عکس — قسط نمبر ۱۲

” انکل شہباز مرچکے ہیں…تمہیں اندازہ نہیں ہے انہوں نے کتناsuffer کیا ہے… تم انہیں معاف کیوں نہیں کررہیں۔” وہ عجیب اکھڑے انداز میں بولا تھا۔ وہ انکل شہباز کی وکالت نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسے احساس ہوا وہ وکالت ہی کرتا لگا تھا۔ عکس کوبھی ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔
”شیر دل میں نے تم سے شادی کیوں نہیں کی تم جانتے ہو؟” اس نے عجیب رنجیدگی سے اس سے کہا۔ وہ یہ نہ بھی کہتی تو بھی شیر دل کو اس سوال کا جواب اسی دن مل گیا تھا جس دن خیر دین کی بر طرفی کے خلاف اور اس کی پنشن اور دوسرے واجبات کے لیے فائل کیے گئے کیس میں اس نے عکس مراد علی کا نام دیکھا تھا۔
”ہاں جانتا ہوں۔” شیر دل نے اس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
” شہباز حسین وجہ نہیں ہے اس کی۔”عکس جیسے اس کا ذہن پڑھ رہی تھی۔” یہ کلاس ڈفرنس وجہ ہے اس کی جو باربار تمہاری باتوں میں جھلکتا رہا ہے۔” شیر دل نے چونک کر اسے دیکھا۔”تمہارے لیے تمہاری تکلیف بڑی ہے دوسروں کی چھوٹی۔” شیر دل نے اسے بات کرتے کرتے ٹوک دیا۔
”میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔”
”ہاں تم نے کبھی نہیں کہا لیکن تم نے ہمیشہ جتایا… کبھی شعوری طور پر کبھی لاشعوری طور پر… جیسے ابھی تم سمجھتے ہو تمہارے انکل نے بہت suffer کیا ہے… خیر دین نے نہیں جس کوصفائی کا موقع دیے بغیر چوری کے الزام میں ملازمت سے بر خاست کردیا گیا۔ پنشن اور ہر طرح کے واجبات سے محروم کردیا گیا… اس نے کوئی تکلیف نہیں کاٹی ہوگی۔” وہ بے حد خفگی سے بول رہی تھی۔
”تم نے…” شیر دل نے کچھ کہنا چاہا ۔عکس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”نہیں شیر دل ،تم پہلے میری بات سنو، تم مجھ پر یہ جتانا چاہتے ہو کہ خیر دین کی تکلیف شہباز حسین کی تکلیف سے اس لیے کم ہے کیونکہ شہباز حسین کا گھر ٹوٹ گیا۔ بیوی بچی چھوڑ کر چلی گئیں اور وہ مرگیا تو اس لیے اس نے خیر دین سے زیادہ suffer کیا۔”
”نہیں، میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انکل شہباز نے جو غلط کام کیا انہیں اس کی سزا مل گئی اور اس سے بہت زیادہ ملی جتنی کورٹ انہیں دے سکتی تھی۔ انہوں نے اپنے ہر اس رشتے کو کھودیا جس سے وہ پیار کرتے تھے… آنٹی شرمین ،شہر بانو…میں …ممی… تمہیں اندازہ نہیں ہے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال کس طرح گزارے تھے … اور تم جانتی ہو انہوں نے خود کشی کی تھی۔” وہ بول رہا تھا وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”مجھے کوئی افسوس نہیں ہوا۔” شیر دل کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا ۔
”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتا ہوں اس لیے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی تمہاری اس بات سے۔” شیر دل نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”شیر دل تم کبھی میری فیلنگز نہیں سمجھ سکتے… اگر سمجھ سکتے تو شہباز حسین کے دفاع میں اتنا لمبا… argument نہ کرتے۔” عکس نے خفگی سے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔’’لیکن میں تمہیں blame نہیں کروں گی… وہ تمہارے انکل ہیں ،تم انہی کی سائڈ لوگے… اور ٹھیک بھی ہے۔ تمہیں ان کو defend کرنابھی چاہیے۔” عکس کا لہجہ مدھم ہوگیا تھا۔




”تم سمجھتی ہو میں اگر تمہارے ساتھ نہیں ہوں تو تمہارے خلاف ہوں۔” شیر دل نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔”میں تمہیں بھی نقصان سے بچانا چاہتا ہوں۔”
” کیسا نقصان؟” عکس نے بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
”تم سمجھتی ہو میری فیملی اتنی آسانی سے تمہیں یہ کیس جیتنے دے گی اور تمہیں واقعی لگتا ہے ہے تم یہ کیس جیت جاؤگی؟” وہ اب بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
”تمہیں لگتا ہے شیر دل میں نے سوچے سمجھے بغیر اس کنویں میں چھلانگ لگادی ہے… میں نے کوئیcalculations نہیں کی؟” عکس نے جواباً اس سے پوچھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
”نہیں ،میں کم از کم یہ تو نہیں سمجھتا کہ تم نے کوئیcalculations نہیں کی ہوں گی۔ تم چیس پلیئرہو ہر چال بہت سوچ کر چلتی ہو۔” اس کا لہجہ بات کرتے کرتے عجیب ہوگیا تھا۔ عکس نے اس سے نظر نہیں ملائی۔
”چیس کھیلنا چھوڑ چکی ہوں میں… زندگی چیس سے بڑھ کر ملی ہے۔” اس نے دور فوارے کو ایک بار پھر دیکھنا شروع کردیا تھا۔ اس نے شیر دل سے یہ نہیں پوچھا تھا اسے یہ کیسے یاد تھا کہ وہ چیس کھیلتی تھی… اسے اندازہ ہوگیاتھا صرف وہ نہیں تھی جسے چیزیں یاد رکھنی آتی تھیں…کبھی کبھار کوئی اور بھی ایسا ہی نہ بھولنے والا مل جاتا ہے۔
”وہ تمہارا ٹرانسفر کردیں گے اس کے بعد تم کیا کروگی؟” فوارے کے پانی کو روشنیوں میں اچھلتے دیکھتے ہوئے اسے شیر دل کی آواز آئی۔ اس نے گردن موڑ کر شیر دل کو دیکھا۔
”وہ…؟یعنی تمہاری فیملی؟” عکس نے بڑی سنجیدگی سے شیر دل سے پوچھا۔ وہ اس کی فیملی کے اثر ورسوخ سے واقف تھی۔
”پھر کیا کروگی تم؟” شیر دل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اگلا سوال کیا ۔” تم نے ڈسٹرکٹ ایڈ منسٹریشن کو ذمے دار ٹھہرا یا ہے یہ سو چ کر کہ تم وہاں بیٹھی ہو اور تم اس کیس میں شہباز حسین کے الزامات کو غلط ثابت کر کے خیر دین کو بے قصور قرار دوگی اور اس کے حق میں ثبوت اکٹھے کرکے پیش کردو گی، تمہیں یہ اس لیے آسان لگتا ہے کیونکہ ابھی تم پوسٹڈ ہو۔ اتنے پرانے کیس کا کوئی عینی شاہد نہیں ملے گا… وہ لوگ جنہوں نے انکل شہباز کے ماتحت عملے کے طور پر تمہارے نانا کے خلاف بیانات ریکارڈ کروائے تھے اب اتنے سالوں بعد انہیں بڑی آسانی سے غلط ثابت کردوگی… یہ سب اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے… تم ٹرانسفر کے بعد وہاں اپنا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکتیں… تمہیں فرض کرو او ایس ڈی بنادیتے ہیں تو کیا کروگی تم پھر…؟” شیر دل اسے بڑی سنجیدگی سے مضمرات سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
”میں اگر یہاں پوسٹڈ نہ بھی ہوتی تو بھی میں کم از کم زندگی میں ایک بار اپنے نانا کو چوری کے اس کیس سے باعزت بری کروا کرملازمت سے یکطرفہ اور ناجائز بر طرفی کا فیصلہ غلط قرار دلوانے کی کوشش ضرور کرتی… ان کی پنشن اور واجبات بحال کروانے کی کوشش بھی ضرور کرتی۔” اس نے جواباً بے حد مستحکم آواز میں شیر دل سے کہا تھا۔
”میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں وہاں پوسٹ ہوں گی لیکن میں نے ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ میں اپنے نانا کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا ازالہ ضرور کروں گی۔ وہ سرکاری ملازمت میرے نانا کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔ انہوں نے بڑی جدو جہد کر کے حاصل کی تھی۔ ان کے سر کا تاج تھا وہ زندگی بھر کا اثاثہ… اوروہ یہ deserve نہیں کرتے تھے کہ ایک رات… ” وہ بات کرتے کرتے رک گئی تھی ۔شیر دل کو لگا وہ اپنی بھرائی ہوئی آواز پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔ شیر دل کے دل پر ایک عجیب سا بوجھ آکے گرا تھا۔
”میرے نانا بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میں ان کے ماتھے پر لگی ہوئی یہ واحد تہمت ہٹادوں… جس کا باعث میں تھی ۔میرے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ میں یہ کیس جیتتی ہوں یا نہیں… اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں… میرے لیے اہم بات صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ میں نے اس کام کے لیے کوشش تو کی… میں کم از کم یہ پچھتاوا نہیںرکھنا چاہتی کہ میں نے کوشش بھی نہیں کی اپنے نانا کے لیے کچھ کرنے کی… میں تمہیں بالکل نہیں روکتی تم اپنے انکل کو defend کرو… اپنے خاندان کی سپورٹ کرو… تمہیں بالکل ایسا ہی کرنا چاہیے ۔میںصرف یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھے بھی ایسا ہی کرنے دو… تم میرے دوست ہو… اس مسئلے کی وجہ سے دوست نہیں رہنا چاہتے تو بھی ٹھیک ہے۔وہ مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔ شیر دل وہیں بیٹھا شام کے اندھیرے میں اسے دور جاتے دیکھتا رہا۔ اس کے پاس عکس مراد علی سے کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے پھر بھی کوشش کی تھی… ایک واحد اور آخری کوشش۔
وہ بینچ پر بیٹھا تب تک عکس کو دیکھتا رہا جب تک وہ نظر آتی رہی…
”تم جانتے ہو شیر دل میں نے تم سے شادی کیوں نہیں کی…؟ شہبازحسین وجہ نہیں ہے اس کی… وہ کلاس ڈفرنس وجہ ہے جو بار بار تمہاری باتوں میں جھلکتا ہے… تمہارے لیے تمہاری تکلیف بڑی ہے دوسروں کی چھوٹی… ہاں تم نے کبھی زبان سے نہیں کہا لیکن ہمیشہ جتایا… کبھی شعوری طور پر …کبھی لاشعوری طور پر…” وہ باتیں نہیں کر کے گئی تھی اس کی انا کے غبارے میں کیل گاڑ کر گئی تھی۔ ایبک شیر دل کو کبھی اندازہ نہیں ہوا ۔پیار کی وہ پرتیں جو وہ اپنے وجود کے گرد چڑھائے ہوئے تھا اسے اتار کر رکھ گئی تھی ۔طبقاتی فرق اس کے انداز اور لب و لہجے میں اتنا نمایاں تھا کہ دوسروں کو چبھتا تھا یا کم از کم اس عورت کو ضرور چبھتا تھا جس سے اس نے واقعی محبت کی تھی… اور پتا نہیں وہاں بیٹھے بیٹھے اسے پہلی بار کیوں یہ یقین ہوا تھا کہ وہ بھی بالکل اسی کی طرح اس کی محبت میں پاگل تھی۔ اس پر مرتی تھی اس کے لیے جان دے سکتی تھی… وہ جس چیز کو صرف اپنا پاگل پن سمجھتا رہا تھا وہ یک طرفہ نہیں تھی… لیکن عکس مراد علی اس کی طرح عقل سے پیدل نہیں ہوئی تھی۔ وہ بہت کچھ چھپا سکتی تھی ایسی صفائی اور مہارت کے ساتھ کہ کوئی دوسرا کچھ پوچھ نہیں سکتا تھا۔
”وہاں بیٹھے اسے یادآیا تھا جب چڑیا فریز بی کی ڈسک شدید تکلیف کے باوجود بار بار پکڑنے کی کوشش کرتی رہی تھی اور اس نے اپنے ہاتھ نیلے کرلیے تھے۔ ایبک اس پر شدید خفا ہوا تھا وہ اسے اس نو سالہ بچی کی بے وقوفی سمجھ رہا تھا… وہ قوت برداشت تھی… وہی قوتِ برداشت جو اس نے گھوڑے سے گرنے کے بعد چند منٹوں میں دوبارہ اسی گھوڑے پر بیٹھ کر دکھائی تھی…وہ درد تھا اوردرد سہہ جاتا ہے انسان… لیکن محبت پر بند کیسے باندھے تھے اس نے… یہ ایبک شیر دل کو اس سے سیکھنا تھا۔
……٭……
”سر ہم بھی یہاں سیکھنے کے لیے آئے ہیں مکھیاں مارنے تو نہیں آئے یا پھر آپ ہمیں اجازت دیں ہم باہر گلی ڈنڈاکھیل لیتے ہیں آپ تب تک میڈم کو پسٹل شوٹنگ کی پریکٹس کراتے رہیں ہوسکتا ہے آپ کی یہ محنت رنگ لائے اور میڈم اگلے اولمپکس میں پسٹل شوٹنگ میں گولڈ میڈل لے کر آپ کا اور پاکستان کا نام روشن کر کے آئیں۔” عکس کو ہنسی آئی تھی شیر دل کی جھلاہٹ پر لیکن اس نے سر جھکا کر ہاتھ میں پکڑے پسٹل کا بلٹ چیمبر کھولتے ہوئے اپنی ہنسی چھپائی۔ اسے بہت دیر سے وقتاًفوقتاً شیر دل کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہورہا تھا کہ شیر دل اب کسی بھی وقت پھٹنے والا تھا۔ وہ اس کی شکل اور تاثرات دیکھ کر بھی اس کی جھلاہٹ اور بے زاری کو پہچان سکتی تھی۔
وہ لوگ ایلیٹ فورس کے ٹریننگ اسکول میں نشانے بازی کی تربیت کے لیے آئے تھے۔ وہ پہلا ڈی ایم جی گروپ تھا جن کی تربیت کا ایک حصہ نشانے بازی میں مہارت بھی تھا۔ تین روزہ اس ترتیب کے پہلے ہی دن شیر دل کا موڈ اس وقت بری طرح آف ہوا تھا جب اس نے اپنے گروپ کے انسٹرکٹر کو مکمل طور پر عکس کی طرف متوجہ بلکہ فریفتہ پایا تھا۔ وہ لوگ چار چار کے گروپس میں تھے اور عکس اسی کے گروپ میں تھی ۔ انہیں پاکستانی پولیس کے زیر استعمال اسلحے سے متعارف کرواتے ہوئے انسٹرکٹر نے پورا لیکچر عکس کو دیکھتے ہوئے دیا تھا بلکہ اس کا شاید بس چلتا تو وہ اس ٹریننگ سیشن کو صرف ون ٹو ون کردتیا۔ ایلیٹ فورس کا وہ اہلکار پہلی بار ڈی ایم جی کی کسی خاتون آفیسر کے متھے لگا تھا جو اسے سر کہہ رہی تھی اور خاتون آفیسر بھی وہ جن کے لیے اکیڈمی میں موجود بہت سارے حضرات گدھے بننے کے لیے تیار تھے اور وہ اہلکار خوش قسمت تھا کہ 18 کے اس گروپ کی” ہیروئن” اس کی فلم میں تھی اور اسے اپنی اس خوش قسمتی اور باقی انسٹرکٹر کی بد بختی کا احساس بھی تھا۔
گروپ میں شیر دل کے علاوہ دوسرے دونوں مرد آفیسر نے اس التفات پر صرف معنی خیز مسکراہٹوں کا تبادلہ کر کے اسے نظر انداز کردیا تھا۔ صرف شیرد ل تھا جو نظر انداز نہیں کرسکا تھا۔ پتا نہیں اسے انسٹرکٹر کے ساتھ عکس کی یہ قربت اچھی لگی یا اس انسٹرکٹر کا ایبک شیرد ل کو ایک لڑکی وجہ سے اس بری طرح نظر انداز کرنا۔
اکیڈمی میں سب ایبک شیر دل کے خاندان سے واقف تھے۔ ایڈیشنل سیکریٹری کے بیٹے کو بہت واضح انداز میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حد تک پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ ایبک شیر دل اس پروٹوکول کا عادی تھا۔ وہ بہت دیر تک یہی سب دیکھتا رہا… پریکٹس سیشن کے دوران بھی انسٹرکٹر باقی تینوں ممبرز کو ہلکی پھلکی ہدایات دینے کے بعد بار بار عکس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور شیر دل کی توجہ شوٹنگ رینج اور پریکٹس سے زیادہ اسی چیز پر تھی۔ نہ پسٹل اس کے لیے نئی چیز تھی نہ وہ پہلی بار شوٹنگ پریکٹس کررہا تھا اس کے باوجود اس نے جان بوجھ کر انسٹرکٹر کو اپنی طرف بلانا شروع کردیا تھا اور پھر جب ایک بار انسٹرکٹر اس کے بلانے پر آنے کے بجائے اسے عکس کی وجہ سے انتظار کرواتا رہا تو ایبک نے کانوں پر چڑھائے ہوئے ear plug اتار کر بڑی خفگی سے انسٹرکٹر سے کہہ ہی دیا تھا۔
چند لمحوں کے لیے انسٹرکٹر کواس کی بات کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ بات مزاحیہ لگی تو اسے لیکن یقینا ہنسانے کے لیے نہیں کی گئی تھی۔
”سر آپ پہلے ان کی بات سن لیں۔” عکس نے انسٹرکٹر سے کہا۔ وہ انسٹرکٹر کی اس قدر توجہ کو خود بھی ہضم نہیں کر پارہی تھی۔ انسٹرکٹر بادل نا خواستہ شیر دل کی طرف چلا گیا۔
بریک میں شیر دل اس کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا۔یہ اب روٹین میں ہونے لگا تھا وہ بے مقصد اس کے پاس آکر بیٹھ جاتا اور پھر بات چیت شروع کردیتا آج بھی اس نے یہی کیا تھا۔
”اس طرح کے دو چار الو تمہیں پھر مل گئے تو بیسٹ پروبیشنز کی ٹرافی ایک بار پھر تم لے جاؤ گی۔” بڑے سرسری انداز میں کہی ہوئی اس بات میں بڑی تضحیک تھی جو عکس نے محسوس کی تھی۔
”ایکسکیوزمی… میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھی۔” اس نے بڑی شائستگی سے شیر دل کو ٹوکا۔پتا نہیں شیر دل کس موڈ میں تھا لیکن اس نے بڑے اطمینان سے اس کی CTP کی بیسٹ پرو بیشنز کی ٹرافی کا کریڈٹ ان دو مردوں کو دیا تھا جن میں سے ایک کا نام لینا وہ سور کا نام لینے کے مترادف سمجھتا تھا اور دوسرے کو وہ گدھا نہیں خچر سمجھتا تھا۔ بڑے استہزائیہ انداز میں اس نے عکس کو جتایا تھا کہ وہ ا سپورٹس کے ان دو ایونٹس میں مردوں کی پارٹنر شپ کی وجہ سے جیت سکی تھی اور صرف ان فتوحات کی وجہ سے شیر دل اور اس کے پوائنٹس میں فرق آگیا تھا ورنہ وہ کبھی بیسٹ پروبیشنزٹرافی اپنے بل بوتے پر نہیں جیت سکتی تھی۔ پانی کی بوتل سے پانی پیتے ہوئے عکس نے شیر دل کی یہ بکواس بے حد اطمینان سے سنی تھی۔
”تمہارا خیال ہے وہ ا سپورٹس پوائنٹس مجھے نہ ملتے تو یہ ٹرافی اب بھی تمہارے خاندان کے پاس جاتی؟” اس کی بات سننے کے بعد اس نے بے حد شائستگی کے ساتھ شیر دل سے پوچھا تھا یوں جیسے وہ کسی بہت اہم مسئلے پر اس کی رائے لے رہی ہو۔
Fact” ہے یہ۔” شیر دل نے کندھے اچکا کر کہا تھا۔
”شیر دل اس بار تو کوئی مکسڈ گیمز نہیں ہیں نا… تم اس بار بیسٹ پروبیشنر کی ٹرافی لے لو۔” شیر دل چند لمحے اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ وہ سنجیدہ تھی لیکن بلا کے اطمینان کے ساتھ اسے بیسٹ پروبیشنر کی ٹرافی جیتنے کا چیلنج یوں دے رہی تھی جیسے کسی بیکری سے کپ کیک لانے کا کہہ رہی ہو۔
”تمہیں لگتا ہے میں نہیں جیت سکتا؟” ایک ابرو بے حد تیکھے انداز میں اچکاتے ہوئے شیر دل نے اس سے پوچھا۔
”کیوں نہیں جیت سکتے… تم ہمارے کامن کے بیسٹ رائڈر ہو،بیسٹ سوئمر ہو، بیسٹ ٹینس پلیئر ہو، مجھے یقین ہے بیسٹ شوٹر بھی تم ہی ہوگے… کیوں نہیں جیت سکتے تم۔” اس نے اس طرح اطمینان سے کہا تھا جیسے ایک فارم ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے اس کی قابلیت کا یقین دلاتے ہوئے کسی بڑے مقابلے میں بھیجنے کے لیے تیار کررہی ہو۔
”لیکن بات یہ ہے ایبک شیر دل کہ یہ اولمپکس ہوتے تو تمہی جیتتے ہر کھیل میں لیکن خوش قسمتی سے یہ اولمپکس نہیں ہے۔” شیر دل جانتاتھا وہ اسی کے استعمال کیے ہوئے لفظ کو لے کر اس پر چوٹ کررہی تھی۔
”دیکھیں گے۔” شیر دل کرسی جھلاتے ہوئے مسکرایا تھا۔
”ضرور…” عکس نے مسکرا کے کہا۔
”تم چیلنج کررہی ہو کہ تم مجھے یہ ٹرافی نہیں لینے دو گی؟” شیر دل نے اس کے جواب پر کہا۔ عکس جواب دینے کے بجائے اسے دیکھ کر مسکرادی… ایک بے حد گہری …بے حد معنی خیز …لیکن چیلنج کرتی ہوئی مسکراہٹ۔
تقریباً آٹھ ماہ کے بعد CTP کی ٹریننگ کے اختتام پر اس بار کوئی کانٹے دار مقابلہ نہیں ہوا تھا۔اسپورٹس کا ایونٹ شیر دل کا نام رہا تھا۔لیکن کورس کے تمام پیپرز میں وہ کسی ایک میں بھی ٹاپ نہیں کرسکا تھا۔ صرف وہی نہیں گروپ کے دوسرے آفیسرز میں سے کوئی بھی اکیڈمکس میں کسی ایک پیپر میں بھی عکس مراد علی کو beat نہیں کرسکا تھا۔ اکیڈ مکس میں اتنی واضح اور یکطرفہ پرفارمنس کے بعد بیسٹ پروبیشنرکی ٹرافی جیتنے کے لیے عکس کی باقی چیزوں میں بہت معمولی ایوریج پر فارمنس بھی بہت کافی تھی۔ اس نے شیر دل کو کڑا جواب دیا تھا۔
پاسنگ آؤٹ ceremony اٹینڈ کرتے ہوئے شیر دل نے پہلی بار عکس مراد کے لیے کھلے دل سے تالیاں بجائی تھیں۔وہ ڈی ایم جی کی بیسٹ پروبیشنر کی ٹرافی حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون آفیسر تھی اور اس کے ایوارڈ سے پہلے اس کا یہ اعزاز بھی دہرایا گیا تھا۔
دوسال کی ٹریننگ کے دوران شیر دل ایک حریف کے طور پر اسے جتنا سخت مقابلہ دے سکتا تھا اس نے دیا تھا۔ اس نے کبھی کہیں عکس مراد علی کی سبقت اور قابلیت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ یہی کچھ اس گروپ کے باقی 16 آفیسرز نے کیا تھا۔ عکس مراد علی مرد بھی ہوتی تب بھی وہ اس کے ساتھ ایسا ہی کڑا مقابلہ کرتے لیکن اس کا عورت ہونا ان 17 مرد آفیسرز کے لیے جیسے ایک اور چیلنج تھا۔ ان میں سے ہر ایک وہاں اپنی ذاتیprestige کے لیے تو لڑہی رہا تھا لیکن وہ 17 لوگ اپنی صنف کی prestige کے لیے بھی لڑے تھے۔ جتنا اور جیسا لڑ سکتے تھے اور اب اس لڑائی کے اختتام پر وہ 17 لوگ بالآخر ڈاکٹر عکس مراد علی کو تعظیم دے رہے تھے… کھلے دل سے… اعلیٰ ظرف حریفوں کی طرح شیر دل نے بھی بالآخر عکس مراد علی کی جیت کو خوش دلی سے تسلیم کرلیا تھا… اس عورت کے لیے تحسین اور تعظیم کے جذبات کے ساتھ… اس کے باوجود کہ وہ اپنے چیلنج میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔




Loading

Read Previous

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Read Next

جواز — امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!