میر ابراہیم سید کا تعلق بلوچستان کے ایک نشیبی گاﺅں سے تھا ۔ یہ ان کا آبائی گاﺅں تھا ۔ ان کے آباءو اجداد نے چشت سے ہجرت کر کے بلوچستان کے اس چھوٹے سے گاﺅں میں اپنا پڑاﺅ ڈالا تھا۔ خواجہ ولی بابا مودودی چشتی کا مزار آج بھی ان کے گاﺅں کے بیچ و بیچ اپنی پوری شان و شوکت سے موجود تھا۔ خواجہ بابا ، خواجہ قطب الدین مودودی چشتی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے خواجہ مودودی چشتی کے اسلام کے فروغ کے لیے کی گئی کوششوں کی ، ان کے علم، فہم وفراست کے چرچے آج بھی تاریخ کے اوراق پہ رقم ہیں۔ وہ دو مشہور کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ”منہاج العارفین“ اور ”خلاست الشریعہ“ خواجہ ولیوں کے حلقے میں بلند مقام رکھتے تھے۔ وہ عاشق ِ رسولﷺ اور اسلام کے سچے طالب ِ علم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ مودودی چشتی جب حضرت خواجہ ناصر ابو یوسف بن سمان چشتی کے مرید بنے تو ان کے مرشد نے ا ن سے کہا تھا:
”اے قطب ا لدین مودودی فقر کو اپنا لو۔“
کہا جاتا ہے کہ اپنے مرشد کا اشارہ سمجھتے ہوئے انہوں نے فقر کو ایسے اپنایا کہ خدا کی محبت سے مالا مال ہوگئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوںنے 20سال دنیاوی زندگی سے دور ایک بیابان میں ذکر الٰہی کرتے گزار دیے ۔ مشہور مورّخوں کی کئی تحریروں میں شواہد موجود ہیں کہ خواجہ نے ان 20 سالوں میں دو قرآن پاک دن میں اور دو قرآن پاک رات میں مکمل کیے ہیں۔ تاریخ یہ بھی لکھتی ہے کہ خواجہ کی زبان پہ کلمہ طیبہ کے ورد کے علاوہ صرف قرآن پاک کی تلاوت ہی رہی۔ کھانا پینا براہِ نام تھا۔ انہوں نے 7 سال کی عمر میں ہی قرآن پاک اپنے والد صاحب کی راہنمائی سے حفظ کر لیا تھا ۔ یہ ان کی اسلام سے محبت ہی تھی جو اللہ پاک نے انہیں وہ عروج بخشا کہ مولانا زکریا نے انہیں ”کشِ قلو ب“ اور ”کشف ِ قبو ر“ کہا۔ کہتے ہیں کہ خواجہ مودودی چشت سے ”بلخ “ بھی گئے تھے جو مولانا رومی کی جائے پیدائش ہے ۔ وہاں بھی انہوں نے کئی صوفی علم کے طالبوں کو اپنے علم سے مستفید کیا ۔ پھر بخارا بھی گئے جسے ا س وقت اولیائے کرام کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل تھی۔
کہتے ہیں کہ جب خواجہ مودودی صاحب وفات پا گئے تو ان کا جسد ِ خاکی ا ڑ کے اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچا تھا اور یہ واقعہ سناتے ہوئے خواجہ فریدالدین شکر گنج بخش چکرا کے گر پڑے تھے ۔ خواجہ کا مزارآج بھی چشت ، ہیرات افغانستان میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔
خواجہ ولی بابا ان ہی کی اولاد میں سے تھے۔ جنہیں خواب میں اشارہ ملنے کی وجہ سے ہیرات سے ہجرت کر کے بلوچستان آنا پڑا۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی فارسی زبان اور ثقافت بھی ہجرت کرکے آگئی تھی۔
خواجہ ولی مودودی چشتی کے آنے سے پہلے کلی کرانی کا نام کلی گرانی تھا۔ ”گرانی“ بلوچستان کی کئی زبانوں میں بھاری پن کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔ بھاری پن سے مرادوہ کلی آسیب زدہ تھی ۔ جہاں خواجہ ولی بابا نے قیام کیا اور بعد میں ا ن کی اولاد نے ا ن کی دن رات عبادات نے ا س جگہ کو پاک کر لیا۔ آج تقریباً خواجہ ولی بابا مودودی چشتی کو وفات پائے چھے صدیاں گزر چکی ہیں پر آج بھی بلوچستان کے نقشے پہ کلی سادات کرانی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور ان کی فارسی اور ثقافت کو ان کی اولاد زندہ رکھے ہوئے ہے۔
سب سے پہلے ا ن کا مزار مٹی سے بنایا گیا تھا، جس کے اطراف میں 1970ءمیں سادات ِ کرانی نے اینٹوں کی دیوار بنا کے احاطہ کر دیا تھا پھر 1973ءمیں ا س وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خود نوٹس لیتے ہوئے ایک عالی شان مزار تعمیر کروانے کا حکم دیا جس میں پھر وقتاً فوقتاً سادات خود مزید تبدیلیاں کرواتے رہے ۔
2008ءمیں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش ِ نظر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے خواجہ بابا کے مزار کے اطراف میں پھیلے سادات کے 600 سال قدیمقبرستان کی حفاظت کے لیے مضبوط احاطہ بنوانے کا اعلان کیا۔
رئیسانی قبیلہ بھی دیگر کئی قبیلوں کی طرح خواجہ ولی بابا کے مرید ہونے پہ فخر محسوس کرتا تھا۔
خواجہ بابا کے مزار میں بہت سی تبدیلیاں ہوتی رہیں، مگر آج اگر مغربی بائی پاس سے گزرتے ہوئے ایک بہت ہی خوبصورت مزار دن میں سنہری گنبد کے ساتھ اور رات میں بے پناہ ننھے منے برقی قمقموں کے بیچ چمکتا دکھائی دے، تو یہ ہی خواجہ ولی بابا مودودی چشتی کا مزار ہے اور یہ ہی کلی سادات کرانی ہے۔
کلی کرانی کوئٹہ شہر کے حدود سے کچھ ہی فاصلے پہ تھا جو بعد میں شہر کے رقبے میں اضافے کے ساتھ ساتھ کوئٹہ شہر سے قریب ہوتا گیا۔اب یہ فاصلہ کم ہو کے 6کلو میٹر ہی رہ گیا تھا۔
اُن کے گاﺅں کی مشہوری کی دوسری اہم وجہ وہاں کے باغات ہیں۔ انگور،سیب،چیری،انار ، آلو بخارے، زنتوزہ (پلم)، خوبانی ، بادام ، شہتوت ، پستے اور اخروٹ کے خوبصورت باغات جن کا پھل کھا کھا کے ا ن کی نسلیں بڑی ہوئی تھیں ۔ شہر سے دور یہ چھوٹا سا گاﺅں نہایت پر سکون تھا ۔
معززین میں سادات کو کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، لیکن جہاں اتنی عزت مقام اور شہرت ہو وہاں دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی بن جاتے ہیں بلا وجہ یونہی ۔
یہی دھڑکا میر صاحب کو بھی لگا رہتا تھا۔ تب ہی وہ دونوں بچوں کی حفاظت کے لیے بہت فکرمند رہتے تھے۔ وہ اسکول جاتے، سد حفاظتی انتظامات کے باوجود میر صاحب اور ا ن کی سادہ سی بیگم سکینہ سید صاحبہ نہایت فکر مند رہتی اور آخر ایک دن وہ ہوگیا جس کا انہیں ڈر تھا۔ ان کے بچوں کی گاڑی پہ اسکول سے واپسی پر فائرنگ کی گئی۔ ارادہ اغوا کا تھا بچے محفوظ رہے، لیکن گارڈز زخمی ہوئے ۔ 14سالہ عائلہ اور 16سالہ معید گھر آئے تو میر صاحب اور ان کی بیگم کی جان میں جان آئی تھی۔
اپنے بچوں کے ستے ہوئے چہرے دیکھتے ہی میر صاحب نے دل ہی دل میں گاﺅں چھوڑنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا اور آخر اس پہ عمل در آمد کر کے ہی دم لیا ۔ یوں اولاد کی محبت جیت گئی اور 7سال پہلے میر ابراہیم سید ، اپنی بیوی اور دونوں بچوں سمیت کراچی شفٹ ہوگئے۔
”اماں۔“
عائلہ نے سرگوشی میں کہااور ا ن سے لپٹ گئی ۔
”میری بیٹی ، میری گودی۔“ کہہ کے اس کی ماں نے ماتھا چوما۔ پھر دو پل عائلہ کو دیکھا، دوبارہ سے خود سے لگا لیا ۔ ان کی اتنی محبت پہ عائلہ کے آنکھوں کے کونے بھیگ گئے۔ اس نے اپنے گال پہ رکھے ماں کے ہاتھ کو نرمی سے ہاتھوں میں لے کے ا س کی پشت کو چوما۔ یہ بلوچستان کا رواج تھا ، اپنے بڑوں کو عزت دینے کا طریقہ تھا۔