”اللہ حیاتی دے، نیک نصیب کرے۔“
کہہ کے سکینہ سید نے عائلہ کے سر پہ پیار کیا۔
”ارے!بھئی کوئی مجھے کھانا وانا بھی پوچھے گا یاماں بیٹی یہیں ساری باتیں کریں گی۔“
معصوم سی شکل بناتا معید سید، ابھی تک انہیں لان میں کھڑا پا کے بولا تھا ۔
”چلو چلو! کھانا تیار ہے بس تم دونوں منہ ہاتھ دھو لو۔“
پیار سے سکینہ صاحبہ نے اپنے اکلوتے سپو ت کو دیکھا۔ سنہرا رنگ گرمی کی حدت سے قدرے گلابی ہو رہا تھا۔ 6فٹ سے نکلتا قد ، ڈارک براﺅن گھنے بکھرے ہوئے بال ،شہد جیسی آنکھیں اور سفید کاٹن کا سوٹ جس کی سلوٹیں معید سید کی تھکاوٹ کی گواہی دے رہی تھیں ۔ انہوں نے نظر لگ جانے کے ڈر سے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کے اس پہ پھونکا تھا۔
جواب میں معید نے ان کے گرد اپنے بازو پھیلا کے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ان کے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عائلہ نے پر سوچ نگاہیں بابا کے کمرے کی کھڑکی پہ جمائی تھیں ۔
”بابا! میرے اچھے بابا ۔ کب تک یونہی ناراض رہیں گے اپنی عائلہ سے۔“
دل ہی دل میں خود سے کہتی عائلہ کی آنکھوں سے کچھ آنسو ٹپک کے اس کی کالی بلوچی کڑھائی والی چادر میں جذب ہوگئے۔
”عائلہ!کدھر ہو بھئی آبھی جاﺅ، بہت اہتمام کیا ہے اماں نے۔“
معید کی آواز پہ وہ چونکی۔ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
”آئی لالا ۔“اور تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلی گئی ۔
آف وائٹ تھیم کے ساتھ ،میچنگ آف وائٹ دبیز پردے ، لان کی طرف کھلنے والی وسیع کھڑکی پہ نزاکت سے لہرا رہے تھے ۔ تھوڑے فاصلے پہ صوفے پہ برا جمان میر ابراہیم سید پر سوچ نگاہوں سے پردوں کو دیکھ رہے تھے جن کے کناروں سے آتی دوپہر کی نارنجی دھوپ چھن کے کمرے میں جلترنگ مچائے ہوئے تھی ۔
معید کی گاڑی کا ہارن سنتے ہی وہ تیزی سے اٹھے اور پردے ہٹا دیے ۔ ایک دم سے دھوپ پڑنے پہ ان کی آنکھیں تھوڑی دیر کے لیے میچ سی گئی تھیں۔ روشنی سے مانوس ہوتے ہی انہوں نے اپنی آنکھیں لان میں کھلتے ووڈن گیٹ پہ ٹکادیں ۔ معیدکے ساتھ ان کی پری، ان کی شہزادی بیٹی عائلہ تھی جسے آج خود وہ پورے دو سال بعد دیکھ رہے تھے ۔
”عائلہ میری گڑیا !“
عائلہ ایسی تو نا تھی، انہوں نے کھڑکی کے پار کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھا۔
کالی چادر اوڑھے، کالے ہی سادہ سے ملگجے جوڑے میں ملبوس ، پیروں میں سادہ سی کالی چپل پہنے ، پھیکے پڑتے رنگت والی ، بکھری بکھری سی وہ لڑکی ، کہیں سے عائلہ نہیں لگ رہی تھی۔
عائلہ تو اتنی خوش پوش تھی کہ لوگ اس کے کپڑوں کو ہی دیکھ کے اس کے بہترین ذوق کا اندازہ لگا لیتے تھے ۔ اس کو ڈیزائننگ کا شوق تھا اپنے کپڑے زیادہ تر وہ خود ہی ڈیزائن کرتی تھی ۔
”بابا !میں عام لڑکیوں کی طرح ہی سوچتی ہوں ، میں پڑھنا چاہتی ہوں بابا ، مجھے شانزے ، شازمینہ یا علیزے نہیں بننا ۔ پلیز بابا سمجھیں نا۔ “
عائلہ کی آواز اُن کے کانوں میں گونجی تھی ۔ کچھ دھندلے سے منظر بھی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔
”پربچہ !تم نے نوکری تھوڑی کرنی ہے؟ ان کی طرح میٹرک کرو گھر بیٹھو ۔“
عائلہ کو پیار سے سمجھانے کی ان کی یہ کوشش تب نا کام ہوئی، جب عائلہ بولی :
”پر بابا آپ نے وعدہ کیا تھا جب آپ ہمیں کراچی لائے تھے کہ آپ مجھے پڑھائیں گے اور لالا بھی تو پڑھ رہے ہیں ۔ میں بھی انہی کے کالج میں داخلہ لے لوں گی بس !“
اب عائلہ کی آنکھیں آنسوﺅں سے لبریز تھیں اور یہ ا س کا واحد ہتھیار تھا جس کے سامنے میر صاحب اپنے پتھر دل اور ظالم روایات کو ٹھوکر مار دیتے اور بیٹی کی محبت جیت جاتی تھی ہر دفع۔
پر سوچ نظروں سے بیٹی کا شفاف چہرہ تکتے ہوئے، انہوں نے کہا:
”ٹھیک ہے! پڑھ لو اجازت ہے تمہیں ، پر عائلہ یاد رکھنا تمہارے بابا نے تم پہ اتنا اعتبار کر کے یہ اجازت دی ہے کہ اپنی روایات اور دل میں اُٹھتے خدشات کو نظر انداز کر ڈالا ، اب یہ تمہارا فرض ہے کے میری عزت کا خیال رکھو۔“
حیران آنکھوں کے ساتھ عائلہ نے انہیں دیکھا اور اگلے لمحے ان کا ہاتھ پکڑ کے چوما تھا۔
”بابا میں آپ کی عائلہ ہوں، میری رگوں میں آپ کا خون ہے، میرا بھروسا کریں بس! پھر دیکھیں۔“
اس کی آنکھوں سے دو آنسو بہے تو میر صاحب نے ا س کے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا ۔
”نا بچہ روتے نہیں“
وہ بے ساختہ مُسکرائی تھی ۔ حسین تو وہ تھی ہی روتی آنکھوں کے ساتھ مُسکراتی اتنی پیاری لگی کے میر صاحب نے نظر لگ جانے کے ڈر سے نظریں چرائی تھیں ۔
”عائلہ !کہاں ہو بھئی۔“
معید کی آواز پہ ماضی کا وہ منظر میر ابراہیم سید کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ سامنے لان میں کھڑی عائلہ ا نہی کی کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔کھڑکی پہ یک طرفہ کانچ ہونے کی وجہ سے عائلہ اُنہیں نہیں دیکھ سکتی تھی ، مگر وہ عائلہ کو دیکھ سکتے تھے ۔ عائلہ کی آنکھوں سے آج بھی دو آنسو گرے تھے ۔ پر آج ان کا دل موم نہ ہوا تھا ۔ عائلہ کاش دو سال پہلے تم نے وہ سب نہ کیا ہو تا ، کاش تم میری عزت کا خیال کر لیتی، کاش سوچتی تم عام لڑکی نہیں ہو تم سید زادی ہو ، تو آج یہ کرب تمہاری اور میری تقدیر نا ہو تا۔ کاش! عائلہ کاش !
پر تم نے کچھ نا سوچا اور میرا بھروسا توڑ ڈالا۔ اب تم اسی لائق ہو کہ بھگتو ، تم ایسے ہی اپنے بابا کے لیے تڑپو ۔ میں نے تمہیں اپنا اعتبار، بھروسا، پیار ، سب دیا بدلے میں تم نے کیا دیا؟
دھوکا ؟
”دھوکا ؟“
نہیں میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میں بے قصور ہوں ، میں نے کچھ نہیں کیا ۔ بابا میرا اعتبار کریں پلیز میری بات تو سن لیں۔“
جواب میں بابا نے ایک زنا ٹے دار تھپڑ عائلہ کے آنسوﺅں سے تر چہرے پہ رسید کیا تھا۔
عائلہ سن رہ گئی ، پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے بابا کو دیکھتے ، وہ اب بھی بولنا چاہتی تھی ،اپنی صفائی دینا چاہتی تھی ، پر اس کے ہونٹ نہیں ہل رہے تھے ، اس نے کوشش کی اماں کو دیکھ سکے ، لالا کو دیکھے ان کی آنکھوں میں اپنے لیے اعتبار ڈھونڈ ے پر اس کی آنکھیں بھی نہیں ہل پا رہی تھیں۔ بابا کے چہرے کی سختی اور نفرت پہ گڑھ سی گئی تھیں۔ اسے اپنے دماغ میں دھماکے سے محسوس ہوئے، کانوں میں آتش فشاں پھٹنے کی آوازیں۔ وہ اپنے کانوں کو دونوں ہاتھوں سے بند کر لینا چاہتی تھی ، وہ سب کو بتانا چاہتی تھی کہ اس کا سر پھٹ رہا ہے پر اس کے لب خاموش تھے، آنکھیں خشک تھیں ،جسم بے جان تھا۔ کپڑے کی گٹھڑی کی طرح اس کا وجود اس بڑے سے لاﺅنج کے سفید چمکتے سنگ مرمر کے فرش پہ پڑا تھا ۔ اسے پہلی دفع نفرت کا مطلب پتا چلا تھا، دھتکارے جانے کی تکلیف محسوس ہوئی تھی ۔ بے اعتباری کا وار اتنا کاری تھا کہ وہ سہ نا پا رہی تھی پر بے بس تھی سہے جا رہی تھی ۔
اچانک اسے لگا بابا پہ گڑھی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ، سر کا درد شدت سے بڑھا تھا ،ا س کا دل کیا وہ چیخے زور سے چیخے اپنی ساری تکلیف سارا کرب نکال باہر پھینکے۔ اس نے کوشش بھی کی پر اس کے سامنے پورا لاﺅنج گھوم سا گیا، کانوں میں گونجتی آوازوں کی جگہ سائیں سائیں کرتی خاموشی چھا گئی ۔ اسے اپنی ناک سے گرم سیال سا گرتا محسوس ہوا ، سکوت تھا کے ہر شے پہ پھیلنے لگا جو آخری آواز اسے سنائی دی وہ ذاکرہ کی تھی جو براہوی میں کہہ رہی تھی :
”او بلا باجی !کسک گودی۔“
”بڑی باجی !گودی مر گئی۔“
عائلہ سید نے خرد کے جہاں سے بے خبر ہونے سے پہلے ذاکرہ کی بات سچ ہونے کی دعاکی تھی۔
”معید ! تمہارے بابا ؟ “
یہ اماں کی آواز تھی جسے و ہ لاکھوں آوازوں میں آرام سے پہچان جائے۔ وہ لالا سے بابا کا کیوں پوچھ رہی تھیں ؟ بند آنکھوں مگر بے دار دماغ نے اسے سوچنے پہ مجبورکیا تھا۔
”اماں بابا نہیں آئے ۔“
یہ تھکی تھکی سی آواز اس کے پیارے لالا کی تھی۔
”وہ کہہ رہے تھے ، میں گھر پہ رہ کے دعا کروں گا۔“
”اچھا؟ “
کیا کیا نا تھا اماں کے اس چھوٹے سے ”اچھا“ میں ، خوش امیدی ،خوش گوار حیرت، خوشی اور بے یقینی۔ معیدبھی عائلہ کی طرح اپنی سادہ سی ماں کے لہجے سے ان کی سوچ تک پہنچ گیا، تو مزید بولا :
”جی !میں بھی آپ کی طرح حیران ہوا تھا ، پر پھر بابا نے کہا کہ حیران کیوں ہوتے ہو معید میں دعا کروں گا کہ عائلہ واپس …. ن نہ آئے اور خدا پھر کسی کو عائلہ جیسی بیٹی نہ دے۔“
لالا کا ٹوٹا ہوا لہجہ اور بکھرے الفاظ ان کی پریشانی کی گواہی دے رہے تھے ۔
پر بابا؟ وہ تو مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، وہ ایسا کیوں کہیں گے ، وہ بھی میرے لیے ؟ عائلہ سوچ رہی تھی۔ ذہن پہ زور ڈال رہی تھی ۔ اسے کچھ بھی یاد کیوں نہیں؟
وہ شش و پنج میں مبتلا تھی کہ اس کے ہاتھ کی پشت پہ ا سے کچھ نم سا گرتا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں کھولنا چاہتی تھی، اپنا ہاتھ ہلانا چاہتی تھی، ا سے کسی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ، وہ اماں تھیں شاید ، پر وہ کیوں رو رہی تھیں؟
عائلہ حیران تھی ، وہ اُنہیں بتانا چاہتی تھی وہ ٹھیک ہے ،رونے کی ضرورت نہیں، مگر وہ لاکھ کوشش کے باوجود ایک انگلی تک نہیں ہلا پا رہی تھی ۔
اماں رو رہی تھیں ساتھ میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ شاید کسی کو کوس رہی تھیں ، پر کسے؟
اس نے سننا چاہا ، پر وہ کوئی نام نہیں لے رہی تھیں۔ آخر کون تھا جسے اس کی اماں ، فرشتوں جیسی اماں، بددعا دے رہی تھیں؟
وہ تو دشمن کو بھی دعا دیتی تھیں ، کون تھا جو ان کے لیے دشمن سے بڑھ کے تھا؟
اپنی اُلجھن پر پہ قابو پاتے ہوئے اس نے پھر سے اماں کے بے ربط کوسنوں پہ توجہ دی ، تو اس پہ درد کا پہاڑ ٹوٹ گیا، اماں نے ”وہ“نام لے کے کوسا تھا۔
وہ نام جو اس کی ذات بن چکا تھا ، وہ نام جسے اس کا دل کرتا کوئی اور نہ لے ، اس کا نام تک وہ کسی اور کے منہ سے نہیں سننا چاہتی تھی اور اس کی ماں اسے بد دعا دے رہی تھیں۔
ایک دم اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا، اماں کو اس کا نام کیسے پتا چلا؟
وہ مر جاتی پر کبھی کسی کو اس کا نام نا بتاتی، اماں کو کس نے بتایا؟
اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں سی بج رہی تھیں ، کچھ تھا جو اسے نا گہانی کی اطلا ع دے رہا تھا ۔
اچانک لالا کی آواز پہ اس کے وسوسوں کا سلسلہ ٹوٹا یا شاید اس کے خدشوں نے حقیقت کا روپ دھارا تھا ۔وہ بول رہے تھے اور عائلہ کو اپنی سانس رکتی محسوس ہو رہی تھی۔
”اماں وہ بھی بھگت رہا ہے۔“
عائلہ کو اپنا دماغ سن ہو تا محسوس ہوا۔
”ہڈیاں توڑی ہیں۔“
اس کی بند آنکھیں جلنے لگیں ۔
”خون میں لت پت۔“
اس کا دل ڈوب سا گیا ۔
”بچ بھی جائے مشکل۔“ عائلہ کو کمرے میں دھماکے ہوتے محسوس ہوئے۔
”ادھرہی پھینک آئے ہیں۔“
عائلہ کو شدید درد محسوس ہوا ، اپنے دل میں شاید ۔
”صبح تک کسی کو دِکھے گا بھی نہیں۔“
عائلہ کو درد شدید ہو تا محسوس ہوا ، دھماکے اور زور دار ، اب ان دھماکوں میں بہت سے مشینو ں کی ٹوں ٹوں بھی شامل ہو گئی تھی ۔
لالا شاید چیخ رہے تھے ، ڈاکٹر کو بلا رہے تھے ۔
اسے اپنا دم نکلتا محسوس ہوا اور اس کے ہونٹوں پہ اس کے دل میں سالوں سے چھپا راز آخر آپہنچا۔
اس نے سرگوشی سے کہا تھا:
”عبداللہ!“
٭….٭….٭