” خیریت نہیں ہے۔” منزہ نے بے ساختہ کہا۔
”آپ مجھے پریشان کررہی ہیں ممی۔” شہر بانو الجھ گئی تھی۔
”دیکھو بیٹا میں تم سے جو بھی ڈسکس کروں اس کا ذکر تم شرمین سے مت کرنا۔” منزہ نے بات شروع کرنے سے پہلے اسے ہدایت دی۔
”ایسی کیا بات ہے ممی۔” وہ کچھ اور الجھی۔
”شرمین کبھی اس مسئلے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھے گی۔ وہ ایک سمجھدار عورت نہیں ہے ۔بے وقوف ہے، جذباتی ہے۔ اس نے خود ہمیشہ غلط فیصلے کیے ہیں اور میں جانتی ہوں وہ تمہیں کبھی صحیح طریقے سے گائیڈ نہیں کرسکتی۔ وہ تمہیں بھی ہمیشہ غلط فیصلہ کرنے ہی کا مشورہ دے گی۔” منزہ کی یہ ساری تنقید شہر بانو کے لیے نئی چیز نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی منزہ اور شرمین ایک دوسرے کو شدیدناپسند کرتی تھیں اور یہ ناپسندیدگی منزہ کی طرف سے زیادہ تھی۔ وہ اپنے بھائی کی موت کا ذمے دار کھلے لفظوں میں شرمین کو کہتی تھی لیکن بہر حال وہ یہ بات شہر بانو کے سامنے نہیں کہتی تھی۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ بات شہر بانو کے سامنے کہہ بھی دے تو بھی شہر بانو کو برا نہیں لگے گا کیونکہ ایک بہت طویل عرصہ وہ بھی منزہ ہی کی طرح شرمین کو اپنے باپ کی موت کا ذمے دار سمجھتی رہی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ منزہ کی شرمین پر کی جانے والی تنقید کا اس نے کبھی برا نہیں منایا تھا۔ منزہ خود اسے بے حدعزیز رکھتی تھی۔ وہ بچپن میں بھی اپنے بھائی کی اکلوتی اولاد سے بہت پیار کرتی تھی اور شرمین کے پاکستان سے چلے جانے کے بعد بھی اس نے شرمین سے بہت دفعہ رابطہ کر کے شہر بانو سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ شرمین نے ہمیشہ ان کی ان کوششوں کا بہت حوصلہ شکن جواب دیا تھا۔ آہستہ آہستہ منزہ نے بھی یہ کوشش ختم کردی تھی۔
”ممی آپ بتائیں کیا بات ہے؟” شہر بانو نے فی الحال شرمین پر ہونے والی تنقید میں دلچسپی لینے کے بجائے پوچھا تھا۔
”شہباز پر اس کے ایک پرانے کک نے کچھ الزامات لگا کر کئی سال پہلے اس کی سرکاری نوکری سے برطرفی کے فیصلے کو کورٹ کے ذریعے چیلنج کیا ہے۔”منزہ نے بالآخر اسے مختصر لفظوں میں بتایا۔
”میری سمجھ میں نہیں آیا… پاپا پر اب کوئی کیس کیسے کرسکتا ہے۔” منزہ کی بات شہر بانو کے سر کے اوپر سے گزر گئی تھی۔
”تم عکس مراد علی کو جانتی ہو؟” منزہ کے اگلے سوال نے شہر بانو کو کچھ اور بھی حیران کیا۔
”جی وہ شیر دل کی دوست اور کولیگ ہے۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
”وہ اس کک کی نواسی ہے۔” شہر بانو کو ایک لمحے کے لیے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
”ممی مجھے یہ equation سمجھ میں نہیں آئی۔کون کک، کیسے الزامات؟ اور اس میں پاپا یا عکس کا کیا کنکشن ہے؟” اس نے کچھ الجھ کر منزہ سے کہا۔
”اس فیملی نے کبھی اس گھر میں شہباز اور تمہاری ممی کو serve کیا تھا ۔پھر خیر دین نے گھر میں چوریاں کرنی شروع کردیں اور شہباز نے اسے گھر سے نکال دیا۔تمہاری ممی اس پر بہت خفا ہوگئیں کیونکہ خیر دین اس کا بڑافیورٹ نوکر تھا اور خیر دین نے بھی شرمین کو الٹی سیدھی پٹیاں پڑھائیں …شہباز پر بہت برے برے الزمات لگائے ۔اسی کے الزامات کی وجہ سے شرمین نے شہباز سے علیحدگی اختیار کی تھی اور اب اتنے سالوں کے بعد وہ پھر معصوم بن کر واپس آگیا ہے اپنی اس نواسی کو لے کر جو پہلے شیر دل سے شادی کے لیے اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور جب وہ نہیں ہوا تو اب یہ نیا پینڈوراباکس لے کر آگئے ہیں وہ دونوں۔ میں چاہتی ہوں تم شیر دل سے بات کرو۔ اسے سمجھاؤ کہ وہ اس لڑکی کو اور اس کے نانا کو منع کرے اس کیس سے… وہ اس کی دوست ہے اس کے لیے مشکل نہیں ہے اسے یہ بات سمجھانا… میں نے ابھی بھی اس سے بات کی ہے سنگاپور …لیکن وہ کہہ رہا ہے وہ عکس کو منع نہیں کرے گا۔اسے اپنے ماموں ،اپنے خاندان تمہارے باپ کی پروا نہیں ہے۔ اس لڑکی کی پروا ہے… شہر بانو تم اس سے بات کروگی تبھی کچھ ہوگا۔” منزہ اس سے کہتی جارہی تھی یہ اندازہ لگائے بغیر کہ انہوں نے شہر بانو کے کانوں میں سیسہ انڈیلا تھا تھوڑی دیر پہلے…وہ گنگ فون کا ریسیور کان سے لگائے بیٹھی رہی تھی۔
شہباز حسین… شرمین… الزامات…علیحدگی… عکس مراد علی …شیر دل …پتا نہیں ان میں سے کون سی بات نے اسے زیادہ کاٹا تھا…کون سی بات آری تھی اور کون سی چھری… لیکن شہر بانو کا گھر گرداب میں پھنس گیا تھا اور اس کا دماغ چکرا رہا تھا۔
……٭……
اس نے چکراتے ہوئے سر کے ساتھ رات کے دو بجے شیر دل کے بیڈ روم کے دروازے کو بجانا شروع کیا تھا اور پھر وہ بے اختیار پاگلوں کی طرح بجاتی ہی چلی گئی تھی۔ اس نے اندر سے شیر دل کی خفگی میں کچھ کہنے کو بھی نہیں سنا تھا۔ شیر دل نے نائٹ سوٹ میں بہت ہڑ بڑاتے ہوئے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا اور وہ عکس مراد علی کو دروازے پر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا ۔اس کا چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہورہا تھا۔
”کیا ہوا؟ ”شیر دل نے بے اختیار اس کا بازو پکڑا ۔وہ بچوں کی طرح اس سے لپٹ گئی تھی۔
”نانا…نانا… ”شیر دل نے ہچکیوں او رسسکیوں میں اس کی آواز سنی۔
……٭……
اس آئینے میں شہربانو نے عکس اور طغرل کی پشت دیکھی تھی… پھر اپنا چہرہ… گاڑی کے کھلے دروازے سے باہر قدم رکھتے ہوئے اس گھر میں یہ تیسری چیز تھی جس نے شہربانو کے دل پر ضرب لگائی تھی۔ اس آئینے میں اس نے پہلی بار اپنا جو عکس دیکھا تھا وہ جیسے بھنور کی طرح لوٹ کر اس کے پاس آیا تھا… وہ پہلا عکس جس میں وہ تھی، مثال تھی اور شیردل تھا… ایک خاندان تھا۔ خوشی تھی، مستقبل تھا اور اب جو عکس ابھرا تھا اس میں صرف شکست خوردگی تھی اور ماضی ہی ماضی تھا… مثال اب بھی ساتھ تھی۔ شیردل ساتھ نہیں تھا۔
”زندگی ہمارے ساتھ یہ سب کیوں کرتی ہے؟” اس نے عجیب سی تھکن کے ساتھ سوچا تھا۔
گاڑی پورچ میں رکتے ہی اس کے دروازہ کھولنے سے بھی پہلے اس نے عکس اورطغرل کو برآمدے سے نکل کرپورچ میں اپنے استقبال کے لیے بڑھتے دیکھا۔ دروازہ ڈرائیور نے کھولا تھا۔ گاڑی سے نکل کر اس نے پہلی نظر اس عورت پر ڈالی جس عورت سے زیادہ اس نے زندگی میں کسی عورت سے نفرت نہیں کی تھی۔ وہ ان دونوں مردوں کو اس کی زندگی سے نکال دینے کا باعث بنی تھی جن کے گرد شہربانو کی زندگی گھومتی تھی… اس کی واحد حریف، واحد رقیب… ایک عجیب سی جھجک اور خاموشی نے چند لمحوں کے لیے ان دونوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا… لیکن صرف چند لمحوں کے لیے پھر عکس آگے بڑھ آئی تھی۔
شہربانو نے اس کی طرف مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ہمیشہ کی طرح محتاط انداز میں۔ عکس نے اس کا ہاتھ نہیں تھاما تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر گرم جوشی سے اس کو گلے لگایا تھا… کیا ہزیمت تھی جو شہربانو نے محسوس کی تھی اور کیا ذلت تھی جو اسے اپنے اس حریف کے پاس لے آئی تھی جس کی وہ شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
”سفر ٹھیک سے گزرا؟” اس ملائم آواز نے اس سے پوچھا تھا۔ کانٹوں پر کیا جانے والا سفر ٹھیک سے کیسے گزر سکتا تھا؟ شہربانو جواباً اس سے پوچھنا چاہتی تھی۔
”ہاں۔” اس نے اپنے جواب کو وہیں چھوڑتے ہوئے نظریں ملائے اور عکس کے چہرے کو دیکھے بغیر کہا۔ وہ اس سے الگ ہو گئی تھی۔ شہربانو نے جیسے عجیب سا سکون محسوس کیا۔ عکس مراد علی اب مثال کی طرف بڑھی تھی۔ شہربانو نے اس کے چہرے پر بھی وہی اضطراب اور الجھن دیکھی جو اس نے چند لمحے پہلے خود محسوس کی تھی۔ اس نے بے اختیار اس سے نظریں ہٹالیں۔ کیا عجیب حسد تھا جو اس نے اس عورت کو اپنی اولاد کی طرف بڑھتے دیکھ کر محسوس کیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے جیسے وہ چلا کر اسے روک دینا چاہتی تھی کہ وہ اس کو مت چھوئے۔ طغرل جوشیردل کے بعد اس کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ تھا۔
”السلام علیکم۔” طغرل کی آواز نے اس کے خیالات کے تسلسل کو توڑا تھا، وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ شکست خوردگی اور حسد نے شہربانو کو چند لمحوں کے لیے کچھ عجیب سے انداز میں دیمک زدہ کیا تھا… حسد، رنج، تکلیف، شکست… بس اگر کچھ نہیں تھا جو شہربانو نے محسوس نہیں کیا تھا تو وہ پچھتاوا تھا۔ چند قدم کے فاصلے پر اس کی بیٹی کو مشفقانہ انداز میں لپٹائے چومتی ہوئی اس عورت نے شہربانو سے اس آئینے میں پہلی بار شہربانو کو دکھائی دینے والے خوش و خرم خاندان کے عکس کو اس سے چھین کر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا… اوروہ آج اس گھر میں ”اپنے خاندان” کے ساتھ کھڑی تھی جہاں شہربانو اپنی زندگی کے چیتھڑے اور دھجیاں سمیٹے ”پناہ” کے لیے آئی تھی… بدترین دشمن کی چھت کے نیچے پناہ… زندگی ہمارے ساتھ کیا کرتی ہے!
……٭……
زندگی میں پہلی بار شیردل اسے روتے دیکھ رہا تھا… بچوں کی طرح روتے ہوئے… حواس باختہ، خوف زدہ، کسی انہونی سے دہشت زدہ، آنے والے کسی برے لمحے سے آسیب زدہ… پتھر سے بھربھری مٹی بنتے ہوئے… اوراتنے سالوں میں یہ پہلی بار ہوا تھا۔ وہ اس عکس مراد علی سے پہلی بار متعارف ہوا تھا اور اسے خوشی نہیں ہوئی تھی عجیب تکلیف پہنچی تھی۔
خیردین دل کے دورے کے بعد تشویشناک حالت میں ICU میں تھا۔ رات کے پچھلے پہر جگا کر دی جانے والی یہ خبر عکس کو چڑیا بنا گئی تھی… خیردین اس کی زندگی کا محور تھا اور عکس کے لیے فوری طور پر یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ اس کی زندگی کا وہ محور ختم ہو سکتا تھا۔ ختم ہو جاتا تو وہ کیا کرتی۔ اس کی زندگی میں خیردین کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ شیردل سے محبت تھی رشتہ نہیں تھا۔ جواد سے رشتہ تھا محبت نہیں تھی… صرف خیردین سے رشتہ اور محبت دونوں تھے۔ صرف وہ تھا جس نے اپنے وجود کو ہمیشہ اس کے لیے چھتری بنائے رکھا تھا اور اس چھتری کے بغیر کھڑے ہونے کا تصور بھی عکس کے لیے سوہان روح تھا۔
”انکل ICU میں ہیں لیکن ٹھیک ہیں۔” شیردل نے بہت گول مول انداز میں اسے تسلی دی تھی۔ اس نے ابھی کچھ دیر پہلے پاکستان میں اپنے پی اے کے ذریعے ہاسپٹل کی management سے رابطہ کر کے بات کی تھی۔ خیردین کی حالت نازک تھی۔ لیکن وہ زندہ تھا اور جب تک وہ زندہ تھا وہ عکس کو دلاسا دے سکتا تھا۔ وہ اس کے بیڈ روم میں پڑی کرسی پر بیٹھی اس کی فون کالز کے دوران بھی اسی طرح ہچکیوں اور سسکیوں سے روتی رہی تھی۔ پتا نہیں اسے یہ خوف کیوں تھا کہ اس سے جھوٹ بولا جارہا تھا۔ وہ پاکستان جائے گی تو خیردین اسے زندہ نہیں ملے گا۔ شیردل کی فون کالز اور ہاسپٹل انتظامیہ کے ساتھ ہونے والی اس کی بات چیت کے باوجود۔
”سیٹ کروا دوں تمہاری؟” شیردل نے اسے خیردین کی حالت کے بارے میں بتانے کے بعد اس سے بڑی نرم آواز میں پوچھا۔ اس نے کچھ بھی کہنے کے بجائے اسی طرح سر جھکائے ٹشو سے اپنی سرخ ناک رگڑتے ہوئے سر ہلایا تھا۔ اس کا ماؤف ذہن اب آہستہ آہستہ اس شاک سے باہر آرہا تھا جو آدھی رات کو وہ فون کال سن کر اسے لگا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں موجود انٹرکام کم فون کی بیل پر ہی جاگی تھی اور چند لمحوں کے لیے اسے لگا جیسے وہ wake up call کے لیے کیا جانے والا فون تھا جو ہر روز صبح پانچ بجے اسے دی جاتی تھی لیکن پھر کال ریسیو کرتے ہی اس ریذیڈنس کی reception پر نائٹ ڈیوٹی کرنے والے نے اس کو اس کال کے بارے میں انفارم کرتے ہوئے اس کے پی اے سے اس کا رابطہ کروایا تھا جس نے بے حد گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں کسی تمہید کے بغیر اسے خیردین کے بارے میں اطلاع دی تھی اور وہ چکرا گئی تھی۔ اسے ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا اس نے PA سے کیا پوچھا اور کیا کہا تھا۔ وہ بس شاک کے عالم میں اپنے کمرے سے نکل کر شیردل کے پاس آگئی تھی جس کا کمرا اس کے کمرے سے تین کمروں کے فاصلے پر تھا۔ اس تکلیف اور سراسیمگی میں بھی اسے شیردل ہی کا خیال کیوں آیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی اور وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ اس کے لیے کیا کرے گا؟ کیا کر سکتا تھا؟
ہم زندگی میں ہمیشہ بہادر رہ تو سکتے ہیں دکھ نہیں سکتے… آزمائشیں ہمیں توڑتی ہیں… بار بار… حوصلہ ہمیں جوڑتا ہے… بار بار… لیکن شکست و ریخت کا یہ عمل چھپائے رکھنے کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی کسی ”اپنے” کے سامنے ہمیں موم کا کر دیتا ہے۔ عکس مراد علی کی زندگی میں وہ ”اپنا” بس ایک ہی شخص تھا… ایبک شیردل… اعتراف، اظہار اور اعلان کے بغیر بھی۔
دس گھنٹوں کے بعد ایک غیر ملکی ائرلائن کیIndirect flight میں اس کو سیٹ مل گئی تھی۔ اس سیٹ کے لیے شیردل نے کیا پاپڑ بیلے تھے اسے اندازہ تھا۔ یہ کام اس کے ہاتھ میں ہوتا تو کبھی نہیں ہو سکتا تھا مگر شیردل کے لیے یہ مشکل تھا ناممکن نہیں۔
پاکستان میں تمہارے اور کون سے relatives ہیں جن کو انفارم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ تمہارے پہنچنے سے پہلے تمہارے نانا کے پاس ہوں۔ شیردل نے اس کی امی کو کال کر کے اطلاع دینے سے پہلے اس سے پوچھا تھا۔
”کوئی بھی نہیں ہے۔” اس نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔ وہ حیران ہوا۔
”کوئی بھی نہیں ہے؟ میرا مطلب ہے تمہارے ماموں چچا وغیرہ۔” اسے شاید یقین نہیں آیا تھا کہ ”کسی” کا ”کوئی” بھی نہیں ہو سکتا۔
”میری امی اکلوتی اولاد ہیں میرے نانا کی۔ کوئی بہن بھائی نہیں ہے۔ نانا کے کچھ رشتے دار گاؤں میں ہیں لیکن میں انہیں انفارم کرنا نہیں چاہتی فی الحال… بس کافی ہے کہ امی کویت سے آجائیں۔” وہ تھکی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔ شیردل اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ اپنے نانا کے بہت قریب تھی اس کا اندازہ اسے اتنے سالوں میں اس کے چڑیا ہونے کی اصلیت نہ پتا ہونے کے باوجود تھا لیکن یہ اندازہ اسے کبھی نہیں تھا کہ وہ اپنے اردگرد خونی رشتوں کے قحط کا بھی شکار تھی اور شاید نانا سے اس کی اتنی closeness کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
”کسی نہ کسی کو تو ہاسپٹل ہونا چاہیے تمہاری فیملی میں سے… تمہارے پاکستان پہنچتے ہوئے بھی ایک دن گزر جائے گا… تمہاری امی سے بات نہیں ہوئی ابھی… ہو سکتا ہے وہ جلدی ٹکٹ کا انتظام کر کے واپس آسکیں لیکن بہت جلدی بھی ہو تو بھی دس بارہ گھنٹے سے پہلے نہیں ہو سکتا یہ۔” شیردل جیسے اس سے بات کرتے ہوئے اپنے ذہن میں ان تمام ممکنہ طریقوں کو بھی considerرہا تھا جن کے ذریعے وہ اس مسئلے کا حل نکال سکتا تھا اوراس کا ذہن جس حل پر آکے رکا تھا وہ اسے ذہن سے جھٹک دینا چاہتا تھا لیکن چاہتے ہوئے بھی جھٹک نہیں سکا۔
”جواد کو انفارم کر دو… وہ وہاں آجائے تو بہتر ہے۔” شیردل نے اپنے فون پر عکس کی والدہ کا نمبر ملاتے ہوئے کہا اور وہ پہلا موقع تھا جب عکس کو جواد یاد آیا۔ وہ کئی دنوں سے رابطے میں نہیں تھے۔ اس واقعے کے بعد ایک عجیب سی خلیج آگئی تھی ان کے رشتے میں۔
”زندگی میں کبھی بھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔” خیردین نے جواد کے خلاف بننے والے پولیس کیس کے بارے میں جاننے پر اس سے کہا تھاجب وہ شدید غصے اور رنجیدگی میں اس رشتے کو ختم کر دینا چاہتی تھی۔
”اس معاملے کو ختم ہونے دو… جواد کی بات سنو کہ وہ اس معاملے کے بارے میں کیا کہتا ہے اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔” خیردین نے اپنی مایوسی اور پریشانی کو چھپاتے ہوئے اس کی رنجیدگی اور اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس کی تکلیف اور مایوسی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ شادی سے چند ہفتے پہلے ہونے والے اس واقعے نے اسے شدید ذہنی اذیت تو پہنچائی ہی تھی لیکن جواد پر اس کے اعتماد کو بری طرح ٹھیس بھی پہنچائی تھی۔
”وہ کیا کہے گا نانا…؟ سچ تو کبھی نہیں بولے گا… کوئی نہ کوئی بہانہ کوئی نہ کوئی جھوٹ ہی بولے گا اس ساری سچویشن کی وضاحت کے لیے۔”
”پھر بھی موقع دو اسے وضاحت دینے کے لیے۔ جھوٹ بولے تو بھی سنو۔” وہ عجیب سی تکلیف میں ہنس پڑی تھی۔
”جھوٹ بولے تو بھی سنو… عجیب logic ہے نانا۔” اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔ خیردین کو عجیب تکلیف ہوئی تھی اس کی بات پر… وہ ڈھائی سال سے جواد سے مل رہی تھی… اس کے لیے پسندیدگی رکھتی تھی۔ جواد نے جب اسے پروپوز کیا تھا تو عکس نے امریکا سے فون کر کے اسے بڑی خوشی کے عالم میں بتایا تھا۔ وہ جواد کو ا س کے دوست کی حیثیت سے جانتا تھا۔ امریکا جانے کے بعد سے مسلسل اس سے اس کا ذکرسنتا آرہا تھا لیکن اس نئی حیثیت سے وہ اس سے پہلی بار متعارف ہوا تھا۔ جواد کی فیملی اس کی عدم موجودگی میں ہی خیردین اور حلیمہ سے اس کے رشتے کے حوالے سے ملنے آئی تھی۔ ان کی سماجی حیثیت خیردین کے خاندان سے کہیں بہتر تھی اور خیردین کو خوشی ہوئی تھی کہ وہ ایک اچھے خاندان کا حصہ بنے گی لیکن اس نے عکس کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی گفتگو میں ان کے اپنے خاندان کے لیے بہت تکبر تھا… وہ تکبر خیردین کو ہر بار دکھتا اور چبھتا تھا۔ وہ عکس کے ریفرنس سے نہ آئے ہوتے تو خیردین پہلی ملاقات کے بعد ہی ان سے معذرت کر لیتا لیکن وہ عکس کے حوالے سے آئے تھے جس کی جواد کے بارے میں رائے بہت اچھی تھی۔
”ابا اب وہ اتنے بڑے خاندان سے ہیں تو تھوڑا بہت تو غرور ہوتا ہی ہے انسان کو اپنے خاندان پر۔ اب اگر ہم ہر رشتے کو اتنی باریک بینی سے دیکھ دیکھ کر چھان پھٹک کرنے لگے تو پھر تو کہاں کوئی ڈھنگ کا رشتہ ملے گا… ویسے بھی شادی کی عمر نکلی جارہی ہے اس کی… آپ کو تو فکر ہی نہیں ہے۔” حلیمہ نے خیردین کے اعتراضات پر اس سے کہا تھا۔
”اگر ایسی بری فطرت کے لوگ ہوتے تو اپنے بیٹے کے کہنے پر بھی ہمارے جیسے خاندان میں رشتے کی بات کرنے نہ آتے۔” حلیمہ بالکل مطمئن تھی بلکہ بے حد خوش تھی عکس کے لیے ایسے خاندان سے رشتہ آنے پر۔ اس سے پہلے اس کے لیے جتنے بھی رشتے آتے رہے تھے ان میں سے کوئی بھی اتنے بڑے خاندان سے نہیں تھا۔ حلیمہ ایک عام ماں تھی جس کے لیے یہ فخر کی بات تھی کہ اس کی بیٹی اتنی لائق تھی لیکن اب اس کے لیے زیادہ مسرت کی بات یہ تھی کہ ایک اتنا بڑا خاندان اس کی بیٹی کو اپنا حصہ بنانا چاہتا تھا۔
خیردین نے حلیمہ سے بحث یا سوال جواب نہیں کیے تھے۔ حلیمہ سے اس مسئلے پر بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اس مسئلے کو بھی عکس سے ہی ڈسکس کرنا چاہتا تھا اور ا س نے یہی کیا تھا۔ کوئی حتمی فیصلہ اس نے جواد سے ملاقات ہونے تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔