ذاکرہ حیران دیکھ رہی تھی ، اس کی گودی کا کتنا بڑا دل ہے ۔ ایسا کسی اور کے سامان کے ساتھ کرتی تو اس کا کیا حشر ہوتا اور عائلہ تھی جو ہنس رہی تھی۔ اس نے ماتھے پہ بل تک نہ ڈالے تھے ۔ کیوں ؟
ذاکرہ کو خبر نا تھی کہ عائلہ کو اس پہ غصہ اس لیے نہیں آتاتھا کیوں کہ اس کے کانوں میں اپنے مرحوم دادا کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں:
”عائلے میرا بچہ! ہمیشہ یاد رکھنا ذاکرہ تمہاری غلام نہیں ، یہ تو اِن کا بڑ ا پن ہے کہ صدیوں سے خود کو سادات کی خدمت میں وقف کیا ہوا ہے جس طرح ہمارا شجرہ آقا دو جہاںﷺ سے منسلک ہے، ایسے ہی ذاکرہ کا شجرہ حضرت بلالؓ حبشی سے منسلک ہے ۔ کبھی اِ س کا یا ان کے خاندان کا دل نا د کھانا میری گودی، کیوں کہ میرے آقاﷺ کے بہت پسندیدہ تھے ، حضرت بلالؓ ۔“
اور 8سالہ عائلہ کو ذاکرہ کے گھنگریالے بال ، چپٹی ناک اور باہر کی طرف نکلے دانتوں کا راز پتا چلا تھا ۔ ا س نے اپنے دادا کی بات ہمیشہ کے لیے یاد کر لی تھی۔
اگلے ہی پل وہ ذاکرہ کے ساتھ کپڑے سمیٹ کے شاپر اٹھائے ایگزٹ کی طرف بڑھ گئی ۔
پیچھے مال میں کئی حیران آنکھیں اس کے حسن سلوک تو کئی اس کی حسین ہنسی کا تعاقب،کرتیں ایگزٹ سے باہر گئی تھیں ، جہاں گل محمد سفید پراڈو کا دروازہ کھول رہا تھا ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی عائلہ نے گل محمد کو براہوی میں کیفے کی طرف چلنے کی ہدایات دیں۔ وہ پہلے بھی اس کیفے جا چکی تھی ۔ اس کی کافی اور ڈھلتے سورج کا سمندر کے ساتھ منظر ہی اس کی خاصیت تھے۔
کیفے پہنچ کے گل محمد نے اس کے لیے دروازہ کھولا ۔ کالی قندھاری کڑھائی والی چادر کو وقار سے اپنے گرد لپیٹتی ، میرون پرنٹڈ قمیص کے ساتھ کالی ٹراﺅزر جس کے پائنچوں پہ قمیص کے پرنٹ جیسی کڑھائی، نہایت نفاست سے کی گئی تھی اور کالے سادھے ویلوٹ کے کھسے اپنے بے حد گورے پیروں میں پہنے وہ اتری تو کئی ستائشی نظریں اس پہ گڑھ سی گئیں ۔
اس نے اعتماد سے گل محمد کو گاڑی پارک کرنے کا اشارہ کیا اور خود ذاکرہ کو ساتھ لیے آگے بڑھ گئی جو اس کا برانڈڈ سادہ بلیک کلچ اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے کیفے کی طرف چل دی ۔
عائلہ کو ہجوم کا اندازہ تھا ، مگر جیسے جیسے وہ کیفے کی انٹرنس کے نزدیک ہوتی جا رہی تھی اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اتنا ہجوم اور اتنی خاموشی؟
اسی حیرت میں گھرے وہ دروازے تک پہنچ گئی تھی۔ گارڈ نے ا س کے لیے دروازہ کھولا ۔ اس نے مُسکرا کے شکریہ کہا اور ایک بار پھر کیفے میں پھیلی خاموشی کی طرف متوجہ ہوگئی ۔ پورا کیفے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ، پر سب خاموشی سے ایک گونجتی آواز کی طرف متوجہ تھے ۔ سب کی نظروں کے تعاقب میں ا س نے نظر دوڑائی تو پلکیں جھپکنا بھول گئی۔
سفید کاٹن کی شرٹ اور گرے ڈریس پینٹ میں ملبوس ، آستینیں کہنی تک چڑھائے، گندم کے سنہرے خوشوں جیسی رنگت،چھے فٹ سے نکلتے قد والا بے حد ہینڈسم شخص تھا۔ ا س کی شخصیت میں کچھ ایسی انفرادیت تھی کہ وہ کسی سنگِ مر مر کے بت کی طرح دم سا دھے ا سے دیکھ رہی تھی ۔ ا س کے گرد کیا ہو رہا تھا کیا نہیں، ا سے کوئی سر و کار ہی نہ تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اس نے غور ہی نہ کیا ۔ بس ایک بھاری خوبصورت آواز تھی اور نرم سا لہجہ یا شاید گھنٹیاں تھیں ڈھیروں ننھی منی گھنٹیاں جو اس کے گرد ٹرانس کی سی کیفیت بنائے ہوئے تھیں۔ اس نے اتنی حسین آواز اور اتنا مکمل لب و لہجہ کبھی نہیں سنا تھا۔ اس کے دل نے شدید خواہش کی تھی کہ ایک بار بس ایک بار اچٹتی سی ہی صحیح وہ اس پہ نگاہ تو ڈالے، یہ خو اہش وہ لڑکی کر رہی تھی جس کی طرف اُٹھنے والی ہر نظر کو پابند کر دیا جاتا تھا۔
اس کے دل نے گڑگڑا کے اس کی ایک نظر مانگی تھی۔ پر ا س کی چمکتی آنکھیں اس پر ا ٹھتی ہی نہ تھیں۔ ا س کے دل نے پھر ضد کی تھی ۔ پر وہ اب شاید جانے لگا تھا ، لو گوں سے مصافحہ کرتا ، وہ مُسکرا مُسکرا کے دادسمیٹ رہا تھا۔ ا سے اپنا دل اداس ہوتا محسوس ہوا ۔ وہ جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا، تو اس کا دل پھر گڑگڑایا۔
”یا اللہ ایک بار بس۔“
پر وہ نہ مڑا نہ ا س پہ نگاہ ڈالی اور چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی جیسے پورا کیفے جاگ گیا یا شاید یہ عائلہ سید کے حواس تھے جو بحال ہوئے تھے ۔ شعور کی دنیا میں آتے ہی ا س کی پہلی نظر ذاکرہ پہ پڑی جو حیران اور سوالیہ نظروں سے ا سے دیکھ رہی تھی ۔ عائلہ نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود متذبذب سی پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھ گئی۔
یہ تھی عائلہ سید کی عبداللہ سے پہلی اور مختصر ترین ملاقات۔