عکس — قسط نمبر ۱۲

”شہربانو یہ ٹھیک نہیں ہے… بات تو کرنی چاہیے اور تم نہیں تو میں بات کرتی ہوں اس سے۔ ” شرمین نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”ممی آپ اس سے بالکل بات نہیں کریں گی… اس نے مجھے ہرٹ کیا ہے۔”
”میں جانتی ہوں بیٹا! لیکن پھر بھی بات تو کرنی چاہیے۔ پوچھنا تو چاہیے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟” شرمین اسے سمجھا رہی تھی۔
”میں اس سے جو کچھ بھی پوچھوں گی اب سامنے پوچھوں گی۔” وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ”وہ اب یہاں آئے گا تو ہی بات ہو گی… میں جب تک یہاں ہوں میں اس سے کوئی بات نہیں کروں گی۔”
شرمین عجیب خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی اس کی بات سنتی رہی تھی۔ عکس مراد علی کے نام نے اس کے ذہن میں بہت سی گھنٹیاں بجائی تھیں۔ اسے خیردین اور اس کی نواسی کا نام یاد آیا تھا لیکن اسے یہ یقین نہیں تھا کہ خیردین کی نواسی کا نام عکس مراد علی ہی تھا۔ وہ مراد علی کا نام یاد کرتے ہوئے الجھی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ بچی ایبک شیردل کی کولیگ ہو سکتی تھی۔ وہ اس کے ساتھ افیئر چلا سکتی تھی۔ یہ یقینا کوئی اور عکس تھی جسے وہ خیردین کی نواسی کے نام کی وجہ سے کنفیوز کر رہی تھی۔
”تم جانتی ہو شیردل کی اس کولیگ عکس مراد علی کو…؟” شرمین نے جیسے پھر بھی اپنے کسی واہمے کی تصدیق کی تھی ۔اس نے اور اس کے سوال نے شہربانو کو یک دم جیسے ہوش میں آنے پر مجبور کر دیا تھا۔
”ہاں میں جانتی ہوں… دو چار بار ملی ہوں… ڈاکٹر ہے وہ…” اس نے کچھ لپیٹ کر بات کرنے کی کوشش کی تھی۔
”فیملی بیک گراؤنڈ کیسا ہے؟” شرمین کے سوال نے شہربانو کو اپنی کی گئی وارننگ یاد دلائی۔




”اس کی ممی کویت میں ہوتی ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی اور خود وہ لاہورمیں based ہے۔” آخری جملہ اس کا اندازہ تھا کہ وہ لاہور سے ہی تعلق رکھتی ہو گی۔ شرمین کو اطمینان ہوا پھر یہ وہ والی عکس نہیں ہو سکتی وہ تو کسی دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتی تھی اور وہ اپنے نانا کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کی ماں کی شادی ہو چکی تھی۔
”میں منزہ سے بات کرتی ہوں اگر شیردل سے بات نہیں کرنی تو۔” شرمین نے اسی مضطرب انداز میں کہا۔
”نہیں ممی آپ شیردل کی ممی سے بات نہیں کریں گی۔” شہربانو نے فوراً سے پیشتر کہا۔
”تو پھر یہ معاملہ کیسے حل ہو گا؟” شرمین نے کچھ حیرانی سے ہچکیاں لیتی ہوئی بیٹی کو دیکھ کر کہا۔
”ہو جائے گا حل… اگر حل ہونا ہوا تو۔”
”ہو سکتا ہے تمہیں کوئی غلط فہمی ہورہی ہو۔” شرمین نے جو جملہ کہا تھا وہ یہ جملہ نہیں کہنا چاہتی تھی۔
”کیسی غلط فہمی؟” شہربانو نے بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”شیردل کے حوالے سے۔” شرمین نے جیسے عجیب آس کے ساتھ کہا۔ شہربانو کا دل کٹا تھا۔ اس کی ماں زندگی میں پہلی بار شیردل کو defend کرنے کی کوشش کررہی تھی اور کہاں کر رہی تھی۔
”کاش غلط فہمی ہی ہوتی ممی۔” وہ کہتے ہوئے ایک بار پھر سسک پڑی۔ شرمین بہت دیر اس کے پاس بیٹھی اسے تسلی دیتی رہی تھی لیکن وہ بے حد پریشان تھی اور اسی پریشانی میں اس نے شیردل سے اس سارے معاملے کے بارے میں خود بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ شہربانوکے پاس سے اٹھ کر اپنے بیڈروم میں آگئی تھی اور اس نے وہاں سے شیردل کے نمبر پر کال کی تھی اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس وقت وہ سو رہا ہو گا اسے اس وقت شاک لگا تھا جب اس کی کال کسی لڑکی نے receive کی تھی۔ چند لمحوں کے لیے شرمین کو لگا آسمان اس کے سرپر آ گرتھا۔ رات کے اس پہر میں شیردل کے فون پر آنے والی کالز ریسیو کرنے والی کون ہو سکتی تھی اور اس سے بھی بڑا سوال یہ تھا کہ وہ دونوں اس وقت اکٹھے کیا کررہے تھے۔ اس نے شیردل سے کیا بات کرنی تھی اور کیا نہیں وہ سب بھول گئی تھی اور اس نے اس لڑکی سے وہ پوچھا تھا جو وہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔ ملنے والے جواب نے اس کی رہی سہی ہمت بھی توڑ دی تھی۔ اس نے مزید کچھ بھی پوچھے کچھ بھی کہے بغیر فون بند کردیا تھا۔ آج اس کی زندگی کا ایک اور سیاہ دن تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو بہت غلط وقت پر بہت غلط طریقے سے دہرا رہی تھی۔ فون ہاتھ میں لیے وہ بیٹھی رہی… بے حس و حرکت… ابھی ابھی اسے جو پتا چلا تھا وہ شہربانو کے ساتھ اسے شیئر کرنا چاہیے تھا یا نہیں…؟ یہ سوال یک دم کسی جھکڑ کی طرح اس کے ذہن میں گونجنے لگا تھا… اسے شہباز حسین یاد آیا تھا… اس کے ساتھ گزاری ہوئی اچھی زندگی اور اس کے بعد آنے والی تباہی… وہاں بیٹھے بیٹھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس درد سے دوبارہ گزری تھی جو کبھی مندمل ہوا ہی نہیں تھا۔ ہو ہی نہیں سکتا تھا… بعض کانٹے آپ کو ساری عمر چبھتے رہتے ہیں آپ لاکھ جتن کر کے بھی ان کو نکال نہیں پاتے… کیونکہ وہ نظر نہیں آتے۔ بس ان سے اٹھنے والی ٹیسیں آپ کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ وہ ”ہیں” اور آپ کے وجود کے اندر سے آپ کو بے حال کیے ہوئے ہیں۔
”شہربانو بتا رہی تھی کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تم بہت رو رہی تھیں۔” شہباز اس دن آفس سے گھر آتے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ وہ اس وقت وارڈ روب سے کپڑے نکال رہی تھی۔ ہر روز کی طرح اس نے شہباز کا استقبال گھر کے دروازے پر نہیں کیا تھا۔ اس نے پلٹ کر شہباز کو دیکھا تھا۔ وہ مرد جس کی وجاہت پر وہ کبھی مر مٹی تھی اس وقت اسے ایک بھوت کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ مکروہ آنکھوں، سیاہ داغدار شکل، طوطے جیسی مڑی ہوئی ناک اور لمبے نوکدار زرد ٹیڑھے میڑھے دانتوں والا ایک چہرہ… جس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس سے خوف زیادہ آتا ہو گا یا گھن…
اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی شہباز کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تھی۔ سرخ سوجی ہوئی آنکھیں، ستا ہوا چہرہ اور رگڑ رگڑ کر سرخ ہوجانے والی ناک۔
”کیا ہوا ڈارلنگ؟” وہ جیسے کچھ بے چین انداز میں اس کو console کرنے کے لیے آگے بڑھا تھا۔
”آج میں سسٹر ایگنس سے ملی۔” اس کے ٹھنڈے لفظوں نے شہباز کے قدموں میں جیسے زنجیر ڈالی تھی۔ وہ فریز ہو گیا تھا۔ اتنے سالوں بعد اس نام کی بازگشت اسے آسیب کی آواز جیسی لگی تھی۔
”تم نے چڑیا کے ساتھ کیا کیا تھا؟” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا شرمین کے اگلے سوال نے ایک پھندا اس کے گلے میں ڈال دیا تھا۔
”کون چڑیا؟” وہ یہ سوال کرتے ہوئے بھی شرمین کا چہرہ دیکھتے ہوئے جانتا تھا وہ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی تھی۔
”تم چڑیا کو نہیں جانتے؟” شرمین نے ایک قدم آگے بڑھا کر اس سے پوچھا۔
”نہیں؟” شہباز کے پاس انکار کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک زوردار تھپڑ نے شہباز کو کسی مزید جھوٹ کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
”چڑیا تمہاری بیٹی تھی… جیسے شہربانو… جسے ساری دنیا کے مردوں سے چھپائے پھرتے ہو تم… اس لیے چھپائے پھرتے ہو؟” وہ چلائی تھی۔
”دیکھو تم کچھ غلط سمجھ رہی…” شہباز جانتا تھا سب کچھ ڈوب چکا تھا۔ اس نے پھر بھی جیسے اپنا گھر بچانے کی آخری کوشش کی۔
”ایک لفظ بھی مت کہنا تم شہباز حسین… میں تمہارے منہ سے ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتی۔” وہ وارڈ روب سے دوبارہ اپنے کپڑے نکالنے لگی تھی۔
”شرمین میری بات سنو۔” وہ لپکتا ہوا اس کی طرف آیا تھا۔
”تم مجھے ہاتھ بھی مت لگانا۔” اس نے اسے قریب نہیں آنے دیا تھا۔
”وہ سب سازش کر رہے ہیں میرے خلاف… تم کو اندازہ نہیں ہے کہ سسٹر ایگنس مجھے تباہ کرنا چاہتی ہے… ایسی کوئی بات ہوتی تو خیردین میرے خلاف کیس کرتا… تمہارے پاس آتا… پریس میں جاتا… سسٹر ایگنس بکواس کررہی ہے۔” شہباز کو اندازہ نہیں تھا وہ اس وقت اعتراف جرم کرنے کے بجائے جھوٹ بولنے پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کر کے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا تھا۔
”میں خیردین سے مل کر آئی ہوں… تم نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا وہ سن کر آئی ہوں… جھوٹ بولنا چھوڑ دو شہباز کم از کم… اب چھوڑ دو۔” وہ غرائی تھی۔ شہباز حسین کو جیسے قسمت نے ایک پنجرے میں ڈال دیا تھا۔
”وہ بھی بکواس کرتا ہے… یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں… مجھے اور میری فیملی کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں، تم ان نوکروں کی ذہنیت سے واقف نہیں ہو… میں جانتا ہوں۔” شہباز عجیب بے بسی اور خوف سے چلایا تھا۔ اسے اپنا گھر ٹوٹتا ہوا نظر آرہا تھا۔
”اور تم… تمہاری ذہنیت کیا ہے؟’تمہیں تو جیل میں ہونا چاہیے شہباز… اور آج نہیں تو کل تم جیل میں ہی ہو گے۔” وہ اس پر چلاتے چلاتے رو پڑی تھی۔ ”تمہیں شہربانو کا سوچنا چاہیے تھا۔ میرا سوچنا چاہیے تھا… یہ سب کرتے ہوئے… اتنا گرتے ہوئے… اس طرح جانور بنتے ہوئے۔” وہ روتے ہوئے اس سے کہتی گئی تھی۔ شہباز اسے وضاحتیں کرنے کے لیے ایڑیاں رگڑتا رہا تھا اور اس کی ہر وضاحت اسے شرمین کی نظروں میں کچھ اور گراتی گئی تھی۔ شہباز کی سرتوڑ کوشش کے باوجود وہ اس کا گھر چھوڑ کر شہربانو کو لیے وہاں سے ایک ہوٹل میں چلی آئی تھی۔ شہباز حسین کے گھر میں وہ اس کا آخری دن تھا۔
”مجھ سے یہ مت پوچھیں کہ میں شہباز کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتی لیکن مجھے اس سے الگ ہونے دیں۔” امریکا واپس آکر پاکستان خلع کے لیے کیس فائل کرنے سے پہلے اس نے اپنے ماں باپ سے کہا تھا۔ اس کے لیے وہ وجہ اپنے ماں باپ کو بھی بتانی شرمناک محسوس ہورہی تھی جو اس کے اور شہباز کے درمیان علیحدگی کا باعث بن رہی تھی۔ وہ ایک راز تھا جو اس نے کبھی کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا تھا صرف اس لیے کہ شہربانو کی زندگی پر اس انکشاف کے بہت سے منفی اثرات ہو سکتے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے اس فیصلے نے شہربانو کی نظروں میں اسے ایک ولن بنا دیا تھا لیکن وہ یہ قیمت ادا کرنے پر تیار تھی۔
اور اب اتنے سالوں بعد وہ شہربانو کو اسی دوراہے پر دیکھ رہی تھی۔
……٭……
آپ نے شہربانوسے کوئی بات کی ہے؟” شیردل نے رسمی علیک سلیک کے بعد کسی تمہید کے بغیر منزہ سے فون پر پوچھا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اس غیر متوقع سوال کا جواب منزہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔
”کیا بات؟” منزہ کو کوئی اور جواب نہیں سوجھا تھا۔
”ممی وہ میری کال نہیں لے رہی۔ آپ نے کیا کہا ہے اس سے؟” شیردل نے خفگی آمیز انداز میں کہا۔ وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے وقفے وقفے سے شہربانو کو کال کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی اور وہ اب بے حد اپ سیٹ ہورہا تھا۔
”تم نے عکس کو سمجھانے سے انکار کیا تھا تو پھر مجھے شہربانو سے بات کرنی ہی تھی، میں نے اس سے صرف یہ کہا تھا کہ وہ تمہیں سمجھائے۔” منزہ نے بے حد آرام سے کہا۔ شیردل ان کے انداز پر حیران رہ گیا تھا۔
”ممی میں نے آپ کو منع کیا تھا۔”
”اور میں نے بھی تم سے کہا تھا تم عکس کو یہ کیس واپس لینے پر مجبور کرو۔”
”عکس اپنی زندگی کے فیصلے مجھ سے پوچھ کر نہیں کرتی اور نہ ہی میں اسے کسی چیز کے لیے مجبور کر سکتا ہوں… وہ اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہے۔” شیردل نے دوٹوک انداز میں ایک بار پھر ماں کے سامنے وہی بات دہرائی تھی جو وہ پہلے بھی کہہ چکا تھا۔
”تمہیں اپنی فیملی کی پروا نہیں ہے تمہیں انکل شہباز کی پروا نہیں ہے، تمہیں اپنی بیوی کے مرے ہوئے باپ کی عزت کا خیال نہیں ہے تمہیں پروا ہے تو اس دو ٹکے کی لڑکی کی۔” منزہ کو اس کی بات پر یک دم غصہ آگیا تھا۔
”ممی فرض کریں وہ میری دوست نہ ہوتی میں اس کو جانتا بھی نہ ہوتا اوریہ کیس فائل ہو جاتا انکل شہباز کے خلاف تب کیا ہوتا؟”
”تم میرے ساتھ امکانات کی بات نہ کرو حقائق کی بات کرو۔” وہ اس کی بات پر مزید خفا ہوئی تھیں۔
”حقائق بڑے تلخ ہوتے ہیں ممی… ان کا سامنا کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔”
”تم میرے سامنے فلسفہ بولنے کی کوشش مت کرو۔”
”آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے شہربانو کو اس کیس کے بارے میں بتا کر کتنا ہرٹ کیا ہو گا… آپ انکل شہباز کے حوالے سے اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت سے اچھی طرح واقف ہیں پھربھی آپ نے لحاظ نہیں کیا۔” شیردل نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
”شیردل تمہیں شہربانو کی ذہنی اور جذباتی حالت کی پروا نہیں ہے ،تمہیں ٹینشن صرف اس بات کی ہے کہ شہربانو کو عکس کے حوالے سے تمہارے تعلق اور رشتے کی نوعیت کا پتا چل گیا ہے۔” شیردل چند لمحے جیسے صدمے سے بول نہیں سکا تھا۔
”آپ نے شہربانو کو کیا بتایا ہے میرے اور عکس کے بارے میں؟”
”جو کچھ تھا اور جو کچھ ہے… سب کچھ…” منزہ نے انتہائی سنگ دلی سے کہا۔ ”اور میں کیوں نہ بتاتی… میں تم سے ڈرتی تو نہیں ہوں۔”
” عکس اور میرے درمیان جو بھی تھا وہ یکطرفہ تھا… وہ بھی میری طرف سے…اور وہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے… پرانی بات ہو گئی ہے اب… میں اس کے ساتھ کوئی افیئر نہیں چلا رہا اب… اس کی شادی ہونے والی ہے میں نے آپ کو بتایا تھا… میں بھی شادی شدہ ہوں ایک بچے کا باپ ہوں… آپ کیا سمجھتی ہیں میرے اور اس کے رشتے کو…؟ ہم دوست ہیں اور کچھ نہیں ہے ہمارے درمیان۔” وہ اب شدید غصے میں تھا اور اس کی خفگی نے منزہ کو یک دم کچھ defensive کر دیا تھا۔
”تم دوست ہو یا جو بھی ہو… تم اسے سمجھا سکتے ہو منع کر سکتے ہو یہ سب کچھ کرنے سے… وہ میرے مرے ہوئے بھائی کی عزت اچھالنے پر تل گئی ہے۔” منزہ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے بات بدل دی تھی۔
”اگر شہباز انکل نے اس کے نانا کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو اسے پورا حق ہے کورٹ کے ذریعے اپنا حق لینے کا… میں اور آپ اس کا گلا نہیں دبا سکتے۔” شیردل نے انتہائی خفگی سے آخری جملہ کہا تھا اور پھرمزید کچھ کہتے کہتے رک گیا اسے پتا نہیں کیا یاد آگیا تھا۔ انسان کا لاشعور بعض دفعہ اپنے اندر چھپے راز بیچ بازار تھوک دیتا ہے…
”تم اپنے انکل کو جانتے ہو پھربھی یہ باتیں کررہے ہو… شہباز کسی کے ساتھ ناانصافی، زیادتی کر سکتا ہے؟” منزہ نے بھی اس بار چلا کر کہا۔ ”کوئی لاکھ بار بھی آکر کہے تو بھی میں نہیں مانوں گی… مان ہی نہیں سکتی… وہ میرا بھائی تھا… اس کی ساری عمر میرے سامنے گزری ہے… اور…” شیردل نے ماں کی بات کاٹ دی۔
”آپ انکل شہباز کی خاطر اب میرا گھر تڑوا دیں گی۔ شرمین آنٹی نے فون کیا تھا مجھے… شہربانو نے یقینا سب کچھ انہیں بتا دیا ہے میں جس mess کو سمیٹنا چاہتا تھا آپ نے اسے بہت بڑھا دیا ہے میرے لیے۔” شیردل نے بے حد تلخی سے ماں سے کہا۔ منزہ کچھ دیر بول ہی نہیں سکی۔وہ شہربانو سے اس کی توقع نہیں کررہی تھی۔
”شرمین نے تمہیں فون کیا تھا؟ میں نے شہربانو کو منع کیا تھا اس سے بات کرنے سے۔” منزہ کو پہلی بار کچھ regret ہوا۔
”میں نے بھی آپ کو منع کیا تھا شہربانو سے کچھ بھی کہنے سے… اگر آپ میری بات اگنور کر سکتی ہیں تو شہربانو آپ کی بات کیوں مانے گی؟” شیردل نے تلخی سے ماں سے کہا۔
”کیا کہا شرمین نے تم سے؟” منزہ اب شدید اضطراب میں تھی۔




Loading

Read Previous

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Read Next

جواز — امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!