عکس — قسط نمبر ۱۲

”تم نے ان سے کیا کہا؟” چیک ان اسٹارٹ ہونے کے اعلانات کے باوجود اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس نے شیردل سے پوچھا۔ اسے زندگی میں پہلی بار شیردل پر بے تحاشا غصہ آیا تھا اتنا غصہ کہ… وہ اس کے ساتھ دھوکا کررہا تھا،اس سے پوچھے بغیر اسے بتائے بغیر اس کی عدم موجودگی میں وہ اس کے گھر خیردین سے ملنے پہنچ گیا تھا۔
”میں ان سے ایکسکیوز کرنے گیا تھا اور میں ان سے کچھ نہیں کہہ سکا… کیونکہ تم نے انہیں ہر بات سے بے خبر رکھا ہے۔” شیردل اس کے چہرے سے جیسے اس کے دل تک پہنچ رہا تھا۔ وہ لمحوں میں آگ سے موم ہوئی تھی۔
”کس چیز کے لیے ایکسکیوز؟”
”ہر چیز کی۔” ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ بالمقابل کھڑے رہے… ساکت…
سانس روکے… ایک دوسرے کی آنکھوں میں اس چیز کوپہچاننے اور پڑھنے کی کوشش کررہے تھے جو نظرآرہی تھی… اس چیز کو کھوجنے کی کوشش کررہے تھے جو چھپی ہوئی تھی۔ شیردل کی آنکھوں میں عکس نے تھکن کو دیکھا اور اس کے پیچھے ندامت کو… شیردل نے اس کی آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھی اور اس کے پیچھے جھلکتی افسردگی کو… انہوں نے بیک وقت سانس لی تھی، بیک وقت نظریں چرائی تھیں، بیک وقت سر جھکا کردوبارہ سر اٹھایا۔ پھر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا پھر نظریں چرائیں… یوں جیسے دونوں مقناطیس کی طرح ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی کشش کے اثر کے حصار سے نکالنے، توڑنے، چھڑانے، چرانے کی کوشش کررہے ہوں۔




ہر چیز میں کیا کیا تھا؟ عکس نے ایک لمحے سے بھی کم میں سمجھ لیا تھا لیکن یہ ایکسکیوز وہ لینے پر تیار نہیں تھی۔ کم از کم زندگی کے اس لمحے میں نہیں۔
”دیر ہورہی ہے میں چلتی ہوں۔” وہ اس سے کہتے ہوئے یک دم پلٹ گئی تھی۔ شیردل وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے بھی اس کو اندازہ تھا کہ وہ رو رہی تھی۔ وہ اسے وہاں بات کرتے ہوئے روکتا تو وہ اس کے سامنے رو پڑتی۔ وہ ان آنسوؤں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ اس کا اپنا خاندان تھا۔ وہ سنگاپور ائرپورٹ پر” روتی ہوئی چڑیا ”کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا … اس لیے اس نے ڈاکٹر عکس مراد علی کو جانے دیا لیکن وہ تب تک وہاں کھڑا رہا جب تک عکس اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔
عکس نے ایک بار بھی اندر جانے کے بعد اسے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ وہاں کھڑا تھا اور جب تک وہ نظر آرہی تھی وہ وہاں سے ہل نہیں سکے گا… وہ اس سے ایکسکیوز کر رہا تھا اور کہاں کھڑا ہو کر کررہا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود اپنے چہرے کو بار بار بھیگنے سے نہیں روک پا رہی تھی۔ شیردل نے کہا تھا کہ اس نے خیردین سے کچھ نہیں کہا تھا اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ اس نے خیردین سے کچھ کہا ہو گا۔ وہ دونوں اس حد تک ایک دوسرے کی بات پر یقین رکھتے اور کرتے تھے۔
امیگریشن کروانے کے بعد لاؤنج سے گزرتے ہوئے اس نے شیردل کے فون سے باری باری کچھ کالز کی تھیں ۔پہلی کال اس نے جواد کو کی تھی اس نے کال اٹینڈ نہیں کی تھی۔ اس نے چند بار اور کوشش کی لیکن نتیجہ وہی رہا۔ پھر اس نے پاکستان میں اپنے عملے کے اس شخص سے رابطہ کیا تھا جو ہاسپٹل میں خیردین کی دیکھ بھال کررہا تھا پھر اس کو شیردل کے کروائے ہوئے کچھ انتظامات کے ذریعے لاہورمنتقل کر دیا گیا تھا۔ جواد ایک بار اس کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا لیکن اس کے بعد عملے کے اس فرد کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ عکس کو اس وقت جواد کا غائب ہو جانا کچھ چبھا تھا لیکن اس وقت اپنی پریشانی میں اس نے اس کی وجوہات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جواد سے ہونے والی بات چیت میں اس نے اسے اپنے فلائٹ شیڈول کے بارے میں بتایا تھا اور اس نے اسے کہا تھا کہ وہ ائرپورٹ پر اسے پک کرلے گا لیکن اب رابطہ نہ ہونے پر عکس نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے عملے کو ائرپورٹ پر بلوا لیا تھا۔ پاکستان کالز کرنے کے بعد اس نے کویت حلیمہ کوکال کر کے اس سے پاکستان آمد کا شیڈول پوچھا تھا۔ وہ اگلی شام کی فلائٹ سے پاکستان پہنچ رہی تھی۔ ان تمام کالز سے فارغ ہونے کے بعد وہ چند میسجزکررہی تھی جب اس نے فون پر شہربانو کا نام دیکھا۔ وہ اس نے text کیاتھا۔ کچھ دیر کے لیے عکس کو سمجھ نہیں آئی۔ وہ اس text کا جواب دے یا نہ دے۔ text نہ کھولنے کے باوجود اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ اس سے فوری طور پر بات کرنا چاہتی تھی۔ وہ عجیب کشمکش میں بیٹھی رہی۔ پھر اس نے text کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اسے یقین تھا ہاسٹل واپس پہنچ کر شیردل، شہربانو کو خود ہی کال کر لیتا اوراسے فون کے عکس کے پاس ہونے کے بارے میں بتا دیتا۔ اس سے پہلے کہ وہ فون رکھ دیتی سیل فون پر ایک لوکل نمبرسے کال آنے لگی تھی۔ وہ شیردل تھا جو اس سے اس کی فلائٹ کی روانگی چیک کرنا چاہتا تھا۔
شہربانو کو فون کر لو… اس کا message آیا تھا وہ تم سے ایمرجنسی میں بات کرنا چاہتی ہے۔”
”اوکے میں اسے کال کر لیتا ہوں۔ تم نے اسے بتایا ہے کہ فون تمہارے پاس ہے؟” شیردل نے جواباً پوچھا تھا۔
”نہیں، میں نے نہیں بتایا۔ مجھے عجیب لگا تھا کہ…” شیردل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ٹھیک کیا۔ میں خود اس سے بات کرلوں گا۔” چند منٹ دونوں بات کرتے رہے۔ گفتگو کے اختتام پر عکس نے ایک بار پھر شیردل سے کہا۔
”شہربانو کو فون کر لینا وہ ایمرجنسی میں تم سے کوئی بات کرناچاہتی ہے۔” اسے شیردل کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت تھکا ہوا تھا اور سونے کے موڈ میں تھا۔
”ہاں میں کر لوں گا۔” شیردل نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔
چار گھنٹے کے بعد ملائیشیا میں اپنی connecting فلائٹ کے لیے ملائیشیا ائرپورٹ پر قدم رکھتے ہوئے عکس کا فون بہت سارے ٹیکسٹ میسجز سے بجنے لگا ۔ اس نے ان تمام میسجز کو چیک کیا ان میں شہربانو کا کوئی بھی میسج نہیں تھا۔ وہ مطمئن ہو گئی تھی۔ یقینا شیردل اور شہربانو کی آپس میں بات ہو گئی تھی۔ تین گھنٹے کے اسٹاپ اوور میں ملائیشیا ائرپورٹ پر بیٹھے اس نے ایک بارپھر خیردین کی خیریت دریافت کی تھی اور ایک بار پھر جواد سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ خیردین کی حالت ویسی ہی تھی اورجواد بھی اسی طرح غائب تھا اور جب بالآخر ان کالز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے فون رکھنا چاہا تو اس کے فون پر کسی مسز فاروق کی کال آنے لگی تھی۔ وہ چند لمحے اس کال کو دیکھتی رہی اور یہ طے کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ اسے کال لینی چاہیے یا نہیں۔ اس نے بالآخر کال لینے کا فیصلہ کیا ۔ ہیلو کہنے پر دوسری طرف کچھ دیر کے لیے آواز ہی نہیں آئی تھی۔ عکس کو دو تین بار ہیلو… ہیلو کہنا پڑا اور بالآخر اس نے شرمین کی آواز سنی۔
”میں ایبک شیردل سے بات کرنا چاہتی ہوں۔” عکس کو اس آواز میں ایک عجیب سی حیرانی اور بے یقینی کی کیفیت محسوس ہوئی جسے وہ سمجھ نہیں سکی۔
”وہ اس وقت available نہیں ہیں۔ آپ مجھے میسج دے دیں میں ان کو فارورڈ کر دوں گی، وہ آپ کو خود کال کر لیں گے۔” عکس نے بے حد شائستگی سے کہا۔
”آپ کون ہیں؟” مسز فاروق نے ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس سے کہا۔ عکس کو اپنا تعارف کروانے میں تامل ہوا۔
”آپ اپنا میسج دے دیں میں انہیں فارورڈ کر دوں گی۔” اس نے جواب دینے کے بجائے اپنی بات دہرائی۔
”آپ عکس مراد علی ہیں؟” عکس دوسری طرف سے اپنا نام لیے جانے پر یک دم حیران رہ گئی تھی۔ وہ کون تھیں جو اس کے نام سے واقف تھیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ اگر اس وقت وہ نمبر اس کے پاس تھا تو پھر وہ عکس مراد علی تھی۔
”جی۔” وہ اس بار اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکی ۔ دوسری طرف خاموشی چھا گئی اور پھر یک دم فون بند ہو گیا۔ عکس کو لگا شاید کال اتفاقاً ڈس کنیکٹ ہوئی تھی اور مسز فاروق کچھ دیر میں اسے دوبارہ کال کریں گی لیکن دوبارہ کوئی کال نہیں آئی تھی۔ عکس نے ایک بار مسز فاروق کا نمبر چیک کیا تھا۔ وہ امریکا کا نمبر تھا اورامریکا میں شیردل کی آدھی سے زیادہ فیملی تھی یہ عکس جانتی تھی لیکن وہ کون تھی شہربانو کے علاوہ جو اسے اس طرح پہچان جاتی؟ جو اس کے نام سے اس طرح واقف ہوتی کہ شیردل کے فون پر اس کی آواز سنتی تو اسے اس کے نام سے پہچان لیتی۔ یہ انتہائی تشویشناک بات تھی اس کے لیے اور انتہائی الجھا دینے والی بھی۔ اس کا ذہن ایک لمحے کے لیے شہربانو اور اس کی ماں کی طرف گیا تھا لیکن وہ یہ یقین نہیں کر سکتی تھی کہ شرمین اسے فون کرنے پر اسے اس کے نام سے پہچانے گی۔ شہربانو اور اس کے درمیان ایک رسمی علیک سلیک کے علاوہ کبھی کچھ نہیں ہوا تھا اور وہ یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ شیردل اپنی ساس کے سامنے اس کا ذکر کرتا رہا ہو گا اگر کرتا بھی رہتا تب بھی ان کا اس طرح اس کی آواز پر پہلا اندازہ اس کے بارے میں لگانا… وہ بری بری طرح الجھی تھی۔ اسے شیردل سے یہ معاملہ ڈسکس کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس نے اسے کال نہیں کی تھی اور وہ کوشش کرتی تو سیل فون میں اس کے کمرے کا نمبر ڈھونڈ کر آپریٹر کے ذریعے اس سے رابطہ کر لیتی لیکن وہ رات کا آخری پہر تھا اور وہ چاہتی تھی کہ شیردل سوتا رہے۔ وہ اسے ایک معمولی سی بات کے لیے نیند سے جگانا نہیں چاہتی تھی۔
وہ اگلی صبح گیارہ بجے خیردین کے پاس پہنچی تھی اور آئی سی یو کے شیشے سے اس پر پہلی نظر ڈالتے ہی وہ چند لمحوں کے لیے یہ بھول گئی تھی کہ وہاں اس کا عملہ تھا اور ڈاکٹر تھا۔ اس نے بچپن سے آج تک خیردین کو ہاسپٹل کے بستر پر بیمار نہیں دیکھا تھا ،اس طرح پڑے نہیں دیکھا تھا اور اب وہ دیکھ رہی تھی تو اسے یہ سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ خیردین کو کچھ ہو سکتا تھا… پہاڑ ٹوٹتے ہیں لیکن جب تک ہم انہیں اپنے سامنے ٹوٹتا ہوا نہ دیکھ لیں ان کا قابل شکست ہونا ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ خیردین بھی اس کے لیے پہاڑ تھا اور پہاڑ کو ریت بنتے دیکھنا… وہ بہت دیر بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہیں آئی سی یو کے شیشے سے خیردین کو دیکھتی رہی… اندر جانے کی ہمت نہیں کر سکی پھر وہ ڈاکٹر کے ساتھ اندر چلی گئی تھی۔
اس نرم جھریوں بھرے کمزور سوئیوں لگے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ ایک بار پھر سسکیوں سے رونے لگی تھی۔ حلیمہ کی شادی ہو جانے اور اپنا خاندان شروع کر لینے کے بعد خیردین کے علاوہ اس کا دنیا میں واقعی کوئی نہیں رہا تھا۔ اس بستر پر خیردین نہیں تھا اس کا سارا خاندان تھا۔ ماں … باپ… بہن… بھائی… دوست… سب کچھ وہی ایک شخص تھا اس کے لیے… وہ کئی گھنٹے خیردین کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے ایک ٹک اسے دیکھتے ہوئے اس کے پاس بیٹھی رہی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے پوری کائنات تھے اور خیردین کے بے ہوش ہوتے ہوئے بھی عکس کو یقین تھا وہ اس کے ہاتھ کا لمس پہچانتا تھا۔
شام کو حلیمہ بھی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ وہ اکیلے ہی آئی تھی۔ اس کے شوہر یا بچوں میں سے کوئی ساتھ نہیں آسکا تھا۔ شام کو وہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے ابھی اس کلب میں پہنچی ہی تھی جہاں شیردل نے اس کی عارضی رہائش کا انتظام کروایا تھا۔ شیردل کی کال آگئی تھی۔ خیردین اور اس کی خیریت کے بارے میں بات کرنے کے بعد عکس کو مسز فاروق یاد آگئی تھیں۔
”شیردل… مسز فاروق کون ہیں؟” اس نے اچانک شیردل سے پوچھا تھا۔ وہ چونکا۔
”کون مسز فاروق؟”
”تمہارے سیل فون میں ایک نمبر saved ہے۔”
”اوہ وہ… شہربانو کی ممی ہیں۔” شیردل نے دانستا شہباز حسین کی سابقہ بیوی کے حوالے سے شرمین کا تعارف نہیں کروایا تھا۔ عکس کچھ دیر کے لیے بول نہیں سکی تھی۔
”کیوں؟ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟”
”ملائیشیا میں اسٹاپ اوور کے دوران ان کی کال آئی تھی تمہارے فون پر…”
”میرے فون پر…؟” شیردل بے اختیار حیران ہوا۔
”ہاں انہوں نے تمہارا پوچھا پھر میرے بارے میں پوچھا، میں نے جب نام نہیں بتایا تو انہوں نے کہا کیا تم عکس مراد علی ہو؟”
”یہ تم سے شرمین آنٹی نے کہا؟” شیردل ہل گیا تھا۔
”ہاں… وہ میرے بارے میں کیسے جانتی ہیں؟” شیردل فی الحال جواب دینے کے قابل نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا شرمین عکس مراد علی کے بارے میں کیسے جان پائی ہوں گی۔
……٭……
شرمین، مثال کی بات پر ہل کر رہ گئی تھی۔
”شہربانو رو رہی ہے…؟ کس لیے؟” ایک چار سالہ بچی سے کیا جانے والا یہ سوال احمقانہ تھا لیکن وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھیں۔ وہ اپنے بیڈ روم میں اپنی وارڈروب سے کچھ کپڑے نکال رہی تھی۔ جب
مثال دروازہ کھول کر بہت اداس سی ان کے پاس آئی تھی۔
”آؤ بیٹا…” شرمین نے اپنے کام میں مصروف اسے پچکارتے ہوئے کہا۔
”نانو! ممی رو رہی ہیں۔” مثال نے اندر آکر کوئی تمہید باندھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ کام کرتے کرتے رک گئیں۔
”شہربانو رو رہی ہے؟”
”Yes۔”
”کیوں؟ کیا ہوا؟”
”ممی نے کہا میں آپ کو نہ بتاؤں کہ وہ رو رہی ہیں۔” شرمین کو مثال کی اگلی بات پر جیسے ایک اور دھچکا لگا تھا۔ وہ وارڈ روب بند کرنا بھی بھول گئی تھی اور وہاں سے سیدھا شہربانو کے کمرے میں آگئی تھیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ دروازہ بجاکر اندر آتیں لیکن اس بار انہوں نے دروازہ تک نہیں بجایا تھا۔ شہربانو واقعی اندر بیٹھی رو رہی تھی۔ شرمین کے یک دم اندر آجانے پر اسے اتنا موقع نہیں ملا تھا کہ و ہ کوئی احتیاطی تدابیر کر سکتی۔
”کیا ہوا جان؟” شرمین کے ہاتھ پاؤں اسے اس بری طرح سے روتے دیکھ کر کچھ مزید پھول گئے تھے۔ شہربانو جھوٹ بولنا چاہتی تھی۔ کوئی بہانہ بنانا چاہتی تھی۔ ہنس کر بات ٹال دینا چاہتی تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکی۔ شرمین کے پاس آکر بیٹھنے پر وہ بلکتے ہوئے اس کی گود میں منہ چھپاکر رونے لگی تھی۔ شکست خوردگی کا کیا بلا کا احساس تھا جس نے اسے اس وقت اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
”کیا ہوا بیٹا کیوں رو رہی ہو؟ کچھ تو بتاؤ؟” شرمین گھبرائی ہوئی اس سے سوال پر سوال کر رہی تھی۔ اور اس کے پاس کہنے کے لیے جیسے ایک لفظ نہیں تھا۔ وہ شرمین اسے یہ کیسے کہہ دیتی کہ اس کی ساری پیش گوئیاں اور وارننگز ٹھیک ثابت ہوئی تھیں۔ شیردل ویسا ہی مرد ثابت ہوا تھا جیسا وہ اسے سمجھتی تھیں۔ وہ شوہر کی محبت اور وفاداری کا جو تاج سجائے پھرتی تھی وہ آج جیسے بیچ بازار سر سے گرا تھا۔ کیا وہ اس شرمناک ذلت کے احساس کو صرف خود تک رکھنا چاہتی تھی لیکن یہ بھی مشکل تھا یہ بھی ناممکن تھا۔
ماں کی گود میں منہ چھپائے رکھتے ہوئے اس نے شرمین سے کہا۔”ممی! شیردل اپنی کسی کولیگ کے ساتھ افیئر چلا رہا ہے۔” شرمین کپکپانے لگی تھی۔
”کون کولیگ؟”
”عکس مراد علی۔” شہربانو نے روتے ہوئے کہا۔ جو بات تھی وہ بتا نہیں سکتی تھی… بتا دیتی تو اس کی ماں کے اپنے زخموں کے کھرنڈ اترنے لگتے… اس کے باپ کے حوالے سے پھر سوالیہ نشان اٹھتے… وہ شرمین کو ایسا کوئی حوالہ دینا نہیں چاہتی تھی جو عکس مراد علی کو ”ظالم” نظر نہ آنے دیتا۔
”لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم سے کس نے کہا؟ شیردل ایسا نہیں کر سکتا۔” شرمین نے عجیب بے یقینی اور دل گرفتگی سے یکے بعد دیگرے کئی سوال کر ڈالے۔ ابھی کچھ گھنٹوں پہلے تک تو وہ خوش باش تھی… ہر روز تو وہ شیردل کی تعریفیں کرتی تھی… اس کی کوئی بات شیردل کے حوالے کے بغیر پوری نہیں ہوتی تھی اور اب یک دم وہ کہہ رہی تھی کہ… شرمین کو یقین نہیں آیا۔ اس خاندان کے حوالے سے خدشات رکھنے کے باوجود اسے یقین نہیں آیا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ وہ سب کچھ ہو سکتا تھا۔
”ممی نے بتایا ہے مجھے کچھ دیر پہلے فون پر کہ…” شہربانو نے روتے ہوئے کہا۔
”کیا بتایا ہے؟” شرمین نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔ بس یہی بتایا ہے کہ سنگاپور میں بھی اکٹھے ہیں دونوں۔”
”میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ بیٹھے بٹھائے شیردل کیوں ایسا کچھ کرنے لگا… تم نے پہلے کبھی…”
”ممی میں کچھ نہیں جانتی تھی… میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔” وہ شرمین کی بات کاٹتے ہوئے ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اس ساری گفتگو میں یہ پہلا سچ تھا جو وہ بول رہی تھی۔ وہ واقعی عکس اور شیردل کے ماضی کے اس تعلق کے حوالے سے کچھ نہیں جانتی تھی۔
شرمین کچھ دیر کے لیے بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی تھی۔ ”اس سے بات کرو تم… پوچھو۔” اس نے بالآخر جیسے عجیب اضطراب کے عالم میں کہا۔
”ممی میں اب اس سے کبھی بات نہیں کروں گی۔”




Loading

Read Previous

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Read Next

جواز — امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!