سمندر کنارے موجود یہ چھوٹا سا کیفے ، یوں تو روز ہی لوگوں کے ہجوم سے بھرا رہتا ، پر اتوار کے دن یہاں کی رونق ہی اور ہوتی ۔ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے جوان ، جو ٹولیوں میں ون وہیلنگ کرنے کے بعد یہاں ایک ساتھ کافی کا مزہ لینے آتے یا انہی پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، اپنی سہیلیوں کے ساتھ ، کسی مشہور برانڈ کی برائیاں اور کافی کے چسکیوں کا مزہ ایک ساتھ لیتی نظر آتیں۔ ایسے ہی کبھی کوئی بھٹکی ہوئی اولادبھی اپنے ضعیف العمر والد یا والدہ کی وہیل چیئر گھسیٹتی نظر آتی جس پہ براجمان سپاٹ چہرے والی شخصیت کو کونے میں نوکر کے حوالے کر کے خود فری وائی فائی کو استعمال کرنا اپنا فرض سمجھ کے موبائل میں گم ہو جاتے ۔ اکثر کوئی آرٹسٹ بھی دکھ جاتا جو کسی کونے میں سر جھکائے اپنی کافی پیتے یا پھر کیفے کی گلاس وال کے پار سورج اورسمندر کے ملاپ کے منظر میں گم نظر آتا ۔ غرض یہ کے یہاں کا ماحول نرالا تھا ، کوئی کچھ بھی کرے کسی کو کسی سے سر و کار نا تھا ، یہی وجہ تھی کے عائلہ سید کو بھی یہاں کا ماحول پسند آ گیا تھا ۔ اسے یہاں آتے ہفتہ ہونے والا تھا ۔ پر وہ ا س اتوار کے سحر سے نہ نکل پائی تھی ، یا یوں کہہ لیں ا س کے لفاظی کے سحر سے ، تبھی روزانہ اِ س کیفے آتی ،ا س کا انتظار کرتی اور چلی جاتی ۔ آج پورا ہفتہ ہونے کو تھا ۔ پر وہ نہ آیا ۔ عائلہ کو تو اس کا نام تک نہ پتا تھا کہ اچانک اپنی ٹیبل پہ کافی رکھتے بیرے کی شکل نے اسے چونکا دیا ، یہی تو تھا اس دن جو اس شاندار شخص سے خوش گپیاں لگا رہا تھا ۔ عائلہ کی نظر بیرے کی شرٹ پہ سجے اس کے نام کے بیج پہ گئی۔
”عمران خان سنو۔“
وہ جو کافی رکھ کے جانے کو مڑا ہی تھا کہ عائلہ کی آواز پہ چونکا۔
”عبداللہ“ عائلہ نے نرمی سے اس کا نام دہرایا تھا۔
”جی باجی !عبداللہ، عبداللہ سکندر ۔ پچھلے دو سال سے ہراتوار کے دن یہاں آتے ہیں اور اسی طرح کسی بہترین کتاب کا خلاصہ دیتے ہیں۔ اکثر لوگ تو یہاں صرف ا ن کی آواز اور باتیں سننے آتے ہیں۔“
بیرا نہایت پر جوش اور عقیدت مندانہ انداز میں عائلہ سید کو عبداللہ کے بارے میں معلومات دے رہا تھا ، جنہیں وہ بڑے انہماک سے سن رہی تھی۔
”اچھا سنو!کرتے کیا ہیں تمہارے عبداللہ صاحب ؟“
عائلہ کے مزید کریدنے پہ بیرا پھر سے سادہ سے لہجے میں بولا :
”بہت پڑھے لکھے ہیں جی عبداللہ بھائی ، ایم ایس سی کیا ہے۔ بہت خود دار ہیں، اپنے بل بوتے پہ بنایا ہے خود کو ، اب بھی ایک نجی کالج میں لیکچر ار ہیں اور ساتھ میں ایم فِل کر رہے ہیں۔ بہت ذہین بندے ہیں جو بھی ایک دفعہ ان کی باتیں سن لے ، ان سے مل لے ، اگلی دفعہ ضرور آتا ہے ۔“
عائلہ نے پہلے ہی سے خم کھائی ہوئی ابرو کو تھوڑا اور تان کے عمران کے چہرے پہ جھوٹ یا خوشامد کا شائبہ ڈھونڈا ، پر ادھر صرف جوش تھا ، اس شخص کے لیے محبت تھی عقیدت تھی۔
وہ مُسکرائی اور خود کو حیرت سے تکتے اس سترہ سالہ ، سرخ و سفید رنگت والے ،معصوم ، کھرے، جذبات سجے چہرے کو دیکھا اور بولی:
”شکریہ! عمران خان ، آپ بھی دل لگا کے پڑھو ، میں دعا کروں گی ایک دن آپ بھی اپنے عبداللہ بھائی کی طرح بڑے آدمی بنو۔“
اب کے عمران خان جوش سے بولا:
آپ دیکھنا باجی ، میں بھی ایک دن ادھر کھڑے ہو کے عبداللہ بھائی کی طرح لوگوں کو ادب کی طرف مائل کروں گا۔“
اس نے اس مخصوص کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں عبداللہ سکندر ہر اتوار کے دن کسی بہترین کتاب پر اپنا تجزیہ پیش کرتا تھا۔ اس کا مقصد نئی نسل کو ادب کی طرف راغب کرنا تھا اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی تھا۔
عائلہ کو اتنا اندازہ تو عمران خان کی باتوں سے ہوہی گیا تھا اور وہ اس کا عملی مظاہرہ خود بھی دیکھ چکی تھی اس دن ۔
اس دن، ہاں اس دن۔
عائلہ کو کراچی میں رہتے کئی سال ہوگئے تھے۔ بی اے کے بعد آج کل وہ فارغ تھی۔ فراغت کا وقت بھی وہ اپنے پسندیدہ مشغلے ڈیزائننگ میں ہی لگاتی تھی ۔ سارا سارا دن ذاکرہ کو ساتھ لیے ، تو کبھی اماں کے ساتھ ، کسی نا کسی شاپنگ مال میں سر کھپاتی رہتی ۔ وہ بچپن ہی سے بہت خوش لباس تھی ، یہ موروثی تھا، اس کے بابا اماں دونوں بہت خوش پوش تھے ، کچھ کچھ اُنہیں دیکھ دیکھ کے اور کچھ کچھ پیسے کی فراوانی نے عائلہ کے شوق کو اتنی ہوا دے دی تھی کے اب وہ فیشن ڈیزائننگ کی ڈگری کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنا چکی تھی۔ اس کی اسی ضد نے اس کے بابا کو بھی مجبورکر دیا تھا ا پنی روایات توڑنے اور اسے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے پہ ۔
ایک ایسا ہی عام سا دن تھا ۔ جب شاپنگ مال میں سر کھپانے کے بعد اس نے کافی کے غرض سے فوڈ کورٹ کا رخ کیا ۔ پر ادھر چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے تِل دھرنے تک کی جگہ نہ پاکے، وہ اُلٹے قدموں پارکنگ کی طرف بڑھ گئی ۔
ذاکرہ کبھی اپنا دوپٹا تو کبھی ہاتھوں میں لد ے شاپر سنبھالتی نڈھال سی اس کے پیچھے پیچھے پارکنگ کی طرف قدم بڑھا رہی تھی ۔ ذاکرہ لگ بھگ اس کی ہم عمر تھی۔ جب میر ابراہیم سید کراچی شفٹ ہو رہے تھے، اس کی ماں نے اپنے جدی پشتی کنیز ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے جگر کے ٹوٹوں کو ان کی خدمت میں دے دیا تھا ۔ گل محمد، معید سید کا خدمت گزار قرار پایا ، جب کہ ذاکرہ اس کی۔
”سلا گودی۔“ (ر کیں بی بی)
ذاکرہ کی روہانسی آواز پہ ایگزٹ کی طرف بڑھتی عائلہ مڑی۔ پیچھے ذاکرہ اس کے قدموں سے قدم ملانے کی کوشش میں سارے شاپر گرا بیٹھی تھی اورا ن سے ا مڈتے کپڑوں کے ڈھیر سمیٹتے ہوئے روہانسی آواز میں اسے پکار بیٹھی تھی ۔ ارد گرد کے لوگ ان کی طرف متوجہ تھے جن میں سے کچھ ذاکرہ کی ٹھیک ٹھاک درگت بننے کے انتظار میں تھے جو کہ عائلہ سید کے بے ساختہ کھلکھلا کے ہنسنے پہ حیران رہ گئے۔عائلہ ہنستی جاتی اور ساتھ میں ذاکرہ کو براہوی میں کہتی جاتی :
”گنوک۔“ (پاگل)۔