جواد سے پہلی ملاقات میں وہ خیردین کو اچھا لگا تھا۔ عکس اس کی جس شائستگی اور تہذیب کی بات کرتی تھی وہ خیردین کو بھی دکھی تھی۔ وہ کچھ مطمئن ہو گیا تھا۔ یہ کافی تھا کہ عکس کی جواد کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ باقی چیزیں اس کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر گئی تھیں۔
”شیردل کیا کہتا ہے جواد کے بارے میں؟” خیردین نے جواد سے ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد عکس سے پوچھا تھا۔ وہ اس سوال پر حیران نہیں ہوئی تھی۔ خیردین کو شیردل کی رائے پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا اور اس اعتماد کی وجہ پچھلے سالوں میں ان تمام مردوں کے حوالے سے دیا جانے والا اس کا بے حد درست اور اتنا ہی خطرناک بیک گراؤنڈ چیک تھا جس نے ہر بار عکس اور خیردین کو کسی شرمندگی سے دوچار ہونے والی صورت حال سے بچایا تھا۔
”شیردل ابھی نہیں ملا اس سے؟” خیردین نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں۔” وہ خیردین سے یہ نہیں کہہ سکی کہ وہ دونوں پچھلے کچھ عرصے سے رابطے میں نہیں تھے اور اس کی وجہ شیردل کا غنی حمیدکے حوالے سے کیا جانے والا وہ سوشل ورک تھا جس کی وجہ سے وہ غنی حمید کے اپنے آپ میں بے حد انٹرسٹڈ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ چاہتے ہوئے بھی دوستی کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں بنا سکی تھی اور خیردین ایک بار پھر شیردل سے اسی سوشل ورک کا خواہش مند تھا۔
”تم غنی حمید کو چھوڑ نہیں سکتیں؟” اکیڈمی میں STP کی ٹریننگ کے دوران دوستی ہو جانے کے بعد یہ شیردل کی طرف سے آنے والا پہلا مطالبہ تھا۔
”نہیں۔” عکس نے دوٹوک انداز میں کہا۔ جس رفتار سے گیند serve کر کے اس کے کورٹ میں پھینکی گئی تھی۔ اسی رفتار سے اسے return کر کے واپس شیردل کے کورٹ میں پھینک دی گئی تھی۔
”کیوں؟” شیردل نے تڑاک سے پوچھا۔
”کیوں چھوڑوں؟” کھٹاک سے جواب آیا۔
وہ اس وقت ٹریننگ کے دوران ہونے والی ملٹری attachment کے دوران ویک اینڈ پر اس سے ملنے آیا ہوا تھا۔ وہ دونوں دو قریبی کنٹونمنٹس میں ہی attached تھے اور شیردل اس ویک اینڈ پر اسے وہاں سے لاہور لے جانے کے لیے اپنی دو دن پہلے ملنے والی نئی ہونڈا اکارڈ پر پک کرنے آیا تھا اور لاہور جاتے ہوئے شام کے وقت ان کے درمیان غنی حمید کے حوالے سے بحث چھڑ گئی تھی۔ٍ
”وہ پکا womanizer ہے۔” شیردل نے اس سے کہا۔ GT road پر سیدھا جانے کے بجائے اس نے ہمیشہ کی طرح ایک نئی بائی روڈ پر ٹرن لے لیا۔ عکس نے اس کی بات سنتے ہوئے غیر محسوس انداز میں اپنی بائیں کلائی میں پہنی ہوئی اسپورٹس واچ میں سمت چیک کی۔ وہ جہاں سے چلے تھے وہ شمال تھا اور انہیں جہاں جانا تھا وہ مغرب تھا اور ایبک شیردل نے جو حالیہ موڑ مڑا تھا وہ مشرق کی سمت میں تھا تو لاہور جاتے ہوئے وہ سیدھا شمال سے مغرب کی طرف جانے کے بجائے شمال سے مشرق، مشرق سے جنوب اور جنوب سے پھر مغرب تک پہنچتے… سورج ان سے پہلے مغرب میں پہنچ جایا کرتا تھا کیونکہ وہ عکس مراد علی کو کسی گاڑی میں بٹھا کر اس کی منزل پر پہنچانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوتا تھا۔ وہ اب اس سفر میں ہونے والے ممکنہ اضافی کلو میٹرز کو منٹوں میں calculate کر کے ممکنہ وقت کا اندازہ لگانے کی کوشش میں مصروف تھی جو انہیں لاہور پہنچنے میں لگنا تھا۔ اس نے شیردل کے ساتھ ویک اینڈ پر لاہور تک ملنے والی ”لفٹ” کے دوران roads، routes، directions کے بارے میں جتنا کچھ سیکھا تھا وہ ملٹری attachment کے دوران سارا دن کنٹونمنٹ میں ملٹری maps پڑھ پڑھ کر نہیں سیکھا تھا۔ شیردل جیسے اس علاقے کے تمام roads اور routes کے بارے میں اسے عملی معلومات دینے کا ذریعہ بنا ہوا تھا… اور ہمیشہ کی طرح اس بات سے لاعلم تھا کہ وہ اسے اس بار کس طرح serve کررہا تھا۔
”تو…؟” عکس نے اندازہ لگایا کہ وہ اب رات نو بج کر چالیس منٹ کے قریب لاہور کی بیرونی حدود کے قریب ہوں گے… اگر اس سے پہلے کوئی اور turn نہ لے لیا گیا۔
”تو؟” شیردل کو جیسے جھٹکا لگا تھا۔
”ہاں تو؟”
”تمہیں اپنے دوست کے کرتوتوں کے بارے میں جان کر کوئی فرق نہیں پڑتا؟” شیردل نے جیسے بے یقینی سے کہا۔
”نہیں۔” عکس نے بے حد اطمینان سے کہا۔ ”وہ میری بہت عزت کرتا ہے اور میرے لیے یہ کافی ہے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کیا کرتا ہے وہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔”
”وہ ابھی تمہیں trap کرنے کے لیے جال بچھا رہا ہے۔” شیردل نے استہزائیہ انداز میں ہنس کر کہا۔
”جال میں جانور اور مچھلیاں آتے ہیں میں انسان ہوں۔” عکس نے اتنے ہی اطمینان سے جواب دیا۔ وہ شیردل کی جھلاہٹ سے مکمل طور پر محظوظ ہورہی تھی۔
”وہ کسی عورت کی عزت کرنے والا مرد نہیں ہے۔” شیردل نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”پھر مجھے اور بھی خوش ہونا چاہیے کیونکہ شاید وہ مجھے ”مرد” سمجھ کر عزت اور پروٹوکول دیتا ہے… برابر کا درجہ… Good۔” شیردل اس کی حس مزاح سے محظوظ نہیں ہوا تھا۔ اس کو چند منٹ چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”تمہیں وہ کیوں پسند ہے؟”
”بہت ساری وجوہات ہیں تم کتنی سننا چاہتے ہو؟” عکس نے اس بار بھی اسی انداز میں کہا۔ شیردل تپا تھا۔
”تم ریسرچ کرنا اس پر… مجھے دلچسپی نہیں ہے کچھ بھی سننے میں۔”
”ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔” عکس نے بے حد پرسکون انداز میں اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔ شیردل کچھ دیر خفگی کے عالم میں خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا پھر کچھ دیر بعد اس نے ایک بار پھر بات کا آغاز کیا۔
”وہ میرے بارے میں بہت کچھ کہتا ہو گا تم سے؟”
”نہیں۔”
”I don’t believe it”
”یقین نہ کرنا یا کرنا تمہاری مرضی ہے لیکن وہ واقعی تمہارے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔” عکس اب سنجیدہ ہو گئی تھی۔ وہ غنی حمید کے لیے شیردل کی ناپسندیدگی کا بیک گراؤنڈ کسی نہ کسی حد تک جانتی تھی اور وہ غنی حمید کے اس ایشو کے بارے میں بات نہ کرنے کے باوجود یہ بھی جانتی تھی کہ وہ بھی شیردل کے بارے میں کم و بیش شیردل والے ہی جذبات رکھتا تھا۔
”اس نے تمہیں منع نہیں کیا کہ تم مجھ سے دوستی نہ کرو۔”
”نہیں۔”
”میں یقین نہیں کر سکتا کہ اس کو کوئی اعتراض نہ ہوا ہو۔” شیردل نے سر جھٹکا۔
”اس کو اگر کوئی اعتراض ہوتا بھی تو مجھے اس کی پروا نہیں ہوتی… میں اس سے بھی یہی سب کچھ کہہ رہی ہوتی جو تم سے کہہ رہی ہوں۔ لیکن خوش قسمتی سے غنی نے کبھی تمہارے بارے میں کوئی بات نہیں کی… اچھی یا بری کوئی بات بھی۔” عکس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا۔
”اس کے باوجود میں اس کے بارے میں سب کچھ کہتا رہوں گا۔” شیردل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ضرور۔” عکس نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”اگر تمہارے پاس نان ایشوز پر بات کرنے کے لیے وقت ہے تو ضرور کیا کرو اس کے بارے میں بات۔” شیردل بے اختیار مسکرایا۔
”تو غنی ایک نان ایشو ہے؟” اسے ایک عجیب سی ٹھنڈک محسوس ہوئی تھی جس کو ختم کرنے میں عکس نے دیر نہیں لگائی تھی۔
”میرے اور تمہارے درمیان غنی ایک نان ایشو ہے۔ وہ میرا دوست ہے ہمیشہ دوست ہی رہے گا… تم اسے دشمن سمجھتے ہو… That’s ok with me۔” شیردل نے کچھ خفا سے انداز میں اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”وہ تمہیں بھی اسیکنڈلائز کرے گا تم یاد رکھنا۔”
”شیردل میں اسے ڈیڑھ سال سے جانتی ہوں، مجھے اس سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ ہم عورت اور مرد بن کے نہیں ملتے، تم پریشان مت ہو میرے بارے میں۔” اس نے شیردل کو عجیب تسلی دینے والے انداز میں کہا۔ اس کا خیال تھا شیردل دوبارہ غنی حمید کے حوالے سے اس سے بات نہیں کرے گا لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ شیردل نے غنی حمید کے حوالے سے اس سے بحث کرنا نہیں چھوڑا تھا اور عکس نے اس کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی دوستی اور قربت کے باوجود غنی حمید کو نہیں چھوڑا تھا۔ اس کا خیال تھا شیردل، غنی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ وہی کر سکتا تھا جو وہ ہمیشہ کرتا رہا تھا… اس کی برین واشنگ کی کوشش… یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی غنی اور اس کی دوستی کو کسی رشتے میں بدلنے سے روکنے کے لیے اس سے رابطہ بھی کر سکتا تھا… شیردل کے ساتھ وہ اس کا پہلا بڑا جھگڑا تھا جو شیردل کی غنی کو کی جانے والی اس کال کے بعد ہوا تھا جو اس نے عکس کے یہ بات شیئر کرنے کے بعد کی تھی کہ غنی اس میں انٹرسٹڈ تھا اور اس نے عکس کو پروپوز کیا تھا۔
”شیردل اس سے مل لیتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔” خیردین نے اس کی طرف سے کوئی رسپانس نہ ملنے پر ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔ عکس نے ایک گہری سانس لے کر خیردین کو دیکھا۔ وہ شیردل کے لیے خیردین کی شدید پسندیدگی سے واقف تھی لیکن وہ اس بات سے کبھی واقف نہیں تھی کہ خیردین بھی شیردل کے لیے اس کے دلی جذبات سے واقف تھا۔
”نانا اگر شیردل سے مشورہ ہوتا رہا تو میری شادی کبھی نہیں ہو گی۔” اس نے مسکراتے ہوئے خیردین سے کہا۔
”اس نے ہمیشہ صحیح مشورہ دیا ہے تمہیں… ہمیشہ نقصان سے بچاتا رہا ہے وہ تمہیں… پھر تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟” خیردین اس کی بات پر حیران ہوا تھا۔ وہ جواباً خاموش ہو گئی۔ اس نے سر جھکا لیا تھا۔ وہ خیردین سے وجوہات کو کیا ڈسکس کرتی۔
خیردین نے اس سے اصرار نہیں کیا تھا۔ جواد کے ساتھ اس کا رشتہ شیردل کے ”مشورے” سے بچ گیا تھا لیکن شراب والے واقعے میں پکڑے جانے کے بعد عکس اور خیردین کے لیے اگلا دن بڑا تکلیف دہ تھا۔ دونوں اپنے تمام خدشات آنکھیں چراتے ہوئے جواد کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے تھے اس کی بات کو سچ نظر آتے ہوئے بھی نہ ماننے کی کوشش کررہے تھے۔
عکس کے لیے اگر کچھ مکمل طور پر ناقابل قبول تھا تو وہ شراب نوشی تھی۔ امریکا میں دو سال جواد کے ساتھ رہتے ہوئے اسے بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ شراب پیتا ہے… یا پی سکتا ہے۔ اس نے چند بار اس سے اس حوالے سے بات بھی کی تھی اور ہر بار جواد اتنے صاف لفظوں میں شراب کے لیے اپنی ناپسندیدگی جتاتا رہا کہ عکس کے لیے اب یہ ماننا مشکل ہورہا تھا کہ وہ اس بارے میں اس سے جھوٹ بولتا رہا اور وہ ہمیشہ سے شراب پیتا رہا تھا… یا پھر وہ جواد کو یہ مارجن دیتی کہ وہ عادی شراب نوش نہیں تھا پہلی بار ہی شراب پیتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔
جواد نے عکس کی نظروں میں اپنے آپ کو مزید اس وقت گرا لیا تھا جب اس نے اس کے آفس میں آکر اس سے تلخ کلامی کی تھی۔ عکس کے لیے اس کی شراب نوشی جتنی ناقابل یقین تھی اس کا یہ رویہ اس سے زیادہ ناقابل یقین تھا۔ اس نے جواد کو کبھی ایک جاہل مرد نہیں سمجھا تھا۔ اس کے لیے یہ ماننا مشکل تھا کہ کوئی ہاورڈ سے پڑھنے والا کسی ذاتی نوعیت کے جھگڑے کو آفس تک لے جاکر وہاں شور مچانے کی کوشش کرے گا۔ جواد کے بارے میں یہ دوسرا خطرے کا الارم تھا جو اس کے لیے بجا تھا۔
اور خیردین سے یہ معاملہ ڈسکس کرنے میں وہ متامل تھی۔ اس نے صبح خیردین کی پریشانی رات والے اسکینڈل کی وجہ سے دیکھی تھی اوراب شام کو وہ اس کے سامنے جواد کے خلاف ایک نیا کیس رکھ دیتی۔ جواد کی شخصیت کی یہ تہیں کھلنے پر وہ جہاں رنجیدہ تھی وہاں اسے بے حد ندامت بھی تھی۔ جواد اس کا انتخاب تھا اور اس کا انتخاب انتہائی ناقص نکل رہا تھا۔
خیردین سے بہت دیر یہ بات چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ کیونکہ عکس کے لیے ہی یہ بہت مشکل ہو گیا تھا کہ وہ اسmess میں ہوتے ہوئے خیردین سے اس کا ذکر نہ کرے۔
”میں نے تمہیں بڑی محنت سے پالا ہے چڑیا اور میں نے یہ محنت اس لیے نہیں کی کہ کوئی دوسرا آکے اسے ضائع کرے۔ میں چاہتا ہوں تمہیں ساتھ دینے والا عزت دینے والا جیون ساتھی ملے صرف شوہر نہیں۔” خیردین نے ایک بار پھر جیسے اس کے کندھوں سے بوجھ ہٹا لیا تھا۔ اس رشتے سے نکل جانے کا آپشن اس کے سامنے رکھ دیا تھا جس سے نکلنا اسے بہت اعتبار سے مشکل لگ رہا تھا۔
”اللہ پر توکل بڑی شے ہے اور اللہ کے پاس خوب سے خوب تر ہوتا ہے۔ جو ہمیں کامل لگتا ہے اللہ کے پاس اس سے بھی اچھی اورعمدہ شے ہوتی ہے۔” عکس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وہ جانتی تھی اس کا نانا اس کے درد اور مشکل سے واقف تھا… یہ پہلی بار نہیں ہورہا تھا اس کے ساتھ کہ دل پسند شے چھوڑنی پڑ رہی تھی۔ پہلے ایبک سلطان پھر غنی حمید اور اب جواد ملہی… عکس جانتی تھی خیردین کی گنتی میں ایبک شیردل نہیں تھا… اس کی گنتی میں وہ سب سے پہلے نمبر پر تھا۔
”مجھے لگتا ہے نانا میرے ہاتھ میں شادی کی لائن نہیں ہے… نہ شادی کی نہ اچھے ساتھی کی… میرے نصیب کا یہ ایک خانہ خالی ہے… میں خوامخواہ وقت ضائع کرتی ہوں relationships بنانے میں۔” اس کے لہجے میں ایسی مایوسی خیردین نے سالوں بعد دیکھی تھی اور وہ کٹ گیا تھا۔
”ناامیدی گناہ ہے چڑیا۔”
”ناامیدی کی بات نہیں ہے نانا… بعض چیزیں حقائق ہوتے ہیں۔ ان سے نظریں چرانا بے وقوفی ہوتی ہے۔ ” اس نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”انسان کو اپنی تقدیر کے بارے میں اندازے نہیں لگانے چاہئیں۔ یہ حساب کا سوال نہیں ہے چڑیا… ایمان کا حصہ ہے، رب پر ہی چھوڑ دینا چاہیے اسے۔” خیردین نے اسے سمجھایا تھا۔ ”تم بہت اچھی لڑکی ہو… اللہ نے کتنی نعمتوں سے دامن بھرا ہے تمہارا… اور اللہ کے پاس کوئی کمی نہیں ہو گئی نعمتوں کی۔” عکس قائل ہوئی یا نہیں اس نے بحث نہیں کی تھی۔ خیردین کو اپنے دکھتے ہوئے وجود کو سہلانے اور ان پر پھائے رکھنے دیا تھا۔
”میں چاہتا ہوں باقی کی زندگی میں تمہیں وہ ساتھی ملے جو تمہاری عزت کو اپنی عزت سمجھے… تم کو قیمتی اثاثہ سمجھ کر سنبھالتا پھرے… میں اپنی چڑیا کو کسی کے سر کا تاج دیکھنا چاہتا ہوں پاؤں کی جوتی نہیں۔” وہ نم آنکھوں کے ساتھ ہنس دی۔ خیردین اسے دن میں خواب دکھا رہا تھا۔ ہمیشہ ہی دکھاتا آیا تھا… وہ انہیں خیالی پلاؤ سمجھ سکتی تھی زبان سے کہہ نہیں سکتی تھی۔
جواد ملہی سے رشتہ رکھنے نہ رکھنے کا فیصلہ وہ سنگاپور سے واپسی پر کرنا چاہتی تھی۔ وہ جواد اور اپنے آپ دونوں کو وقت دے رہی تھی۔ ایک بڑا فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کے لیے… جواد کا رویہ ویسے بھی اس واقعہ کے بعد ضرورت سے کچھ زیادہ اچھا اور محتاط ہو گیا تھا۔
”تم جواد کو فون کرلو۔” شیردل نے عکس کی حلیمہ سے بات کروانے کے بعد اسے مشورہ دیا تھا۔
”امی کہہ رہی ہیں وہ انکل کی فیملی میں سے کسی کو نانا کے پاس بھجوا دیں گی جب تک ان کی ٹکٹس کا نہیں ہو جاتا۔”عکس نے فون اسے واپس دیتے ہوئے اپنے سوتیلے والد کے حوالے سے کہا۔
”تم پھر بھی جواد کو انفارم کرو۔” شیردل نے فون واپس لیے بغیر اصرار کیا۔ وہ کچھ دیر متامل رہی پھر اس نے کال ملانی شروع کر دی۔ شیردل کال ملتے ہی اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا تھا ۔ عکس نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے بھی اندازہ نہیں تھا جواد سے اس کی گفتگو کس نوعیت کی ہو سکتی تھی۔
جواد کے لیے عکس کی کال غیرمتوقع تھی۔ اگرچہ سنگاپور جانے سے پہلے دونوں کی آپس میں بات ہوئی تھی اور وہ اسے سی آف کرنے کے لیے بھی آنا چاہتا تھا لیکن عکس نے کوئی بہانہ بنادیا تھا۔ وہ جواد کے حوالے سے جو فیصلہ کرنا چاہتی تھی اس کے بعد وہ جواد کے ساتھ کوئی ایسا وقت نہیں گزارنا چاہتی تھی جو اسے کمزور کر دیتا لیکن خیردین کی اچانک آنے والی بیماری نے وقتی طور پر اسے عجیب طرح سے کمزور کیا تھا۔جواد سے بات کرتے ہوئے اسے اندازہ ہوا خیردین کے بعد جواد کے بھی نہ ہونے سے وہ بالکل تن تنہا ہو جانے والی تھی اور کچھ دیر کے لیے اس سوچ نے بھی اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ جواد اسے تسلیاں دیتا رہا اور وہ روتی رہی ۔ وہ شیردل نہیں تھا جس کے لفظوں اور آوازمیں اس کے لیے جادو بوٹی جیسی تاثیر اور مسیحائی ہوتی لیکن پھر بھی دوسراہٹ کا ایک عجیب احساس ہورہا تھا اسے جو اس کی ہمت بندھا رہا تھا۔