ہال میں بیسٹ پروبیشنر کے لیے فخریہ انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے خیر دین کو اس شام مسز بختیار شیر دل نے کئی سال بعد پہلی بار دیکھا تھا… پہلی خاتون بیسٹ پروبیشنر کے نام کے اعلان پر ہال اسٹینڈنگ اوویشن دینے کے لیے کھڑا ہوا تھا اور وہ پہلا لمحہ تھا جب پاکستان کے بااثر اور بارسوخ لوگوں کی اس gathering میں مسز بختیار شیر دل نے فرسٹ رو میں اپنے اور اپنے شوہر سے کچھ فاصلے پر بے حدجوش و خروش سے تالیاں بجاتے ہوئے خیر دین کو دیکھا تھا۔ کئی سال گزرنے اور چہرے پر داڑھی ہونے کے باوجود مسز بختیار شیر دل نے اس cook کو پہچاننے میں چند سیکنڈز لگائے تھے جو ان کے خاندان میں ہونے والی سب سے بڑی ٹریجڈی کا ذمے دا ر تھا۔ ان کا دھیان عکس مراد علی سے ہٹ گیا تھا… کچھ دیر کے لیے وہ اس صدمے کو بھی بھول گئی تھیں جو ایک بار پھر اس ٹرافی کے شیر دل کو نہ ملنے پر انہیں ہوا تھا… کچھ دیر کے لیے ان کا ذہن جیسے بالکل blank ہوگیا تھا۔ مسئلہ صرف خیر دین کو دیکھنے کا نہیں تھا مسئلہ خیر دین کو ایک غلط gathering میں دیکھنے کا تھا۔ وہ کس پروبیشنر کی وجہ سے وہاں موجود تھا۔ یہ بھی بہت دیر تک ان سے چھپا نہیں رہا تھا۔ انہوں نے شاک کے عالم میں عکس مراد علی کو دیکھا تھا۔ یوں جیسے انہوں نے کسی بھوت کو دیکھ لیا تھا… اور یہ غلط بھی نہیں تھا وہ اپنے خاندان کے ماضی کا ایک بھوت ہی دیکھ رہی تھیں اس لڑکی شکل میں… انہیں وہ نو سالہ بچی یاد آئی تھی جس کی باتیں ان کا بیٹاquotations کی طرح دہرایا کرتا تھا ان کے سامنے اور جس کی باتیں انہیں شدید خفا کرتی تھیں کیونکہ انہیں لگتا تھا ان میں بغاوت کی بو تھی… عمر سے زیادہ کی maturity تھی… اور چیلنج تھا… وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس بچی کو ناپسند کرنے لگی تھیں جس کے ساتھ کھیلنے کے لیے ایبک شیر دل ان سے سو جھوٹ بولنے پر تیار رہتا تھا… وہ کبھی بھی چڑیا کی باتوں کو ایک بچے کی ذہانت سمجھ کر اسے داد نہیں دے سکی تھیں اوراب اسی چڑیا کے لیے وہ اسی ہال میں کھڑے تالیاں بجانے پر مجبور تھیں اس کے باوجود کہ اس نے وہ ٹرافی ان کے خاندان سے چھینی تھی جیسے شیرکے منہ سے نوالہ چھین لیا ہو اور اس کے باوجود کہ وہ اس لڑکی کی وجہ سے اپنے عزیز ترین اثاثے اپنے بھائی سے محروم ہوئی تھیں۔
اسی خالی ذہن اور بے تاثر چہرے کے ساتھ انہوں نے تقریب کے بعد ہونے والے ڈنر کو اٹینڈ کیا تھا۔ شیر دل نے ماں کے اکھڑے ہوئے موڈ کو محسوس کرلیا تھا اور اس کا خیال تھا یہ اس کے ٹرافی نہ جیتنے کی وجہ سے تھا۔ڈنر کے دوران تمام کامنرز کے والدین ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔شیر دل نے بھی بختیار اور ماں کو عکس اور اس کے نانا سے ملوانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے صاف انکار کردیا تھا… بے حد کورا انکار۔ شیر دل نے ان کے لہجے کی ا س رکھائی اور انکار کو بھی عکس مراد علی کو ملنے والی ٹرافی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ماں زندگی میں پہلی بار کسی سوشل گیدرنگ میں اس طرح ری ایکٹ کررہی تھی کہ شیر دل کو اسے سمجھنا مشکل ہورہا تھا۔ بختیار شیر دل اپنی بیوی کے انکار کے باوجود شیر دل کے ساتھ بڑی خوش دلی سے عکس اور اس کے نانا سے ملے تھے۔ خیر دین اور ان کا کبھی پہلے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے چند منٹ خیر دین کو عکس مراد علی کی کامیابی کی مبارک باد دی،عکس کے ساتھ گپ شپ کی اور پھر شیر دل کے ساتھ ہی واپس آگئے۔
”اچھی لڑکی ہے۔” شیر دل کی ممی نے بختیار شیرد ل کو عکس سے مل کر واپس آنے پر اس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سنا تھا۔ انہوں نے شوہر کے اس تبصرے کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ شیر دل سے عکس مراد علی کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہتی تھیں۔ انہیں اندازہ تھا CTP میں ایبک شیر دل کی عکس کے علاوہ کسی اور سے دوستی نہیں تھی۔ بعض دفعہ انہیں شیر دل عکس سے ضرورت سے زیادہ متاثر محسوس ہوتا لیکن انہوں نے کبھی اس چیز پر زیادہ غورخوض نہیں کیا تھا کیونکہ عکس مراد علی ایبک شیر دل کی پہلی دوست نہیں تھی۔
وہ اس رات تقریب سے واپس چلے آنے پر گھر میں بھی بہت اپ سیٹ رہی تھیں اور بختیار نے ان کی اس پریشانی کے بارے میں سب سے پہلے تبصرہ کیا تھا۔
”آپ اب اس ٹرافی کو ذہن سے نکال دیںit went to the better officer بختیار شیر دل نے انہیں بڑی صاف گوئی سے کہا تھا۔ وہ بھی اپنی بیوی کی اس خاموشی کو اس ٹرافی کے کھودینے کا رد عمل سمجھے تھے لیکن انہیں حیرت تھی کہ ان کی بیوی اس ایک ٹرافی کو اتنا سیریسلی کیوں لے رہی تھیں۔
”سول سروس میں بھی اب پتا نہیں کیسے کیسے لوگ آنے لگے ہیں۔” بختیار نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنی بیوی کو عجیب سا تبصرہ کرتے سنا۔ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے کچھ حیرانی سے انہیں دیکھا تھا۔
”سول سروس میں ہمیشہ سے ہی پتا نہیں کیسے کیسے لوگ آتے رہتے ہیں۔ ویسے تمہارا اشارہ کس طرف ہے؟” انہوں نے خوش دلی سے بات کرتے ہوئے اپنی بیوی کے تبصرے کو lightly لیا ۔ ان کی بیوی کبھی بھی اس طرح کی باتیں اور تبصرے کرنے کی عادی نہیں تھیں جیسا تبصرہ انہوں نے اس وقت ان سے سنا تھا۔
Generally “بات کررہی ہوں کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہیں ہے میرا۔”انہوں نے شوہر کی بات پر انہوں نے ایک دم کچھ سنبھل کر کہا تھا۔
”ویسے آپ عکس مراد علی کی تعریف کس حوالے سے کررہے تھے؟” انہوں نے بات کرتے کرتے بات کا موضوع بدلا۔
”بہت قابل آفیسر ہے اور بہت گرومڈ… اچھا لگا مجھے اس سے مل کر۔”بختیار نے کہا۔
”فیملی بیک گراؤنڈ کوئی اتنا اچھا نہیں ہے اس کا۔”شیر دل کی ممی نے بے ساختہ ان سے کہا۔”ماں نے دوسری شادی کی ہوئی ہے مڈل ایسٹ میں کہیں ہے وہ سوتیلے باپ اور فیملی کے ساتھ… اور نانا دال کی کوئی دکان چلاتا ہے۔ خیر دین کی دال کا سنا ہوگا آپ نے ۔”بختیار کو بیوی کا انداز آج حیران کررہا تھا۔ ان کے لہجے میں پہلی بار وہ اس طرح کی تضحیک محسوس کررہے تھے اور انہیں وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ کیا صرف وہ جیلسی جو ایک ماں اس لیے محسوس کرتی ہے کیونکہ اس کے بیٹے کا حق سمجھی جانے والی چیز کسی اور نے چھین لی تھی… چاہے قابلیت کے بل پر درست طریقے سے ہی سہی لیکن تھوڑی بہت خفگی اور جیلسی بہت نیچرل بات تھی اس صورت حال میں۔
”ہاں میں نے سنا ہے خیر دین کی دال کے بارے میں ۔پہلے بھی میں نے سنا تھا اس حوالے سے کسی سینئر آفیسر سے… لیکن مجھے اس آدمی سے ملتے ہوئے بہت اچھا لگا۔ وہ بات چیت سے رکھ رکھاؤ سے بالکل مزدور نہیں لگ رہا تھا بلکہ مجھے کافی پڑھا لکھا لگا… تمہیں بھی ملنا چاہیے تھے اس سے جب شیر دل کہہ رہا تھا۔” بختیار نے بات کو تھوڑا سا بدل دیا تھا۔
”مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ ” انہوں نے کہہ کر بات کا موضوع ایک بار پھر بدل دیا تھا۔ لیکن اب ایک عجیب سی بے چینی انہیں ہورہی تھی۔ شیر دل نے ان سے ذکر نہیں کیا تھا لیکن کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ وہ خیر دین کو اس پوسٹنگ کے حوالے سے اور عکس کو چڑیا کے حوالے سے جانتا تھا اور وہ ان سے چھپارہا تھا۔ انہیں یاد تھا وہ ماں کی چڑیا کے لیے ناپسندیدگی جاننے کے بعد ماں سے چڑیا کے بارے میں بہت کچھ چھپا نے لگا تھا۔ مسز بختیار شیر دل کو ایک عجیب سا اضطراب ہوا تھا۔ایسا بھی ہوسکتا تھا یہ ناممکن تو نہیں تھا۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اس کی عکس مراد علی سے اتنی دوستی ہو اور عکس مراد علی اور خیر دین اس کا نام اور خاندان کے بارے میں جاننے کے بعد یہ نہ جان پائیں کہ وہ کون تھا… اور اگر انہوں نے بالفرض شیر دل کو نہیں پہچانا تھا تو شیر دل تو ان دونوں کو پہچان سکتا تھا… یا پہنچانتا تھا اور ان سے چھپا رہا تھا اور چھپا رہاتھا تو یہ بہت خوفناک بات تھی۔ اس رات وہ اپنے بستر پر کروٹیں لیتی رہیں انہیں نیند نہیں آئی۔ وجوہات بہت ساری تھیں انہیں شہباز حسین یاد آیا تھا… ان کاجان سے پیارا اکلوتا چھوٹا بھائی… جس کی موت کے ساتھ ہی اس کاخاندان ختم ہوگیا تھا۔ منزہ کی زندگی کا سب سے بڑا taruma یہی تھا۔ وہ شرمین کو شہباز کی خود کشی کا ذمے دار سمجھتی تھیں اور آج خیر دین اور عکس کو دیکھنے پر یک دم انہیںیوں لگا تھا جیسے شہباز کی موت کی وجہ وہ دونوں تھے… وہ ایک پھانس تھی جو ان کے دل سے نکلتی ہی نہیں تھی۔ انہوں نے اگلے ہی دن شیر دل سے عکس مراد علی کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود اسے خیر دین کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں بتا کر بات شروع کریں لیکن وہ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ شیر دل ان کے بارے میں کیا جانتا تھا اور کیا نہیں۔
”پتا نہیں میری کبھی اس معاملے پر اس سے تفصیلی بات نہیں ہوئی۔ اس کے نانا کی تو دال کی ایک بڑی مشہور دکان ہے میں نے آپ کو بتایا تھا۔” شیر دل نے کہنا شروع کیا۔
”اورجو اس کے سوتیلے والد ہیں وہ… ”منزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔”اس کے نانا دال کی دکان کھولنے سے پہلے کیا کرتے تھے؟” شیر دل ماں کی بات پر ہنس دیا۔
”ممی ان کا بزنس ہے یہ اور بہت established ہے یہ…یہی کرتے ہوں گے وہ ہمیشہ سے…” اس نے بے پروائی سے کہا تھا۔منزہ اس کا چہرہ بڑے غور سے دیکھتی رہیں یوں جیسے یہ جانچنے کی کوشش کررہی ہوں کہ وہ ان سے کچھ چھپانے کی کوشش تو نہیں کررہا تھا لیکن شیر دل کے چہرے پر ایسا کوئی تاثر نہیں تھا جس سے انہیں یہ وہم ہوتا کہ وہ ایسا کچھ کررہا تھا۔
”زیادہ اچھا فیملی بیک گراؤنڈ نہیں ہے اس کا۔” منزہ نے بالآخر کہنا شروع کیا۔”ویسے تم تو اس کے نانا سے اکثر ملتے رہتے ہوگے۔”منزہ نے بات شروع کر کے یک دم کہا۔
”نہیں اکثر تو نہیں لیکن ہاں ان سے مل چکا ہوں چند بار پہلے بھی… کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ کے دوران آؤٹ آف سٹی جاتے ہوئے دال کھانے لے جاتے تھے میرے دوست وہاں… یہ تو مجھے بعد میں پتا چلا کہ عکس کے نانا ہیں وہ… اچھے آدمی ہیں ویسے…” شیر دل نے بے پروائی سے تبصرہ کیا تھا۔
”خاندان بڑا matter کرتا ہے۔”منزہ نے یہ بات اس ساری گفتگو کے جوا ب میں کیوں کہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ نہ اس کی سمجھ میں آیا… نہ شیر دل کی سمجھ میں… لیکن وہ خیر دین اور عکس کے بیک گراؤنڈ کے حوالے سے منزہ کی باتیں سنتا رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے وہ منزہ کی بہت سی باتوں سے متفق تھا۔
اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے کے ایک سال بعد منزہ کے سامنے شادی کے تذکرے پر سرسری انداز میں عکس کا نام لینے پر اس نے ماں سے دوبارہ وہی لیکچر سنا تھا اور اس وقت اسے احساس ہوا س کی ماں بہت پہلے اس خطرے کو بھانپ چکی تھی،نہ بھانپ چکی ہوتی تو اسے ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنے خاندانی ہونے اور خاندانی رہنے کی اہمیت کو جتا نہ چکی ہوتی۔ وہ ماں سے زیادہ بحث نہیں کرسکتا تھا ۔کہیں نہ کہیں لاشعوری طور پر وہ بھی طبقاتی فرق اور اچھے بیک گراؤنڈ کی اہمیت پر یقین رکھتا تھا اور کہیں نہ کہیں وہ بھی عکس مراد علی سے شادی کرنے کی شدید خواہش کے باوجود اس ایک معاملے کی وجہ سے ہچکچا تا تھا ۔وہ ہلکا پھلکا پروپوزل جو اس نے بظاہر غیر سنجیدگی سے عکس کو دیا تھا اس نے تھینک یو ویری مچ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا… اسے عکس کی طرف سے کسی دلچسپی کا اظہار ملا ہوتا تو وہ ماں کی ان باتوں پر کسی نہ کسی حد تک عکس کا دفاع کرتا… بالکل اسی طرح جس طرح اس نے عکس کو دوسری بار پروپوزکرنے کے وقت منزہ سے اس معاملے پر شدید بحث کی تھی… وہ کم سے کم دوسری بار عکس سے شادی کرنے میں اس کے خاندانی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے متامل نہیں تھا ،نہ ہی وہ ماں کو اس بات کے لیے blame کرتا تھا کہ عکس سے اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ وہ بنی تھیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر عکس راضی ہو جائے تو وہ ماں کو منالیتا… شیر دل کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ وہ بختیار شیر دل کو منا سکتا تھا۔ وہ منزہ بختیار کو کبھی راضی نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ یہاں مسئلہ خاندانی بیک گراؤنڈ نہیں تھا،یہاں مسئلہ شہباز حسین تھا۔
……٭……
شرمین شہباز حسین کو کبھی نہیں بھول سکی تھی بالکل اسی طرح جیسے شہباز حسین اس کی زندگی سے نکل جانے کو کبھی بھول کرنا رمل نہیں ہوسکا تھا۔ ان دونوں کی کم عمری میں شادی ہوئی تھی۔ شہباز ان دنوں امریکا میں اپنی ڈگری کررہا تھا جب وہاں کسی فیملی فرینڈز کے ہاں اس کی شرمین سے پہلی ملاقات ہوئی اور تیسری ملاقات میں اس نے شرمین کو پروپوز کردیا تھا۔ وہ اس وقت 17 سال کی تھی شہباز 22 سال کا تھا۔دونوں بہت اچھی فیملیز سے تعلق رکھتے تھے اور شکل و صورت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔
”ان کی شادی پرفیکٹ میچ تھا۔آئیڈیل کپل… love birdsشہباز تھوڑاtemperamental تھا لیکن شرمین کے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ وہ اس سے اتنی محبت کرتا تھا کہ کبھی غصہ کر بھی لیتا تو بھی اسے خود ہی منایا کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھار ڈرنک کرتا تھا لیکن شرمین اس کی اس عادت سے بھی شادی سے پہلے ہی واقف تھی۔ اس کا اپنا فیملی سیٹ اپ بھی اتنا لبرل تھا کہ کبھی کبھار کی شراب نوشی اس میں معیوب بات نہیں تھی۔ شہباز حسین میں اور کوئی خامی نہیں تھی کم از کم تب تک شرمین ایسا کچھ اس میں دیکھ نہیں پائی تھی جس پر اسے کبھی پریشانی یا تشویش ہوتی۔ شادی کے بعد وہ سول سروس میں آیا تھا اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح اور شرمین پاکستان شفٹ نہ ہونے کی خواہش رکھنے کے باوجود اس کی محبت میں اس کے ساتھ پاکستان چلی آئی تھی۔ اسے وہاں آکر ایڈجسٹ ہونے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی تھی۔ شہباز کی صرف ایک بہن تھی اور وہ بھی میرڈ تھی لیکن اس کی extended family کافی زیادہ تھی۔ شرمین کو اس کی فیملی میں بڑی گرم جوشی سے لیا گیا تھا۔
شادی کے دس سال بہت آرام سے گزرے تھے۔ شادی کے شروع کے چند سالوں میں اوپر نیچے کے تین چار miscarriages کے بعد شہباز شرمین کے بارے میں ضرورت سے زیادہ پروٹیکٹو ہوگیا تھا۔ شہر بانوکی پیدائش کے بعد اس نے شرمین سے کہہ دیا تھا کہ اسے مزید بچوں کی ضرورت اور خواہش نہیں تھی۔ شرمین خود بھی زیادہ اولاد میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ ان کی زندگی میں آنے ولا واحد طوفان خیر دین اور چڑیا کی وجہ سے آیا تھا اور وہ پہلا طوفان ہی ان کے رشتے کی جڑیں اکھاڑ گیا تھا۔
سسٹر ایگنس سے شرمین کی کئی سالوں کے بعد لاہور کانونٹ میں ملاقات ہوئی تھی۔ شہباز کی اگلی پوسٹنگ بہت عرصے کے بعد واپس لاہور میں ہوئی تھی۔ شہر بانو تب آٹھ سال کی تھی۔سسٹر ایگنس لاہور کا نونٹ میں تھیں لیکن اس بار وہ وہاں پرنسپل کے طور پر نہیں تھیں۔ شرمین سے ان کی ملاقات اتفاقی ہوئی تھی۔ شرمین خود بھی لاہور کانونٹ میں بہت بچپن میں چند سال زیر تعلیم رہی تھی۔ سسٹر ایگنس کے ساتھ کچھ سال پہلے ہونے والے تلخ تجربے کے باوجود شرمین ان سے بہت گرم جوشی سے ملی تھی لیکن سسٹر ایگنس اس سے تب بھی کھنچی کھنچی ہی رہی تھیں۔ ان کے رویے نے شرمین کو ایک بار پھر چند سال پہلے ہونے والے اس واقعے کے حوالے سے تجسس کا شکا ر کردیاتھا۔اس نے اس بار شہباز حسین کو سسٹر ایگنس کے بارے میں بتانے کی حماقت نہیں کی تھی۔ وہ ایک بار پھر سے شہر بانو کی ا سکولنگ کے حوالے سے شہباز حسین کے رویے میں کوئی افراتفری دیکھنا نہیں چاہتی تھی لیکن اس بار اس نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ سسٹر ایگنس سے ان کے اور شہباز حسین کے درمیان ہونے والے تنازع کی اصل وجہ جاننے کے لیے ضرور کوشش کرے گی اور اگر ممکن ہوا تو وہ اس تنازع کو حل بھی کرادے گی۔
وہ سسٹر ایگنس سے اس تنازع کی وجہ جاننے پر اتنا اصرار نہ کرتیں تو سسٹر ایگنس چڑیا اور خیر دین کے ساتھ ہونے والے واقعات کبھی شرمین کے ساتھ شیئر نہ کرتیں۔ سسٹر ایگنس سے سب کچھ سننے کے بعد شرمین اگلے کئی منٹ بے یقینی کے عالم میں سسٹر ایگنس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اسے لگا سسٹر ایگنس کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔
”یہ شہباز نے کیا؟” اس نے شاک میں پوچھا تھا۔ سسٹر ایگنس تائید میں سر ہلاتے ہوئے اسے کچھ اور تفصیلا ت بتانے لگی تھیں۔
شرمین سرد ہاتھوں پیروں کے ساتھ پلکیں جھپکائے بغیر سسٹر ایگنس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔اس کا دماغ گھومنے لگاتھا۔ وہ شہباز حسین پر کیسا گھناؤنا الزام لگارہی تھیں۔ شہباز ایسا کس طرح ہوسکتا تھا۔ اس نے اتنے سالوں میں اپنے شوہر میں معمولی سی بھی اخلاقی بے راہ روی نہیں دیکھی تھی اور سسٹر ایگنس کہہ رہی تھیں وہ… شرمین آگے کچھ سوچ نہیں پارہی تھی۔ اس کا دل کسی بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس کا دماغ اس واقعے کے بعد شہباز کی طرف سے بولے جانے والے تمام جھوٹوں کو جیسے کسی flashback کی طرح ایک کے بعد ایک اس کے دماغ کی اسکرین پر لاتا جارہا تھا۔ عجیب جنگ تھی جو اس کے دل ودماغ میں ہورہی تھی۔ وہ سسٹر ایگنس کے پاس سے ایک لفظ بھی کہے بغیر اٹھ کر باہر آگئی تھی۔ باہر آکر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اسے یاد آیا اسے شہر بانو کو اسکول سے لینا تھا۔ عجیب خالی الذہنی کے عالم میں اس نے شہر بانو کو اسکول سے نکلتے ہوئے بچوں میں ڈھونڈنا شروع کیا تھا اور جو ڈھونڈتی ہی چلی گئی تھی لیکن شہر بانو تو ملنے پر نہیں آرہی تھی اور تب اس پر یہ خوفناک انکشاف ہوا تھا کہ وہ تو شہر بانو کی شکل ہی بھول گئی تھی۔ ذہن پر بہت زور ڈالنے کے باجود اسے اپنی اکلوتی بیٹی کی شکل یاد نہیں آرہی تھی۔ اس نے عجیب خوف کے عالم میں اپنے پرس میں پڑے والٹ میں سے شہر بانو کی تصویر نکال کر جیسے خود کو اپنی بیٹی کا چہرہ یاد دلانے کی کوشش کی تھی اور پھر دوبارہ سر اٹھا کر بچوں کے اس ہجوم میں شہر بانو کا چہرہ تلاش کیا تھا۔ ایک بار پھر شہر بانو کا چہرہ اس کے ذہن کی اسکرین سے صاف ہوگیا تھا۔ وہاں ایک اور چہرہ ابھر آیا تھا… اس نو سالہ چڑیا کا چہرہ… وہاں ہر بچے کا چہرہ ایک دم چڑیا کا چہرہ بن گیا تھا۔ اس کے سامنے درجنوں چڑیائیں ادھر سے ادھر جارہی تھیں۔ وہ کسی بت کی طرح بے حد خوف کے عالم میں پرس ہاتھ میں پکڑے ان بچوں کے ہجوم میں کھڑی تھی… ایک لمحے کو لگا تھا اس کا ذہنی توازن خراب ہوگیا تھا ورنہ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ اپنی ہی اولادکو نہ پہچان سکے… ماں ہو کے وہ اپنی اولاد کو نہ پہچان سکے… اور تبھی کوئی یک دم اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا تھا۔ شرمین نے چونک کر اسے دیکھا۔
”ممی…” اسے شہر بانو کی کھلکھلاتی ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ اپنی پشت پر بیگ لٹکائے ماں کے پاس آچکی تھی۔
”پتا نہیں شرمین کو کیا ہوا تھا وہ بے اختیار وہیں کھڑے کھڑے پنجوں کے بل بیٹھ گئی تھی۔ شہر بانو کو ساتھ لپٹاتے ہوئے وہ اسکول گیٹ کے پاس بچوں اور ان کی پیرنٹس کے ہجوم میں دہاڑیں مار مار کر روئی تھی اس بات کی پرواکیے بغیر کہ وہاں سے گزرنے والے بہت سے بچوں کے پیرنٹس اسے شہباز حسین کی بیوی کے طور پر جانتے تھے… اور وہ اپنی بچی کوemmbarrasکررہی تھی۔ شہر بانو عجیب دہشت زدہ ہو کر ماں کواس طرح روتا دیکھتی رہی تھی۔ اس کا ذہن کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا۔
شرمین اس دن اسکول سے گھر تک اسی طرح روتے ہوئے آئی تھی۔ وہ جگسا پزل جو وہ کئی سال پہلے صرف ایک پیس نہ ملنے کی وجہ سے حل نہیں ہوا تھا۔ وہ آج حل ہوگیا تھا۔ وہ گمشدہ پیس مل گیا تھا… لیکن اسے حل نہیں ہونا چاہیے تھا وہ بہت غلط وقت پر حل ہوا تھا۔ وہ کئی سالوں بعد ایک دوسرے بچے کے لیے کوشش کررہے تھے اور شرمین کو چند دن پہلے اپنی پریگنینسی کا پتا چلا تھا۔ وہ اور شہباز بہت خوش تھے اور اس ساری خوشی کے درمیان اسے اپنی زندگی کے سب سے بڑے کرائسس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس دن شرمین نے گھر جا کر شہباز سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ اس بار خیر دین اور چڑیا سے ملے گی… کسی بھی طرح کچھ بھی کرکے… اور وہ خیر دین سے ملنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
زندگی میں بہت دفعہ شرمین کو اس ایک ملاقات کا رنج رہا۔ وہ خیر دین سے نہ ملتی تو اس کا گھر بچا رہ سکتا تھا… شہباز حسین زندہ رہ سکتا تھا ۔اسے پاکستان چھوڑ کر نہ آنا پڑتا۔
……٭……
”تم واپس کب آرہی ہو؟” شہر بانو نے مسکراتے ہوئے منزہ کا سوال سنا اور پھر ہنس دی۔
”ممی لگتا ہے آپ اس بار مجھے شیر دل سے بھی زیادہ مس کررہی ہیں۔” منزہ جواب میں مسکرانہیں سکی تھیں۔
”شیر دل تو جب سے سنگا پور کورس کے لیے گیا ہے اسے سب بھول گیا ہے ممی… ” شہر بانو نے منزہ کے موڈ کا اندازہ لگائے بغیر مسکراتے ہوئے اس سے شیر دل کی شکایت کی۔
”شہر بانو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔” منزہ نے یک دم اسے ٹوک دیا۔ اس وقت پہلی بار شہر بانو نے اپنی ساس کے لہجے کا اضطراب نوٹس کیا۔
”کیا ہوا ممی؟ خیریت تو ہے؟”وہ بھی سنجیدہ ہوگئی تھی۔