وہ صدمے کی حالت میں باری باری ان تمام کاغذات کو دیکھتا گیا تھا جو اس کی ماں نے کچھ دیر پہلے اس کے سامنے رکھتے ہوئے اسے ان کاغذات میں موجود کیس کی نوعیت بتاتے ہوئے آگ بگولہ لہجے میں کہنا شرع کیا۔
”تم اس عورت کی جرأت دیکھو کہ کس دھڑلے سے تمہیں فریق بنا رہی ہے وہ… انگور کھٹے ہیں والی صورت حال ہو گئی ہے یہ تو… تم نے شادی نہیں کی اس کے ساتھ… وہ کر لیتے تو سارا مسئلہ حل ہو جاتا اور اب وہ گڑے مردے اکھاڑنے پرتلی ہوئی ہے… نانا کے ساتھ ناانصافی ہوئی… یہ تو شہباز کا بڑاپن تھا کہ اس نے اس بڈھے کو سزا میں جیل نہیں کروائی ورنہ جتنا مالی نقصان وہ پہنچاتا رہا تھا اسے اصولی طورپر جیل کروا دینی چاہیے تھی اسے… ایسے لوگوں پر ترس کھانے اور چھوٹ دینے کا مطلب اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا ہوتا ہے… آستین کے سانپ کو دودھ پلانے والی بات ہے یہ تو… اب تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا میں کیوں تمہاری اس کے ساتھ شادی کرنے پر تیار نہیں تھی۔ میں پہلے دن سے اس کی اصلیت جانتی تھی۔ اس لیے بار بار تمہیں منع کرتی تھی کہ اس سے دور رہو لیکن تم پر کبھی میری کسی بات کا اثر نہیں ہوا… اب دیکھ لیا نا کہ خاندان اور خاندانی پن کی کیا اہمیت ہوتی ہے… خاندان اپنا آپ دکھاتا ہے شیردل جیسے اس عورت کا دکھا رہا ہے۔” وہ سر جھکائے ان کاغذات کو ہاتھ میں لیے بت کی طرح اس میں ایک ہی نام کو بار بار مختلف صفحات پر دیکھ رہا تھا… وہ شہباز حسین کے داماد اور بھانجے کے طور پر فریق بنایا گیا تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ اس نے شہربانو اور منزہ کو فریق نہیں بنا ڈالا تھا۔منزہ کا کوئی ایک جملہ کوئی ایک لفظ شیردل کی سمجھ میں نہیں آیا تھا… اس کا ذہن اس وقت کچھ ایسا ہی مفلوج ہوا تھا۔
ڈاکٹر عکس مراد علی… اور وہ برہنہ لرزتی کانپتی روتی اور چلاتی ہوئی چڑیا… ان دونوں ناموں میں ایبک شیردل کوئی تعلق کیسے نکال پاتا… وہ طاقت اور بے بسی کو آپس میں کیسے جوڑتا… آخری image جو اس نے چڑیا کا اس رات کے پچھلے پہر دیکھا تھا اس نے موسم گرما کی ان چھٹیوں میں اس کے ساتھ گزارے ہوئے تمام خوش گوار لمحات اور یادوں کو اپنی ہولناکی اور بدصورتی سے گہنا دیا تھا… چڑیا اسے جب بھی یاد آئی تھی اسی ایک منظر کے حوالے سے آئی تھی اور وہ اس منظر کو یاد نہیں کرنا چاہتا تھا جس نے اس کی زندگی میں سے اس کا آئیڈیل نکال دیا تھا… کچھ بھی نہ سمجھ پانے کے باوجود اس نے شہباز حسین کا وہ بت ضرور توڑ دیا تھا جس کی وہ پرستش کرتا تھا… وہ ہمیشہ انکل شہباز کی طرح ہونا چاہتا تھا لیکن وہ اب کبھی انکل شہباز کی طرح نہیں بننا چاہتا تھا۔
ڈاکٹر عکس مراد علی… اور… چڑیا… اور خیردین… ایک گہرا سانس لے کر اس نے ان تمام کاغذات کو واپس ٹیبل پر رکھ دیا اور ٹیبل پر رکھے ہوئے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر پانی پیا… ماؤف اعصاب اور حواس کو بحال کرنے کے لیے وہ اس وقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ جو کچھ اس نے چند لمحوں پہلے دیکھا اور پڑھا تھا و ہ اس کا بدترین خواب تھا۔
”میں نے تمہارے پاپا کو ابھی کچھ نہیں بتایا انہیں پتا چلے گا تو وہ تو حشر کر دیں گے اس عورت کا… اور ساتھ تمہارا بھی… کیونکہ تمہاری دوستی نے ہی اس عورت کو اتنی جرأت دی ہے… اب جاکر ملو اس سے… اور شٹ اپ کال دو اسے… یا پھر تم کو پہلے سے پتا تھا کہ وہ کون تھی اور کیا کرنے والی تھی۔” منزہ نے تحکمانہ انداز میں اس سے بات کرتے کرتے اچانک کسی وہم میں اس سے پوچھا۔
شیردل نے گلاس واپس ٹیبل پر رکھ دیا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔”نہیں میں نہیں جانتا تھا۔” اس نے مختصراً ماں سے کہا اور منزہ کو اس کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
وہ وہاں تین گھنٹے بیٹھا منزہ کی باتیں سنتا رہا، وہ غصے میں تھی اور بہت زیادہ ہرٹ بھی… شہباز اس کا اکلوتا بھائی تھا۔ اسے حد سے زیادہ عزیز تھا۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ اس کی ناگہانی موت کا صدمہ بھول نہیں سکی تھی اور اب اس کے اسی عزیز ترین اکلوتے بھائی کو اس کی موت کے بعد کوئی ایک ”برا” ثابت کرنے پر تل گیا تھا۔ وہ تڑپ نہ جاتی تو کیسے نہ تڑپ جاتی۔ شیردل کو اپنی ماں کی تکلیف کا اندازہ تھا… اس کو اس شاک اور تکلیف کا بھی اندازہ تھا جو شہربانو کو اس کیس کے بارے میں جاننے سے ہو سکتی تھی۔
”آپ شہربانو سے کچھ مت کہیے گا۔” شیردل نے منزہ کی گفتگو کے اختتام پر اٹھتے ہوئے کہا ۔ وہاں سے واپسی کا سارا سفربھی اس نے اسی گم صم کیفیت میں کیا تھا۔ وہ عکس کے بارے میں سوچتا رہا اور وہ چڑیا کے بارے میں سوچتا رہا… ڈاکٹر عکس مراد علی پہلے دن سے اس سے واقف تھی۔ کم از کم وہ اب یہ خوش فہمی نہیں پال سکتاتھا کہ وہ اکیڈمی میں آنے کے بعد اس سے متعارف ہوئی تھی… اتفاقاً… وہاں یقینا بہت کچھ اتفاق نہیں تھا… وہ اسے کیوں اس بری طرح سے avoid کرتی تھی۔ اس کی وجہ وہ اب سمجھ پارہا تھا،وہ اس کی arrogance نہیں تھی اس کا ایبک شیردل ہونا تھاجو اس کے لیے مسئلہ تھا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی پہلی بار ان کے درمیان برف کیسے پگھلی تھی۔ رقابت اورا نا کی برف… اسے یاد آیا تھا وہ STP کی ٹریننگ کے دوران کنٹری ٹور پر ایبٹ آباد گئے ہوئے تھے اور وہاں ریسٹ ہاؤس میں لنچ کے دوران اس کے حلق میں مچھلی کھاتے ہوئے کانٹا پھنس گیا تھا۔ اس نے کھانسنا شروع کیا ، چند لمحوں کے لیے اسے سانس لینے میں دقت ہوئی۔ پورا گروپ فوری طور پر اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا اور عکس اٹھ کر اس کے برابر والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔ وہ اس گروپ میں موجود واحد ڈاکٹر تھی اور شیردل کو فرسٹ ایڈ دینا کہے بغیر بھی اسی کی ذمے داری تھی۔ بالکل ایک پروفیشنل ڈاکٹر کی طرح شیردل کو دلاسا دیتے ہوئے اس نے اس کی پشت کو تھپکا ۔ پھر سامنے پڑی چپاتی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر شیردل کو نگلنے کے لیے دیا۔ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا لقمہ نگلنے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ البتہ شیردل کو اب سانس لینے میں پہلے جیسی دقت نہیں ہورہی تھی۔ عکس نے روٹی کے ٹکڑوں کے کام نہ کرنے پر ایک گلاس میں لیموں کا رس نکلوا کر پلایا تھا۔ اس سے شیردل کا کانٹا نکل گیا تھا لیکن گلا بیٹھ گیا تھا۔
رات کے وقت وہ ریسٹ ہاؤس کے لان میں سگریٹ پینے کے لیے آکر بیٹھا تھا۔ ان دنوں اس نے نئی نئی اسموکنگ شروع کی تھی جب اس نے عکس کو بھی لان میں واک کرتے دیکھا۔وہ سگریٹ سلگاتے سلگاتے رک گیا اور اس کی طرف چلا آیا۔ وہ بھی اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر رک گئی تھی۔
”گلا کیسا ہے اب تمہارا؟” اس نے شیردل سے پوچھا۔
”بہتر ہے۔” شیردل نے اپنی لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔ وہ ہمدردانہ انداز میں مسکرائی۔
”گرم پانی سے غرارے کرنے چاہئیں اب تمہیں نمک ڈال کر… میرا خیال ہے صبح تک بہتر ہو جائے گا۔” اس نے پھر کسی فزیشن کی طرح اس سے کہا تھا۔ شیردل نے بات کرتے کرتے اس کی نظروں کو اس کے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ اور لائٹر پر مرکوز دیکھا تھا پھر وہ دوباہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
”ویسے ایک لحاظ سے تو اچھا ہے۔ اب کچھ وقت تو تم چپ رہو گے۔” شیردل نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا ۔ وہ سنجیدہ نظرآرہی تھی لیکن جملہ سنجیدہ نہیں تھا۔
”مطلب؟” وہ اس کا مطلب سمجھ گیا تھا لیکن پھر بھی پوچھنے سے نہیں چوکا تھا۔
”کوئی خاص مطلب نہیں۔” عکس نے اطمینان سے کہا۔
”تم اگر ڈاکٹر ہوتیں تو اچھی ڈاکٹر ہوتیں۔” اس نے دقت کے ساتھ بھی بولنے سے گریز نہیں کیا ۔
”میں جانتی ہوں۔” جواب کمال اطمینان سے آیا تھا۔ وہ مسکرا دیا۔
”میں بھی واک کرنے آیا تھا۔” شیردل نے کہا۔
”ضرور کریں۔” عکس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے لان کی طرف اشارہ کیا اور خود دوسری طرف چل دی۔ شیردل کچھ لمحوں کے لیے بالکل سٹپٹا کر رہ گیا تھا۔ پھر وہ بے اختیار اس کے عقب میں آیا۔ عکس نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ شیردل ڈھٹائی سے مسکرایا تھا۔
”ہم ساتھ بھی کر سکتے ہیں واک۔”
”ساتھ صرف باتیں ہو سکتی ہیں واک نہیں۔”
”میرا گلا خراب ہے اس لیے آج میں صرف تمہیں سنوں گا۔” شیردل نے بڑی فیاضانہ آفر کی۔
”اور میرے پاس سنانے کے لیے کچھ ہے نہیں۔” وہ مسکرائی۔
”ہو سکتا ہے کچھ یاد آجائے۔” شیردل نے اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ اس نے عکس کو ایک گہری سانس لے کر کہتے ہوئے سنا۔
”ہاں یاد تو بہت کچھ آسکتا ہے لیکن میں کچھ یاد نہیں کرنا چاہتی۔”
”ویسے یہ حیرانی کی بات ہے کہ ہم میں بات چیت کا سلسلہ اتنا محدود ہے۔” شیردل نے اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں کہا۔ عکس نے جواباً کچھ نہیں کہا تھا۔
”تمہاری کوئی رائے نہیں ہے؟”
”اگر تم اس طرح بولتے رہے تو اگلے دودن بھی تمہارا گلا اسی طرح رہے گا۔” عکس نے یک دم اسے ٹوک کر وارن کیا۔”مجھے اگر یہ غلط فہمی تھی کہ تم اپنے گلے کی اس حالت کے ساتھ بول نہیں سکتے تو وہ دور ہو گئی۔” شیردل بے اختیار ہنسا۔
”اگرتم بات نہیں کرو گی تو ظاہرہے مجھے ہی بات کرنی پڑے گی۔” اس نے جیسے ملبہ عکس کے سر پر ڈالتے ہوئے کہا۔
”تم مجھے سوچنے کا موقع دو گے تو میں بات کروں گی نا۔” اس نے ساتھ چلتے ہوئے جواباً کہا۔
”اچھا سوچو۔” شیردل نے فوراً پسپائی اختیار کی اور خاموش ہو گیا۔ عکس اس کے ساتھ چلتے ہوئے کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے ایک بہت عجیب سوال کیا تھا۔
”تم مجھے ناپسند کرتے ہو؟” شیردل کچھ دیرکے لیے بول نہیں سکا… سوال اتنا ہی غیر متوقع تھا پھر چند لمحے خاموش رہ کر اس نے کہا۔
”ناپسند… تو نہیں… لیکن ہاں تم مجھے کچھ عجیب لگتی تھیں۔”
”لگتی تھیں؟” عکس نے مسکرا کر کہا۔
”ہاں پہلے زیادہ لگتی تھیں۔ اب تھوڑا کم لگتی ہو اور آج تھوڑا اس سے بھی کم۔” وہ مسکرا دی۔ ”تم بھی تو مجھے ناپسند کرتی ہو؟”
”No way۔” عکس نے بے ساختہ کہا۔
”اچھا؟ مجھے ہمیشہ لگا۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ تم غنی حمید کے ساتھ ہوتی ہو زیادہ تر… میں نے سوچا شاید اس نے میرے بارے میں ایسا کچھ کہا ہے کہ تم مجھے ناپسند کرنے لگی ہو۔” شیردل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
”غنی حمید نے مجھے تمہارے بارے میں کیا کہنا تھا؟” عکس نے جواباً بڑی سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
”کوئی جھوٹ۔”
”میں جھوٹ پرکھ سکتی ہوں۔”
”بعض لوگ بہت اچھا جھوٹ بولتے ہیں، ان کے جھوٹ کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا۔” شیردل نے سنجیدگی سے کہا۔
”ٹھیک کہتے ہو تم لیکن غنی بہت اچھا انسان اور دوست ہے۔” بڑے سادہ سے انداز میں بنا سوچے سمجھے کہے گئے اس جملے نے شیردل کو جلا کر کوئلہ کر دیا تھا۔ اسے یاد نہیں تھا زندگی میں وہ کسی عورت کو اتنی attention دیتا پھررہا ہو اور وہ پھر بھی اس کے سامنے کسی دوسرے مرد کے گن گائے اور وہ بھی غنی حمید کے جس کی وہ شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتا ہو۔
”اچھے انسان کا تو مجھے یقین نہیں لیکن تمہارا دوست ضرور ہے وہ۔” شیردل کے لہجے کی گرم جوشی یک دم غائب ہوگئی تھی۔”اوکے… میں چلتا ہوں۔”
”Good night”۔ عکس نے جواباً اس سے کہا۔ وہ شدید خفا ہوا اور اسے جواباً گڈ نائٹ کہے بغیر وہاں سے آگیا ۔ اس کا خیال تھا وہ جانے کا ارادہ ظاہر کرے گا اور وہ اسے روکنے کی کوشش کرے گی۔ دل سے نہ سہی رسماً ہی اسے رکنے کا کہہ دے گی… عکس مراد علی نے ایسی کوئی رسم نہیں نبھائی تھی۔ یہ بالکل ایسا تھا۔ ”میں جاتا ہوں۔” ”سو بسم اللہ۔” شیردل اس رات کمرے میں آکر بھی تپا رہا۔ اس لڑکی کی طرف سے اسے کوئی لفٹ نہیں مل رہی تھی ۔مسئلہ یہ اتنا بڑا نہیں تھا مسئلہ یہ تھا کہ وہ جس شخص کو اس پر ترجیح دے رہی تھی بدقسمتی سے وہ غنی حمید تھا۔
اگلی صبح ڈائننگ روم میں ناشتے کے دوران اس کی عکس سے دوبارہ ملاقات ہوئی تھی اور اس نے خوش دلی سے اس سے اس کے گلے کے بارے میں پوچھا تھا۔ شیردل چاہتے ہوئے بھی اس سے خفگی برقرار نہیں رکھ سکا۔ عکس مراد علی بھی کچھ عجیب طرح سے اثرانداز ہوتی تھی اس کے اعصاب اور حواس پر اور وہ جس طرح سے اسے اور اپنے batch mates کو ہینڈل کیاکرتی تھی شیردل نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ستائش کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔ وہ ہر ایک سے خوش دلی سے بات کرنے کے باوجود ہرایک کو ایک فاصلے پر رکھے ہوئے تھی… غنی حمید کے ساتھ اگرچہ اس کی دوستی ان سب ہی کی نظروں میں تھی لیکن غنی حمید کے ساتھ دوستی کے باوجود ان سب کو وہ دونوں ہر وقت اکٹھے نظر نہیں آتے تھے۔ نہ ہی کونوں کھدروں میں بیٹھ کرباتیں کرتے پائے جاتے تھے اورنہ ہی عکس مراد علی اپنے ہر کام کے لیے غنی حمید کی خدمات کی منتظر یا طلب گار رہتی تھی… شیردل اپنے تمام اختلافات اور رقابت کے باوجود ان دونوں کے تعلق میں کوئی ایسی چیز نہیں ڈھونڈ پایا تھا جو سرگوشیوں کو جنم دیتی یا جو ان پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتی… وہ دونوں اکثر جہاں بات چیت کرتے پائے جاتے وہاں گروپ کے باقی لوگوں میں سے بھی کوئی نہ کوئی ہوتا اور ان کے درمیان جو بھی بات چیت ہوتی تھی وہ سب کے سامنے تھی۔ شیردل شاید اس گروپ کا واحد شخص تھا جسے ان کی دوستی پر اعتراض تھا۔
وہ اب عکس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی یہ ماننے پر تیار نہیں تھا کہ وہ دانستہ طورپر اسے teaseکرنے کے لیے یہ سب کررہی تھی۔ گاڑی اس کے گھر کے پورچ میں رکی تھی جب اس نے فون پرعکس کی کال آتے دیکھی تھی۔ ایک گہری سانس لے کر وہ کچھ دیر اس کے نام کو دیکھتا رہا۔ چند گھنٹوں نے کیا کچھ بدل دیا تھا ان دونوں کے بیچ میں۔
”ہیلو۔” فون اٹھاتے ہوئے اس نے کہا۔ ”ہیلو۔” دوسری طرف سے آنے والی آوازمیں اس نے پہلی بار چڑیا کو شناخت کرنے کی کوشش کی اور چڑیا مل گئی تھی۔ اس نرم آواز میں آج بھی چڑیا کی ریشمی آواز کی ملائمت جھلکتی تھی۔ دونوں کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کے دوران وہ بہت کم بولا تھا۔ وہ ایک رات پہلے اس کی کہی جانے والی باتوں کو اب سمجھ رہا تھا۔ معنی پہنانے کے قابل ہو گیا تھا۔
”تم ٹھیک ہو؟” اس سے چند منٹ بات کرنے میں بھی عکس نے اس کے غیر معمولی رویے کو نوٹس کیا تھا۔
”ہاں، کیوں؟” شیردل نے حیران ہوئے بغیرکہا۔ وہ ایک دوسرے سے کچھ بھی چھپا نہیں سکتے تھے اس لیے چھپانے کی کوشش میں وہ وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے لہجے کو جتنا بھی نارمل رکھتا وہ پھر بھی اس کی ذہنی کیفیت کو بھانپ جاتی۔
”خاموش ہو۔”
”طبیعت ٹھیک نہیں کچھ۔” یہ واحد بہانہ تھا جو سب کچھ چھپا لیتا۔ وہ اسے اپنا خیال رکھنے اور آرام کرنے کا کہتی رہی پھر اس نے فون بند کر دیاتھا۔
وہ اس رات قریباً ساری رات اسموکنگ کرتا رہا۔ وہ سو نہیں سکا تھا۔ بعض جنگیں ضمیر اور بے ضمیری کے درمیان ہوتی ہیں۔ وہ بھی اس رات وہی جنگ لڑ رہا تھا۔ عکس مراد علی کے اس نئے تعارف نے اسے بہت پیچھے جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ایک شدید احساس جرم میں مبتلا کر دیا تھا۔چڑیا کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ اس کا عینی شاہد تھا اوریہ شہادت اس کے دل پر ایک بوجھ کی طرح تھی۔ اس دائر کیے جانے والے کیس میں اس الزام کے حوالے سے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ شہباز حسین کے خلاف ایک سادہ misconduct اختیارات کے غلط استعمال اور خیردین پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کا کیس تھا اس کے باوجود شیردل صرف اس ایک رات کے بارے میں سوچتا رہا تھا…بہت کچھ اب اس کی یادداشت میں اس طرح محفوظ نہیں رہا تھا جیسے پہلے تھا لیکن اس کے باوجود جو کچھ اسے یاد تھا اس کے بعد عکس مراد علی سے نظر ملانا اس کے لیے بہت مشکل ہوگیا تھا ۔
عکس اس وقت لاہور میں تھی اور اسے اس رات لاہور ہی میں رہ کر اگلے دن وہاں سے سنگاپور کی فلائٹ لینی تھی۔ وہ نہیں جانتا اسے کیا خیال آیا تھا لیکن اگلے دن لاہور جانے سے پہلے وہ صبح سویرے خیردین سے ملنے چلا آیا تھا۔
……٭……