”امی آج ایک اور دن گزر گیا ، بھائی کا کوئی پتا نہیں۔ اس طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو باقی بچی جمع پونجی بھی ختم ہو جائے گی اور بھائی کو بھی نہ ڈھونڈ پائیں گے ۔ آخر آپ مجھے نوکری کی اجازت کیوں نہیں دے دیتیں ؟“
ماہا کی بات میں دم تو تھا۔ اب تو صغریٰ بیگم کا انکار بھی سست پڑتا جا رہا تھا ۔ اِ س وقت بھی بیٹی کی بات اُنہیں سوچ میں ڈال گئی ۔ اِ س سے پہلے کے وہ ہاں یا ناں کے بارے میں سوچتیں۔ دروازے پہ اچانک ہوتی دستک نے دونوں کو چونکا دیا ۔
ماہا تقریباً دوڑتے ہوئے دروازے تک گئی ۔ دروازہ کھولا تو سامنے ثنا ستے ہوئے چہرے اور روئی روئی آنکھوں کے ساتھ کھڑی تھی ۔
”ارے کیا ہوا چھوٹی سب خیر تو ہے نا ؟“
چھوٹی ، ماہا کا سوال ان سنا کرتی تیزی سے تخت کی جانب بڑھ گئی ۔ اب کے پریشان حال ماں نے پوچھا تھا ۔
”کیا ہوا چھوٹی تو بتاتی کیوں نہیں ؟ کیا تیرے بھائی کی گمشدگی کم تھی جو اب تو بھی ماں کو رلائے گی ۔“
ماں کے یوں پھوٹ پھوٹ کے رونے پہ شرمندہ ہوتی ثنا نے ماں کے گرد بازو پھیلاتے اپنی مشکل بیان کی ۔
”میں بھی کیا کروں امی ۔ میڈم روز فیس کے لیے میری بے عزتی کرتی ہیں۔ آج تو انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اگلے ہفتے تک فیس جمع نہ کرائی تو وہ مجھے کلاس میں بیٹھنے نہیں دیں گی ۔“
ثنا کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے صغریٰ بیگم کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے ۔ اکلوتے بیٹے کی گمشدگی نے تو صغریٰ بیگم کو جیسے دیمک کی طرح چاٹ ڈالا تھا ۔ وہ اِن کچھ ہی دنوں میں صدیوں کی بیمار لگ رہی تھیں ۔
ماہا جو پہلے ہی گھر پہ ٹیوشنز پڑھانے لگ گئی تھی اب ساتھ والی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں واقع بیوٹی پارلر میں ریسیپشنسٹ کی جاب کرے گی جو بات اتنے دنوں سے ماہا نہ منوا سکی ، وہ بات پہلی مجبوری اور ثنا کے آنسوﺅں نے منوا دی تھی۔
یہی تو ہے معاشرے کا المیہ ، جہاں باہر کام کرنے والی عورت کو برا ، شوق سے کہا جاتا ہے، لیکن اس کے گھر سے باہر قدم نکالنے کی وجہ نہ دریافت کی جاتی ہے ، نہ اُس کا کوئی سدِباب کیا جاتا ہے۔
کل جب بھائی کی لاڈلی بہن ماہا پہلی بار گھر کی دہلیز پار کرے گی، تو یہ دہلیز بین کرتے ہوئے اس کے قدم روکنے کی کوشش کرے گی، مگر جن گھروں کے واحد سائبان یوں لاپتا ہو جاتے ہیں اور وہاں افلاس کے ڈیرے پڑ جاتے ہیں ، تو وہیں ہی ماہا جیسی بہنیں گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں ۔ اپنے گھر کا بیٹا بننے کی کوشش کرتی ہیں ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ معاشرہ سفید پوش لوگوں کی سفید چادر سے سر ڈھانپی ہوئی بہنوں ، بیٹیوں کو بھی عزت کی روٹی ، عزت سے کمانے کا حق دے دے اور ان کی کردار کشی کی بجائے ان کے عزت کی حفاظت کرے مگر معاشرہ عزت کی بات صرف تب کرتا ہے جب کسی کی کردار کشی کرنا ہوتی ہے ۔ کبھی لاپتا نوجوانوں کے پسماندگان ، ان کی بیٹیوں ، ان کی بہنوں کی فکر کوئی نہیں کرتا ۔ تھانوں کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتے، اِن کی ساری جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے، مگر گمشدہ کی کوئی خبر نہ آنا ہوتی ہے نہ آتی ہے ۔ ہاں آتی ہے تو کورٹ کی نئی تاریخ آجاتی ہے ۔
آج بھی ملک کے سینکڑوں تھانوں میں ہزاروں کیس درج ہیں جو لا پتا افراد کی تلاش چاہتے ہیں مگر ا ن کے ورثا یہ نہیں جانتے کہ اکثر لاپتا وہی ہوتے ہیں جو کسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کے زیرعتاب آتے ہیں یا جو کسی اندھی گولی کا نشانہ بنتے ہیں۔
بیگم جہاندیدہ خاتون تھیں کہیں نہ کہیں انہیں اندازہ تھا کہ عبداللہ کا واپس آنا اب کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔
٭….٭….٭
پیاس کی شدت سے اس کی حالت خراب ہو رہی تھی ۔ ہونٹوں کو بار بار تر کرتے، اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے اور آنکھوں پہ بھی پٹی بندھی ہوئی تھی ۔
یہ جانے کون سی جگہ تھی ، مگر تھی یقینا کراچی سے باہر کی کوئی جگہ کیوں کہ یہاں پہنچنے تک اِ نہیں اچھا خاصا وقت لگا تھا ۔ رستے میں دو دفعہ تو عبداللہ کی آنکھ بھی لگی تھی ۔
میر صاحب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ، عبداللہ مزار کی پارکنگ میں آیا تھا ۔ اِدھر اُدھر دیکھنے پہ اُسے میر صاحب اور اُن کے پیچھے گارڈز کی فوج نظر نہ آئی، تو وہ پلٹا ۔ اُس کے پلٹتے ہی کسی نے اُس کی پشت میں بندوق چبھوئی۔
” خبردار اگر اپنی جگہ سے ہلے تو گولی مار دوں گا ۔“
عبداللہ نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ اوپر کیے تھے ۔ اتنے میں ایک اور بندوق کی چبھن اسے دوسری طرف اپنی پیٹھ پہ محسوس ہوئی تھی ۔ ابھی وہ یہ ماجرا سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ تیسرا بندہ آیا اور ا س نے عبد اللہ کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے تھے۔ اب وہ اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ رہا تھا کہ زن سے ا ن کے پاس آ کے ر کتی مرسڈیز میں بیٹھے میرصاحب پہ اس کی نظر پڑی تھی اور سارا ماجرہ ا سے سمجھ آگیا تھا۔
اب ا سے گاڑی میں ڈال کہ یہاں لایا گیا تھا ۔ یہ کوئی اندھیرا کمرا تھا جس کے دبیز غالیچے کی نرمی وہ محسوس کر سکتا تھا، مگر ا سے پیاس لگی تھی بہت زیادہ پیاس ۔ اس کے ہونٹ پھٹ گئے تھے۔ ا ن پہ زبان پھیرتا وہ ان کی سختی محسوس کر سکتا تھا ۔
”کوئی ہے مجھے پیاس لگی ہے۔“
ا س نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا ۔ دروازہ کھلنے کی آواز ا س نے سنی۔ ساتھ ہی کمرے میں روشنی ہوئی۔ آنکھوں پہ بندھی پٹی کے کناروں سے ر وشنی ا سے دکھی تھی ۔
وہ جو کوئی بھی تھا کسی کو فون ملا رہا تھا ۔ پھر کسی مقامی زبان میں کچھ پوچھ کے فون بند کر دیا ۔
”تمہیں پانی دینے کا حکم نہیں ، شور مت مچانا ورنہ…. تمہیں پتا ہے۔“
عبداللہ خاموشی سے ڈھے گیا ۔ اوہ خدایا یہ ہم نے کیا کر دیا ۔ ا س نے سوچا۔ پتا نہیں عائلہ کس حال میں ہو گی ، امی اور بہنیں ؟
کاش میں ایک بار ا ن کے بارے میں سوچتا، مگر میں تو اندھا ہو گیا تھا ۔ شاہ بابا نے کتنی دفعہ منع کیا مجھے ، سمجھایا ، سختی سے ڈانٹا، مگر مجھے توصرف عائلہ سے مطلب تھا ۔اب جو ہو گا اُ س کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ اپنے خیالوں میں گم جانے کتنی دیر ہو چکی تھی ، کہ کمرے میں جیسے بھونچال سا آگیا ۔ تیزی سے تالا کھولتے زور زور سے اپنی زبان بولتے، دو یا شاید ا س سے بھی زیادہ لوگ تھے جو ا سے لینے آئے تھے۔
پیاس اور بھوک کی شدت سے وہ کھڑا بھی نہیں ہو پارہا تھا ۔ ا سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لے جایا گیا ۔باہر لے جا کے ا سے کھڑا کر دیا گیا ۔
دور دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں ۔وہ کتنی دیر یونہی کھڑا رہا کہ میر صاحب کی گرج دار آواز میں کچھ کہنے پہ اس کی آنکھوں پہ بندھی پٹی ا تار لی گئی۔
”لڑکے ہم نے تمہیں ایک موقع دیا، مگر تم نے اسے ضائع کر دیا ۔ تمہیں تمہارا قصور پتا ہے تبھی ہم دہرانا نہیں چاہتے ۔ آنکھوں پہ بندھی پٹی اِس لیے ہٹائی ہے تاکہ تم دیکھ سکو ،ہمارا یہ عالی شان فارم ہاﺅس اور اندازہ لگا سکو کہ کیا تمہاری اوقات تھی میری بیٹی سے محبت کرنے کی ؟“
عبداللہ جو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ۔ایک پل کو گھوما اور اپنے گرد پھیلے ا س شان دار لان، سوئمنگ پول اور عمارت کو دیکھا ، پھر گویا ہوا:
”بے شک میری اوقات نہ تھی، لیکن محبت تو آپ کی بیٹی نے بھی کی تھی ۔ ا س نے میری اوقات کیوں نہ دیکھی ؟“
عبداللہ کے جواب پہ وہ مزید برہم ہوئے :
”نہ کہو ا سے میری بیٹی ۔ ا سے تو میں بعد میں دیکھوں گا ۔ تم میں اتنی اکڑ کس بات کی ہے ؟ جانتے نہیں کس کے سامنے کھڑے ہو ؟ ”میر ابراہیم سید “ کے ۔ میرا تو نام بھی تمہارے دو کمروں کے تعفن زدہ کوارٹر سے بڑا ہے ۔“
ان کے چہرے کی طنزیہ مُسکراہٹ نے عبداللہ کے تن بدن میں آگ لگا دی ۔
”میرا تو ایمان یہ کہتا ہے کہ اللہ کا نام سب سے بڑا ہے اور وہ ہی ہر چیزپہ قادر ہے ۔ آپ تو سید ہیں ، میرا خیال تھا آپ کو مجھ سے زیادہ علم ہو گا۔“
عبداللہ کی بات پہ میر صاحب آگ بگولا ہوگئے۔
”بہت ہو گئی باتیں ، چلو کلمہ پڑھو نہیں تو پیر پکڑ لو ۔ شاید معافی مل جائے ۔“
عبداللہ نے کلمہ پڑھا۔ میر صاحب کے ہاتھ میں پستول تو وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھااور ذہنی طور پہ ہر طرح کے انجام کے لیے تیار تھا۔ اس کی بہادری دیکھ کے ایک ثانیے کو تو میر صاحب بھی متاثر ہو گئے۔
”بہت خوب تو تم چاہتے ہو کہ تمہارا قتل میرے ہاتھوں ہو بے شک یہ کم اعزاز کی بات نہیں۔“
اگلے ہی پل انہوں نے عبداللہ کے سر پہ لیزر سے نشانہ لیتے ہوئے پستول تانی ۔ عبداللہ آنکھیں موندے زیرِ لب کچھ پڑھ رہا تھا۔
میر صاحب نے طنزیہ نظروں سے ا سے دیکھا اور نشانہ اس کے سر سے ہٹا کے سینے پہ عین دل کی جگہ تانا۔
عبداللہ نے آنکھیں کھول کے لیزر اپنے سینے پہ پڑتی دیکھی۔ سوالیہ نظروں سے میر صاحب کی طرف دیکھتا، ا س نے سوچا کہ شاید وہ اس کے دل کو مار کے اس کے دل سے عائلہ کی محبت ختم کر دینا چاہتے ہیں ۔
اس کی نظروں کا سوال سمجھتے وہ خود گویا ہوئے :
”اسی دل میں عشق کو چھپا ئے رکھتے ہو نا ؟آج اسی دل کو ہی ختم کر دیتے ہیں ۔ کیا خیال ہے؟“
مگر اُنہیں کیا خبر محبت کہاں مرتی ہے ۔ عبداللہ بہادروں کی طرح سینہ تانے کھڑا رہا۔
”میں آج آپ کو زبان دیتا ہوں کہ میں مر بھی جاﺅں میرا عشق زندہ رہے گا ۔ میں عائلہ کے اندر آبسوں گا ۔ ا س کو اپنا بنا لوں گا ، اس کی ہر چاہ لا میں ڈھل جائے گی ۔ وہ عشق لا کہتی ، ساری زندگی میری بنی رہے گی ۔ آپ جو بھی کر لیں ، ہمارا عشق نہیں مرے گا ۔ کبھی نہیں مرے گا۔“
گولی کی گرج نے عبداللہ کو چپ کرایا تھا۔
گولی اس کے سینے کو چیرتے ہوئے اس کے دل ، اس کے قیمتی د ل کے پار ہو ئی تھی ۔
اس کا دل جس کی دھڑکن سننے کی خواہش اکثر عائلہ کو بے چین کیے رکھتی تھی۔ اب دھڑکنا بھول گیا تھا۔
عبداللہ کھڑے قد کے سا تھ زمین پہ آگرا۔ اس کے ہونٹوں پہ اب کلمہ حق جاری تھا ۔ وہ تڑپتا رہا اور کوئی تب تک اس کے قریب نہ آیا جب تک وہ بے سدھ نہ ہو گیا۔
ا س شاندار لان کی گھاس ، ایک ماں کے اکلوتے لختِ جگر کے خون میں نہا چکی تھی۔
یہ کراچی کے قریب واقع بلوچستان کا علاقہ ”حب“تھا جہاں میر صاحب کا یہ فارم ہاﺅس بھی تھا۔ حب سے کراچی کے بیچ ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ میر صاحب کو ابھی واپس کراچی بھی جانا تھا ۔تبھی وہ اٹھے تھے ۔
”لاش کو سوئمنگ پول کے نیچے دفنا دو تاکہ کبھی نہ مل سکے ۔“
پست آواز میں غرور سے کہتے میر صاحب، تیز تیز قدم ا ٹھاتے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے ۔
ان کی گاڑی کے ہارن پہ چوکیدار گیٹ کھولتا، ا س سے پہلے ہی ا جڑی بکھری عائلہ نے بھاگتے ہوئے گیٹ کھولا تھا ۔ بالکل ایسے جیسے وہ گیٹ کے پاس بیٹھی ان کے آنے کا انتظار کر رہی ہو۔
میر صاحب کی گاڑی جیسے ہی اندر آئی وہ دوڑتی ہوئی ان کے پاس پہنچی ۔
”بابا !بابا !عبداللہ کہاں ہے ۔ پلیز بولیں آپ نے اس کے ساتھ کچھ برا تو نہیں کیا۔ بابا آپ کو اللہ کا واسطہ، مجھے مار دیں ا سے کچھ نہ کہیں۔ بابا آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔“
میر صاحب اس کی باتیں ان سنی کرتے اندر جانا چاہتے تھے ۔ وہ ان کے پیروں سے لپٹ گئی۔
”بتائیں بابا جواب دیں۔ کہاں ہے میرا عبداللہ ؟ کیا کیا آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ آپ کوقرآن کا واسطہ،پلیز اس دفعہ ہمیں معاف کر دیں ۔ آج کے بعد میں مر جاﺅں گی، مگر اپنے کمرے تک سے باہر نہ نکلوں گی ، بس آج ا سے چھوڑ دیں ۔ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، مگر ا سے جانے دیں۔ آپ کو میری چادر کا واسطہ ، بابا پلیز۔“
میر صاحب نے جھٹک کے ا سے اپنے پیروں سے پرے کیا ۔
”مار ڈالا میں نے ا سے ۔ اس کے دل کو۔ اس کے عشق کو اس کے غرور کو ۔ عبرت بنا ڈالا میں نے ا سے تاکہ پھر کبھی کوئی کسی سیدزادی سے عشق کرنے کا سوچے بھی نہ ۔ پھر کوئی عشق نہ کرے ، عشق کا نام بھی نہ لے ۔ سمجھی تم ۔“
عائلہ سکتے کی کیفیت میں وہیں بیٹھی رہ گئی ۔
اس کی سفید چادر پہ پیر رکھتے ، میر صاحب کے قدموں کی دھمک دور ہوتی چلی گئی ۔
ستون کے عقب میں چھپی ذاکرہ تیزی سے عائلہ کے قریب آئی اسے گلے لگا کہ ر لانا چاہا۔
”ذاکرہ سنا تم نے ۔ عبداللہ مر گیا ۔اس کا عشق مر گیا ۔ ذاکرہ میرا…. عبداللہ مار دیا ۔
میں کیا کروں بولو ۔ اب میں کیا کروں بتاﺅ۔“
عائلہ سنگ ِ مرمر کی روش پہ بیٹھی روتی رہی۔ ساتھ میں ا سے خود سے لگائے بیٹھی ذاکرہ بھی۔ اچانک عائلہ روتے روتے ہنسنے لگی۔
ذاکرہ ا س سے دو قدم پیچھے ہٹی ۔
میرا عشق نہیں مر سکتا ۔ میرا عشق تو ابھی زندہ ہواہے عبداللہ میرے اندر ہے ۔ بول رہا ہے ۔ باتیں کر رہا ہے۔ ا سے بھی مجھ میں رہنا اچھا لگ رہا ہے ۔ سنو ذاکرہ اس کی آواز سنو۔“
عائلہ اپنے ہوش کھو بیٹھی تھی۔ ذاکرہ کی آنکھوں میں خوف تھا۔ عائلہ اُ ٹھی اور روش کے بیچ کھڑے ہو کے ایک ہاتھ اوپر کی طرف ایسے اُٹھایا جیسے کوئی ان دیکھی رسی تھام رکھی ہو اور دوسرا ہاتھ ہوا میں پھیلائے ۔ وہ گول دائروں میں گھومنے لگی۔ اس کا سفید لباس، پورے چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ گول گول گھومتی وہ گنگنا رہی تھی ۔
”عشقِ من نہ مرد و زندہ شد ، بگو عشق لا
یار ِ من مرد،
مر د و از من شد ، بگو عشق لا
صحرائے دل ام سیراب شد، آتشِ چشم ام یخ شد
ایتر کہ ”چاہ“ من ”لا “ شد، زندگی من تمام شد
بخدا تمام شد
عشق لا شد
عشق لا شد
اس کی آواز کا سوز اور دیوانہ پن ذاکرہ کو حیران کیے جا رہاتھا کہ ا سے گول گول گھومتی عائلہ میں عبد اللہ کی جھلک دکھی ۔ ا سے ایسا لگا کہ عائلہ کے ساتھ ساتھ عبداللہ بھی گول دائروں میں گھوم رہا تھا ۔ اس کے ہاتھوں میں عبداللہ کے ہاتھ تھے، پیروں کے ساتھ ساتھ عبداللہ کے پیر اور چہرے میں عبداللہ کا چہرہ۔
آج ا سے عائلہ میں آبگینے بھی دِ کھی تھی اور عائلہ ، آبگینے بے شک جتنے نام بدل لو ، کردار تو ایک ہی ہے۔ عشق کو لا بنانے والوں کا انجام ایک ہی ہے۔
عشق جب تک ہے ، عشق کرنے والے کے لیے درد ہے، مگر جیسے ہی عشق کی چاہ ختم ہو جاتی ہے، زندگی سے جڑی ہر خواہش ختم ہو جاتی ہے ۔ ایک بے حسی سی ہر سو چھاجاتی ہے، پھرکسی چیز سے فرق ہی نہیں پڑتا ۔ ایسے لوگ رہیں نہ رہیں بات ایک ہی ہے ۔خواہ عائلہ ہو یا آبگینے آج یاکل ہر کوئی اُنہیں بھلادے گا، نہ بھلا پائے گا، توا ن کے عشق کو ۔ ”عشق لا“کو ….
”بہت مبارک ہو آپ کو سکینہ بہن ۔ اللہ پاک مبارک کرے۔“
اپنی ہی سوچوں میں گم سکینہ صاحبہ جبراً مُسکراتے ہو ئے مقابل کا شکریہ ادا کرنے لگی ۔
کھوئی کھوئی سی سکینہ سید جانے کب سے اِ س الگ تھلگ سے صوفے پہ بیٹھی تھیں ۔ انہیں اردگرد کی خبر ہی کہاں تھی ۔ وہ تو اپنی ہی فکروں میں گم تھیں ۔
آج ا س ہولناک واقعے کو کافی دن گزر گئے تھے، مگر عائلہ کی طبیعت تھی کہ سنبھل ہی نہیں پا رہی تھی ۔ ا سے جیسے ہی ہوش آتا ، وہ چیخنے چلانے لگتی ۔ بخار تھا کہ کم ہونے کا نام نہ لے رہا تھا ۔
ڈاکٹر آتے نیند کے انجکشن لگا کہ چلے جاتے ۔
میر صاحب کئی دن متذبذب سے سوچوں میں گم رہے ۔ بالآخر اُن کا فیصلہ آگیا۔ وہ چاہتے تھے عائلہ بھی ”ستی“ بن کے اپنے کمرے میں مرتے دم تک قید ہو جائے ۔
معید جس نے کبھی بابا کی کسی بات ، کسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ آج پہلی دفعہ ان کے فیصلے کے خلاف بولا تھا اور بدلے میں عاق کیے جانے کی دھمکی نے ا سے چپ کرا دیا تھا ۔
ظہر کے بعد ، پر تکلف کھانے پر مدعو ، مہمانوں کے بیچ اعلان کیا گیا کہ عائلہ سید نے اپنی مرضی سے اللہ کی محبت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے ، ستی بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سب خواتین باری باری سکینہ صاحبہ کو مبارکباد دے رہی تھیں اور گم صم سکینہ صاحبہ کی نظروں کے سامنے آبگینے سید کاگلابی، معصوم چہرہ گھوم گیا۔ جس کو ستی بنانے میں سکینہ صاحبہ کا بھی اچھا خاصا ہاتھ تھا۔
آج جب یہی وقت اپنی بیٹی پہ آیا ، تو ان کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
سلیمہ صاحبہ اور علیزے نے تو رو رو کے برا حال کرلیا تھا۔ ان کے نظروں کے سامنے شاہ زین کا اُداس شکست خوردہ چہرہ جو گھوم رہا تھا ۔
شانزے اور ذاکرہ ، عائلہ کے پاس ہی کمرے میں موجود تھیں ۔ دواﺅں کے زیرِ اثر وہ بے ہوش پڑی تھی ۔ شانزے کی آنکھیں روتے رہنے کی وجہ سے سوج چکی تھیں ۔
مہمانوں کو بتایا گیا تھا کہ عائلہ کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے با قاعدہ رسم نہیں کی گئی ۔
مہمان رخصت ہونے لگے تو سکینہ صاحبہ کو اپنا دم مزید گھٹتا محسوس ہوا ۔ انہیں ایسا لگنے لگا کہ سالوں پہلے جو مشورہ انہوں نے میر صاحب کو آبگینے کے حوالے سے دیا تھا ۔ ا سی کی سزا آج ان کی پھولوں جیسی بیٹی کو مل رہی تھی ۔ وہ ایک کوشش کر کے یہ سب روکنا چاہتی تھیں ۔
تبھی وہ تیزی سے میر صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔ میر صاحب اپنے کمرے میں آرام سے ، کوئی کتاب کھولے بیٹھے تھے ۔ آج کتنے عرصےبعد ا ن کے چہرے پہ یہ سکون چمک رہا تھا ۔
”میر! میں نے کبھی آپ سے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگا۔ آج پہلی دفعہ میں آپ سے کچھ مانگ رہی ہوں ۔ مجھے انکار نہ کیجیے گا خدارا ۔مجھے میری عائلہ واپس کر دیں۔“
آنسوﺅں کے بیچ بہ مشکل اپنی بات مکمل کرتی سکینہ سید، کی طرف دیکھتے میر صاحب کے سکون میں کوئی کمی نہ آئی تھی ۔ وہ بدستور سکون سے اُنہیں دیکھتے ہوئے بولے:
”آپ یہ کیوں نہیں سمجھ لیتیں کہ ہماری عائلہ مر گئی ؟ میرے لیے تو عائلہ ا س دن ہی مر گئی تھی جس دن اس نے اس نامحرم کو خود کو چھونے دیا تھا ۔ یہ عائلہ کی کوئی پرچھائی ہے جو اِ س وقت اپنے کمرے میں قید ہونے جا رہی ہے ۔ آپ کی بیٹی تو ا س دن ہی چلی گئی تھی جس دن ا س نے سچا عشق کیا تھا۔ میں بھلا کیسے آپ کو آپ کی بیٹی لوٹا سکتا ہوں؟ جب کہ اب تو وہ خودہی ، خود میں باقی نہیں رہی۔“
اطمینان سے اپنی بات مکمل کر کے وہ کتاب کی طرف متوجہ ہو گئے ۔
رو تی سکینہ صاحبہ کے پاس اب وہاں ر کنے کا کوئی جواز نہ تھا ۔
وہ واپس صحن میں آ چکی تھیں جہاں مہمانوں کے جانے کے بعد نوکر صفائی کر رہے تھے ۔ آدھا چاند آسمان پہ چمک رہا تھا ۔ عائلہ کے چیخنے کی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی ۔ وہ بھاری اجنبی آواز میں چیخ رہی تھی ۔
”وہ عشق نہیں مر سکتا جو ”لا“ بن جائے۔ میرا عشق زندہ ہے زندہ رہے گا۔“
اس کی ہذیانی چیخیں ، چیخ چیخ کے بول رہی تھیں کہ اب عائلہ میں عائلہ کہیں نہیں۔
سکینہ صاحبہ نے آنسوﺅں کی دھند کے پار ادھورے چاند کو دیکھا ۔ چاند نے انہیں دلاسا دیتے سرگوشی کی :
”نصیب کا لکھا نہیں مٹتا اور اس کے نصیب میں عشق تھا بس !عشق صرف عشق ، بے تحاشا عشق، چاہ کی عشق ، لا کی عشق ، عشق ہی عشق …. بس عشق ہی عشق۔“
ان کے لبوں نے دھیرے سے سرگوشی کی تھی ”الوداع عائلے الوداع “ اور ممتا نے ہار کے اپنی بیٹی ”عشق لا“کو سونپ د ی۔
٭….٭….٭