میر صاحب نے ہلکی سی کھنک سے پلیٹ میں چمچ رکھا اور معید سے مخاطب ہوئے تو ان کی آواز میں گرج صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“
معید کو معاملے کی نزاکت کا اندازہ ہو چکا تھا تبھی اس نے بات بنائی :
”کچھ نہیں بابا !وہ آج کل کے نو جوان ادیبوں کی کتابیں پڑھ رہی ہے عائلہ۔“
معید کو کِن انکھیوں سے دیکھتے ابراہیم صاحب کی نظر عائلہ پہ گئی جو پلکیں جھکائے پر سکون نظر آنے کی کوشش میں ہلکان نظر آرہی تھی۔ میر ابراہیم سید نے ٹیبل سے اُ ٹھتے ہوئے حتمی انداز میں موضوع لپیٹتے ہوئے کہا:
”بہرحال جو بھی ہے آئندہ عائلہ کیفے گل محمد کے ساتھ جائے گی، لیکن واپسی پہ میرے یا معید کے ساتھ آئے گی ۔“
پھر مو¿دبانہ ہاتھ باندھے کھڑی ذاکرہ کو براہوی میں مخاطب کرتے ہوئے کہا :
”اور لڑکی تم!ہمیشہ گودی کے ساتھ رہوگی ، وہ جہاں بھی جائے ساتھ رہوگی ، سمجھی ؟“
ان کی آواز کی گرج پہ لرز کے ذاکرہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
ڈائننگ روم میں دبیز خاموشی چھا گئی اور میر صاحب اپنی اسٹڈی کی طرف بڑھ گئے۔
یہ اتوار کا دن تھا ۔ آج سمندر کا رنگ ہی الگ تھا۔ جانے کیا بات تھی لیکن آج سمندر پانی کا نہیں سونے کا بہتا پانی لگ رہا تھا ۔ ابھی سورج کے غروب ہونے میں بھی بہت وقت باقی تھا، لیکن آج سورج سمندر کی لہروں پہ پہلے سے اپنا سنہرا رنگ چڑھائے جا رہا تھا۔ گلاس وال سے اس پار دیکھنے والی اکیلی عائلہ نہ تھی۔ کیفے میں موجود کافی کھوئے کھوئے سے لوگ تھے جو بیٹھے کیفے میں تھے، مگر وہاں کے ما حول سے بیگانہ سمندر کی سنہری لہروں پہ نظریں ٹکائے ہوئے تھے۔
عائلہ اب بھی ہر اتوار کے دن کیفے ضرور آتی تھی۔ ا سے کیا فرق پڑھتا تھا کہ ا سے بابا لینے آئیں یا لالا ا سے صرف عبداللہ کو دور سے دیکھنے سے مطلب تھا۔ ا سے فرق نہ پڑتا تھا کہ ذاکرہ ا س کے ساتھ ہے یا نہیں۔ اس نے تو پہلے دن ہی سے خود اپنی صابر محبت کی حدود متعین کر دیں تھیں۔ ا س کی محبت ایک راز کی طرح تھی ، کیوں کہ وہ ”عائلہ سید“ کی محبت تھی۔
عائلہ کو اپنا آپ بچپن میں پڑھی الف لیلوی کہانیوں کے جن جیسا لگا جس کی جان کسی طوطے میں ہوتی تھی اور وہ اِ س بات کو کسی راز کی طرح چھپا کے رکھتا ، ا س کی حفاظت کرتا کہ کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے اور وہ اس طوطے کو نقصان نہ پہنچا دے۔ عائلہ سید کی جان بھی تو عبداللہ سکندر میں تھی۔ وہ عبداللہ سکندر جو سورج جیسا تھا ، جسے وہ دیکھ سکتی تھی سن سکتی تھی، لیکن وہ نہ ا سے دیکھتا نہ ہی سنتا۔
اس ایک نظر کے بعد عبداللہ نے کبھی اس کی طرف نگاہ نہ کی۔ چھے ماہ گزر گئے عائلہ ہر اتوار آتی، پر عبداللہ سکندر کے لیے پورے کیفے میں صرف عائلہ سید ہی تھی جو موجود ہی نہ تھی۔ عائلہ کو وہ ایسے نظرانداز کر دیتا کہ عائلہ کو خود اپنے ہونے پہ شک ہونے لگتا۔ آج بھی ا س کے انتظار میں بیٹھی عائلہ مستعدی سے اِدھر اُدھر ٹرے لاتے لے جاتے عمران خان کو دیکھ رہی تھی۔
کتنا خوش قسمت تھاوہ گول مٹول سادہ سا پٹھان لڑکا، عبداللہ کا چہیتا۔ ا س کا معصوم چہرہ جس پہ عبداللہ نظریں ڈالتا تھا، ا س کی آواز جسے عبداللہ سنتا تھا، ا س کے ہاتھ جو عبداللہ کے ہاتھوں کو مصافحہ کے لیے چھوتے تھے، سب کتنے قیمتی تھے۔
اسے دور کافی کاﺅنٹر سے کپ اٹھاتا عمران خان سونے کا بنتا دکھائی دیا، وہ سونے کا ہی تو تھا۔ عبداللہ، پارس تھا جسے چھو لے سونا کر دے۔
”السلام علیکم باجی۔“
عمران خان کے سلام کرنے پہ وہ بری طرح چونکی تھی۔ عمران خان ہمیشہ کی طرح ا س کی مخصوص کافی اور ذاکرہ کی چائے ، سینڈوچز ، ِبنا آرڈر کیے ہی لے آیا تھا۔ عائلہ کو تھوڑی دیر ہی لگی تھی حواس بحال کرنے میں:
”وعلیکم السلام! کیسے ہو عمران خان، بہت شکریہ کافی کے لیے۔“
عمران خان سے کافی لے کے رکھتی ذاکرہ کے لیے یہ نرم لہجہ نیا نہ تھا۔ اس کی گودی ہر دفعہ ہی عمران خان سے اتنی ہی نرمی سے مخاطب ہوتی۔
پشتو لب ولہجے میں ا رد و بولتے عمران خان نے جوش سے جواب دیا :
”میں ٹھیک ہوں باجی ، آپ کی مہربانی۔“اور آگے بڑھ گیا۔
عائلہ، عمران خان کی پیٹھ پہ نظریں جمائے اپنے دل میں ہی عبداللہ سے مخاطب ہوئی تھی: