”نہیں امی کوئی خبر نہیں آئی۔“
شرمندگی سے اپنی ماں کی آنکھوں میں امید کے بجھتے دیے دیکھ ماہا دوبارہ سے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
کمرے سے صحن تک کا فاصلہ بہ مشکل دس قدم تھا ۔ کمرے میں بچھی مسہری جس پہ بیٹھی وہ اپنے قریب سوئی ہوئی بارہ سالہ ثنا عرف چھوٹی کے چہرے پر پھیلے اطمینان کو رشک سے دیکھ رہی تھی ، امی کی آنسوﺅں میں تر دعا بہ آسانی سن سکتی تھی۔
”یا اللہ کرم کر دے ۔ اے مولا رحم کر دے ۔ وہ میرا واحد سہارا ہے یا اللہ اسے مجھ سے نہ چھین ۔ اس گھر کا سائباں اب وہ ہے ۔ سکندر کو کھو دیا ، یا اللہ مجھ سے میرا بیٹا نہ چھیننا ۔ اس کی کوئی تو خبر لا دے مولا۔ میں بہت لاچار ہوں ۔ دو یتیم بیٹیوں کا ساتھ ہے مولا ، اس سیلاب جیسے شہر میں ا سے کہاں ڈھونڈتی پھروں خدایا ۔ اس کی حفاظت کر۔ اسے دشمن کے شر سے محفوظ رکھ خدایا ۔ میں نے آج تک تیری کسی آزمائش پہ ا ف تک نہیں کی مشکل سے مشکل وقت ثابت قدمی سے گزارا ۔ دس سال کی بیوگی کاٹی ، ہر مشکل جھیلی صرف اپنے بڑھاپہ کے اس واحد سہارے کے آسرے مجھ سے میرا شہزادہ نہ چھیننا مولا ۔ اس کی خبر لا دے۔“
فجر کی اذان ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی ۔ اپنی دعا میں مگن ، پریشان حال صغریٰ کو اذان کا دھیان ہی کہاں رہا تھا ۔
اچانک ا س بو سیدہ ٹیلی فون کی گونج دار آواز پہ کمرے سے ننگے پیر نکل کے بھاگتی ماہا اور سجدے میں دعا مانگتی صغریٰ بیگم نے ایک ساتھ کہا تھا ”یا اللہ رحم۔“
ہیلو کہتی ماہا ، ہانپتے ہوئے مقابل کی بات سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک چیخ نما آواز میں بولی :
”ایکسیڈنٹ ؟“
اس کے پاس کھڑی ، پریشان حال ماں سہمی ۔ ”یا اللہ خیر۔“ ماہا کے تاثرات پڑھنے کی کوشش میں ان کے ہونٹوں سے نکلا تھا ۔
”اچھا کب تک گھر آسکیں گے وہ ؟ کیا ہم ان سے ایک دفعہ بات کر سکتے ہیں ؟“
ماہا کے استفسار پر، ماں نے ریسیور کان سے لگا کے مقابل کا جواب سننا چاہا مگر نا چار ۔ ماہا اگلے ہی پل ”وہ جیسے ہی جاگیں، ان سے کہیے گا کہ امی بہت پریشان ہیں ایک دفعہ گھر بات کر لیں۔“ کہتی فون رکھ چکی تھی۔
خدشوں میں ڈوبی اس کی امی اس کی طرف لپکی۔
”کون تھا ، اس کی ہی کوئی خبر تھی نا کیسا ہے وہ ؟ اور ایکسیڈنٹ ؟“
”جی امی اسپتال سے فون تھا ۔ بھائی کا معمولی ساایکسیڈنٹ ہوا ہے ۔ کچھ ہلکے پھلکے زخم آئے ہیں ۔ ابھی دوا کے زیر ِ اثر سو رہے ہیں ، جیسے ہی ا ٹھیں گے انہوں نے کہا وہ ہم سے ان کی بات کرائیں گے ۔ ا ن کا فون بند ہو گیا تھا ورنہ وہ ہمیں پہلے ہی بتا دیتے فون کر کے۔“
انہیں مطمئن کرنے کی کوشش میں ماہا زبردستی مُسکرائی بھی تھی ۔ ورنہ اس کے دل کا حال بھی امی سے جدا نہ تھا ۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے ، یا مولا تیرا کرم ہے ۔ میرے بیٹے کی خبر آگئی ۔ بے شک تو سننے والا ہے بے شک تو نے مجھ گناہگار کی سن لی ہے ۔ میں تیرا کیسے شکر ادا کروں میرے مولا۔“نم آنکھوں سے۔
پھر ماہا کو دیکھتے ہوئے بولیں:
”چلو جلدی ورنہ فجر قضا ہو جائے گی اور شکرانے کے نفل بھی تو ادا کرنے ہیں۔“
اگلے ہی پل دونوں ماں بیٹی ، باہر تخت پہ نماز فجر ادا کر رہی تھیں اور جو ماں ساری رات اس کی خیریت کی دعا کرتے نہ تھکی تھی ۔ دوپہر ہونے تک شکرانے کے نفل ادا کرنے کا ارادہ کر چکی تھی ۔
ایسی ہی ہوتی ہیں اکلوتے بیٹوں کی مائیں جس طرح بیٹیاں ، باپ کی چہیتی اور آنکھوں کا تارا ہوتی ہیں بالکل ویسے بیٹے ماﺅں کے لاڈلے اور کل کائنات ہوتے ہیں اور پھر جن ماﺅں کے بیٹے اکلوتے اور ان کے گھر کا واحد سائباں ہوتے ہیں ، ان کی تو جان ہوتی ہے بیٹوں میں ۔
عبداللہ بھی صغریٰ بیگم کی جان اوردونوں چھوٹی بہنوں کی کل کائنات تھا۔
٭….٭….٭