”ہر لڑکی کی تصویر ہے میرے پاس سوا ئے تمہارے… ” شیر دل نے ترکی بہ ترکی کہا۔
” میں تو اس کیٹگری میں ویسے ہی نہیں آتی کیونکہ نہ میں تم پر مرتی ہوں، نہ تمہارے ساتھ جی سکتی ہوں۔” عکس نے بھی اسی انداز میں کہا۔” تو اس لیے میں تو تمہاری سوینئر کولیکشن کا حصہ بن ہی نہیں سکتی… ویسے ہم شہر بانو کی طرح بات کررہے تھے۔” عکس نے بات کے اختتام پر اسے پھر شہر بانو یاد دلائی۔
”میں تو مرتا ہوں نا تم پر۔” شیر دل ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔
”تم کس لڑکی پر نہیں مرتے شیر دل ۔”عکس نے ہنس کر کہا۔ وہ بھی ہنس دیا۔
” یہ بھی ٹھیک ہے۔” اس نے اعتراف کیا۔
”شہر بانو پر غور کرو… پرفیکٹ میچ ہے وہ تمہارا۔ ” عکس گھوم پھر کر ایک بار پھر اسی موضوع پر آگئی۔
”تمہیں میری اور شہر بانو کی match making میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟” شیر دل نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔”جب تمہیں مجھ میں دلچسپی نہیں ہے تو leave it …میں جس سے چاہے شادی کروں تمہیں کیا۔” شیر دل نے اسی انداز میں کہا۔
”میں چاہتی ہوں تمہیں کوئی تمہارے جیسی نہ مل جائے۔” عکس نے ترکی بہ ترکی کہا۔”تم دوست ہو… اتنی پروا تو ہے مجھے تمہاری کہ میں تمہیں کسی کنویں میں نہ کودنے دوں۔”
”نہیں، نہیں تم مجھے کودنے دو کنویں میں… تم ٹینشن مت لو۔” اس نے اطمینان سے کہا عکس کو ہنسی آگئی۔” میں تم سے کیا کہہ رہا تھا؟” شیر دل نے موضوع یاد کرنے کی کوشش کی۔
”تم مجھ سے شہر بانو کی بات کررہے تھے۔” عکس بات کو پھر وہیں لے آئی… شہر بانو کی طرف بڑھتے ہوئے عکس کو پتا نہیں کیا کیا یاد آرہا تھا لیکن ان تمام یادوں میں کوئی تلخ یاد نہیں تھی وہ سب کچھ جیسے فلٹر کرتی جارہی تھی۔
شہر بانو نے اس سے پہلے عکس مراد علی کا نام سنا تھا یا اس کو شیر دل کے گروپ فوٹو گرافس میں دیکھا تھا۔ جہاں وہ لاکھ غور کرنے کے باوجود بھی اس کی شکل وصورت اور حلیے میں وہ خاص چیز کھوجنے میں ناکام رہی تھی جو اس کے ذہن میں کسی اندیشے یا خدشے کو جنم دیتی لیکن آج اس پر پہلی نظر ڈالتے ہی وہ عکس مراد علی سے بری طرح خائف ہوئی… کیوں ہوئی؟ یہ اسے کئی دن سمجھ نہیں آیا… نہ اسے شیر دل سے کوئی خدشہ تھا نہ عکس مراد علی اس حسن وجمال کی مالک تھی جس سے اسے کوئی احساس کمتری ہونے لگتا لیکن اس کے باوجود اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ عکس مراد علی کو نظر انداز کرنا بے حد مشکل تھا اور اس کو پسندنہ کرنا اس سے بھی زیادہ دشوار۔
برآمدمے کی انٹرنس پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے وہ دونوں شہر بانو کو کسی فوٹو فریم کا حصہ لگے تھے۔ ایک پرفیکٹ پکچر… دراز قد، اٹریکٹو، پر اعتماد، اسمارٹ …سیاہ لباس میں ملبوس وہ ایک ایسا کپل لگ رہے تھے جو گھر سے نکلتے ہوئے top سےtoe تک پرفیکٹ میچنگ کر کے آئے تھے۔ کوئی بھی ایک نظر میں دیکھ لیتا کہ عکس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک کا رنگ شیر دل کی ٹائی کے رنگ کا ایک حصہ لگ رہا تھا… شہر بانو نے بھی نوٹس کیا تھا… ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے کسی رشتے اور تعلق کے بغیر بھی ان دونوں کی باڈی لینگویج میں ایک عجیب کیمسٹری تھی… ایک عجیب سا ربط اور تعلق تھا۔ جس کو نہ چھپانے کی کوشش کی تھی، نہ دکھانے کی… لیکن وہ پھر بھی چھپ چھپ کے دکھ رہا تھا۔
شہر بانو الجھی ٹھٹکی… اور پھر چاہنے کے باوجود وہ عکس سے ویسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرسکی جو وہ کرنا چاہتی تھی جو وہ دوسرے مہمانوں کے ساتھ کررہی تھی اور عکس نے یہ محسوس کرلیا تھا۔ وہ نپے تلے انداز میں اس کی طرف بڑھی اور عکس نے بھی اس کا ہاتھ اسی احتیاط سے پکڑا تھا جس سے وہ بڑھایا گیا تھا۔ اسے اسکول میں اپنا اور باربی ڈول کا پہلا آمنا سامنا یاد آیا تھا… وہ تب بھی اسی طرح ملی تھی اس سے… ڈرتی، جھجکتی، کھنچتی…
شہر بانو نے عکس مراد علی کے ہاتھ کی نرمی اور حدت کو بیک وقت محسوس کیا۔ دونوں کی نظریں ملیں ،عکس کو اس سے نظریں ملانے میں کوئی عار نہیں ہوئی ۔ چار سال کی وہ بچی اسے کبھی نہیں پہچان سکتی تھی۔
”آپ کیسی ہیں؟” شہر بانو نے اسے کہتے سنا۔اس کی آواز کی ملائمت نے شہر بانو کے وجود کی سر د مہری کو عجیب انداز میں پگھلایا۔
”I ‘m fine, how are you? ” اس نے جواباً اپنی مسکراہٹ کو کچھ گرم جوش کرنے کی کوشش کی۔
” I am good too ” عکس نے جواباً ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ دونوں کا ذہن بیک وقت blank ہوا تھا۔ اگلا جملہ دونوں کے پاس نہیں تھا۔ شیر دل اب کمشنر کے ساتھ اندر جارہا تھا۔ شہر بانو کو جیسے ایک عجیب اطمینان ہوا تھا اس فوٹو فریم کے ایک حصے کو وہاں سے ہٹتے دیکھ کر۔
”شیر دل سے بہت سنا ہے میں نے آپ کے بارے میں۔” گفتگو کا ٹوٹا سلسلہ جوڑنے کی کوشش عکس نے کی تھی۔
”اچھا…؟ میں نے آپ کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔” عکس اس کی بات پر مسکرادی۔ وہ جانتی تھی شہر بانو نے اسے کچھ جتانے کی کوشش نہیں کی تھی اور وہ جانتی تھی شہر بانو جھوٹ بھی نہیں بول رہی تھی۔ شیر دل اس کا ذکر شہر بانو سے کبھی نہیں کرسکتا تھا کسی بھی حوالے سے نہیں کرسکتا تھا… کرتا تو عکس مراد علی کو شاک لگتا… وہ اس کی گرل فرینڈ نہیں تھی، وہ اس کا افیئر بھی نہیں تھی ،وہ اس کی محبوبہ بھی نہیں تھی، وہ اس کی دوست بھی نہیں تھی… اس کے باوجود وہ شیر دل کا سب کچھ تھی… اس کا وہ راز جو ایبک شیر دل ہمیشہ چھپاتا رہا تھاہمیشہ چھپا سکتا تھا۔ ایک نو سالہ بچے کے طور پر بھی وہ چڑیا کو guard کرسکتا تھا۔ ایک adult کے طور پرتویہ کچھ مشکل بات ہی نہیں تھی۔
ان دونوں کے درمیان چند اور جملوں کا تبادلہ ہوا تھا ساتھ چلتے ہوئے… موسم کے بارے میں… مہمانوں کے بارے میں… ڈنر کے بارے میں اور پھر عکس اس کے ساتھ اس ہال کمرے میں داخل ہوگئی تھی جہاں ڈنر کا انتظام تھا۔
اس ہال کمرے میں بیٹھ کر اس رات اس نے گزرے ہوئے کل کی ساری یادوں ،ساری آوازوں سے خود کو shut off کرلیا تھا با لکل اسی طرح جیسے سڑک پر خیر دین کے پھلوں کی ریڑھی پر بیٹھی اسکول سے ملنے والا ہوم ورک کرتے ہوئے وہ سڑک پر سے گزرنے والے ٹریفک کے بے ہنگم شو ر سے خود کو کاٹ لیا کرتی تھی۔
لوگوں کے ہجوم کے بیچ بیٹھ کر عکس مراد علی نے اپنے آپ پر اپنی زندگی پر اپنی زندگی میں آنے والی تکلیفوں پر کبھی ماتم نہیں کیا تھا… کبھی خود پر ترس کھاتے ہوئے خود کو دوسروں سے کمتر اور دوسروں کو برتر نہیں سمجھا تھا۔ خیر دین نے اسے زہر کے گھونٹ پیتے ہوئے بھی جیتا اور مسکراتے ہوئے جینا سکھایا تھا اور اس ہال میں اتنے سالوں کے بعد بیٹھے ہوئے وہ زندگی کے زہر آلود حصوں کو چھوئے بغیر گزررہی تھی… اور وہ گزر گئی تھی۔
……٭……
”تم یہ کیوں کرنا چاہتی ہو؟” خیر دین نے بے حد حیرانی سے عکس کا چہرہ دیکھا تھا۔ بیرون ملک اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ چند ہفتے پہلے پاکستان آئی تھی اور اس کی پرموشن ہوئی تھی اور پرموشن کے بعد اس نے آج خیر دین سے جو بات کی تھی اس نے خیر دین کو حیران کردیا تھا۔ وہ خیر دین کی زمین واپس لینے کے لیے کیس کرنا چاہتی تھی۔ وہ زمین جس کو خیر دین کبھی نہیں بھولا تھا لیکن ہمیشہ بھولنے کی کوشش کرتا رہا تھا… لیکن رزق حلال پر ڈالا ہوا ڈاکا کسی انسان کو نہیں بھولتا… خیر دین نے بھی وہ زمین نہیں اپنی ساری زندگی محنت سے کمایا اور بچایا ہوا رزق حلال گنوایا تھا… وہ بھی تب جب وہ پائی پائی کا محتاج تھا… اور آج اتنے سالوں بعد وہ عجیب اچنبھے والی بات کررہی تھی…اتنے سالوں سے جاب میں آنے کے بعد وہ ایک بار بھی گاؤں نہیں گئی تھی۔ خیر دین اب گاؤں آنے جانے لگا تھا اور گاؤں میں اب وہ اس کا شاندار استقبال ہوتا تھا۔ وہ اپنے بھائیوں اور ان کی اولادوں کے اصرار کے باوجود کبھی ان کے گھر نہیں ٹھہرتا تھا بلکہ اپنے اسی دوست کے پاس ٹھہرتا تھا جہاں آس نے مشکل وقت میں پناہ لی تھی۔ اپنے خاندانی گھر میں نہ ٹھہرنے کے باوجود اس نے وہاں سے گزرتے ہوئے اس گھر کے دروازے پر وہ نیم پلیٹ دیکھ لی تھی جس پر عکس مراد علی کا پورا نام اس کے عہدے کے ساتھ لکھا ہوا تھا اور وہ تختی بڑے نمایاں انداز میں اس گھر کے دروازے پر لگی ہوئی تھی جہاں کبھی اس کے، حلیمہ اور چڑیا کے لیے رہنے کی جگہ تک نہیں تھی۔ خیر دین نے گاڑی رکوا کے نم آنکھوں اور مسکراہٹ کے ساتھ وہ تختی دیکھی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے کئی سال پہلے کی وہ تختی یاد آئی تھی جس پر اس نے بھی ایسے ہی فخریہ انداز میں اپنا نام ،اپنا عہدہ اور اپنے صاحب کا نام بھی لکھوایا تھا۔پتا نہیں وقت زیادہ بے شرم ہے یا انسان… جو رنگت بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ فخریہ انداز میں ٹنگی ہوئی وہ تختی دروازے پر نہیں انسان کی بے ضمیری پر لگائی گئی تھی… خونی رشتے بعض دفعہ طوائف جیسی اور جتنی وفاداری بھی نہیں دکھاتے… کتابیں لکھ لیں مادہ پرستی پر یا بیچ بازار میں مجمع اکٹھاکر کے مذمتی تقریریں کر کے نعرے لگوالیں یہ وہ بیماری ہے جس کا کوئی حل نہیں… جسم کی بیماریاں ہو تو کوئی علاج کوئی حل نکلتا جوبیماری نفس کو لگ جائے وہ کیسے ختم ہو۔
وقت خیر دین کو دنیا سے جانے سے پہلے سارے تماشے دکھادینا چاہتا تھا اور وہ دیکھ رہا تھا۔ بعض تختیاں انسان کا دل بوجھل کرتی ہیں۔ عکس مراد علی کے نام کی تختی نے بھی خیر دین کا دل اسی طرح بوجھل کردیا تھا۔ہر بار گاؤں جانے پر ایک بار پھر اس کے پاس سفارشی رقعے اور درخواستیں لے کر آنے والے لوگوں کا جمگھٹا لگنا شروع ہوگیا تھا۔ خیر دین چپ چاپ ماضی کو یاد کرتے ہوئے ان رقعوں اور درخواستوں کو اکٹھا کرتا جاتا اور پھر واپس آکر عکس کے سامنے رکھ دیتا۔ جو اگلے کئی دن ان درخواستوں کی منظوری اور ان پر عمل درا مد کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف رہتی۔ اس نے کبھی نانا کو یہ یاد دلانے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ جن لوگوں کی مدد کے لیے اس سے کہہ رہا تھا وہ بہت بے رحم اور بے حس لوگوں کا ایک ہجوم تھا ۔جنہوں نے ان لوگوں کی زندگی کے مشکل ترین دنوں میں ان کی رسوائی او ربربادی کا تماشا بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا اور کسی نے آگے بڑھ کر ان کے حق کے لیے ان کی مدد کے لیے آواز نہیں اٹھائی تھی اور وہ آج بھی صرف ان کے اچھے دنوں کی چھاؤں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کے پاس آتے تھے… نہ وہ بدلے تھے نہ ان کا ضمیر نہ ان کا خمیر… مگر خیر دین کو یہ سب یاد دلانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا… اور عکس کو اپنا وقت ضائع کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
”تم بڑے نصیب والی ہو چڑیا…” خیر دین نے ایک بار گاؤں سے آنے کے بعد عکس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ ان دنوں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر اسلام آباد میں پوسٹڈ تھی اور خیر دین گاؤں سے سیدھا اسی کے پاس آگیا تھا۔ وہ شام کے وقت اپنا کچھ کام نمٹاتے ہوئے ساتھ خیر دین سے گاؤں کے قصے سن رہی تھی جب اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے خیر دین نے یک دم اس سے کہا۔اس نے کام کرتے کرتے مسکر اکر ایک نظر خیر دین کو دیکھا اور پھر اپنا کام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ بیٹھے بٹھائے آپ کو میرے خوش قسمت ہونے کا خیال کیسے آگیا؟”
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں کتنی عزت دی ہے… اس قابل بنایا ہے کہ تم لوگوں کے لیے کچھ کرسکو، گاؤں والے گھر میں درجنوں بچے، بچیاں ہیں لیکن اس گھر کے دروازے پر کسی مرد کا نام نہیں ہے… بلکہ تمہارا نام ہے۔ اس پورے گاؤں میں کسی گھر کے دروازے پر کسی عورت کا نام نہیں لکھا ہوا سوائے تمہارے نام کے… اور ہر کوئی پہلی بار جب بھی اس دروازے کے سامنے سے گزرتا ہے تور ک کر اس تختی کو ضرور پڑھتا ہے۔ میں تو ہر بار ہی رک کر اس تختی کو پڑھتا ہوں۔” خیر دین بات کرتے کرتے آخری جملے پر ہنس کر شرمایا تھا۔عکس کواپنے نانا پر عجیب سا پیار آیا ۔وہ اس سے جیسے کوئی گہرا راز شیئر کررہا تھا۔
” نانا وہ میرا نام نہیں ہے… میرا عہدہ ہے جس کی وجہ سے اس گھر کے ماتھے پر میرا نام لکھا گیا ہے…” عکس نے اپنے کام میں مصروف مسکراتے ہوئے کسی تاثر کے بغیر اس کو جیسے یاد دلایا۔
یہ عہدہ بھی تمہاری ہی قابلیت ہے… گاؤں میں ہے کسی کے پاس یہ عہدہ…؟ کسی عورت کے پاس تو کیا کسی مرد کے پاس بھی نہیں ہے۔” خیر دین اس کی بات کے جواب میں عجیب انداز میں جذباتی ہوگیا تھا۔ عکس مسکراتے ہوئے کام کرتے ہوئے خیر دین کی بات سنتی رہی۔
”گاؤں میں کیا پورے ضلع میں کسی اور عورت کے پاس یہ عہدہ نہیں ہے۔ اللہ ہر ایک کو عہدے کہاں دیتاہے… جب تم کالج گئی تھیں تو تم اس گاؤں سے کالج جانے والی پہلی لڑکی تھیں پھر اس گاؤں سے امتحانات میں ٹاپ کرنے والی واحد لڑکی …ڈاکٹر بننے والی پہلی لڑکی… اسسٹنٹ کمشنر بننے والی پہلی لڑکی… سی ایس ایس کے امتحان میں ٹاپ کرنے والی پہلی لڑکی… یہ سارے کوئی چھوٹے اعزاز تھوڑی ہیں۔ پاکستان میں کتنی لڑکیاں ہیں جن کے پاس اتنی قابلیت ہوگی اور اس قابلیت کا صلہ بھی۔” خیر دین بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے اس کے اعزاز گنوارہا تھا ۔پتا نہیں وہ دن میں کتنی بار چڑیا کی ان کامیابیوں کو گن گن کر چلتا تھا۔” ایک دن تم اس گاؤں سے ڈپٹی کمشنر بننے والی بھی پہلی لڑکی ہوگی اور کمشنر بننے والی بھی۔” عکس خیر دین کی اس جذباتی پیش گوئی پر ہنس دی تھی۔
”نانا پاکستان میں عورتیں ڈپٹی کمشنر اور کمشنر نہیں بنتیں۔ ہمیں ڈویژن چلانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔” اس نے جیسے خیر دین کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔” سندھ میں شاید ایک آدھ خاتون آفیسر کو کچھ عرصہ کے لیے ڈپٹی کمشنر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا لیکن وہ بھی بہت کم عرصے کے لیے… آپ اور خواب نہ دیکھیں میرے بارے میں۔”
”ایک دن آئے گا کہ یہ بھی ہوگا تم دیکھ لینا چڑیا، تم ڈپٹی کمشنر بھی بنوگی اور کمشنر بھی… لیکن شاید تب تک میں نہ رہوں ۔” خیر دین کو بات کرتے کرتے یک دم خیال آیا ۔
”آپ اس بات کو چھوڑیں یہ بتائیں دروازے پر لگی اس تختی پر کیا لکھا تھا؟” عکس نے بڑی مہارت کے ساتھ خیر دین کو جیسے اداس ہونے سے روکا ۔وہ اب اکثر اپنی موت کا ذکر کرنے لگا تھا۔
”اس تختی پر لکھا تھاڈاکٹر عکس مراد علی،نواسی خیر دین۔ اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد ۔” خیر دین بچوں کی طرح بہلا اور اسے اس تختی پر لکھی تحریر فر فر سنانے لگا۔ عکس نے کام کرتے کرتے اپنا ہاتھ روک دیا اور وہ خیر دین کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔ وہ جانتی تھی اس نے خیر دین کو زندگی میں فخر کے بے شمار لمحے دیے تھے۔ اس نے خیر دین کی جھولی کو بھر دیا تھا لیکن زندگی میں جو کچھ خیر دین نے اس کے لیے کیا تھا وہ اس سے بہت زیادہ تھا جو وہ اس کے لیے کرپائی تھی۔ وہ جانتی تھی خیر دین کی زندگی کا اب آخری حصہ اس کے پاس تھا اور وہ اس آخری حصے کے گزر جانے سے پہلے خیر دین کے زندگی کے کھوئے ہوئے اثاثے بھی لوٹا دینا چاہتی تھی اسے… کم از کم وہ چیزیں جو خیر دین نے اس کی وجہ سے کھوئی تھیں۔
اور کئی سال بعد یہ پہلا کام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ ”گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ۔” اس رات جب اس نے بالآخر خیر دین کو یہ بتایا تھا کہ وہ زمین واپس لینے کی کوشش کرنا چاہتی ہے تو خیر دین نے اس سے کہا تھا۔
” وہ گڑا مردہ نہیں ہے… ہمار ا حق ہے… اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے… جد وجہد کرنی چاہیے… ہمیشہ آپ ہی سکھاتے رہے مجھے یہ بات…” عکس نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔ وہ عکس کی بات پر کچھ دیر بول نہیں پایا۔
”تمہیں بیٹھے بٹھائے زمین کا خیال کیسے آگیا؟” خیر دین نے جواباً اس سے پوچھا۔
” اب خیال نہیں آیا… ہمیشہ سے خیال رہا ہے مجھے اس کا۔ آپ کو یاد ہے میں نے آپ سے کہا تھا میں جاب ملنے کے بعد دو کام کروں گی۔” عکس نے مسکراتے ہوئے اسے کئی سال پہلے کی کہی ہوئی اپنی بات یاد دلائی۔
” یہ پہلا کام تھا تمہارا جو تم کرنا چاہتی تھیں؟” خیر دین ہنس دیا تھا۔
” ہاںیہ پہلا کام تھا۔” وہ بھی مسکرائی۔
”اور دوسرا کام؟” خیر دین نے اس سے پوچھا۔
” ابھی ہم پہلے کام کے بارے میں بات کررہے ہیں نانا۔” عکس نے خیر دین کو بات گھمانے نہیں دی۔
” دیکھو چڑیا میں اس عمر میں کورٹ کچہری کے دھکے نہیں کھانا چاہتا۔” عکس نے خیر دین کی بات کاٹ دی۔
”آپ سے کس نے کہا آپ کو کورٹ کچہری کے دھکے کھانا پڑیں گے؟”
” ہمارے پاس اس زمین کا کوئی کاغذ تک نہیں ہے… کوئی ثبوت کوئی گواہ نہیں ہم کیسے یہ ثابت کریں گے کہ وہ ہماری زمین ہے ہم سے چھینی گئی ہے۔” خیر دین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس کا خیال تھا چڑیا جذبات میں آکر کچھ حقائق نظر انداز کررہی تھی۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ چڑیا کبھی بھی جذباتی نہیں رہی تھی۔ اس پہلے کام کو کرنے سے پہلے وہ بہت سا ہوم ورک کرچکی تھی بہت سی سرنگیں لگا چکی تھی۔ اسے اس معاملے کے پیچیدہ پہلوؤں کا خیر دین سے زیادہ ادراک نہ ہوتا تو وہ جاب پر پوسٹ ہوتے ہی زمین کے اس ٹکڑے کی ملکیت کے لیے تگ و دو شروع کردیتی لیکن اس نے یہ نہیں کیا تھا اس نے مناسب وقت کا بڑے تحمل کے ساتھ انتظار کیا تھا۔ اپنی پروموشن کا… اپنے جونیئر سے سینئر آفیسر ہونے کا… اپنے طاقتور ہونے کا… اور وہ بالکل صحیح وقت پر صحیح جگہ سے وہ محاذ کھول رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے اندھا دھند اس جنگ میں نہیں کود رہی تھی۔
”نانا آپ اس کی پروا مت کریں، ان چیزوں کو آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔” عکس نے خیر دین کو بڑے اطمینان کے ساتھ تسلی دی تھی۔
” تم اپنا وقت بے مقصد کاموں میں ضائع مت کرو۔” خیر دین نے اسے دانٹا تھا۔ وہ خیر دین کی ڈانٹ پر ہنس دی تھی۔
”نانا یہ بے مقصد کام کیسے ہے؟”اس نے جواباً خیر دین سے پوچھا۔
”جس کام کا کوئی نتیجہ نکلنے کا امکان نہ ہو اس پر وقت ضائع کرنا بے مقصد ہی ہے چڑیا۔” خیر دین بہت سنجیدہ ہوگیا تھا۔” تم اس طرح کا کوئی کام شروع کروگی تو پورا خاندان ایک بار پھر سے ہمارا دشمن ہوجائے گا۔تمہیں کوئی نقصان پہنچادیا تو…” عکس نے خیر دین کی بات بڑے تحمل سے کاٹ دی۔