اگلے کئی دن خیر دین اس زمین کا دوبارہ مالک بن جانے کے باوجود بھی ایک عجیب سے ملال میں رہا۔ گاؤں سے واپس آجانے کے بعد کئی ہفتے اس کے خاندان میں سے کسی نے اس کے ساتھ پہلے کی طرح گپ شپ لگانے کے لیے فون پر رابطہ نہیں کیا تھا، نہ ہی کسی نے شہر آکر اس سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ خیر دین عکس سے بار بار اس بات کی شکایت کرتا رہا اور وہ بڑے اطمینان سے ہر شکایت پر اس سے کہتی رہی ۔”نانا وہ آئیں گے… آپ دیکھ لیجیے گا۔” اور اس کی یہ بات بالکل ٹھیک ثابت ہوئی تھی۔ اس واقعے کے پورے ایک مہینے کے بعد گاؤں سے اس کے بھائی نے اسے پہلی کال کی تھی۔ خیر دین کا خیال تھا کہ وہ اس سے لمبے گلے شکوے کریں گے اس واقعے کے حوالے سے لیکن خلاف توقع ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے تھے پھر انہوں نے اسے اپنی ایک پوتی کی شادی میں دعوت دی تھی اور جب خیر دین نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے یہ دعوت قبول کرلی تھی تو انہوں نے ساتھ ہی اس بچی کی شادی کی تیاریوں کے لیے کچھ رقم بھی مانگ لی۔ خیر دین کو اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا ،اس نے بڑی خوشی خوشی اپنے بھائی سے اس کی پوتی کی شادی کے لیے رقم بھیجنے کا وعدہ کرلیا تھا۔ اپنے بھائی سے فون پر بات ختم کرتے ہی خیر دین نے بڑے جوش وخروش کے عالم میں عکس کو فون کیا تھا۔
”تم بالکل ٹھیک کہتی تھیں چڑیا، وہ واقعی اب ہمیں نہیں چھوڑ سکتے۔” خیر دین نے ساری تفصیلات چڑیا کو بتانے کے بعد جیسے اس کےJudgement پر اسے داد دی لیکن تمام تفصیلات میں سے اس نے اپنے بھائی کو دیا جانے والا رقم کا وعدہ چھپا لیا تھا۔
”نانا انہوں نے آپ سے شادی کے لیے کتنی رقم کا مطالبہ کیا ہے اور آپ نے کتنی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے؟” عکس نے خیر دین کی داد پر فخر محسوس کرنے کے بجائے بڑے اطمینان کے عالم میں اپنی اسی میٹھی اور ملائم آواز میں اگلوانے والے انداز میں خیر دین سے پوچھا۔ خیر دین جواباً ہنسنے لگا۔
”چڑیا تم اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہو۔” خیر دین کی بات پر وہ ہنس دی۔
”چڑیا کے نہیں نانا صرف کوؤں کے۔” اس نے جواباً خیر دین کو کہا تھا لیکن خیر دین سے یہ جاننے پر اصرار نہیں کیا تھا کہ وہ اس شادی میں کیا Contribute کرنا چاہتا تھا۔ خیر دین کے خاندان سے زمین چھین لینے کے باوجود وہ اس خاندان کے مسائل سے واقف تھی۔ مالی طور پر وہ بہت کمزور سماجی حیثیت رکھتے تھے اور پہلے خیر دین اور اب عکس کا نام وہ واحد سہارا تھا جو ان کی عزت نفس اور ساکھ کو سنبھالے ہوئے تھا اور وہ گاؤں کے کمی کمین نہیں کہلاتے تھے۔ عکس کو اندازہ تھا کہ خیر دین کی مالی معاونت کے بغیر وہ عزت سے اپنی کسی بچی کو نہیں بیاہ سکتے تھے اور اسے اس مالی امداد پر اعتراض نہیں تھا۔
خیر دین گاؤں میں شادی میں شرکت کرنے کچھ جھجکتا ہوا پہنچا تھا لیکن اسے وہاں یہ دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی تھی کہ گاؤں اور خاندان میں اس کا استقبال پہلے سے بھی زیادہ گرم جوشی اور مرعوبیت سے کیا گیا تھا۔ اسے عکس کی بات یاد آئی تھی اس نے کہا تھا۔”نانا اپنا حق لینے کے قابل ہونے کے بعد گاؤں میں آپ کا زیادہ احترام ہوگا۔” اس نے شادی میں شرکت کرنے کے بعد واپس شہر جا کر عکس کو یہ بات بتائی تھی ۔
”تم ٹھیک کہتی تھیں چڑیا… ” خیر دین نے اس جملے سے اپنی بات کا آغاز کیا اور تب اچانک اسے احساس ہوا کہ اب وہ اکثر عکس سے اپنی بات چیت کا اغاز اسی اعترافی جملے سے کرنے لگا تھا… وہ بے اختیار مسکرادیا تھا۔
”نانا آپ کچھ کہہ رہے تھے؟” عکس نے اسے بات شروع کر کے پھر خاموش ہوتے دیکھ کر پوچھا۔خیر دین نے بے پناہ شفقت سے خود پر جمی ان گہری چمکتی آنکھوں کو دیکھا… اپنی چڑیا کی آنکھوں کو… پھر اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔
” تم ٹھیک کہتی تھیں چڑیا اپنا حق لینے کے لیے جد وجہد کرنی چاہیے اور اپنا حق لینا کوئی جرم نہیں ہے۔” عکس خیر دین کی بات پر مسکرادی۔
”یہ میں نہیں کہتی تھی نانا … یہ ساری عمر آپ کہتے رہے۔” اس نے جیسے خیر دین کو یاد دلایا۔ وہ ہولے سے ہنسا تھا۔ عکس نے خیر دین کا ہاتھ بڑی نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔”نانا میں اپنی authority کا استعمال بے مقصد انتقام لینے کے لیے کبھی نہیں کروں گی لیکن میں جس چیز کو اپنا حق سمجھتی ہوں اسے حاصل کرنے کے لیے میں سب کچھ کروں گی۔”
خیر دین کو اندازہ نہیں ہوا وہ اسے اپنے اگلے کام کے لیے انفارم کررہی تھی۔ اس نے سر جھکا کر عکس کے اس ہاتھ کو دیکھا جس میں اس نے خیر دین کے ہاتھ کو لیا ہوا تھا۔ مخروطی انگلیوں والا بہت نرم ہاتھ جو کبھی بہت چھوٹا سا تھا اور خیر دین نے اسے قلم تھما کر اس کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر اسے لکھنا سکھایا تھا… ٹیڑھی میڑھی لکیریں… آڑے ترچھے حرف… ٹوٹے پھوٹے لفظ… اور پھر اپنا نام… عکس مراد علی… اور اب جب وہ ہاتھ کاغذ پر اپنا نام لکھا کرتا تھا تو وہ حکومتی فرمان ہوتا تھا…اس ہاتھ میں بہت طاقت تھی اور اس قلم میں اس سے زیادہ… جس سے وہ اپنے علم سے دنیا کو متعارف اور متاثر کیا کرتی تھی… وہ اس ننھی سی بچی کے ہاتھ میں قلم کے بجائے جھاڑو پکڑانے پر اصرار کرتا تو وہ بھی وہی ہوتی اور وہی بنتی جو اس کے گاؤں اور خاندان کی ساری لڑکیاں بنتی تھیں… بے شناخت وجود… جن کے پاس انگوٹھا ہوتا تھا دستخط نہیں…
بے شک تعلیم نصیب بدل دیتی ہے اور راستہ بھی… زندگی کا بدل جانا تو پھر مقدر ہوجاتا ہے ۔خیر دین نے نم آنکھوں کے ساتھ اس ہاتھ کو چوما جسے ایک ننھی بھنچی ہوئی مٹھی سے آسمان تک پھیلے ہوئے پنجے تک اس نے اپنے خون سے سینچا تھا۔
……٭……
ایبک شیر دل کے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں اس کا ہاتھ برف کا ہوگیا ہوگا… چند لمحوں کے لیے اسے ایسا ہی لگا تھا… اگر وہ ہاتھ برف کا نہیں ہوا تھا تو پھر وہ خود ضرور کچھ دیر کے لیے فریز ہوئی تھی… وہ اس کا سانس… اس کے دل کی دھڑکن …کائنات کی گردش اور آس پاس کا شور… آوازیں… سب کچھ سب ہی کچھ… چند سکینڈز… چند منٹ… وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے پھر وہ پگھلی… پہلی آواز شاید دل کی تھی… دوسری سانس کی… پھرسب کچھ ایک جھٹکے سے چلنے لگا تھا… بالکل پہلے کی طرح… جاتی ہوئی سانس اور اوسان ایک ہی وقت میں لوٹے تھے۔
عکس نے اسی نرمی اور سہولت سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکال لیا تھا جس طرح اس نے ا س کا ہاتھ پکڑا تھا پھر اس نے نظریں چرا ئی تھیں۔ اس نے اور ایبک شیردل نے ایک ساتھ …پھر وہ دونوں سیدھا ہو کر بیٹھ گئے تھے اب وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ رہے تھے ایک دوسرے کے بالمقابل نہیں تھے صرف ساتھ بیٹھے ہوئے تھے… قریب ،برابر لیکن اجنبی…
”تو چڑیا اسے یاد ہے۔” عکس نے سوچا تھا اور درد کی عجیب سی لہر اٹھی تھی۔ یہ خالی نام تھوڑی تھا جو اس کی یاد داشت میں ابھرا ہوگا۔ وہ اس سے آگے کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی، کچھ بھی نہیں۔ اسے اندازہ نہیں تھا نوٹس اتنی جلدی شیر دل کی فیملی تک پہنچ گیا ہوگا اس کا خیال تھا ابھی ایک دو دن اور لگیں گے تب تک شیر دل سنگا پور پہنچ چکا ہوگا جو کچھ ہوگا اس کے بعد ہوگا، اندازے کی ایک معمولی سی غلطی ہوگئی تھی۔
اس کے برابر یوں بیٹھے ہوئے اس نے سوچا آخری بار وہ کب اس طرح مجرمانہ سی حالت میںیوں برابر خاموش بیٹھے رہے تھے… اسے یاد آگیا۔ جب ایبک اپنی ممی کے کہنے پر اس کے ساتھ کھیلنا چھوڑنے پر نادم ہو کر اس کے پاس واپس آیا تھا اور وہ اس کے اصرار پر اس کے پاس آگئی تھی۔ اس دن بھی وہ برآمدے کی سیڑھیوں میں یونہی چپ چاپ بیٹھے رہے تھے… ایبک ریکٹ کی string کو نادم انداز میں ٹھیک کرتا رہا تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس سے کیا کہے لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے رہے تھے ۔خاموشی اور تحمل سے…کسی بات کے آغاز کا انتظار کرتے کرتے…
”تم نے کبھی چیری کھائی ہے؟”تب بہت دیر بعد ایبک نے گفتگو کا آغاز اسی طرح کیا تھا۔
”ہاں۔” چڑیا نے تحمل سے جواب دیاتھا۔ ایک بچے کے طور پر بھی اسے احساس تھا وہ بے تکا سوال تھا اور اس کا آم کے سیزن میں کرنے کا کوئی مقصد نہیں تھا جب ایبک ہر روز آم کھانے بیٹھا ہوتا تھا۔
”کبھی اسٹرابری کھائی ہے؟” اگلا سوال بھی ویسا ہی بے تکا تھا۔
”ہاں۔” چڑیا نے ایک بار پھر وہی تحمل دکھایا تھا۔
”بلیوبیری کھائی ہے؟” ایک اور سوال ۔
”نہیں، اس بار چڑیا نے کہا تھا۔
”وہ بہت مزے کی ہوتی ہے۔” اس بار جواب آیا تھا۔ چڑیا اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی۔ ایبک کو اس کی نظروں سے جیسے مزید شرمندگی ہوئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر ٹینس ریکٹ کی string ٹھیک کرنی شروع کردی تھی۔ آج بھی ویسی ہی مشکل آن پڑی تھی اس خاموشی کو توڑنے میں۔
فلائٹ اناؤنس ہونے لگی تھی۔ ان دونوں نے بیک وقت اپنے باقی ساتھیوں کو دیکھا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ان کے درمیان چند منٹ پہلے کیا ہوا تھا شاید کسی نے نہیں دیکھا تھا۔کوئی دیکھ بھی لیتا تو شیر دل کو اس کی پروا نہیں تھی۔ وہ سب اپنے اپنے بیگز اٹھاتے ہوئے بورڈنگ پاس ہاتھ میں لیے جہاز میں سوار ہونے کے لیے اٹھ رہے تھے… وہ اور شیر دل بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے ایک دوسرے سے کچھ کہے بغیر۔
جہاز میں ان کی سیٹس ساتھ نہیں تھیں اور یہ عجیب طمانیت بخش شے تھی جیسے ان دونوں کے لیے… وہ ساتھ بیٹھ کر اتنا لمبا سفر خاموشی سے ایک دوسرے کے سامنے ٹوٹ جانے کے بغیر کیسے طے کرتے ۔وہ دونوں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔
کراچی ائر پورٹ پر ایک بار پھر وہ جیسے میکانیکی انداز میں ایک دوسرے کے پاس آکر بیٹھے تھے اور پھر سنگا پور کی فلائٹ پکڑنے تک اسی طرح بیٹھے رہے تھے۔ا پنے دوسرے ساتھیوں کے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے… ان میں سے کسی کے پاس آجانے پر اس کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے… لیکن آپس میں بالکل خاموش…
سنگا پور کے لی کو ان یو انسٹیٹیو ٹ آف پبلک پالیسی میں پہلے دو دن بھی انہوں نے اسی خاموشی میں گزارے تھے۔ تیسری شام کو شیر دل اور وہ بالآخرشام کو اس عمارت کے لان میں جا کر بیٹھ گئے تھے جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔
”تم ہمیشہ سے جانتی تھیں میں کون تھا۔” شیر دل نے کسی سیاق وسباق کے بغیر اسی طرح ایک بے تکے سوال سے گفتگو کا آغاز کیا تھا جس طرح تب چیری والا سوال کیا تھا۔
”ہاں۔” عکس نے آج بھی اسی تحمل کے ساتھ وہی ایک لفظی جواب دیا تھا۔ اس کے برابر میں بینچ پر بیٹھے شیر دل نے اسے دیکھنے کی کوشش کیے بغیر اس فوارے کے گرتے ہوئے پانی پر نظریں جمائے رکھتے ہوئے سر ہلایا تھا جس سے کچھ فاصلے پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یوں جیسے اپنے اندازے کے ٹھیک ہونے کا یقین تھا اسے۔
” میرے نام سے پہچانا تم نے… یا میرے چہرے سے؟ ” اب اسٹرابری والا سوال آیا تھا۔
”دونوں سے۔”
”تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟” اس بار بالآخر بلیو بیری والا سوال آگیا تھا۔
” کیا بتاتی تمہیں… کہ میں کون ہوں۔” اس بار عکس نے اس سے کہا تھا ۔ ایک بار پھر ایک عجیب سی خاموشی ان کے درمیان آگئی تھی۔
شیردل کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہے… تمہید باندھے تو تمہید کے بعد کیا کہے… بعض دفعہ انسان گونگا نہیں ہوتا لفظ گونگے ہوجاتے ہیں اس کے ساتھ بھی یہی ہورہا تھا… معذرت کرتا تو کیسے اور کس بات کی۔ نہ کرتا تو…وہ اپنی ممی سے ملنے کے بعد سے جیسے اپنی راتوں کی نیند کھو بیٹھا تھا… شاک 26 سال پہلے بھی لگا تھا اس رات اسے لیکن عکس کے تعارف نے جو شاک اب دیا تھا اس کی شدت بھی ویسی ہی تھی… اس رات کے واقعات کئی بار اس کی آنکھوں کے سامنے گزرے تھے اس کے ذہن کی اسکرین پر چلتے رہے تھے وہ عینی شاہد تھا اس واقعے کا لیکن اب عکس کے سامنے بیٹھے ہوئے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ عینی شاہد بن کر بات کرے یا پھر ہر چیز سے لاعلمی اور بے خبری کا ڈھونگ کرے… دوسرا آپشن زیادہ مناسب تھا۔ زیادہ suit کرتا تھا اسے اور وہ دوسرے آپشن ہی کا انتخاب کرتا اگر وہ عکس مراد علی نہ ہوتی اور اسے یہ یقین نہ ہوتا کہ اسے ریلنگ کے پاس کھڑا ہوا چیختا ہوا ایبک بھولا نہیں تھا۔
”جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا…” بہت دیر کے بعد شیر دل نے بالآخر بات شروع کرنے کے لیے کچھ لولے لنگڑے لفظ ڈھونڈ لیے تھے۔ عکس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کے لفظ مبہم تھے۔
”جو کچھ میں نے کیا وہ؟” اس نے شیر دل کی بات کاٹ کر اس سے پوچھا تھا۔ اس بار شیر دل نے اسے دیکھا۔
”نہیں… جو کچھ اس رات ہوا…”وہ بات مکمل کرتے کرتے بھی مکمل نہیں کرسکا۔
عکس نے کچھ نہیں کہا۔ وہ سننا چاہتی تھی وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔ جو کچھ ہوا تھا اس میں شیر دل کا قصور نہیں تھاوہ اسے کسی لحاظ سے جواب دہ نہیں سمجھتی تھی لیکن پھر بھی سننا چاہتی تھی وہ کیا کہنا چاہتا تھا اس فیملی کے فرد ہونے کے حوالے سے۔
”اور تم یہ بھی جانتی تھیں کہ شہر بانو انکل شہباز ہی کی بیٹی ہے؟” شیر دل نے وہ بات ادھوری چھوڑ کر اس سے اگلا سوال کیا تھا۔ اس بار وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
”ہاں۔” عکس نے بھی اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔شیر دل کے چہرے پر بے حد عجیب سا تاثر آیا تھا ۔عکس کو اس تاثر کی توقع تھی اس نے شیر دل کے چہرے سے نظریں ہٹالیں آور سیدھا دیکھنے لگی۔ شیر دل نے اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹائی تھی۔ وہ اس عورت کو کبھی سمجھ نہیں پایا تھا نہ تب جب وہ اس سے نوسالہ ایک بچے کے طور پر پہلی بار ملاتھا نہ اتنے سالوں میں جب وہ ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے اور نہ آج… وہ نہ چڑیا کو سمجھ پایا تھا نہ عکس مراد علی کو… اس نے ایک بار پھر اس کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔
”تم کچھ کہہ رہے تھے؟” عکس نے یک دم اسے یاد دلایا۔ شیر دل جان گیا تھا وہ کیا سننا چاہتی تھی اور وہی موضوع سب سے مشکل تھا۔وہ دونوں ایک closure چاہتے تھے اورclosure نہیں ہو پارہا تھا۔
”تم یہ سب مت کرو۔” وہ جو اس سے سننے کی توقع رکھتی تھی اس نے وہ نہیں کہا تھا اور جو کہا تھا عکس کو اس سے عجیب مایوسی ہوئی تھی۔
”شیر دل تم اس معاملے میں مت آؤ… یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے۔” عکس نے جواباً بڑے مستحکم لہجے میں اس سے کہا تھا۔
”عکس یہ میری فیملی کا معاملہ ہے، میں اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ تم جس آدمی کو مجرم بنارہی ہو وہ میرا انکل ہے میری بیوی کا باپ ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں اس معاملے میں نہ آؤں کیونکہ اس معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے… تم واقعی سمجھتی ہو میں اس معاملے سے خود کو الگ تھلگ رکھ سکتا ہوں؟” شیر دل نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی بات ختم ہونے کا انتظار کرتی رہی پھر اس نے کہا۔
”تم چاہو تو اپنے آپ کو الگ رکھ سکتے ہو…”
”نہیں رکھ سکتا… میرے خاندان کی عزت کی بات ہے یہ۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ عکس بے اختیار ہنس دی۔ شیر دل الجھا۔
” میں یہی سننا چاہتی تھی تمہاری زبان سے… یہ تمہارے خاندان کی عزت کا سوال ہے اسی لیے تم غلطی پر ہوتے ہوئے بھی آخری حد تک جاؤگے مجھے اس کیس سے روکنے کے لیے ۔ تم سمجھتے ہو عزت صرف تمہارے خاندان کی ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کرنا صرف تمہارا حق ہے ؟” وہ بڑی سرد مہری سے کہہ رہی تھی۔ شیر دل نے کچھ الجھ کر اس کی بات کاٹی ۔
”میں نے ایسا نہیں کہا عکس…”
”تمہاری بات کا یہی مطلب نکلتا ہے۔”
”غلط مطلب نکال رہی ہو تم۔”
”پھر تو سارا مسئلہ حل ہوگیا۔ میں بھی جو کچھ کررہی ہوں اپنے نانا کی عزت کے لیے کررہی ہوں۔ مجھے بھی ان کی عزت اتنی ہی پیاری ہے جتنی تمہیں اپنے انکل کی۔” شیر دل چند لمحوں کے لیے اس کی بات پر کچھ بول نہیں پایا پھر اس نے جیسے کچھ خفا ہو کر کہا۔
”تم غلط comparison کررہی ہو عکس۔”
”ہوسکتا ہے۔”