عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

اس کی بران آنکھوں پہ الودا ع کہتی دھوپ کی شعاعیں پڑ رہی تھیں۔ عبداللہ کو لگا جیسے وہ بران آنکھیں پگھل رہی ہوں۔ ا سی حسین شام کی طرح پگھل کے گلابی رنگ میں ڈھل رہی ہوں۔ اس کی ناک بہت چھوٹی سی تھی جو شاید ٹکر کی تاب نہ لاتے ہوئے بے حد گلابی ہو رہی تھی۔ ا س میں چمکتا ہیرا، سورج کی شعاعیں پڑنے پہ انوکھا جلترنگ مچارہا تھا۔ ا س کے نیم وا ہونٹ کسی کِھلے ہوئے گلابی پھول کی پنکھڑیاں ہوں جیسے۔ اس کی چادرسر سے سرک کے کندھوں پہ جھول گئی تھی۔ چادر کی او ٹ سے اس کے بران بال ا س کے چہرے پہ اُڑ کے بکھر رہے تھے ۔

اس لڑکی کی آنکھوں میں کچھ تو تھا جو عبداللہ کو سوچنے پہ مجبور کر رہا تھا۔ کیا تھا وہ؟ 



ایسی نرمی ،ایسی شناسائی جو صرف کسی اپنے کے لیے ہوتی ہے۔ ایسی ستائش جو اس نے آج تک کسی آنکھوں میں اپنے لیے نہ دیکھی تھی یا پھر التجا تھی ، نظر نہ پھیرنے کی ۔ ا س کی آنکھوں کے راز کھوجتا عبداللہ اور اس کی ایک نظر کی بھکارن عائلہ ، بت بنے یونہی جانے کتنی دیر سے کھڑے تھے کہ دور کسی موذن نے فلاح کی دعوت دی تھی۔

عائلہ جیسے نیند سے جاگی تھی ۔ اس سنے جلدی سے اپنی ہلکی گلابی قندھاری کڑھائی والی چادر اپنے سر پہ وقار سے اوڑھی ۔ عبداللہ بھی جیسے ہوش میں آگیا۔ اس نے جھک کے اس کے پیروں کے پاس سے اس کا آف وائٹ والٹ اور فون اٹھایا تھا کہ اس کی نظر اس کے پیروں پہ پڑی، اتنے حسین پیر ا ن میں نازک سٹراپس والی وائٹ چپل۔ وہ کوشش کے باوجود اس کے گلابی پیروں سے نظر نہ ہٹا پایا ۔ دودھیا پیر، گلابی لمبی انگلیاں، خوب صورتی سے تراشیدہ صاف ناخن اور ا ن میں بہت پتلی نازک سونے کی زنجیریں۔ وہ اور نہ جانے کتنی دیر وہیں جھکے ا س کے پیروں پہ نظر رکھتا کہ ا س کے تیزی سے قدم اٹھانے پہ جلدی سے اوپر ہوا اور عائلہ کو مخاطب کیا :

یہ آپ کی چیزیں ۔

عائلہ تیزی سے مڑی اور نظریں جھکائے ا س کے ہاتھوں سے اپنا فون اور والٹ لے کے ا سی تیزی سے پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھ گئی۔ اِس بات سے بے خبر کے دو ذہین چمک دار کالی آنکھوں نے اس کاگاڑی تک پیچھا کیا تھا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی ا س نے لالا کو فون کیا اور پہلی دفعہ ا ن سے کسی کتاب کی فرمائش کی جس پہ لالا بھی حیران ہوئے تھے۔ پر عائلہ کو جیسے تیسے جلد از جلد عبداللہ کی تجویز کردہ کتاب پڑھنی تھی۔ وہ ان لفظوں کو محسوس کرنا چاہتی تھی جنہیں عبداللہ کی آنکھوں نے چوما تھا۔

یہ عائلہ کا معمول بن گیا تھا، ہر اتوار کو کیفے سے واپسی پہ وہ معید سید کو کوئی کتاب لانے کو کہتی اور پھر پورا ہفتہ ا سے پڑھنے میں یوں مگن ہوتی کہ نہ کھانے کی خبر رہتی نہ گھر والوں کو وقت دینے کا خیال۔ اس کی ماں فکر مندتھی کیوں کہ عائلہ کا معمول کبھی اِ س بری طرح متاثر نہیں ہوا تھا جتنا پچھلے تین مہینوں سے تھا۔ ا س نے سب جگہ آنا جانا ہی چھوڑ دیا تھا ، بس اتوار کے دن کیفے جاتی، کبھی ذاکرہ کو لے جاتی کبھی چھوڑ جاتی۔ پھر واپس آ کے سارا وقت کمرے میں بند ہو کہ کوئی کتاب پڑھتی رہتی۔ کچھ تھا جو ا س کی سادہ سی ماں کے دماغ میں ناگہانی کی خلش جگا رہا تھا ۔ انہوں نے معید اور ابراہیم صاحب دونوں سے محتاط لفظوں میں اپنی اُلجھن کا اظہار کیا تھا۔ ابراہیم صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ آئندہ عائلہ کیفے گل محمد کے ساتھ جائے گی لیکن واپسی پہ معید یا وہ خود ا سے لینے جائیں گے ۔ یوں اگر عائلہ کے دل میں چور ہو گا تو وہ خود با ہر آجائے گا، جب کہ سکینہ صاحبہ نے اپنی طرف سے ذاکرہ سے بھی پوچھ گچھ کی تھی جسے پہلے دن سے علم تھا کہ اس کی گودیآلہو کہ ایکا متیپہ دل ہار بیٹھی ہے، مگر عائلہ کے مضبوط کردار اور دور سے عبداللہ کو دیکھنے والی خاموش ، صابر محبت میں ا سے کوئی ممانعت نظر نہ آئی۔ تبھی اس نے لب بند رکھتے ہوئے اپنی گودی کی محبت کا پردہ رکھا۔

ہفتے کے دن عائلہ نےپیرِ کاملختم کی ، تو ہشاش بشاش کھانے کی میز پہ نظر آئی ، ورنہ ایک ہفتے سے ا س کا کھانا کمرے میں جا رہا تھا جسے اکثر وہ بنا کھائے لوٹا دیتی۔ اماں کے پوچھنے پہ کتاب سے سر اٹھا کہ شستہ فارسی میں جواب دیتی:

وہ امامہ اداس تھی، میرا بھی دل نہیں کیا کھانے کو۔

سکینہ صاحبہ حیرت سے پوچھتیں :

امامہ کون ؟



توعائلہ کھلکھلا کہ ہنستی :

اماں ناول کی ہیروئن اور کون۔

تو سکینہ صاحبہ بھی مُسکرا دیتیں ، مگر ان کے دل کے وسوسے ختم ہی نہ ہوتے۔

اب بھی وہ انہماک سے کھانا کھاتی تر و تازہ نظرآتی عائلہ کو فکر سے دیکھ رہی تھیں کہ میر ابراہیم سید بیگم کی فکر جانتے ہوئے عائلہ سے مخاطب ہوئے :

عائلے بچہ ! آج کل ادب پہ نظر ِ کرم ہیں آپ کے، خیریت؟

عائلہ مُسکرا کے بولی :

وہ بابا میں جس کیفے جاتی ہوں ادھر ادب کے فروغ کے لیے کچھ لوگ ہر اتوار کو کسی دل چسپ اور نامور کتاب کے بارے میں تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ بس انہیں سن سن کے شوق ہوا۔

اپنے سامنے پانی کا گلاس رکھتی ذاکرہ کو کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے ا س نے اپنی بات مختصر کی تھی۔

اچھا!یہ تو بہت اچھی بات ہے ، کبھی بابا کی اسٹڈی بھی چیک کر لو شاید آپ کے مطلب کی کتابیں ہوں۔

ابراہیم صاحب نے عائلہ کے تاثرات جانچتے ہوئے مزید کہا ۔

عائلہ لا جواب سی بابا کو دیکھ رہی تھی کہ معید شرارت سے بولا :

بابا ! جس طرح کی کتابیں یہ پڑھتی ہے وہ آپ کی اسٹڈی میں کہاں۔



عائلہ کا رنگ فق ہوا تھا ۔ اس نے لالا کو آنکھوں آنکھوں میں خا موش رہنے کا اشارہ کیا۔ ان کے قبیلے میں کیبل، ڈش، فلمیں، موبائل، دوستوں کے گھر آنا جانا، اعلیٰ تعلیم، ڈائجسٹ،ناول،میوزک غرض کے ہر طرح کے باہری دنیا سے رابطے سے لڑکیوں کو دور رکھا جاتا۔ عائلہ کو یہ سب میسر تھا، تو شاید اس لیے کے اِ ن کے بابا نے بہت پہلے گاں چھوڑ دیا تھا یا شاید انہیں عائلہ پہ بے حد بھروسا تھا، مگر پھر بھی عائلہ نہیں چاہتی تھی کہ ا س کے بابا کو پتا چلے کہ ان کی دینی و سیاسی کتابوں پہ مشتمل وسیع اسٹڈی سے میلوں دور رہنے والی ان کی بیٹی پچھلے تین چار مہینوں سے رومانس پڑھتی رہی ہے۔



Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!