافی کی کبھی تلافی نہ کی جائے… آپ غریب کو برائی کا لائسنس دینا چاہتے ہیں سخاوت اور رحم کا نام دے کر… اور آپ بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔” وہ بے حد سنجیدگی سے کہتی جارہی تھی خیر دین خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
”میں سمجھتی ہوں ہمیں وہ زمین ضرور واپس لینی چاہیے، اس گاؤں کے لوگوں کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہوگا۔ آپ اپنے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کو بھوکا ننگا نہیں دیکھ سکتے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں۔ زمین لینے کے بعد ان کی مالی مدد کردیں کہ وہ کہیں اور زمین لے لیں یا ماہانہ کچھ رقم انہیں دے دیا کریں۔ ان کی مدد کریں لیکن ان کے ظلم اور زیادتی پر نیکی کی چادر نہ ڈالیں… ہم خدا نہیں ہیں اور ہم انسانوں کے رازق بھی نہیں ہیں۔ ہم ان سے صرف وہ چیز لے رہے ہیں جو ہماری ہے… انسانوں کو برائیاں کرتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کا بھی ایک اجر ہوتا ہے۔ اس کی بھی فصل کاٹنی پڑتی ہے۔ میں نہیں سمجھتی اس زمین کو واپس نہ لینا ایک اچھا فیصلہ ہے… لیکن وہ آپ کی زمین ہے اور آپ جو فیصلہ کریں گے بہتر ہوگا۔” خیر دین کے پاس لمبی خاموشی کے سوا بہت دیر تک کچھ نہیں بچا تھا۔عکس بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی لیکن ایک مشکل کام کرنے کو کہہ رہی تھی ۔وہ بہت دیر ایسے ہی چپ بیٹھا رہا تھا۔ پتا نہیں یہ بڑھاپا تھا جو اس کے حواس کو کمزور کررہا تھا یا پھر عکس کی دلیل… وہ خیر دین کو الجھانا جانتی تھی اور اس نے خیر دین کو الجھا دیا تھا۔ اس نے بالآخر ایک بار پھر عکس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہ اس کی انگلی پکڑ کر چلتی تھی، خیر دین اسے رستہ دکھا یا کرتا تھا اور اب خیر دین اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی رہنمائی میں چلنے لگا تھا۔
وہ دو دن کے بعد عکس کے ساتھ گاؤں گیا تھا اور وہاں جاتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہاں ساری تیاری پہلے ہی پوری تھی۔ عکس کا ایک بیچ میٹ اس ضلع میںڈپٹی کمشنر کے طور پر فائز تھا اور وہ بہت سے احکامات پہلے ہی دے چکا تھا ۔وہ دونوں اس بار وہاں کے ایک ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے۔
ان کے وہاں پہنچنے کے چند گھنٹوں میں ہی علاقے کا پٹواری اپنے بیع کھاتوں سمیت وہیں ریسٹ ہاؤس میں آگیا تھا۔ اس کے کھاتوں میں خیر دین کی زمین کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ عکس کے اسٹاف کا ایک شخص پہلے ہی اس شخص کو بھی وہاں لاچکا تھا جس سے خیر دین نے وہ زمین خریدی تھی اور وہ گواہ بھی وہیں موجود تھے جنہوں نے خیر دین کی ملکیتی زمین کے کاغذات پر دستخط کیے تھے۔
چند گھنٹوں کے اندر خیر دین کی زمین واپس اس کے نام منتقل ہوچکی تھی… کوئی کاغذی ثبوت اپنے پاس نہ ہونے کے باوجود… خیر دین ہکا بکا تھا۔ وہ ان کاغذات پر انگوٹھا لگاتے ہوئے بھی ایسے ہی بوکھلایا تھا۔
”یہ جعلسازی تو نہیں ہورہی۔” وہ بار بار عکس کے کانوں میں سرگوشی کرتا۔”اصلی کام ہے؟”
”جی نانا…بالکل اصلی۔” وہ ہر بار مسکرا کر اسے جواب دیتی۔
چند گھنٹوں بعد پٹواری اور تمام متعلقہ لوگوں کے جانے کے بعد بھی خیر دین عجیب اچھنبے کے عالم میں زمین کے وہ کاغذات دیکھتا رہا جو اسے خواب لگ رہے تھے۔ پتا نہیں اس نے ان کاغذات کو کتنی بار کھول کر پڑھا تھا۔ پھر اس نے عکس سے بڑی معصومیت سے کہا۔
”اب کل میں اس زمین پر جاؤں گا؟”
”نہیں نانا… کل ہمیں کہیں اور جانا ہے ۔” عکس نے جواباً کہا۔
اور اگلی صبح وہ عکس کے سا تھ جہاں گیا تھا اس جگہ نے بھی اس کے بہت سارے زخم ہرے کردیے تھے۔
وہ اپنی سرکاری گاڑی میں پولیس اسیکورٹی کے ساتھ اسی پولیس اسٹیشن میں گئی تھی جہاں کئی سال پہلے خیر دین ایک صبح حوالات کے پیچھے اٹھوا کر پھنکوایا گیا تھا۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے اپنے عملے کے ساتھ تھانے کے گیٹ پر ان کا استقبال کیا تھا۔ انہیں بڑی عزت و احترام سے لا کر ایس ایچ او کے آفس میں بٹھایا گیا تھا۔ ایس ایچ او مصر تھا کہ وہ اس کی کرسی پر تشریف رکھیں اور یہ پیش کش عکس نے شکریے کے ساتھ رد کردی تھی۔ ایس ایچ او نے تھوڑی دیر بعد خیر دین کے تقریباً تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو ہتھکڑیوں کے ساتھ پولیس اسٹیشن میں پیش کیا تھا۔ وہ خیر دین کی زمین پر ناجائز قبضے کے الزام میں دھرے گئے تھے۔ عکس مراد علی کی ایک دن پہلے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے تحت جس کے بارے میں خیر دین کو علم نہیں تھا ورنہ وہ کبھی عکس کو ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے دیتا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ زمین کاغذات پر کسی کے نام ہوجانے سے اس کی ملکیت نہیں ہوتی۔زمین اس کی ملکیت ہوتی ہے جس کے قبضے میں ہوتی ہے۔ عکس اس سسٹم کی موشگافیوں کو اپنے بوڑھے نانا سے زیادہ بہتر طریقے سے جانتی تھی لیکن خیر دین اپنے رشتے داروں کو وہاں پولیس اسٹیشن میں دیکھ کر شاکڈ تھا۔ ایس ایچ او اب ان لوگوں سے اسی طرح مخاطب تھا جس طرح کئی سال پہلے اس تھانے میں وہ پرانے ایس ایچ او نے خیر دین اور عکس سے بات کی تھی۔ ایس ایچ او نے خیر دین کے دو بھائیوں اور دو بھتیجوں کو یہ کہا تھا کہ وہ حوالات میں موجود اپنے تمام رشتے داروں سے مشورہ کرنے کے بعد یہ طے کرلیں کہ انہیں جعلسازی اور فراڈ کے مقدمات بھگتانے ہیں یا عزت سے زمین سے دستبردار ہو کر صلح صفائی کرنی ہے۔ وہاں موجود پٹواری نے اپنے کھاتوں میں سے زمین کے اصلی کاغذات ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کے پاس موجود رجسٹری کو جعلسازی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ انہوں نے ایک بھاری رقم دے کر زمین خیر دین سے خرید لی تھی۔ ایس ایچ او نے ان کے کاغذات پر موجود خیر دین کے انگوٹھے کے نشانات کو جعلی قرار دیا تھا کیونکہ وہ جعلی ہی تھے۔
پٹواری کے پا س زمین کے اس انتقال کا جو ریکارڈ تھا وہ بھی جعلی تھا کیونکہ خیر دین کے بھائیوں میں سے ایک خیر دین بن کر پٹواری کے پاس پیش ہو کر رشوت کے کچھ پیسوں کے عوض اس کی زبان بندی اور کاغذات میں مطلوبہ تبدیلی کروا آیا تھا لیکن اس تمام چکر بازی میں اس قدر جھول تھے کہ عکس جانتی تھی وہ اگر مقدمہ لڑتی تو وہ بھی چند پیشیوں میں جیت جاتی لیکن وہ مقدمے بازی میں نہ اپنے آپ کو الجھانا چاہتی تھی نہ خیر دین کو… وہ وہی کام کرنا چاہتی تھی جس کا نشانہ وہ اور خیر دین کئی سال پہلے بنے تھے۔
خیر دین کے ان دو بھائیوں اور بھتیجوں نے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی بات چیت کے بعد بھی یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ مقدمہ لڑیں گے، اس طرح آسانی سے اس زمین کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیں گے جس پر ان کی بقا کا دارو مدار تھا۔ عکس کو ان سے یہی توقع تھی ۔ وہ گاؤں دیہات کے ان پڑھ لوگ تھے جن کے لیے عزت کا ہر سرا زمین سے شروع ہو کر زمین پر ہی ختم ہوتا ہے۔ مقدمے ،جھگڑے، مار کٹائی ان کے لیے نئی بات نہیں تھی، نہ ہی تھا نہ کچہری کوئی نئی چیز…عکس کے پاس پلان بی پہلے ہی تیار تھا ۔وہ اگر خیر دین کی زمین سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے اور بات کو وہ کورٹ کچہری تک لے کر جانا چاہتے تھے تو پھر کورٹ کچہری میں فیصلہ صرف اس زمین کا نہیں ہوگا جو خیر دین کی ملکیت تھی بلکہ خیر دین خاندانی گھر اور اپنے باپ کی ملکیت زمین میں سے بھی اپنے حصے کے لیے مطالبہ کرے گا۔ خیر دین کے بھائیوں کے لیے یہ ایک بڑی پریشانی کی خبر تھی کیونکہ خیر دین نے ا س سے پہلے کبھی بھی اپنے خاندانی گھر یا خاندانی زمین میں سے اپنے حصے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔ قانونی طور پر وہ ابھی بھی اس جائداد میں حصے دار تھا اور یہ صرف ہمیشہ سے اپنے بھائیوں کے لیے احساس ترحم تھا جس نے خیر دین کو اپنے حصے پر دعویٰ سے روکے رکھا تھا۔ اس کے پاس اچھی سرکاری نوکری تھی اوروہ وہاں سے جو کھا کما رہا تھا وہ اس سے بہت زیادہ اور بہتر تھا جتنا اس کے بھائی گاؤں میں اپنی خاندانی زمین پر کاشت کاری کرکے کمارہے تھے۔ خاندانی گھر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اس لمبے چوڑے احاطے میں بے ترتیبی سے بنائے گئے کچے پکے کمروں میں بہ مشکل اس کا خاندان سمایا ہوا تھا۔ وہ ان سے حصے کا مطالبہ کرتا تو یہ جیسے کسی کے جسم پر موجود کپڑوں میں سے کوئی کپڑا مانگنا تھا۔ اور خیر دین اپنے خونی رشتوں کو ننگا نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ کبھی کبھار گاؤں آنے پر اسے چند دن کے لیے اس گھر میں خوش دلی سے رکھ لیا جاتا تھا اور یہ خوش دلی اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ اس زمانے میں خیر دین کئی بار اپنے بھائیوں کو زبانی طور پر یقین دہانی کرواچکا تھا کہ اسے اپنے باپ کی جائداد میں سے اپنا حصہ نہیں چاہیے وہ اس سے دستبردار ہوجائے گا لیکن اب اچانک عکس کے منہ سے اس زمین اورگھر کا سن کر ان لوگوں کو جیسے غش پڑگیا تھا۔ نہ صرف ان لوگوں کو بلکہ خیر دین بھی بے حد بھونچکا ہوکر عکس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا۔
وہ ان کے سامنے ایک اور جال بچھا کر خیر دین کو ساتھ لیے وہاں سے اٹھ کر واپس ریسٹ ہاؤس آگئی تھی ۔ریسٹ ہاؤس پہنچتے ہی خیر دین نے عکس سے وہی کہا جس کی وہ توقع کررہی تھی۔
”کیا ضرورت تھی اس سب کی؟ میں نے منع بھی کیا تھا تمہیں۔” خیر دین اب بہت خفا تھا۔”اتنا پڑھا لکھا کر اب میں تمہیں تھانے کچہریوں کے دھکے کھلواؤں گا۔”
”نانا تھانے کچہری میں آتی جاتی رہتی ہوں میری جاب کا حصہ ہے یہ بھی۔” عکس نے اطمینان سے اسے کہا۔ وہ جانتی تھی خیر دین کو پریشان کرنے والی یہ بات نہیں تھی وہ اگر پریشان ہورہا تھا تو اپنے بھائیوں اوربھتیجوں کو حوالات میں اس حال میں دیکھ کر ہورہا تھا۔
”اتنی عزت کرتے تھے گاؤں میں خاندان میں سب تمہاری اور تم نے بیٹھے بٹھائے سب کچھ ڈبو دیا۔” وہ بے حد بے چین تھا۔
”نانا مجھے اس تختی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو انہوں نے اپنے گھر کے دروازے پر گاؤں میں شو آف کے لیے لگائی ہے۔ میں ایک تختی کی خاطر کسی کو اپنا تختہ کرنے نہیں دوں گی اور آپ بھی اس خوش فہمی سے باہر آجائیں کہ وہ ہماری بہت عزت کرنے لگے ہیں۔ وہ ہم سے مرعوب ہیں اور ہماری عزت کرنے پر مجبور ہیں ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے کیا؟”عکس اب خیر دین کے ساتھ بہت صاف گوئی کا مظاہرہ کررہی تھی اس صا ف گوئی کا جو اس کے پروفیشنل کیرئیر کا حصہ تھا۔
”ہمارے ساتھ ملنا اچھے تعلقات رکھنا ان کی ضرورت اور مجبوری ہے ہماری نہیں…ہم نہ اب یہاں رہتے ہیں نہ کل رہیں گے… نہ ہی ہمارا یہاں کوئی میل جول ہے… نہ ہم ان پر کسی بھی اعتبار سے ڈیپنڈنٹ … یہ سارے مسائل اور مجبوریاں ان کی ہیں تو پھر ہم ان کو اپنا استعمال کیوں کرنے دیں۔ وہ اگر دل سے ہماری عزت کرتے تو اس زمین کو خود ہی معذرت کرکے آپ کو واپس کردیتے… لیکن وہ معذرت نہیں کریں گے ، شرمندہ نہیں ہوں گے، زمین واپس نہیں کریں گے لیکن بڑی ڈھٹائی اور دھڑلے سے میرا نام استعمال کرنے کے لیے اپنے گھر کے دروازے پر لگالیں گے اور آپ کے پاس شہر میں سیر وتفریح کرنے کے لیے آتے رہیں گے، آپ کو چھوٹے بڑے کاموں کے لیے سفارشیں اور در خواستیں بھی دیتے رہیں گے۔نہیں اچھائی کرنی چاہیے لیکن دوسروں کے ہاتھوں exploitنہیں ہونا چاہیے۔” وہ بہت دو ٹوک انداز میں کہہ رہی تھی۔ خیر دین کے پاس اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا… وہ جواب دینا بھی چاہتا تو بھی نہیں دے سکتاتھا… جواب ڈھونڈنا بھی چاہتا تو نہیں ڈھونڈھ سکتا تھا… چڑیا اسے جو دکھا رہی تھی وہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا… خونی رشتوں کے لالچ ،خود غرضی اور سفاکی سے وہ جان بوجھ کر آنکھیں موندھ لینا چاہتا تھا لیکن یہ کام چڑیانہیں کرنے دے رہی تھی۔ وہ تختی جس پر خیر دین ناراض تھا وہ چڑیا کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتی… سوائے exploitation کے ایک حربے کے ۔
خیر دین کو جنریشن گیپ کے لفظ کا مطلب اب سمجھ میں آیا تھا۔ چڑیا بہت سی باتوں پر وہ نہیں سوچتی جو وہ سوچتا تھا یہ وہ ہمیشہ سے جانتا تھا لیکن چڑیا اس کے بہت سے فیصلوں کو غلط اور احمقانہ سمجھتی تھی یہ وہ پہلی بار جان رہا تھا… تکلیف دہ تھا یہ احساس… ساری عمر عقل کی گنی دینے والے کو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اس کے علم میں نقص ہے تو اس پر جو گزرے گی وہ خیر دین پر بھی گزررہی تھی۔ چڑیا نافرمانی نہیں کررہی تھی نہ ہی کوئی زبردستی کرتے ہوئے اس پر اپنا فیصلہ مسلط کررہی تھی لیکن وہ خیر دین کو خوش فہمیوں کے خوش نما باغ میں بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ اسے بڑی تمیز اور تہذیب سے وہ حقائق بتا اور دکھارہی تھی جو خیر دین نہیں دیکھنا چاہتاتھا۔
”میں اس عمر میں کوئی دشمنی نہیں چاہتا۔” خیر دین نے بالا خر لمبی خاموشی کے بعد بے حد کمزور لہجے میں ایک بہت ہی بودی تاویل پیش کی۔
”نانا دوستوں کے بھیس میں دشمنوں کو پالنے سے کھلے دشمن بہترہوتے ہیں۔” خیر دین اس کی بات پر ہنس دیا تھا۔ وہ بالکل اسی کی طرح نصیحتیں کرنے لگی تھی اسے… اور اس کی نصیحتیں اس کے دل پر بھی لگتی تھیں۔
”مجھے اچھا نہیں لگا اپنے بھائیوں اور ان کے بیٹوں کو اس طرح ہتھکڑیوں میں حوالات میں دیکھ کر… جو بھی ہے وہ اپنا خاندان ہے اپنے خاندان کو انسان ذلیل نہیں کرسکتا۔” خیر دین نے بالآخر چڑیا کے سامنے اپنا dilemma رکھ دیا۔
”میں جانتی ہوں نانا اور مجھے بھی یہ بات اچھی نہیں لگی لیکن اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا ۔وہ سب حوالات میں ضرور ہیں لیکن آپ اطمینان رکھیں ان پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوگا… اس طرح کا ذہنی اور جسمانی تشدد جو انہوں نے آپ پر کروایا تھا اور نہ ہی ان کے خاندان کی کسی عورت کو تھانے میں بلوایا گیا ہے جیسے مجھے بلوایاگیا تھا۔” وہ تلخ ہونا نہیں چاہتی تھی کیونکہ تلخی انسان کو جذباتی کر کے منتقم ا لمزاج بناتی ہے، بہت سے غلط فیصلے کرواتی ہے، بہت سی زیادتیاں بھی کروادیتی ہے لیکن خیر دین کو قائل کرنے کے لیے دی جانے والی ہر مثال اس کے دل کو عجیب سے رنج سے بھررہی تھی اور خیر دین چڑیا کی مثالوں میں چھپی تلخی اور تکلیف سے واقف تھا۔
”میں صرف ایک چیز چاہتی ہوں نانا اور وہ یہ کہ کم از کم اس گاؤں میں دوبارہ کبھی کوئی کسی کو بے بس دیکھ کر اس کے ساتھ وہ نہ کرے جو ہمارے ساتھ کیا گیا اور میں آپ کو ایک بات بتاؤں… اس زمین کو واپس لینے کے بعد آپ کا خاندان اور یہ گاؤں آپ کی زیادہ عزت کرے گا کیونکہ آپ نے اپنا حق قانونی طریقے سے لیا اسے بے بس اور مجبور ہو کر چھوڑ نہیں دیا۔” خیر دین نے ایک بار پھر چڑیا کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔ اس کی دلیلیں اب اسے تواتر سے لاجواب کرنے لگی تھیں۔
رات تک ایس ایچ او دوسری پارٹی کی طرف سے راضی نامہ لے کر آگیا تھا۔ اس کے خاندان پر مزید کیا دباؤ ڈالا گیا تھا خیر دین نہیں جانتا تھا نہ عکس نے اسے بتایا تھا لیکن اگلے دن اس زمین سے اس کے خاندان کا قبضہ ختم ہوگیا تھا۔ پولیس کی نگرانی میں اس زمین کی حد بندی کر وا کر اسے اسی علاقے کے ایک دوسرے زمیندار کو ٹھیکے پر دے دیا گیا تھا۔ اور یہ سب پورے گاؤں والوں کی نظر وں اور چہ میگوئیوں کے درمیان دن دہاڑے کیا گیا تھا۔خیر دین بڑے سالوں بعد اس زمین پر کھڑا ہوا اس کی حد بندی دیکھتا رہا تھا… اسے فخر ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوا تھا… اس کے دل پر ایک عجیب سا بوجھ پڑ گیا تھا۔ وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس زمین کے اس طرح اچانک ہاتھ سے نکل جانے پر اس کے خاندان کے کیا تاثرات اور احساسات ہوں گے…کبھی وہ ایسی ہی کیفیات سے گزر ا تھا… اس کی اذیت ان سے اس لیے زیادہ تھی کیونکہ وہ اپنی چیز سے ناحق بے دخل کیا گیا تھا… لیکن تکلیف اس کے بھائیوں کو بھی بہت زیادہ ہوئی تھی یوں جیسے میلا دیکھنے بھری جیب کے ساتھ کوئی جائے اور میلا دیکھنے سے پہلے ہی جیب کٹ جائے۔
راضی نامہ ایس ایچ او کے پولیس اسٹیشن پر اس کی نگرانی کے بجائے متعلقہ ڈی پی او آفس میں ڈی پی او کی نگرانی میں سائن ہوا تھا اور اس کے بعد خیر دین کے خاندان والوں کو بالا خر رہائی مل گئی تھی۔ عکس بھی خیر دین کو لیے اسی دن وہاں سے واپس لوٹ آئی تھی۔




Loading

Read Previous

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Read Next

جواز — امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!